سیرت النبی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم
(Mariyam Jahangir, Islamabad)
گہری تاریکی نے فرش تا عرش سب کو
لپیٹ میں لے رکھا تھا کہ یکا یک عرش پہ لکھا ایک نام روشنی کے میناروں کی
بنیاد رکھنے تن کر کھڑا ہوا۔ پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اندھیرا اپنی
موت آپ مر گیا۔ تمام تر سیاہی خود کشی پر مجبور ہوگئی۔ سوائے اس کے ، جس نے
کسی نہ کسی انسان کے وجود میں پناہ لے رکھی تھی۔ وہ سیاہی جس کا جنم شیطان
کے تکبر سے ہوا تھا اور انجام جنت کے دروازوں کے مقفل ہو جانے پر ہوگا۔
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے
قصہ ہے اس ابن آدم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم
کا جس کے ہونے کے باعث حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا گیا۔ ان کی پسلی
سے اماں حوا نکلی اور پھر انسانوں کی آبادی کے لئے دنیا فقط کن سے وجود میں
آئی۔ حضرت محمد مصطفی و مجتبی صلی اﷲ علیہ وسلم کہ جنہیں رحمت اللعالمین
کہا گیا، جن کا حرف حرف فرمان ٹہرا۔ جن کے نور نے ظلمتوں کے اندھیروں میں
ضیاء پاشی کی۔ جو بتوں کے مسکن میں توحید کا علم بلند کرنے والا بنا، رہتی
دنیا تک جس کو رہبری کے لئے چن لیا گیا۔
وما ارسلنک الا رحمتہ اللعالمین
حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم جو اتنے نیک بخت کہ دائی حلیمہ کے نصیب
جاگ اٹھے، ایسے مضبوط کہ یکے بعد دیگرے قریبی سرپرستوں سے محروم ہوتے گئے
تاکہ کسی ایک کی پرورش کا لیبل نہ لگ سکے، ایسے عقل کو تحیر میں مبتلا کرنے
والے سر چچمہِ علم کہ امی تھے مگر شعبہ معلمی سنت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔
تاریخ کے اوراق سے بہت سے واقعات میرے نبی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی تعریف
بیان کرنے کو بیقرار ہیں. ایک جوان جو روز کوڑے کا گرنا اپنے اوپر سہہ جاتا
ہے اور معمول میں تبدیلی پر اس بڑھیا کے گھر اس کی تیمار داری کرتا نظر آتا
ہے۔ وعدے کا پاسدار ہے تو کہیں تین دن تک ایک ہی جگہ ایک ہی شخص کے انتظار
میں کھڑا ہے اور کبھی اپنے قتل کا منصوبہ بنانے والوں کی امانتوں کی فکر
کرتا نظر آتا ہے۔ تاجر کی صورت میں ایسا ہیرا کہ بی بی خدیجہ رضی اﷲ عنہا
کی نظرِ انتخاب جا ٹہرتی ہے۔ سفر پر جاتا ہے تو بادل سایہ دیتا ہے اور خود
ان صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے وجود پاک کاسایہ نہیں بنتا۔ چچا کے پاس لوگ
شکایت لے آتے ہیں لیکن ہدایت کی روشنی نے وجود صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کو
ایسا پختہ کر رکھا ہے کہ بقول حضور صلی اﷲ علیہ وسلم، اگر چاند اور سورج
بھی ہتھیلیوں پر رکھ دئیے جائیں تو وہ تبلیغ سے باز نہ آئیں۔ مکہ کے میلوں
میں، بازاروں میں ان کی کوئی برائی بیان نہ کی جا سکتی تھی۔ کیونکہ نبی صلی
اﷲ علیہ وسلم سچے تھے۔ انہیں جھوٹا کون کہتا؟ یہ تو وہ تب بھی نہیں کہہ
سکتے تھے جب وہ پہاڑی پر چڑھ کر پہلی دفعہ مبلغ اسلام ہونے کا فریضہ نبھا
رہے تھے۔ صادق بھی ایسے عظیم کہ انہیں غائن بھی نہ کہا جا سکتا تھا۔ لہذا
جھٹلانے کے لئے فقط ذات کی نفی کی گئی۔ سب سے آسان کام کہہ دیا کہ ’’دیوانہ
ہے‘‘۔ اثر سے محفوظ نہ رہ سکے تو ’’ساحر‘‘ بھی مشہور کر دیا۔
وجود سرور کون و مکاں ہے
زمینوں آسمانوں میں ضیاء ہے
بدبو اور تعفن نے جینا دشوار کر رکھا تھا۔ دنیا کانٹوں کی آماجگاہ تھی۔ جس
