محرم الحرام کامہینہ شروع ہوتے ہی ہر مسلمان کے دل و دماغ
میں حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ اور آپؓ کے پاکیزہ خانوادہ پر یزیدیوں کے ظلم
و ستم کی دردناک داستانیں بھی تر و تازہ ہو جاتی ہیں۔ بد قسمتی سے کچھ کلمہ
گو مگر دشمنان آل بیت وہ بھی ہیں جو یہ غلط فیمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے
ہیں کہ ’’ امام حسین رضی اﷲ عنہ نے اقتدار کے حصول یا عظمت و سطوت کے لالچ
میں یزید کی بیعت نہیں کی اوراس سے برسر پیکار ہوئے جس کے نتیجے میں آپ کی
شہادت ہوئی‘‘۔ جبکہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعد خلافت کے امور حضرت امام حسن رضی اﷲ
عنہ کے سپرد ہوئے۔ آپ نے چھ ماہ تک یہ فراض سرانجام دیے۔ بعد ازاں آپ نے از
خود ایک معاہدہ کے تحت یہ اقتدار امیر معاویہؓ کے سپرد کردیا تھا۔ اس وقت
حضرت امام حسینؓ عالم شباب میں تھے۔ اگر اقتدار کی خواہش ہوتی تو اپنے
برادر اکبر سے گزارش کر کے لے لیتے۔ لیکن کسی ایک روایت میں بھی آپ کی کسی
ایسی خواہش کا ذکر نہیں ملتا۔ گویا یہ اقتدار تو وہی تھا جسے آپ کے گھرانے
سے از خود صلح و صفائی کی خاطر منتقل کیا گیا تھا۔ حضورﷺ نے اپنی حیات طیبہ
میں یہ پیشینگوئی فرما دی تھی کہ ’’ میرے اس بیٹے کی وجہ سے مومنوں کے دو
گروہوں کے درمیان صلح ہوگی‘‘۔ جہاں تک جاہ و جلال اور عزت و آبرو کا سوال
ہے۔ نبی کریم علیہ السلام کی ذات اقدس سے جو نسبت اور تعلق ہے اس سے بڑھ کر
اور کیا عزت ہوگی جس کی امام عالیمقام کو خواہش ہوتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ پھر اتنا بڑا معرکہ کیوں بپا ہو گیا؟ حقیقت حال یہ ہے کہ حضرت امام
عالیمقام حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ نے اپنے نانا پاکﷺ کی مبارک حیات طیبہ
کے مدنی دور میں آنکھ کھولی۔ بچپن ، لڑکپن اور جوانی کے ایام خلافت راشدہ
کے بابرکت دور میں گزارے۔ آپ بخوبی آگاہ تھے کہ چمنستان اسلام کی آبیاری
حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی علیہم اجمعین کے مقدس خون سے کی گئی تھی۔
جب یزیدیوں کا فسق و فجور اور رقص و سرود اس گلشن اسلام کو اجاڑ رہاتھا تو
کیسے ممکن تھا کہ پروردہ آغوش نبوت(ﷺ)، نور نگاہ علی مرتضی (رضی اﷲ عنہ)
اور جگر گوشہ فاطمہ الزہرہ( رضی اﷲ عنہا) یعنی حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ
یزید جیسے ضال و مضل، فاسق و فاجر اور ننگ انسانیت شخص کے ہاتھ پر بیعت کر
لیتے۔ آپ نے عزیمت کا مظاہرہ کیا اور بے سرو سامانی کے باوجود فسق و فجور
اورباطل کے سامنے ڈٹ گئے۔ ویسے تو یزید کے کرتوتوں سے تاریخ اسلام کے کئی
صفحات سیاہ ہیں۔ لیکن ان میں سے تین حد درجہ قابل مذمت اور اس کے لعین ہونے
پر شاہد عادل ہیں۔ (1) آل بیت اطہار کی دردناک شہادت (2) مدینہ طیبہ خصوصا
مسجدنبوی شریف پر چڑھائی اور بے ادبی و بد تمیزی کی آخری حدوں کو پھلانگنا۔
(3) حرم کعبہ پر چڑھائی اور توہین۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں ایک باب
قائم کیا ہے، ’’ باب مناقب قرابۃ رسول اﷲ ﷺ‘‘ یعنی نبی کریمﷺ کے قرابت
داروں کے فضائل کا بیان۔ پھر اسی باب میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے
روایت بیان کی کہ نبی کریمﷺ کے قرابت داروں سے معاملہ کرتے ہوئے آپﷺ کا ہر
