گستاخانِ رسول کا انجام

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
لا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم
اﷲم انا نعوذ بک من سوءِ الادبِ فی حضرۃِ المصطفیٰ و نعذبک بجاھہٖ عندک من سخطک و سخط نبیک و حبیبک وجعلنا من خدامہٖ المتادبین فی جنابہٖ المتمسکین بذیلہ المقتفین بآثارہ النیرۃ علیہ و علی آلہ من الصلوٰۃ اطیبہا ومن التسلیمات ازکٰھا۔

دین اسلام کی اساس و بنیاد ناموسِ رسالت کی حفاظت اور چوکیداری پر قائم ہے۔اسلام صرف نبی اکرمﷺ ہی نہیں بلکہ تمام انبیاء کرام علیٰ نبینا و علیہم السّلام کی عزت و ناموس کی حفاظت کا درس دیتا ہے۔نبی اکرم ﷺ رحمت للعالمین بن کر تشریف لائے۔ آپ ﷺ کے عفوودرگذر کی مثالیں اور روائتیں شمار میں نہیں آسکتیں۔زمانہ نبوی ﷺ اور اسلاف کے سنہری ادوار میں غیر مسلموں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کی مثالوں سے کتب تاریخ و سیر بھری پڑی ہیں۔آپ ﷺنے زندگی بھر ظلم کے مقابلے میں صبراور عفو سے کام لیا۔ مجرموں کو معاف کردینے میں آپ ﷺ ہمیشہ فراخدلی کا مظاہرہ فرماتے تھے ۔اپنے پیارے چچا حضرت حمزہ ؓ کے قاتل حضرت وحشیؓ بن حرب اورحضرت حمزہؓ کی لاش مبارک کا مُثلہ کردینے والی ہَندہ زوجہ اَبو سفیان کو معاف کردینا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن آپ ﷺ نے اُن کو اور اُن جیسے کئی اور لوگوں کو جنہوں نے ظلم و ستم کی خونیں داستانیں رَقم کی تھیں، معاف فرما کر عَفوو دَرگُذر کی تاریخی مثالیں قائم کیں ۔ لیکن اس پیکرِعَفو و کرم ﷺنے توہین کے مقابلے میں کبھی برداشت اور رَوا داری سے کام نہیں لیا۔ تاریخِ اِسلام کا وَرق وَرق کھنگال لیجئے ،توہین کے مرتکب شخص کے ساتھ ہمدردانہ رویہ یا اُسے معاف کر دینے کی کوئی مثال آپﷺکی حیات طیبہ سے پیش نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ کتب ِ سیرت ہمیں بتاتی ہیں کہ جونہی کسی بد بخت نے شانِ رسالت میں گستاخی کی، آپﷺ نے اس گستاخِ کوصفحۂ ہستی سے مٹانے کا حکم جاری فرما دیا ۔فتح مکہ کے روز آپ ﷺ نے عَفوو درگذر کے دریا بہا تے ہوئے عام معافی کے اعلان کے ساتھ ہی یہ بھی حکم فرما یاتھا کہ گستاخی ٔرسول کا مرتکب ابن اخطل اگر کعبہ معظمہ کے غلاف سے بھی چمٹا ہوا پایا جائے توبھی اُسے قتل کر دیا جائے،چنانچہ وہ غلافِ کعبہ کے نیچے چھپا ہوا ہی ملا اور قتل کیا گیا۔گستاخِ رسول کعب بن اشرف یہودی کو قتل کرنے کی غرض سے آپ ﷺ نے صحابہ کرا مؓ سے باقاعدہ مددمانگی توحضرت محمدؓ بن مسلمہ نے اُس گستاخ کا سَر تن سے جدا کر کے بارگاہِ رسالت سے پروانہ خوشنودی پایا۔ اسی طرح کے بے شمار واقعات کتبِ حدیث و سیرت میں موجود ہیں کہ آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہ و تابعین کے زمانہ میں گستاخانِ رسول کی سزا اُن کا سَرتَن سے جدا کرنا ہی تھا۔