اسلام ، ریاست اور مذہب

بھارت میں حالیہ تشدد کے واقعات کے تناطر میں ریاست میں مذہب کے کردار اور اسلامی تعلیمات کا جائزہ

پاکستان جس دن دنیا کے تقشہ پر ابھرا وہ دن اور آج کا دن شک و شبہات اور ابہام کا ایسا گرد و غبار اڑایا گیا جس میں نہایت صاف اور سامنے کی باتیں تہہ در تہہ گرد میں پوشیدہ ہوکر انتہائی متنازع ہوگئیں۔ یہ رویہ خصوصا ہر اس معاملہ کے ساتھ برتا گیا جس کا مذ ہب کے ساتھ ذرا سا بھی تعلق تھا۔ ملک میں اسلامی نظام حکومت کا قیام ہو یا سود کے خاتمہ کی کوششیں، نظام تعلیم کا اسلامی ڈھانچہ ہو یا اسلامی قوانین کے نفاذ کا مسئلہ ، ہر جگہ شک وشبہات پیدا کئے گئے۔ یہاں تک کہ بانی پاکستان کی اسلامی سوچ کوبھی نہیں بخشا گیا ۔ایک مخصوص طبقہ اسی کام میں لگا ہوا ہے اور کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ بعض دیندار لوگ بھی اس جال میں دانستہ یا نا دانستہ طور پر پھنسے ہوئے ہیں۔

ان امور میں ریاست کے مذہبی یا سیکولر ہونے کی بحث وقتا فوقتا چھڑ جاتی ہے یا چھیڑ دی جاتی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف حالیہ تشدد کے واقعات کے تناظر میں بعض احباب وہی سیکولر ریاست کی ضرورت اور افادیت کا ڈھول گلے میں ڈال کر دیوانہ وار پیٹتے نیز ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کو رگیدتے چلے جا رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جس طرح بھارت میں ریاست ایک خاص مذہبی طبقہ کے ہاتھ میں چلی گئی اسی طرح اگر پاکستان یا کسی بھی اسلامی ملک میں مذہبی جماعت برسراقتدار آگئی تو اسی طرح اقلیتوں کو آگ میں جھونکا جائے گا جس طرح بھارت میں آج مسلمان مذہبی اور جنونی ہندووں کے ہاتھوں آگ کی بھٹی سے گزر رہے ہیں۔

ریاست اور مذہب کو ایک دوسرے سے الگ دیکھنے والے درحقیقت ایک خاص سوچ کے اسیر ہیں۔ دراصل یہ سوچ مغرب سے درآمد کی گئی ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی کے بعد عیسائی مذہب پوپ صاحبا ن کی خواہشات پر مبنی مذہب بن گیا ۔اِس پر مستزاد یہ کہ مذہب میں کسی قسم کی تفصیل اور تفسیر کے حقوق بھی انہوں نے اپنے پاس محفوظ رکھے۔کسی کو اس میں کسی قسم کی چوں چراں کی اجازت نہیں تھی نیز ریاستی اُمور بھی اُن کے اشارہ آبرو پر ترتیب پاتے تھے ۔اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے انہوں نے ہر نئی چیز کی مخالفت کی اور نامور سائنسدانوں کو بدترین اذیتیں دی۔جان ہس اور جیروم کو زندہ جلا دیا گیا۔گلیلیو پر مصائب کے پہاڑ ڈھائے گئے۔ جب یہ مذہب انسانوں کی ناقص آراء اور محدود سوچ کے گرد گھومنے لگاتو ظاہر ہے اِس میں ایک آسمانی مذہب کی طرح ہر زمانے کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رہی۔ جدید سائنسی ایجادات اور خواہشات کی اساس پر تعمیر یہ مذہب متصادم ہونے لگے۔ جلد یابدیر اُس کو جدید تحقیقات کی روشنی کے سامنے ڈھیر ہونا تھا۔صدیاں گذر گئی مگر یہ صورتِ حا ل برقرار رہی آخر مارٹن لوتھرنے پاپائیت کے اِس راج کو ختم کردیا مگر بدقسمتی سے انہوں دیگر مذاہبِ عالم کا جائزہ لیے بغیر یہ نعرہ لگایا کہ مذہب اور سیاست کے سنجوگ سے فساد پھوٹتا ہے۔مذہب انسان کا ذاتی مسئلہ ہے اِس کو سیاست میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔مارٹن لوتھر کا یہ نعرہ چار دانگ عالم میں پھیل گیااور زندگی کا ہر شعبہ متاثر کیا ۔ہمارے ہاں کے اندھی تقلید کرنے والوں نے خود کو مارٹن لوتھر اور اسلام کو عیسائیت تصوّر کرکے یہ نعرہ بلند کیا۔ انہوں نے اس باب میں اسلامی تعلیمات پر ایک نظر ڈالنا مناسب نہیں سمجھا۔در حقیقت اسی پس منظر کی وجہ سے یہ لوگ کہتے ہیں کہ سیاست کے خیمے میں مذہب کا اونٹ داخل ہوجائے تو انسانیت منہ لپیٹ کر باہر نکل آتی ہے۔