حال میں لحاظ و پاس رکھو۔ علامہ قسطلانی ؒ نے شرح بخاری میں قرابت دار کی
تعریف یہ لکھی ہے ’’من ینسب لعبد المطلب مومنا کعلی و بنیہ‘‘ جن کا نسب
حضرت عبد المطلب سے ملتا ہو جیسے حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور ان کی کی اولاد۔
یزید پلید نے زرا بھر بھی اس نسبت رسول کا خیال نہیں کیا۔ انتہائی بے دردی
اور ڈھٹائی کے ساتھ گلشن اہلبیت کے پھولوں کو مسل دیا۔ کوفہ میں یزید کے
مقرر کردہ گورنر ابن زیاد کے پاس جب بعد از شہادت حضرت امام حسین رضی اﷲ
تعالی عنہ کا سر مبارک لایا گیا تو اس بد بخت نے شقاوت قلبی کے ساتھ اپنی
چھڑی سے توہین کی۔ فتح الباری شرح صحیح بخاری (باب مناقب الحسن الحسین) میں
حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ فقلت لہ انی رائیت رسول اﷲ ﷺ یلثم
حیث تضع قضیبک۔ قال فا نقبض‘‘ ’’ میں نے اس سے کہا کہ جہاں تو اس وقت چھڑی
رکھ رہا ہے وہاں میں نے رسول اﷲﷺ کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اس پر اس(
بد بخت) کا منہ بند ہو کے رہ گیا۔‘‘ ۔ یزیدی لشکر نے میدان کربلا میں حضرت
امام حسینؓاور خانوادہ نبوت کی دیگر پاکباز ہستیوں کا جوبہیمانہ قتل کیا یہ
اسکا انتہائی قبیح اورسیاہ کارنامہ ہے ۔ اس ظالم نے شہر نبی مدینہ منورہ پر
چڑھائی کی توظلم و ستم اور شرم و حیا کی ساری حدیں پار کردیں۔ امام دارمی
نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے کہ جنگ حرہ کے دوران تین دنوں تک مسجد نبوی
میں اذان ہوئی نہ اقامت۔ مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے۔ صرف سعید بن مصیبؓ
نے مسجد نبوی کو نہیں چھوڑا اور چھپ کر وقت گزارتے رہے۔ انہیں رسول ﷺ کی
قبر انور سے اذان کی آواز آتی تھی اور اس کے مطابق نماز کی ادائیگی کرتے
تھے۔ علامہ یاقوت حموی نے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ اس دوران یزیدیوں نے
سترہ سو انصار، تیرہ سو قریش اور ساڑھے تین ہزار دیگر ہستیوں کو قتل کیا۔
لوگوں کے مال لوٹے اور تین دن تک یزید کے حکم سے مدینہ میں ہر ناجائز کام
ان ظالموں کیلئے حلال تھا۔ مدینہ شریف کی عفت مآب اور پاکباز عورتوں سے جو
سلوک کیا گیا اور جس طرح ان کی عزتوں کو تار تار کیا گیا انہیں لکھتے ہو ئے
میرا قلم بھی شرما رہا ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد یزید پلید کے حکم سے
مکہ مکرمہ کا رخ کیا گیا۔ حرم کعبہ کا محاصرہ کیا اور خانہ کعبہ شریف پر
منجنیق کی مدد سے پتھراؤ کیا گیا۔ خانہ کعبہ شریف میں آگ لگی اور پردے جل
گئے۔ حرم کعبہ میں حضرت اسماعیل ؑ کے فدیے میں جنت سے بھیجے گئے دنبے کے
سینگ محفوظ چلے تھے اور اسی واقع میں وہ بھی جل گئے۔ اس بد بخت یزید کے
ہاتھوں حرمین شریفین کی حرمت پامال ہوئی۔ صحابہ کرام کی توہین اور عترت
رسولﷺ کے خون سے اس کے ناپاک ہاتھ رنگین ہوئے۔ اس کے بعد اس کو مہلت نہ ملی
اور ذلیل و رسوا ہو کے مر گیا۔ جو لوگ غلط فہمیوں کا شکار ہو کر یزید پلید
کی قصیدہ خوانیاں کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ غور کریں کہ آخری وقت میں اس
کا انجام لعنتی کارناموں پر ہوا۔ اگر دل میں زرا بھر بھی نبی کریمﷺ، حرمیں
شریفین، آل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی اجمعین کی محبت کی رمق
موجود ہے توفیصلہ خود کیجئے کہ وہ لعنت کے طوق کا مستحق ہے یا جنت کا
حقدار؟ |