اس سے کم سزا یا معافی کا تصوّر ہی نہیں پایا جاتا۔ زیر نظر سطور میں زمانہ نبوی کے گستاخانِ رسول کے بارے میں نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے عمل سے چند مثالیں پیش کر کے اِسلام میں رَواداری اورعَفوودرگذر کی مثالیں دینے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ اِسلام اِنسانیت کی خدمت اور ہمدردی کاسبق دینے کے ساتھ ساتھ نبی اکرم ﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کی بھی سخت تاکید کرتا ہے۔اور ناموسِ رسالت پر کسی قسم کی رَواداری کا رَوادار نہیں۔نبی اکرم ﷺ نے تو اپنے غلاموں کی توہین بھی کبھی برداشت نہیں کی۔ جنگ اُحد کے جانگسل لمحات میں جب غیر یقینی کی صورتحال کی وجہ سے سانسیں رُک رہی تھیں اُس وقت بھی ایک گستاخ نے ایک صحابیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھاکی توہین کی تو آپ ﷺ نے اِسی قدم پر اس توہین کا بدلہ لینے کا حکم فرمایا۔ مفسرِ قرآن پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒنے یہ سبق آموز واقعہ اِن اَلفاظ میں بیان فرمایا ہے :
’’غزوہ اُحد کے موقع پرلشکرِکفار کا مشہورتیر انداز حبان بن عرقہ مسلمانوں پر مسلسل تیر چلا رہا تھا۔ حضورﷺ کی ایک جان نثار خادمہ اُمِ ایمن ؓ مشکیزہ کندھوں پر اٹھائے ،اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر مجاہدینِ اسلام کو پانی پلا رہی تھیں۔بد باطن حبان نے تاک کر اس مجاہدہ پر تیر پھینکاجو پاکباز مجاہدہ ؓ کے دامن میں آکر لگا اور اُن کا پردہ اُٹھ گیا۔ وہ بدباطن ایک خاتون کی ہتک کر کے خوشی کے مارے قہقہے لگاتا ہوا زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگا۔ سرورِ دوعالمﷺ کو اپنی خادمہ کی یہ توہین بڑی شاق گزری۔آپﷺ نے اپنے جان نثار مجاہد حضرت سعد ؓبن ابی وقاص کوبغیر پھل کا تیر دیااور اِسے چلانے کا حکم فرمایا۔حضرت سعد ؓنے تاک کروہ تیر چلایا تو سیدھا حبان کے گلے میں جا کر لگا۔تیر لگنے سے وہ بے تاب ہو کر زمین پر گرگیا۔ گرتے ہوئے اُس کے ستر سے بھی پردہ اُٹھ گیا۔بے غیرت کی شیخی خاک میں ملا کر اور اُسی قدم پر اپنی خادمہ کی ہتک کا بدلہ چُکا کر غیّور نبی ﷺ بہت خوش ہوئے اورہنس پڑے یہاں تک کہ آپﷺکے دندان مبارک ظاہر ہوگئے ۔ پھراپنے جاں نثار مجاہدکو دادِ شجاعت دیتے ہوئے دُعا فرمائی :
’’اِسْتَقَادَلَھَا سَعْدٌ اَجَابَ اَللّٰہُ دَعْوَتَکَ وَسَدَّدَ رَمَیْتَکَ۔‘‘
’’سعد نے اُمِّ ایمن ؓکا بدلہ لے لیا۔ اﷲ تیری دُعا کو قبول کرے اور تیرا ہر تیرٹھیک نشانہ پر لگے‘‘(1)
اپنی جانثار خادمہ کی توہین کا بدلہ لینے پر آپﷺ خوش بھی ہوئے اور بدلہ لینے والے صحابی کو دُعا سے بھی نوازا۔
