بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی
النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
گائے کے گوشت کے متعلق ایک صاحب کا بیان اخبار میں پڑھا ،جس میں موصوف نے
کہا کہ حضور اکرم ﷺ گائے ذبیحہ کے خلاف تھے۔ حالانکہ پوری امت مسلمہ قرآن
وحدیث کی روشنی میں گائے کے گوشت کے حلال ہونے پر متفق ہے۔ یقیناًمسلمانوں
کے لئے عید الاضحی کے موقع پر گائے ہی ذبح کرنا یا عام حالات میں گائے کا
گوشت کھانا فرض یا واجب نہیں ہے،لیکن یہ کہنا کہ حضور اکرمﷺ گائے ذبح کرنے
کے خلاف تھے، قرآن وحدیث سے عدم واقفیت کی علامت ہے۔ موصوف نے جس قول کا
سہارا لیا ہے وہ جمہور محدثین کے مطابق منکر ہے اور قابل عمل نہیں ہے۔ اس
کے مقابلہ میں قرآن کریم کی متعدد آیات اور حضورا کرم ﷺ کے ارشادات میں
واضح طور پر موجود ہے کہ گائے کا گوشت نہ صرف حلال ہے بلکہ قیامت تک آنے
والے انسانوں کے نبی اکرمﷺ نے بھی کھایا ہے۔ ہاں اگر مسلمان برادران وطن کے
ساتھ یکجہتی اور رواداری کے لئے گائے ذبح نہ کریں تو اس کی گنجائش ضرور ہے
مگر گائے ذبح کرنے کو شریعت کے خلاف قرار دینا یا یہ کہنا کہ حضور اکرم ﷺ
گائے ذبح کرنے کے خلاف تھے، سراسر غلط ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں گائے (سورۃ البقرہ) کے نام سے سب سے بڑی سورت
نازل فرمائی جس کی کل قیامت تک تلاوت ہوتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک
کلام میں 9 جگہ گائے کا اور10 جگہ بچھڑے کا ذکر فرمایا ہے۔ قرآ ن کریم (سورہ
ہود آیت نمبر 69اور 70) میں ہے کہ جب دو فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے
پاس ان کو یہ خوشخبری دینے کے لئے آئے کہ ان کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا (یعنی
حضرت اسحاق علیہ السلام) تو مہمان نوازی کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے بھنے ہوئے بچھڑے کا گوشت ان کے سامنے پیش فرمایا۔ سورہ الذاریات میں بھی
اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام
آیت نمبر 144میں وضاحت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کہ گائے اور بچھڑے دونوں حلال
ہیں۔
حدیث کی سب سے مستند کتاب صحیح بخاری ( کتاب المناسک، باب ذبح الرجل البقر
عن نساء ہ من غیر امرہن) میں ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
نے بیان کیا کہ قربانی کے دن ہمارے یہاں گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے
کہا کہ یہ کیسا ہے؟ (لانے والے نے) کہا کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنی ازواج (بیویوں)
کی طرف سے قربانی کی ہے۔ اس حدیث میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ آپ ﷺ نے
اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی اور ان کو کھانے کے لئے گائے کا
گوشت بھیجا۔
حدیث کی دوسری مستند کتاب صحیح مسلم (کتاب الزکاۃ۔ باب اباحۃ الہدیہ للنبی
ﷺ) میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت
میں گائے کا گوشت لایا گیا تو آپ ﷺ سے یہ کہا گیا کہ یہ گوشت حضرت بریرہ
رضی اللہ عنہا کو صدقہ میں دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ ان کے لئے صدقہ
اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔لہذا تم سب کھاؤ۔
خود حضور اکرم ﷺ نے بھی گائے کا گوشت کھایا ہے جیساکہ صحیح بخاری وصحیح
مسلم میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ
مقام صرار پر پہنچے تو آپ ﷺ نے ایک گائے ذبح کرنے کا حکم فرمایا۔ وہ ذبح کی
گئی اور سب لوگوں نے اس کے گوشت میں سے کھایا۔ صحیح مسلم۔ کتاب المساقاۃ ۔
باب بیع البعیر واستثناء رکوبہ
صحیح مسلم (کتاب الحج ۔ باب جواز الاشتراک فی الہدی) میں ہے کہ حضرت جابر
رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کا تلبیہ کہتے
ہوئے چل دئے، تو حضور اکرم ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ اونٹ اور گائے کی
قربانی میں باہم شریک ہوجائیں، سات سات آدمی ایک اونٹ یا ایک گائے کی مل کر
قربانی کریں۔
جب اللہ تعالیٰ نے گائے کے گوشت کو حلال قرار دیا ہے جیسا کہ سورۃ الانعام
آیت نمبر 144میں وضاحت کے ساتھ مذکور ہے۔ نیز ساری انسانیت میں سب سے افضل
حضور اکرم ﷺ سے گائے کا گوشت کھانے کا ثبوت احادیث نبویہ میں موجود ہے۔ عید
الاضحی اور حج کے موقع پر حضور اکرم ﷺ سے گائے کی قربانی کرنے کا واضح ثبوت
احادیث میں موجود ہے۔ نیز قرآن وحدیث کی روشنی میں ۱۴۰۰ سال سے امت مسلمہ
کے تمام مکاتب فکر گائے کے گوشت کے حلال ہونے پر متفق ہیں۔ تو ہمیں یا کسی
کو کیا حق حاصل ہے کہ ہم حضور اکرم ﷺ کی طرف ایسی بات منسوب کریں کہ جس کی
کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے۔ اور جو قول ذکر کیا گیا وہ کسی بھی حال میں
ہمارے نبی اکرم ﷺ کا فرمان نہیں ہے جیسا کہ محدثین نے وضاحت کے ساتھ ذکر
کردیا ہے۔ اور اگر تسلیم کربھی لیا جائے تو قرآن وحدیث کے واضح دلائل کی
روشنی میں یہی کہا جائے گا کہ اس سے مراد بے جا استعمال ہے، اور ظاہر ہے کہ
کسی بھی چیز کی کثرت نقصان دہ ہوسکتی ہے۔
قرآن وحدیث کے واضح حکم کے برخلاف کسی ایسے قول (گائے کے دودھ کو پیو کہ اس
میں شفاء ہے اور گائے کے گوشت سے بچو کہ اس میں بیماری ہے)کو دلیل کے طور
پر پیش کرنا جس کے متعلق جمہور علماء کا فیصلہ ہے کہ یہ حضور اکرم ﷺ کا
فرمان نہیں ہے، بالکل غلط ہے۔ نیز یہ قول دیگر سندوں سے بھی کتابوں میں
مذکور ہے جس میں گائے کے دودھ کو پیو کہ اس میں شفاء ہے تو مذکور ہے لیکن
دوسرا جملہ مذکور نہیں ہے، جو اس بات کی واضح علامت ہے کہ دوسرا جملہ بعد
میں کسی نے بڑھایا ہے۔
میں اپنے ہم وطن ہندو بھائیوں سے بھی یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہم آپ کے
جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لئے گائے ذبح نہیں کرتے ہیں بلکہ جس طرح آپ کی
کتابوں کے مطابق گائے ایک مقدس جانور ہے اسی طرح اس کائنات کے مالک، خالق
اور رازق کے کلام یعنی قرآن مجید میں اور ساری انسانیت کے نبی اکرم ﷺ کے
اقوال میں ہمیں گائے ذبح کرنے کی اجازت ہے اور بقر عید کے موقع پر اگر ہم
مسلمان گائے ذبح کرتے ہیں تو وہ آپ کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لئے نہیں
بلکہ اس عمل کو مقدس سمجھ کر ہی کرتے ہیں۔ نیز جس طرح تم گائے کی پوچا کو
عبادت سمجھتے ہو، اسی طرح عید الاضحی کے موقع پر مسلمانوں کا گائے کی
قربانی کرنا شریعت اسلامیہ میں عبادت ہے۔ |