سے ہر طور گزرنا لازم تھا۔ غلاظت سے تن من لتھڑا ہوا تھا اور گندگی کے
بھبھکے وجود سے اٹھ رہے تھے۔ یکا یک ایک سفید گلاب کھلا جس کی پنکھڑیوں کی
نرماہٹ نے غلاظتوں کی ندامت تک مٹا دی۔ جس کی خوشبو نے ساری بدبو کو اپنے
دامن میں سمیٹ لیا۔ اور خوشگوار بادِ صبا کے جھولوں میں زندگی محو رقص
ہوگئی۔
ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دئیے ہیں۔
قصہ ہے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا، اپنے گھر سے دشمناں دین کے سر پر خاک
ڈالتے نکلے اور غار ثور میں جا ٹھہرے کہ جہاں کبوتر کا انڈے دے دینا اور
مکڑی کا جالا بن دینا عقل سے ماورا ہے۔ یثرب کی تاریخ کے صفحے پلٹیں تو
دیکھیں ں وہ یثرب جو پیارے نبی کے قدم رنجہ فرمانے کی وجہ سے مدینہ بنا۔
سراقہ کے گھوڑے کے پاؤں ریت میں یوں پھنسے کہ انعام کی لالچ دماغ سے محو ہو
گئی مسجدِ قبا کی تعمیر ہوئی۔جب سرکارِ دوعالم پہنچتے ہیں تو دف بجاتی
بچیاں پکار رہی ہیں
آئے سرکار مدینہ، لائے انوار مدینہ
ہے قدم بوسے رسالت گل و گلزار مدینہ
پھر اونٹنی کے بیٹھنے پررحمت دو جہاں صلی اﷲ علیہ وسلم کا مہماں بن جانا،
مسجد نبوی کی تعمیر اور مہاجرین و انصار کو بھائی بھائی بنا دینا۔ کس کس
بات کا تذکرہ کیا جائے۔ گل کی رعنائی اور حسن کے قصیدے کتنے لفظوں میں لکھی
جائے اور کیا حسین تشبیہہ چھوڑ دی جائے؟۔
صاحبِ لولاک تو قرآن تیری ثناء
جہاں میثاق مدینہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی فراست کا ثبوت ہے۔ وہیں
غزوہ بدر کی ایماں افروز جیت کے بعد غزوہ احد میں ہونے والی سپہ سالاروں کو
کی گئی تنبیہہ ان کی ذہانت کا ثبوت ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعریف و
تقلید کے لئے اس زمانے کی ساعتوں میں موجود نمونہ عمل اور نبی آخر الزمان
کو کو تلاشتے سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ بھی مدینہ آن پہنچتے ہیں۔ غزوہ خندق
میں عقل اور مددِ خدا لشکر کو مات دیتی نظر آتی ہے۔ غزوہ حنین کی رزم گاہ
ہو یا حق و باطل کا کوئی بھی معرکہ، حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا خون کا
قطرہ ہو جو غزوہ احد میں زمین پر گرنے والا تھا یا وہ پتھر جو غزوہ خندق
میں چٹانوں کو توڑتے ہوئے ان کے پیٹ سے بندھا تھا۔ سبھی حق کے گواہ ہیں۔ وہ
گواہ جنہوں نے درخت کے نیچے ہوتی صلح حدیبیہ پہ نبی کا قوی ایمان دیکھا۔
جنہوں نے غلاموں کو تقوی سے امام کر دیا,یتیموں کو محبت سے اپنا مطیع بنا
لیا، بیماریوں کے شہر میں اسلامی عظیم سلطنت کی بنیاد رکھ دی، صفہ جیسے
چبوترے کو دنیا کی پہلی یونیورسٹی کا نام دلوایا، جرنیلوں کو جرنیلی سکھائی،
تاجروں کو رمز تجارت سے آگاہ کیا، سلطنتیں زیر و زبر کیں، بت پرستی کے دور
میں لا الہ الا اﷲ کا نعرہ بلند کیا
اﷲ اﷲ موت کو کس نے مسیحا کر دیا
دلدل تھی اور سچائی اس میں حلق تک جا پھنسی تھی۔ جتنا باہر نکلنے کو پر
توتلی تھی اتنی زیادہ نیچے دھنستی چلی جاتی تھی۔ نور کا تڑکا فلک پر چمکا
اور ان دیکھی قوتوں نے سچائی کے سارے پردوں میں برق کی مسیحائی بھر دی۔
دلدل تو جیسے کبھی تھی ہی نہیں اور اس کا غرور اپنے آپ پر شرمندہ رہ گیا۔
نیلگوں آسمان پر سچائی اپنے فاتح پروں کو تھامے محو پرواز تھی۔ بادل آزاری
کے گیت گنگنا رہے تھے۔
تجھ سے روشن ہوئی شمع سوز نہاں
صلح حدیبیہ جو مسلمانوں کو نا گوار گزری تھی مگر رسالت مآب صلی اﷲ علیہ
وسلم کو یقین کامل تھا کہ جس رب کے راستے پر وہ جا رہے ہیں وہ اﷲ کبھی ان