دورِ نبوی میں گستاخانِ رسول کا انجام :
گستاخِ رسول ابو لہب کا انجام:
نبی اکرم ﷺ کے والد محترم حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے والد اور والدہ کی جانب سے حقیقی بھائی کا نام عبدالعزیٰ تھا جو اپنی خوبصورتی اور سرخ وسپید رنگت کی وجہ سے ’’ابو لہب‘‘ کی کنیت سے مشہور تھا۔ابو لہب انتہائی زیادہ امیر کبیر اورمکہ کے چا ر روسائے اعظم میں سے ایک تھا۔جب نبی اکرم ﷺنے اعلان نبوت کیا اور حکم الٰہی کے تحت اپنے قریبی اعزاء واقارب کے دعوتِ توحید دی تو ابو لہب نے نبی اکرم ﷺکی شان میں گستاخانہ الفاظ بولے۔بعد میں بھی جب اُسے موقع ملا نبی اکرم ﷺ کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کرتا ہی رہتاتھا ۔اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم ﷺکی توہین برداشت نہ کی اور ابولہب کی مذمت میں قرآن پاک میں سورۃاﷲب نازل فرماکر اس کے لئے دنیا و آخرت میں عذاب کی وعید سنائی ۔
جب شانِ رسالت مآب ﷺمیں اَبو لہب کی گستاخیاں حد سے بڑھ گئیں تو اُس پر عذاب الٰہی نازل ہو گیا ۔اس کے جسم میں ایسی بدبودارپھنسیاں نمودار ہوگئیں کہ کوئی اس کے پاس بیٹھنا بھی گوارا نہ کرتاتھا ۔بیماری کی حالت میں اس کے بیٹوں نے اس کو گھر سے باہر نکال دیا اور کوئی اس کی تیمار داری اور مزاج پُرسی تک نہ کرتا تھا۔ اسی حالت میں شدت دردسے جہنم واصل ہو گیا ۔جب وہ مرگیا تو کوئی اس کی لاش کے قریب بھی نہ جاتا تھا۔تین دن تک لاش بے گوروکفن پڑی رہی اور گل سڑکر اس سے سخت بدبو آنے لگی۔بدبو کی وجہ سے اردگرد کے باسیوں کا جینادوبھر ہوگیا اور انہوں نیاس کے بیٹوں کو عار دلائی اور لعنت ملامت کی تو اس کے بیٹوں نے بدوی مزدوروں سے کہاکہ اُجرت لے کر اس لاش کو ٹھکانے لگا دو۔ چنانچہ بدووں نے ایک گڑھا کھود کر لکڑیوں کی مددسے لاش دھکیل کر گڑھے میں ڈال دیاور اوپر پتھر پھینک کر گڑھا بند کردیا۔کہاں مکہ کا رئیس اعظم اور کہاں آج اس کی بدبودار گلی سڑی نعش بے گورو کفن پڑی نشان عبرت بن چکی ہے۔کئی جوان بیٹوں، بھائیوں اور رشتہ داروں کا ایک جمِ غفیر موجود ہونے کے باوجودکوئی اس کی تدفین کرنے پرآمادہ نہیں۔گستاخِ رسول کا اس سے برا انجام کیا ہوسکتا ہے (2)۔
گستاخِ رسول اَبو رَافع یہودی کا انجام اور اُس کو قتل کرنے والے کا انعام :
اَبو رَافع بڑا مالدار یہودی سردار تھا جو سیدِدو عالم ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرکے آپﷺ کو تکلیف پہنچاتا تھااور آپﷺ کے مخالفین کی مدد کرتا تھا ۔ آپﷺ نے اُس کی گستاخانہ حرکات کی وجہ سے اُس کے قتل کا فیصلہ فرمایا اور حضرت عبداﷲ بن عُتیک کی سربراہی میں چند صحابہ کرام کو اس کا کام تمام کرنے کے لئے روانہ فرمایا ۔ابو رافع اپنے قلعہ میں بالائی منزل پر رہائش پذیرتھا۔