جب یہ سوچ عام ہوگئی تو ترقی کرتے کرتے یہ بات بھی ذہنوں میں آئی کہ اقلیتوں کا تحفظ سیکولر ریاست کے دم قدم سے ہے ۔ اگر عیسائیوں کی حکومت آئی تو یہودیوں اور مسلمانوں سمیت تمام اقلیت کو زندہ جلادیا جائے گا ۔اگر ہندو برسر اقتدار آئے تو بھی اقلیتوں کا جینا محال ہوگا اور اس پر اسلام سمیت دیگر تمام مذاہب کو قیاس کرلیا گیا۔ اسی سوچ کے حاملین بھارت کے حالیہ واقعات کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کو اپنے موقف پر ناقابل تردید ثبوت سمجھ کر پھولے نہیں سماتے۔

دراصل یہ غلط فہمی ایک طرح کا چشمہ پہننے سے پیدا ہوئی ہے۔ ان حضرات نے اسلام اور دیگر مذاہب کو ایک نظر سے دیکھنے کی غلطی کی ہے ۔ عیسائیت تو چند مخصوص داستانوں کا نام رہ گئی ہے اور ہندومت کی حالت یہ ہے کہ وہاں دوسرے مذاہب کے لوگ تو درکنار خود اپنے مذہب کے شودر اور دلتوں کو نہ صرف یہ کہ کتا قرار دیا جاتا ہے بلکہ زندہ بھی جلا دیا جاتا ہے اور گائے کو ذبح کرنے والوں کے قتل کو گناہ بھی نہیں سمجھتے۔ باقی مذاہب کی حالت اسی سے بھی گئی گذری ہے۔ اس کے برعکس اسلام نے پرامن اقلیتوں کے جو حقوق بیان کئے ہیں اور اپنےعروج کر دور میں اقلیتوں کو جو تحفظ فراہم کیا ہے اس کی مثال پوری دنیا کی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے ۔

لطف کی بات یہ ہےکہ آج مغربی دنیا اقلیتوں کے جو حقوق مسترد کر دیتی ہیں پاکستاں اس کو ساٹھ سال قبل تسلیم کر چکا ہے اور یہ علماء کے مشورے سے طے کیا گیا تھا جن پر انتہا پسندی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ معروف عالم دین مولانا زاہد الراشدی صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے دورہ لندن کے موقع پر عیسائی پوپ صاحبان سے ملاقات ہوئی ۔ اس ملاقات میں انہوں نے کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام اقلیتوں کو ان کے نجی مسائل ان کے اپنے اپنے مذاہب کے مطابق حل کرنے کی اجازت دیں۔ مگران کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا ۔ جبکہ پاکستاں میں آزادی کے وقت غیر مسلموں کے لئے یہ حق تسلیم کیا گیا تھا۔

اتنی کھلی حقیقت کے باوجود اسلام کو دیگر مذاہب کی طرح فرسودہ خیال کرنا اور اقلیتوں کے لئے غیر محفوظ سمجھنا سراسر نا انصافی ہے۔ نیز یہ کہنا کہ پاکستان میں بھی ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہئے اسلام اور حقائق سے نا واقفیت کی دلیل ہے۔

ایک سوال مگر ذہن میں مسلسل کھٹک رہا ہے کہ آخر اسلام کی آفاقی اور ہر لحظہ تازہ تعلیمات کو دیگر مذاہب کی طرح محدود اور فرسودہ کیسے باور کرایا گیا؟؟ جواب یہی ہے کہ معترضین اسلام کے بجائے مسلمانوں کے اعمال کی آڑ لیتے ہیں اور بدقسمتی ہم مسلمان اپنے گھناونے اعمال کی بدولت ان کو یہ موقع نہایت آسانی سے فراہم کرتے ہیں۔ نیز ہم نے اسلام کے آفاقی تعلیمات کو دنیا کے سامنے صحیح طور پیش نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہرزہ رسائی کرنے والوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوتے ہیں اور اسلام کا اصل چہرہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ کاش ہم مسلمان خود اسلام کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتے۔

فرہادعلی دیروی
About the Author: فرہادعلی دیروی Read More Articles by فرہادعلی دیروی: 4 Articles with 10448 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.