سوارِدوشِ رسول ،شہید کربلاٖحضرت حسین رضی اﷲ عنہ ؓکی سیرت کاایک ورق
(M Jehan Yaqoob, Karachi)
حضرت سیدناحسین رضی اﷲ عنہ رضی
اﷲ تعالی عنہ شکم مادر ہی میں تھے کہ حضرت حارث کی صاحبزادی نے ایک خواب
دیکھا کہ کسی نے رسول اﷲ ﷺ کے جسد اطہر کا ایک ٹکڑا کاٹ کر ان کی گودمیں
رکھ دیا۔ انہوں نے آنحضرت ﷺسے عرض کیا :یا رسول اﷲ ﷺ !میں نے ایک عجیب و
غریب خواب دیکھا ہے جو ناقابل بیان ہے،آپ ﷺ نے فرمایا بیان کرو ،آخر کیا
خواب ہے؟انھوں نے خواب بیان کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا :یہ تو نہایت مبارک خواب
ہے۔ فاطمہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا اور تم اسے گود میں لوگی۔کچھ دنوں کے بعد
اس خواب کی تعبیر ملی۔ (مستدرک حاکم )
نواسۂ رسول ﷺ ،جگر گوشہ بتولؓ حضرت سیدنا حسین ابن علی رضی اﷲ عنھما5شعبان
4ھ کومدینہ طیبہ میں پیدا ہوئے۔ولادت کے بعد رسول اﷲ ﷺ تشریف لائے اور نو
مولود بچے کو منگاکر اس کے کانوں میں اذان دی،منہ میں لعابِ مقدس ڈالا اور
برکت کی دعا فرمائی، پھرحضرت فاطمہ رضی اﷲ عنھا کو عقیقہ کرنے اور بچے کے
بالوں کے وزن کے برابر چاندی خیرات کرنے کا حکم دیا۔ ساتویں دن عقیقہ کیا
گیا۔(مشکوٰہ شریف )
والدین نے حرب نام رکھا تھا، آپ صلی اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو یہ نام
پسند نہ آیا آپ نے بدل کر حسین ؓ رکھا کیوں کہ آپ حسن و جمال میں بھی
باکمال تھے۔ (مستدرک حاکم، اسدالغابہ)
حدیث شریف میں ہے رسول اقدس ﷺ نے فرمایا :حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے
بیٹوں کے نام شبر اور شبیر رکھے اور میں نے اپنے بیٹوں کا نام انہی کے نام
پر حسن وحسینؓ رکھا ہے، اسی لیے حسنین کریمین کو شبر وشبیر کے نام سے بھی
یاد کیا جاتا ہے ۔یادرہے کہ سریانی زبان میں شبر وشبیر اور عربی زبان میں
حسن وحسین دونوں کے ایک معنی ہیں ۔ایک حدیث میں آیا ہے:حسن اور حسین جنتی
ناموں میں سے دو نام ہیں۔
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے بچپن کے حالات میں صرف ان کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے
پیارومحبت کے واقعات ملتے ہیں ،حضور ﷺ تقریباًروزانہ دونوں نواسوں کودیکھنے
کے لیے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنھا کے گھر تشریف لے جاتے۔۔حضرت سیدنا حسن اور
سیدنا حسین رضی اﷲ عنھماشکل وصورت میں آنحضرت ﷺاوراپنے والدبزرگ وارحضرت
سیدناعلی کرم اﷲ وجہہ کے مشابہ تھے ۔حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی عمر صرف سات
برس تھی کہ ناناکاسایہ شفقت سر سے اٹھ گیا۔
آپ ؓ کی ذات گرامی قریش کاخلاصہ اوربنی ہاشم کاعطر تھی۔اہلسنت کے خلاف ایک
عام پروپیگنڈایہ کیاجاتا ہے کہ وہ اہل بیت کو نہیں مانتے، جبکہ حقیقت یہ ہے
کہ ہماری ایک آنکھ صحابہؓ ہیں اور تو دوسری آنکھ اہل بیت عظامؓ ہیں،یہ
ہستیاں ہماری پیشوا ، راہ نمااور مقتدا ہیں او رہمارا عقیدہ ہے کہ اہل بیت
رسول ﷺ کی محبت کے بغیر ایمان کی تکمیل ہی نہیں ہوسکتی،جس طرح دوسرے صحابہ
کرام رضی اﷲ عمھم کی محبت کے بغیرایمان کامل نہیں ہوسکتا۔