حضرت عبداﷲ ؓبن عُتیک نے حیلے سے اُس کے کمرے میں گھُس کر اُس کو قتل کر دیا اور واپسی پر سیڑھیاں اُترتے ہوئے گرنے سے آپؒ کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔جب آپ ؓ واپس تشریف لائے تو نبی اکرم ﷺ نے آپؓ کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ پر دستِ شفقت پھیرا تو وہ بالکل درست ہوگئی۔حضرت عبداﷲ ؓ بن عُتیک یہ واقعہ اس طرح بیان فرماتے ہیں:
اِنِّی قَتَلْتُ اَبا رَافع، فَجَعَلْتُ اَفْتَحَ الْاَبْوَابَ بَاباًبَاباً حتٰی اِنتھیتُ اِلٰی دَرَجَۃٍلَہٗ فَوَضَعْتُ رِجْلِی وَاَنا اَرَی اِنِّی اِنْتَھَیْتُ اِلَی الْاَرْضِ فَوَقَعْتُ فِی لَیْلَۃٍ مُقْمَرَۃٍ۔فَانْکَسَرَتْ سَاقِی فَعَصَبْتُھَابِعَمَامَۃِ فَانْتَھَیْتُ اِلَی النَّبِی ﷺفَحَدَثْتُہٗ،فَقَالَ اَبْسِطْ رِجْلِکَ، فَبَسْطُ رِجْلِی،فَمَسَحَھَا،فَکَاَنَّمَالَمْ اَشْتَکَھَاقُطٌّ(3)
ترجمہ: میں نے ابو رافع کو قتل کیا۔(واپسی پر) میں ایک ایک کر کے دروازے کھولتاگیا حتی کہ پہلی منزل پر اُتر گیا۔ میں نے سمجھا کہ میں زمین پرپہنچ گیا ہوں(جبکہ میں ابھی بالائی چھت پر تھاچنانچہ میں نے (زمین سمجھ کر )اپنا پاؤں رکھ دیا۔ میں چاندنی رات میں زمین پر گر گیا اور میری پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ میں نے اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ اپنی پگڑی سے باندھی اور نبی کریم ﷺکے پاس حاضر ہوکر ساری بات عرض کی۔آپ ﷺ نے فرمایا اپنی ٹانگ آگے کر ۔میں نے اپنی ٹانگ آگے کر دی۔ آپﷺ نے اس پر ہاتھ مبارک پھیرا۔ پھر مجھے ایسا لگا جیسے کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔
گستاخِ رسول عتیبہ کا انجام:
ابو لہب کابیٹا عتیبہ بھی اپنے باپ کی طرح بد زبان اور گستاخ تھا۔جب سورہ لہب میں اس کے باپ اور ماں کے لئے سخت وعیدات نازل ہوئیں تو اس کی دریدہ دہنی اوربھی بڑھ گئی۔اس نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر بد کلامی کی ۔نبی ﷺ نے اس کے لئے بدعا کرتے ہوئے فرمایا:
اَللَّھُمَّ سَلِّطْ عَلَیْہِ کَلْباً مِنْ کَلَابِکَ
اے اﷲ !اِس پراپنے کتوں میں سے ایک کُتا مسلّط فرما دے۔
یہ بَد بخت قافلے کے ساتھ شام کے تجارتی سفر پرروانہ ہوا ۔دوران سفراِس کا باپ اَبولَہب اِس کی حفاظت کا خصوصی اہتمام کرتا۔قافلے کا مال و متاع ایک جگہ اکٹھاڈھیرکر کے بلند ٹیلہ سابنا کر اس کو اس ٹیلے کے اُوپر سلاتا اور خود اور دیگر قافلے والے اس ٹیلے کے ارد گرد سو جاتے۔ تاکہ کوئی موذی جانور اس کو ایذا نہ پہنچا سکے ۔ ایک رات جب یہ قافلہ مقامِ حوران پرٹہراہوا توایک شیر آگیا۔شیر نے سامان کے ٹیلہ نما ڈھیر کے ارد گرد سوئے ہوئے دیگر لوگوں کو کچھ بھی نہ کہا۔ بلکہ سامانِ قافلہ کے ٹیلے پر سوئے ہوئے عتیبہ کو چیر پھاڑ کررکھ دیا لیکن اس گستاخ کا نہ ہی خون پیا اور نہ اس کو کھایا۔اس طرح اﷲ کے نبی ﷺکی بدعا سے یہ گستاخ ِ رسول اپنے انجامِ بد کو پہنچا (4)۔