کو تنہا نہیں چھوڑے گا یہی یقین ان شمعوں کی صورت روشن ہوا جو مکے کے چاروں
اطراف فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں نے جلائی۔ صلح حدیبیہ ، جس کی تمام شقیں
بظاہر مسلمانوں کے لئے ناگفتہ بہ تھیں ، لیکن ان کی پاسداری مشرکینِ مکہ سے
نہ ہو سکی۔ نہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو وعدہ خلافی کرنی پڑی اور نہ
ہی مسلمانوں کے فاتح بننے والے راستے میں کوئی اور رکاوٹ آسکی۔
سنہری حروف میں حجتہ الوداع کا خطبہ دیا گیا۔ وہ خطبہ جو اقوام متحدہ کے
منشور میں شامل ہے۔ بے شک مانتے نہیں مگر پیروی کرنے پر سب مجبور ہیں۔
عربی اور عجمی کو ایک ساتھ کھڑا کیا، حسب و نسب کا تذکرہ یہیں مٹا دیا۔ سود
کو صاف کر دیا، جس کے مخبر کی وجہ سے یوم فرقان کا نظارہ فلک نے دیکھا تھا،
اس ابوسفیان کے گھر میں پناہ لینے والوں کو امان دی ، انسانی مساوات کا
اعلی درس دنے کے ساتھ ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھنے والوں کو ایک دوسرے کے
حقوق و فرائض نبھانے کی تلقین کی۔
تو ہے مہر عرب، تو ہے ماہ عجب، تو ہے محبوب رب
و ہ کونسا رشتہ ہے جسے نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے عمدگی سے نہیں نبھایا۔
رضاعی بہن کے آنے پر بھی انہوں نے اپنی چادر پھیلائی۔ نانا کے روپ میں حسن
اور حسین رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو کندھوں کی سواری کا لطف دیا۔ بیٹے کی
وفات پر کمال ضبط کا مظاہرہ کیا مگر آنسو چھلک ہی پڑے، وحی کا تحفہ لئے گھر
آئے تو کمبل میں چھپ گئے اور محبوب شوہر کی صورت میں بیوی کی دلجوئی کا مزہ
اٹھایا۔ حضرت فاطمہرضی اﷲ تعالی عنہا کو رخصت کیا تو شفیق باپ کی طرح فکر
نے انہیں بھی سور? العلق اور سور? الناس پڑھنے پر مجبور کیا۔ غزوہ خیبر میں
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا نام لیا تو وہ اسد بن کر ہی دھاڑے، حضرت ابوبکر رضی
اﷲ عنہ کو یار غار بنایا تو وہ صدیق کے لقب کے لئے موزوں ٹھہرے۔ حضرت عمر
رضی اﷲ عنہ کے ایمان لانے کی دعا کی تو ان کے ساتھ پھر کھلے آسمان تلے نماز
پڑھی۔ حجرِاسود نصب کرنے کا مسئلہ ہو یا پھر نفاذِاسلام و تبلیغِ اسلام کے
حوالے سے کوئی فریضہ سب کچھ ، خوش اسلوبی سے طے پایا گیا۔ حضرت محمد صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد بھی اسلام کی تبلیغ کے لئے خطوط ارسال کئے۔
کیونکہ اسلام ساری دنیا کے لئے بھیجا گیاضابطہ حیات تھا.کیونکہ عرب ممالک
جیسا دنیا کا مرکز آخری نبی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی پیدائش کے لئے اسی
لئے چنا گیاکہ نورِاسلام کی کرنیں تمام دنیا کا احاطہ کر لیں. درخت جھک گئے
اور قمر دو ٹکڑے ہو گیا جس نے سامنے ٹہرنے کی جرات کی ان قیصر و کسری کا
حال سب نے دیکھا اور اسلام کی سر بلندی کی بھی دنیا گواہ بنی۔ یہ سیرت اس
آخری نبی اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہے، جن پر خالقِ کائنات اور
ملائکہ درود و سلام بھیجتے ہیں۔ ایک آزمائی بات ہیکسی بھی مشکل میں سبز
گنبد کا تصور کیجئے۔ اور اپنی مشکل عرضی کی صورت میں ڈال دیجئے۔ اﷲ تعالی
حل نکال دیں گے۔ درود ہم آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر پڑھتے ہں اور زندگی ہماری
سنور جاتی ہے.
صلی اﷲ علیہ والہ وسلم
میرے ہاتھوں سے اس لئے خوشبو نہیں جاتی
میں نے اسمِ محمد کو لکھا بہت چوما بہت |
|