آج ہر طرف سے لبیک یا حسین کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں، ہر
شخص خواہ کسی بھی مذہب و ملت سے تعلق رکھتا ہے وہ کسی بھی رنگ و نسل اور
قوم کا ہے، صدیاں بیت جانے کے بعد بھی حسین زندہ باد کے نعرے بلد کرکے یذید
مردہ باد کہہ کر اس سے اپنی نفرت کا اظہاررہا ہے، اور ادیان عالم کے
پیروکاروں سے سوال کر رہا ہے کہ کون کہتا ہے کہ حسین کو شکست ہوئی اور یذید
فاتح ہوا……امام حسین علیہ السلام کو محض یہ کہہ کر ’’انہوں نے کربلا کے
ریگستان میں اپنی اور اپنے رفقائے کار کی عظیم قربانی دیکر بھائی چارے کا
درس دیا ہے‘‘ ایسا کہنا دراصل امام حسین کو خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش
نہیں کیا جا رہا بلکہ ان کی قربانی کو غلط رنگ دیکر ’’ کربلا میں امام حسین
علیہ السلام کے قیام کے مقصد پر پردہ ڈالا جا رہا ہے ‘‘مدینہ نبوی کو
خیرباد کہنا اور حاکم مدینہ کو بھرے دربار میں بیعت کے مطالبے پر یہ کہنا
کہ’’ میرے جیسا یذید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا‘‘امام حسین علیہ السلام کے
مقصد قیام کو واضع کرنے کے لیے کافی ہے،
حاکم مدینہ نے امام حسین علیہ السلام کو دربار میں طلب کرکے بیعت یذید کا
معصوم مطالبہ کیا تھا ، جسے امام حسین علیہ السلام نے اپنے عزیز و اقارب سے
مشورہ کیے بغیر موقعہ پر ہی مسترد کردیا تھا،حاکم مکہ سمیت یذید کے تمام وہ
رفقاء جنہوں نے اسے امام حسین علیہ السلام سے بیعت لینے کا مشورہ دیا تھا
شائد وہ خون محمد و علی ابن ابی طالب سے واقف نہیں تھے ، مدینہ نبوی جہاں
امام مقام کے نانا جان جن پر ہم سب کے ماں باپ قربان، حضور نبی کریمﷺ
اورانکی والدہ ماجدہ گرامی قدر جو خیرالنسا ہیں،دونوں جہان میں خواتین کی
سردار ہیں ،کی قبریں تھیں جو انکے دل کا سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک تھیں
انہیں چھوڑ کر پہلے مکہ پہنچنا اور حج بیت اﷲ کے لیے باندھے احرام توڑ نا،
پھر کربلا کے میدان میں تشریف لانا اس بات کا واضع اظہار ہے کہ جگر گوشہ ء
پیغمبر امام علی ابن ابی طالب شیر خدا فاتح خیبرو خندق ، نورالعین فاطمہ
زہراء کے دل کے چین کو بیعت کے لیے مجبور کیا جاتا رہا…… مکہ مکرمہ میں حج
کے لیے باندھے احرام ٹوڑنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں انہیں حجاج کرام
کے ہجوم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہید کرنے کا منصوبہ تھا جس کی خبر پاکر امام
حسین علیہ السلام نے احرام توڑنا اور حج کیے بغیر مکہ سے نکلنے کا فیصلہ
کرکے اپنی شہادت کی سازش کو ناکام بنایا اور امام عالی مقام کی جانب سے
یذید اور اسکے حواریوں کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے حج کا ارادہ ترک کرنا
اور اھرام کا توڑنا بہترین حکمت عملی تھی، ورنہ یذیدیوں کا پروگرام امام
حسین کو حاجیوں کے ہجوم گمنانی کی موت مارنے میں کامیاب ہوجاتے۔
سات محرم الحرام کے اخبارات میں ایک مولانا صاحب جوآجکل میڈیا کے بھاری
بھرکم اینکرپرسن بنے ہوئے ہیں کا بیان نظروں سے گزرا ،مولانا موصوف فرماتے
ہیں کہ ’’ کربلا کاواقعہ مظلوموں کا ساتھ دینے اور قربانی و ایثار کا درس
دیتا ہے‘‘ ایک مولانا صاحب کی طرف سے ایسا بیان پڑھ کر میری حیرت کی انتہا
نہ رہی ،کیونکہ واقعہ کربلا ظالم و جابر ،غیر منتخب، آمر اور فاسق و فاجر
حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی لازوال داستان حریت ہے،مگر ایسے بیانات
دیکر عوام کو گمراہی کی جانب لیجانے کی کوشش کی جا رہی ہے ،امام حسین علیہ
السلام اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ اس قلیل تعداد کے ساتھ حکمرانوں
کوظاہری طور پر شکست دینا ممکن نہیں لیکن پھر بھی امام عالی مقام نے ظلمت