گستاخِ رسول عُتبہ بن اَبی وَقاص کا انجام:
غَزوہ اُحد کے موقع پرمشرکین نے اِس عزم کے ساتھ یکبارگی آپﷺ پر حملہ کر دیا کہ آج آپ ﷺکوزندہ نہیں چھوڑیں گے۔ملعون عُتبہ بن اَبی وَقاص نے یکے بعد دیگرے چار پتھرآپﷺکودے مارے۔اُن میں سے ایک پتھر لگنے سے آپﷺکے سامنے والے دو اُوپرکے اور دو نیچے کے دانت مبارک شہید ہو گئے جبکہ نیچے والا ہونٹ مبارک بھی شدیدزخمی ہو گیا۔دانت جڑ سے نہیں اُکھڑے بلکہ اُن کا اُوپر والا حصہ ٹوٹ تھا۔ حضرت حاطبؓ بن بلتعہ اس جانکاہ حادثہ کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ کے دندان مبارک شہید ہونے کے بعد میں آپﷺکے پاس حاضر ہوااور پوچھاکہ یہ جرأت کس نے کی ہے؟
آپﷺفرمایا: عُتبہ بن ابی وقاص نے۔
میں نے عرض کی :’’وہ کدھر گیا ہے؟‘‘
آپﷺ نے اشارہ سے فرمایا کہ ِادھرگیا ہے ۔
چنانچہ میں اُس کے تعاقب میں نکلا توجلد ہی وہ مجھے مل گیا۔ میں نے تلوار سے اُس پر حملہ کیا اور اُس کا سر کاٹ کرپھینک دیا۔پھر میں نے اُس کا کٹاہوا سَر اُٹھایا اوراس کے گھوڑے کو پکڑااور بارگاہِ رسالت ﷺمیں حاضر ہوگیا۔ یہ دیکھ کر آپ ﷺ بہت خوش ہوئے اور مجھے دعا دیتے ہوئے دوبار فرمایا:
رَضِیَ اللّٰہُ عَنْکَ، رَضِیَ اللّٰہُ عَنْکَ
’’اﷲ آپ سے راضی ہو، اﷲ آپ سے راضی ہو۔‘‘
علامہ سہیلی لکھتے ہیں کہ عتبہ بن ابی وقاص کی طرف سے نبی اکرم ﷺ کو توہین کرنے کے عذاب کی وجہ سے اُس کی اولاد میں ہر بچہ کے سامنے والے چار دانت نہیں اُگتے اور اس کے منہ سے سخت بدبو آتی ہے(5)۔
گستاخِ رسول عبداﷲ بن قمۂ کا اَنجامِ بد:
عبداﷲ بن قمۂ بنو ہذیل قبیلہ کا ایک فرد تھا۔ غَزوہ اُحدکے موقع پر اُس نے تیر ماراجس سے خود کی دو کڑیاں حضور انورﷺ کے رخسار مبارک میں گھس گئیں اور رخسار مبارک زخمی ہوگیا۔
امام طبرانی، ابو امامہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابن قمۂ نے تیر مارا تو کہا:
’’خُذْھَا وَاَنَا اِبْنُ قَمِئَہْ‘‘
’’ یہ لو تیر آیا، اور میں قمۂ کا بیٹا ہوں۔‘‘
سرکارِ دوعالمﷺ نے فرمایا:
’’اَقْمَئَکَ اللّٰہُ‘‘
’’اﷲ تمہیں ذلیل وخوار کرے۔‘‘
چنانچہ کچھ عرصہ بعد ایک جنگلی مینڈھے نے اس پر حملہ کر دیا اور اپنے تیز سینگوں سے اسے چھلنی کر کے اپنے سر سے اسے پہاڑ کی بلندی سے دھکا مارا۔ یہ لڑھکتا ہوا نیچے جاگرا۔ اس کا گوشت ریزہ ریزہ ہو گیا اور ہڈیاں چور چور ہو گئیں(6)۔
گستاخِ رسول عثمان بن عبداﷲ بن مغیرہ المخزومی کاقتل:
عثمان بن عبداﷲ بن مغیرہ المخزومی ایک قریشی جنگجوتھا جس کو اپنی قوت اور فنِ سپاہ گری پر بڑا ناز تھا۔ ایک دفعہ یہ نخلہ کے مقام پر گرفتار ہوا تھااورحضرت عبداﷲؓ بن جحش نے اسے قیدی بنالیا تھا۔ لیکن حضورﷺ نے فدیہ لے کر اس کو رہا کر دیا تھا۔اس احسان کا بدلہ اس بد بخت نے یہ دیا کہ غزوہ اُحد کے موقع پر یہ سر سے پاؤں تک لوہے کے لباس میں غرق، اپنے اَبلق گھوڑے پر سوار ہو کرآپﷺ پر حملہ کرنے کے ارادہ سے گرجتا ہوا آیا۔آپﷺ کو مخاطب کر کے چیخا:
’’لَا نَجَوْتُ اِنْ نَجَوْتَ‘‘
’’ اگر آپﷺ بچ گئے تو میں کبھی نہ بچ سکوں گا۔‘‘
جب وہ قرب پہنچا تو حضورﷺ زخمی ہونے اور نقاہت کے باوجود اس کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کھڑے ہو گئے۔ حضرت حارثؒ بن صمّہ نے جب اُسے اپنے آقاﷺ کی طرف بڑھتے دیکھا تو آگے بڑھ کر اُس کا راستہ روک لیا۔ اچانک اس کے گھوڑے کا پاؤں پھسلااور وہ زمین پر آگرا۔ اُسے گرانے کے بعداُس کا گھوڑا منہ اٹھا کر بھاگ گیا۔ کچھ دیرتک دونوں ایک دوسرے پر اپنی اپنی تلوار وں سے وار کرتے رہے۔ اچانک حضرت حارثؓ نے ایک بھر پوروار کر کے اُس کی ٹانگ کاٹ دی اور وہ دھڑام سے زمین پرآگرا۔ آپؓ اُس کی چھاتی پر چڑھ گئے اور اُسے جہنم واصل کر دیا۔حضرت حارثؓ نے اُس کا کام تمام کر دینے کے بعد اُس کی زرہ اور خود اُتار لیا ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس کی ہلاکت پر اپنے ربّ قدیر کی حمد وثناء کی۔مال ِغنیمت کی تقسیم کے وقت اُس کا لوہے کا لباس حضرت حارث ؓ کو دے دیا گیا۔اُحد کی جنگ میں صرف اسی مقتول کا لباس اور اَسلحہ اُس کے قاتل کو دیا گیاتھا(7)۔
گستاخِ رسول اُبی بن خلف کی ہلاکت:
خلف کے دونوں بیٹے اُمیہ اور اُبی بڑے کروفر سے جنگِ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ اُمیہ کو تو حضرت بلال ؓنے واصلِ جہنم کر دیا جبکہ اُبی جنگی قیدی بنا۔جو فدیہ اَد اکرکے رہاہوا۔ اس احسان کا بدلہ اس نے یہ دیا کہ اس کے پاس ایک قیمتی گھوڑا تھا جس کا نام العُود تھا۔ اس نے قسم کھا کر کہا کہ میں اس گھوڑے کو روزانہ اتنے سیر مکئی کا دانہ کھلایا کروں گا ۔ پھر میں اس پر سوار ہو کر ( حضورﷺ کا اسمِ مبارک لے کر) کو قتل کردوں گا ۔ اس کی یہ بڑجب ہادی برحق نے سنی تو فرمایا:
’’بَلْ اَنَا اَقْتُلُہٗ اِنْشَآءَ اللّٰہُ تَعَالیٰ‘‘
’’وہ نہیں بلکہ میں اُسے موت کے گھاٹ اُتاروں گا انشاء اﷲ‘تعالیٰ‘‘
غزوہ اُحد کے موقع پروہ اپنے اُسی گھوڑے پر سوار ہو کر جنگ میں شرکت کے لیے آیا۔ حضورﷺ لڑائی کے دوران پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ رﷺ نے اپنے صحابہ کو فرمایا خیال رکھنا مبادا اُبی بن خلف مجھ پر پیچھے سے حملہ کر دے۔ جب تم اسے دیکھو تو مجھے اطلاع دے دینا۔ جب گھمسان کی جنگ ہورہی تھی اور حضورﷺ گھاٹی میں تشریف فرما ہوئے تو یہ بد بخت اچانک آدھمکا۔ اس نے سر پر خود اور اور اپنے چہرے پر آہنی نقاب ڈالا ہوا تھا۔ا ور اپنے گھوڑے کو رقص کراتا ہوا آرہا تھا۔قریب آکر کہنے لگا :