حضرت سیدناحسین رضی اﷲ عنہ نے مختلف اوقات میں متعددشادیاں کیں،آپ کی ازواج
میں لیلیٰ حباب، حرار ،غزالہ شامل تھیں، ان میں سے متعدد اولادیں ہوئیں جن
میں علی اکبر،عبداﷲ اور ایک چھوٹے صاحبزادے واقعہ کربلامیں شہید ہوئے،
سیدنا زین العابدین باقی تھے انہی سے نسل چلی۔صاحبزادیوں میں سکینہ،فاطمہ
اور زینب تھیں۔
ذیل میں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چندفضائل درج کیے جاتے ہیں،جومستندکتابوں
سے ثابت ہیں:
٭……رسول اﷲ ﷺنے فرمایا: حسن اور حسین (رضی اﷲ عنھما)نوجوانان جنت کے سردار
ہیں۔
٭……رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : حسین رضی اﷲ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسینؓسے ہوں۔
جو حسین ؓسے محبت رکھے اﷲ اس سے محبت رکھے۔
٭……آپ ﷺ نے فرمایا اے اﷲ! میں حسینؓسے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت
فرما۔
٭……آپ ﷺ نے فرمایا: میرا یہ بیٹا (حضرت حسین رضی اﷲ عنہ )ارض عراق میں قتل
ہوگا۔ تم میں سے جو موجود ہو اسے چاہیے کہ اس کی مدد کرے۔
٭……آپ ﷺنے فرمایا جس کو یہ بات اچھی لگے کہ وہ جنتی شخص کو دیکھے اسے چاہیے
کہ (حضرت )حسین بن علی( رضی اﷲ عنھما ) کو دیکھ لے۔
٭……آپ ﷺنے فرمایا جس نے ان دونوں (حضرات حسنین رضی اﷲ عنہما)سے محبت کی اس
نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔
٭……آپ ﷺ نے ایک موقع پردعاکرتے ہوئے فرمایا :اے اﷲ! میں ان دونوں(حضرات
حسنین رضی اﷲ عنہما)سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور جو ان سے
محبت کرتے ہیں ان کو بھی تو اپنا محبوب بنالے۔
حضرت سیدناحسین رضی اﷲ عنہ کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی شہادت کی بھی شہرتِ
عام ہو گئی تھی،چناں چہ حضرت علی ، حضرت فاطمہ زہرا اور دیگر صحابہ ِ کبار
و اہلِ بیت رضی اﷲ تعالیٰ عمھم وعنھنّ ،سبھی لوگ،ان احادیث کریمہ کی وجہ سے
جو آپ کی شہادت کے بارے میں وارد ہیں، آپ کے زما نہ شیر خوارگی ہی سے یہ
بات جانتے تھے کہ آپ ؓ سرزمینِ کرب وبلامیں شہیدکیے جائیں گے ،ذیل میں ان
میں سے چندروایات کونقل کیاجاتاہے:
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے رسول اﷲ ﷺ کی خدمت
میں حاضری دینے کے لیے اﷲ سے اجازت طلب کی، جب وہ فرشتہ اجازت ملنے پر
بارگاہِ نبوت ؐ میں حاضر ہوا تو اس وقت حضرت حسین رضی اﷲ عنہ آئے اور حضور
ﷺ کی گود میں بیٹھ گئے ،آپ ﷺ ان کو چومنے اور پیار کرنے لگے۔ فرشتے نے عرض
کیا :یا رسول اﷲ ﷺ !کیا آپ حسین ؓسے پیار کرتے ہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا:جی
ہاں! اس نے کہا: آپ کی امت حسینؓ کو قتل کر دے گی، اگر آپ چاہیں تو میں ان
کی قتل گاہ کی (مٹی)آپ کو دکھا دوں۔ پھر وہ فرشتہ سرخ مٹی لایا ،جسے ام
المومنین ام سلمہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے کپڑے میں لے لیا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اے ام سلمہ !جب یہ مٹی خون بن جائے
تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا۔حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا
فرماتی ہیں کہ میں نے اس مٹی کو ایک شیشی میں بند کر کے رکھ لیا، جو حضرت
حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے دن خون ہو جائے گی۔ (الصواعق المحرقہ)
ابن سعدحضرت شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ جنگِ صفین کے
موقع پر کربلا سے گزر رہے تھے کہ اچانک ٹھہر گئے اور اس زمین کا نام پوچھا،
لوگوں نے کہا اس زمین کا نام کربلا ہے۔آپ ؓ نے فرمایا : میں حضور ﷺ کی خدمت
میں ایک روز حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ ﷺ رو رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا: یا
رسول اﷲ ﷺ! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا :ابھی میرے پاس جبرئیلِ امین علیہ
السلام آئے تھے ا نہوں نے مجھے خبر دی: میرا بیٹا حسین ؓ دریائے فرات کے
کنارے اس جگہ شہید کیا جائے گا جس کو کربلا کہتے ہیں۔ (مشکوۃ ، خصائص
کبریٰ)
آپ ؓنے 10محرم الحرام 61 ھ مطابق ستمبر680 میں شہادت پائی۔وہ یومِ عاشورہ
جمعہ کا دن تھا ماہِ محرم الحرام 61 ھ میں یہ واقعہ پیش آیااس قت سیدناحسین
کی عمر 55 سال کے قریب تھی۔واقعہ کربلا دغابازی، بے وفائی اور غداری کی
عبرت انگیز داستان بھی ہے، اہل کوفہ نے سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ بن علی رضی
اﷲ عنہما کو خطوط لکھ لکھ کر کوفہ بلایا تھا پھر مصیبت میں آپ کا ساتھ چھوڑ
دیا تھا ،حضرت مسلم ا ور ان کے دو صاحبزادوں کے خون سے اپنا ناپاک ہاتھ
رنگنا غداری بے وفائی کی بہت ہی المناک گھنانی تاریخ ہے ،جس کے حرف حرف سے
مکرو فریب کی بدبو پھیلتی ہے ۔ تعزیہ داری، ماتم اور مرثیہ خوانی نے غم
حسین رضی اﷲ عنہ کو ایسا رنگ دیدیا ہے کہ محرم الحرام کا یہ واقعہ کرب
والم، ایک جشن بنادیا گیا ہے من گھڑت واقعات کو اشعار میں بیان کرکے مرثیہ
خوانی سے خانوادۂ رسالت اور اہل بیت کی نعوذ باﷲ تحقیر ہوتی ہے۔ کاشانہ
نبوت اور حرم حسین رضی اﷲ عنہ کی پاکیزہ صفات پاک دامن عفت مآب خواتین کو
سینہ کوبی اور آہ وبکا کرتے ہوئے دکھایاجاتا ہے نوحہ کرتے روتے بلکتے چاک
گریباں کرتے اور بالوں کو نوچتے چلاتے دکھایا جاتا ہے ۔ہندوستان میں چھٹی
صدی ہجری تک گریہ ماتم کا کہیں وجود نہیں ملتا۔(تاریخ ابن کثیر)
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے ساتھ 72آدمی شہید ہوئے ان میں سے بیس خاندانِ بنی
ہاشم کے چشم و چراغ تھے۔جن کے نام درج ذیل ہیں:
حسین بن علی،محمدبن علی،ابوبکربن علی،علی بن حسین رضی اﷲ عنہ بن علی(علی
اکبر)عبداﷲ بن حسین رضی اﷲ عنہ ،ابوبکر حسین رضی اﷲ عنہ ،عبداﷲ بن حسن
،قاسم بن حسن،عون بن عبداﷲ بن جعفرطیار،محمدبن عبداﷲ بن جعفر،جعفربن عقیل
بن ابی طالب،عبدالرحمان بن عقیل،عبداﷲ بن عقیل ،مسلم بن عقیل،عبداﷲ بن مسلم
عقیل،محمدبن ابوسعیدبن عقیل رحمہم اﷲ تعالی۔اہلبیت نبوی میں زین العابدین
،حسن بن حسین رضی اﷲ عنہ ،عمروبن حسن اورکچھ شیر خوار بچے باقی رِہ گئے
تھے،زین العابدین بیماری کی وجہ سے چھوڑدیے گئے اور بچے شیر خواری کی وجہ
سے بچ گئے۔
اﷲ تعالی شہدائے کربلاکی قربانیوں کے طفیل ہمیں ان کے نقش قدم پرچلنے کی
توفیق عطافرمائے۔آمین۔ |
|