کے سائے میں خاموش رہنا غفلت سمجھا اور فاسق و فاجر حکمران کے خلاف صف آرا
ہوئے۔ اور ہمیں پیغام دیا کہ جب بھی کبھی تمہیں جابر ،ظالم اور فاسق و فاجر
حکمرانوں کا ساتھ دینے کا مطالبہ درپیش ہو تو تم ہر گز ہرگز اسکی بیعت یعنی
اسکے حق میں ووٹ نہ دینا بلکہ اس کو للکار کر میری سنت پر عمل پیرا ہونا۔
آج ہمارے ارد گرد کتنے یذید اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے میں مصروف عمل ہیں
،مساجد،امام بارگاہوں، سمیت دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کو بم دھماکوں سے
اڑا رہے ہیں، انسانی زندگیاں تباہ وبرباد کی جا رہی ہیں اور یہ وقت کے یذید
اپنی ان گھناؤنی حرکتوں کو اسلام کے عین مطابق قرار دیتے ہیں ،ہم ان اسلام
دشمن یذیدیوں کی نشادہی کرنے ،انکے عاستے میں حائل ہونے کی بجائے انہیں
چندہ دیکر مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ علمائے دین ،سیاسی راہنماؤں کا فرض
ہے کہ وہ مصلحت سے کام لینے کی بجائے کھل کر میدان میں نکلیں اور انکا
راستہ روکیں ’’زبان ،ہاتھ سے جیسے بھی ممکن ہے اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم
میں اور یذیدی فکر کے علمبرداروں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں رہ جائیگا اس
لیے ہمیں کربلا سے آنے والی صداؤں پر کان دھرنے ہونگے اسی میں ہماری بقا ہے
یہی امام حسین علیہ السلام اور انکے رفقائے کار کا پیغام ہے
آج عالم اسلام تیونس سے لیکر شام تک ظلمت کے سایوں میں گھرا ہوا ہے، امریکہ
اور اسکے حواری مسلمانوں کے قتل عام میں مشغول ہیں ، فاسق و فاجر حکمران
عوام کی عزت و ناموس و آبرو سے کھیلنے میں مگن ہیں،اسرائیل قبلہ اول پر
قابض ہے اور فلسطین کے عوام کی نسل کشی کر رہا ہے،مصر ،لبیا، افغانستان،
سوڈان،عراق،میانمار ،بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک میں مسلمانوں کے خون سے
کھیلی جانے والی ہولی نے پورے کرہ ارض کو کربلا میں تبدیل کر رکھا ہے اور
ہر دن عاشورہ ہے ،یہ خون کی ہولی اور ظلم کی انتہا ایک اور’’ حسین‘‘ کی راہ
دیکھ رہی ہے،ایک اور بطل حریت کی متلاشی ہے کیونکہ ’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر
کربلا کے بعد‘‘ امام حسین علیہ السلام نے اپنے سے کئی گنا بڑے اور طاقت ور
دشمن سے ٹکر ا کر اﷲ کے دین کو دائمی بقاء عطا کی ہے اور ہمیں سبق چوڑا ہے
کہ اگر کبھی تمہارے حقوق سلب کیے جا رہے ہوں، ناجائز تنگ کیا جا رہا ہو،
کوئی غیر منتخب حکمران قابض ہوجائے تو اس خیال کو دل میں لائے بغیر کہ وہ
تم سے کہیں بڑا اور طاقتور ہے ’’صدائے احتجاج اور علم بغاوت بلند کرنے سے
غفلت کے مرتکب نہ ہونا۔
شہدائے کربلا کے پیغام کو آئندہ نسلوں تک قائم و دائم رہنا ہے کیونکہ جب تک
جابر ،ظالم ،فاسق و فاجر اور سب سے اہم یہ کہ جب تک غاضب حکمران عوام پر
زبردستی مسلط ہوتے رہیں گے امام حسین اور ان کے ساتھی کربلا سے انہیں
للکارتے رہیں گے، محض یہ کہنا کہ امام حسین اور ان کے رفقائے کار کی قربانی
ہمیں ایثار،بھائی چارے کا درس دیتا ہے خون حسین سے مذاق کے مترادف ہے اسکی
دلیل یہ ہے کہامام حسین علیہ السلام اور ان کے مٹھی بھر اصحاب ،عزیزو اقارب
نے یذید کو للکار کر ثابت کیا ہے کہ ظلم کے خلاف خاموشی اختیار کرنا اسے
تقویت اور قبول کرنے کے معنی میں لیا جائیگا اس لیے یذید صفت ہر حکمران کو
چیلنج کرنا ہی صحیح معنوں میں کربلا والوں سے محبت،عقیدت اور انکے پیروکار
ہونے کا ثبوت ہے، دنیا اسلام پر قابض حکمرانوں اور دیگر ممالک میں مسلمانوں
پر عرصہ حیات تنگ کرنے سے پورا کرہ ارض کربلا بن چکا ہے اور ہر طلوع ہونے
والا دن عاشورہ ہے اور کربلا سے ہمیں صدائیں دی جا رہی ہیں کہ اے حسینیوں
اٹھو اور ظالم حکمرانوں پر ٹوٹ پڑو ورنہ ایسے ہی سسک سسک کر زندہ رہنے سے
موت بہتر ہے۔ |