’’ اَیْنَ مُحَمَّدٌ لَا نَجَوْتُ اِنْ نَجَا‘‘
’’یعنی (جانِ عالم) محمدﷺ کہاں ہے، اگر وہ بچ گیا تو میرا بچنا محال ہے‘‘
بہت سے مسلمان مجاہدین نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روکنا چاہالیکن بہادروں اور شجاعوں کے آقاﷺ نے بلند آواز سے حُکم دیا :
’’ دَعُوْہُ وَ خَلُّوْا طَرِیْقَہٗ‘‘
’’ اسے چھوڑ دو، اس کا راستہ خالی کر دو۔‘‘(یعنی اسے آگے آنے دو )
جلالِ الٰہی کے پیکر، قہرِ خُداوندی کے مظہرﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا:
’’ یَا کَذَّابُ اَیْنَ تَفِرُّ‘‘
’’اے کذاب اب بھاگ کر کدھر جاتا ہے ‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت حارثؓ بن صِمّہ کے ہاتھ سے چھوٹا نیزہ پکڑا اور اس کے سامنے کھڑے ہو کربڑے جوش سے اس کی گردن کے اس حصہ میں نیزے سے ضرب لگائی جو خود اور زرہ کے درمیان ننگا رہ گیا تھا۔ پھر کیا تھا اس کے حواس باختہ ہوگئے ، سر چکرا گیا، گھوڑے کی پشت سے غش کھا کر نیچے لڑھکنے لگا۔ جس طرح بیل ڈکارتا ہے اس طرح اس نے ڈکارنا شروع کر دیا ، اس ضرب سے بظاہر اس کی گردن پر ایک معمولی سی خراش آئی لیکن بظاہر معمولی چوٹ نے اس کے سینہ کی پسلیاں اور جسم کی ہڈیاں چور چور کر دیں۔،سر پیٹتا ہوا چلاتا ہوا واپس بھاگا ، قوم کے پاس پہنچا تو وہ کہہ رہا تھا:
’’ قَتَلَنِیْ وَاللّٰہِ مُحَمَّدٌ‘‘
’’ بخدا مجھے محمدﷺ نے قتل کر دیا۔‘‘
جب لوگوں نے اس کی خراش دیکھی تو کہنے لگے تمہاری بزدلی کی بھی کوئی حد ہے۔ کوئی زخم نہیں ہے۔ معمولی سی یہ خراش ہے اور تم نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا ہے۔ اگر اس قسم کی خراش ہم میں سے کسی کی آنکھ میں لگتی تو قطعاً نقصان دہ نہ ہوتی۔
ان نادانوں کو کیا خبر تھی کہ اﷲ تعالیٰ کے نبیﷺ کی چوٹ کا اثر کیا ہوتا اور کہاں تک ہوتا ہے۔ وہ کہنے لگا:
لات وعزّٰی کی قسم! جو چوٹ مجھے لگی ہے ،وہ چوٹ اگر ربیعہ اور مضر قبائل کو بھی لگتی تو سارے کے سارے ہلاک ہو جاتے۔
جب کفار مکہ کا لشکر اُحد سے مکہ واپس جارہا تھا تواسی چوٹ کی تاب نہ لاتے ہوئے سرف کے مقام پریہ بد بخت جہنم واصل ہو گیا (8)۔
گستاخِ رسول عبداﷲ بن حمید بن زہیر:
غزوہ اُحد کے موقع پر جب مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی تواس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ایک مشرک عبداﷲ بن حمید بن زُہَیرسر تا پا لوہے میں غرق، گھوڑا کداتا ہو احضور پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھا اور کہنے لگا:
اَنَااِبْنُ زُہَیْردَلُّوْنِیْ عَلٰی مُحَمّدٍفَوَاللّٰہِ لَاَقْتُلَنَّہٗ اَوْلَاَمُوْتَنَّ دُوْنَہٗ۔
میں زُہَیر کا بیٹا ہوں۔ مجھے بتاؤ محمد ﷺ کہاں ہیں۔ بخدایا میں اُن کو قتل کردو ں گا یا خود مارا جاؤں گا۔
مقبول بارگاہِ رسالت حضرت ابو دجانہؓ نے جب اُس بد بخت کی یہ دھمکی سنی تو غرّا کر بولے:
’’اے احمق ! انہیں رہنے دو پہلے ان کے جاں نثار سے پنجہ آزمائی کرلو‘‘
ساتھ ہی آپؓ نے بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھ کر اپنی تلوار سے اس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دیں۔گھوڑے کے ساتھ ہی وہ گستاخ رسول زمین پر گرا۔آپؓنے بھر پور ا وار اس کے سر پر کیا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
رحمت عالم ﷺ یہ منظر دیکھ رہے تھے فرمایا:
اَللَّھُمَّ اَرْضِ عَنْ اَبِیْ خَرْشَۃِکَمَااَنَاعَنْہُ رَاضٍ
’’ اے اﷲ !تو بھی ابو خرشہ (حضرت ابو دجانہ کی کنیت) سے اسی طرح راضی جا جس طرح میں اس سے راضی ہواہوں‘‘ ۔(9)
ابو دجانہ کی اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا محبوب اسے اپنی رضا مندی کا یقین دلا دے اور اپنے ربّ کی بارگاہ میں بھی اس سے راضی ہونے کی دعا فرما دے۔
اسی جنگ میں جب مشکل اور نازک حالات پیدا ہوئے تھے توحضرت ابودجانہؓ اس نازک مرحلہ پر ڈھال بن کر حضور ﷺ پر جھکے رہے۔ دشمن کی طرف سے آنے والے ہر تیر کو اپنی پشت پرلیتے رہے لیکن اپنی جگہ سے ذرا بھی آگے پیچھے نہ ہوئے ۔
ہماری راہنمائی کے لئے کتب سییر و تاریخ میں اس طرح کے اور بھی بے شمار واقعات موجود ہیں۔ جن سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ایک ادنیٰ درجہ کا مسلمان بھی ناموس رسالت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا ۔ بلکہ برِصغیر کی تاریخ تو اس قسم کے بیسیوں واقعات اپنے سینے میں سموئے ہوئے ہے کہ شاتمان رسالت کی زبان بند کرنے والے اکثر غازیان وشہداء ظاہری طور پر ادنیٰ مسلمانوں میں ہی شمار ہوتے تھے لیکن ان کے تاریخی اقدامات اور سرفروشیوں کی بدولت حاملان جبہ و دستار اور وارثان محراب و منبر بھی رشک ہی کرتے رہ گئے۔
(1) پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ،ضیاء النبی جلد سوم ،ص۵۱۱،ضیا ء القرآن پبلی کیشنز ،لاہور۔
(2) پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ،ضیاء ا لقرآن جلدپنجم (خلاصہ تفسیر سورۃ اﷲب)،ضیا ء القرآن پبلی کیشنز ، لاہور۔
(3) بخاری حدیث رقم:۴۰۳۹
(4) دلائل النبوۃ جلد ۲صفحہ۶۱۳(توہین رسالت کا علمی و تاریخی جائزہ)
(5) پیر محمد کرم شاہ الازہری ،ضیاء النبی جلد سوم ،ص۵۰۸،ضیا ء االقرآن پبلی کیشنز ،لاہور ، بحوالہ سبل الھدیٰ جلد ۴ ص۲۹۴
(6) ایضاً
(7) ایضاً ،ص۵۱۲
(8) ایضاً ،ص۵۱۴
(9) پیر محمدایضاً،ص۵۱۷
Sadiq Ali
About the Author: Sadiq Ali Read More Articles by Sadiq Ali: 3 Articles with 5643 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.