شہادت وخلافت - (دوسری اورآخری قسط)

یہاں امام حسؓن کے غیرسیاسی طریق کارکی وضاحت ازحد ضروری ہے۔اس کیلئے پہلے ہمیں مستنداحادیث اوراسلامی تاریخ کی مستند کتابوں سے مددلینا ہو گی۔یزید کے مقابلے میں جوصورتحال حضرت حسیؓن کو پیش آئی اس سے کہیں زیادہ مشکل حضرت حسؓن کوحضرت معاویہ کے مقابلے میں پیش آ چکی تھی مگرآپ نے اس سے مختلف ردعمل کا اظہار کیاجس کانمونہ ہمیں حضرت حسؓین کے آخری خطبہ سے بھی ملتاہے جہاں حضرت حسین نے بھی جنگ وجدل سے بچنے کیلئے تین شرائظ پیش کی تھیں ۔(طبری جلد٤صفحہ ٣١٣)

احادیث کی کتب میں حسنین کے بارے میں بہت سے روائتیں ملتی ہیں جن میں حضرت حسؓین کیلئے زیادہ تر''محبت‘‘ کاذکر ہے جونواسہ ہونے کی حیثیت سے آپ کیلئے بالکل فطری ہے اوردوسری طرف امام حؓسن کے بارے میں جو روایات نہ صرف سنداً زیادہ قوی ہیں بلکہ فطری محبت سے آگے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔مثلاً حضرت ا نس ؓبن مالک فرماتے ہیں کہ:حسؓن بن علؓی سے زیادہ کوئی شخص نبی اکرمۖ سے مشابہ نہ تھا'' ۔طبعی مشابہت کے علاوہ یہ ایک واقعہ بھی ہے کہ صحیح روایات میں امام حسؓین کیلئے کوئی پیشگی کردارکا کوئی ذکر نہیں ملتا اور دوسری طرف یہ ثابت ہے کہ نبی اکرمۖ نے امام حؓسن کے بارے میں ایک عظیم کردار کرنے کی پیشین گوئی ارشادفرمائی تھی ۔

حضرت ابوبکؓرصدیق فرماتے ہیں کہ ''میں نے رسول اکرمۖ کومنبرپردیکھاجہاں حسؓن بن علؓی اآپ کے پہلومیں تھے ۔ ایک بار آپ ۖلوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اوردوسری بار ان کی طرف'اورفرماتے تھے یہ میرالڑکاہے ، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں میں صلح کروا دے ۔ (بخاری)

رسول کریم ۖ کی یہ پیش گوئی امام حسؓن کی زندگی میں حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی ۔حضرت امام حسن کی بیعت٤٠ھ میں اس حال میں ہوئی کہ مسلمانوں کی باہمی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔بنوامیہ اوربنوہاشم کی رقابت عروج پر تھی ، نہ تویہ ایک دوسرے کوختم کرسکے تھے اورنہ ہی ہارماننے کوتیار تھے ۔حضرت حسؓن نے جب بیعت لی توآپ نے لوگوں سے یہ اقراربھی لیاکہ''میں جس سے جنگ کروں گاتم اس سے جنگ کرو گے 'جس سے میں صلح کروں گاتم اس سے صلح کروگے''۔اب حضرت حسؓن کی خلافت گویاحضرت معاویہ کیلئے نیاچیلنج تھی۔اس کے مقابلے کیلئے میدان میں جہاں حضرت معاویہ کا ساٹھ ہزارکالشکر دمشق سے چلتامدائن کے میدان میں پہنچاتھاوہاں امام حؓسن بھی اتنی ہی قوت کالشکرکوفہ سے لیکر مقابلے میں آن کھڑے ہوئے تھے۔ گویاپہاڑوں کالشکرآمنے سامنے تھابلکہ امام حسؓن کے سپاہی توحضرت علؓی کے ہاتھ پر موت کی بیعت بھی کرچکے تھے اورلڑنے مرنے سے کم کسی چیزپربالکل آمادہ نہ تھے۔

مدائن کے میدان میں معاویہ بن سفیان نے امام حسؓن بن علؓی کویہ پیغام بھیجاکہ ''جنگ سے بہترصلح ہے'مناسب یہ ہے کہ آپ مجھے خلیفہ تسلیم کرلیں اور میرے ہاتھ پربیعت کرلیں''۔امام حسؓن نے غوروفکرکے بعداس پیشکش کو منظورفرمالیااورخلافت امیر معاویہ کے سپردکردی حالانکہ امام حسن کے پرجوش حامیوں کویہ ''بات''قبول نہ تھی۔آپ نے ایک تاریخی فقرے میں اپنا جواب دیا:
’’خلافت اگرمعاویہ کاحق تھاتوان کوپہنچ گیا'اگر میراحق تھاتومیں نے ان کو بخش دیا''۔

اس صلح کے بعدحضرت امیر معاویہ نے حضرت امام حسؓن کیلئے ایک لاکھ درہم سالانہ وظیفہ مقررکر دیا(حافظ ذہبی١لعبرجلد١صفحہ ٤٨

اس طرح امام حسؓن کے پیچھے ہٹ جانے سے مسلمانوں کاباہمی اختلاف باہمی اتفاق میں تبدیل ہو گیا اورمدائن کامیدان اسلامی تاریخ میں جمل وصفین کے بعدتیسری خونریزی کے عنوان سے بچ گیااورمسلمانوں کی وہ قوت جوخلیفہ ثالث کے زمانے سے باہمی جنگ وجدل میں مصروف تھی اورجن کی وجہ سے اسلامی فتوحات کاسلسلہ بھی ختم ہوچکاتھا'اب دوبارہ اسلامی فتوحات کی خبریں بہم پہنچارہاتھااوراسلام کی اشاعت وتوسیع جوان خانہ جنگیوں کی وجہ سے رک گئی تھی 'اس کابھی بنددروازہ جس نے کھولا وہ حضرت امام حؓسن ہی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیچھے ہٹناسب سے بڑی بہادری ہے ۔اگرچہ بہت کم لوگ ہیں جواس بہادری کیلئے اپنے آپ کو تیار کرسکیں'بظاہر تویہ میدان سے واپسی کا فیصلہ تھا'اس سے مسلمانوں کی قوت باہم مقابلہ آرائی سے بچ گئی اور اسی طاقت نے مسلمانوں کی فتوحات کا خارجی میدان میں سکہ بٹھادیا۔اگراس وقت حضرت امام حؓسن خلافت پراصرارکرتے توعجب نہیں مسلمان پہلی صدی ہجری میں آپس کی خانہ جنگیوں میں بربادہوجاتے اوراسلام جوآج ایک عالمگیر مذہب چین سے لیکر مراکش تک اپنی برکات سے ہمیں فیض یاب کررہا ہے اس کی شکل کچھ اور ہوتی توگویاغیرسرکاری طریق کار سے اختلاف کرنے کی ہمت پیدانہیں ہوتی کیونکہ بعد کے حالات نے حضرت حسؓن کے اس کردار کو بلاشبہ امت محمدیہۖ پر ایک گراں قدر احسان ثابت کیاہے۔

لیکن اس کے ساتھ حضرت حسؓین کے کردارپرنگاہ ڈالیں توان کے بھی طریق کارکوایسی تقویت ملتی ہے کہ جس نے ''خلافت علیٰ منہاج نبوت'' کے تحفظ 'دفاع اوراس کے احیاء کیلئے قربانیوں کی ایک ایسی پرعزم تاریخ رقم کی ہے جو قیامت تک مظلوموں کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔

حضرت امام حسؓین نے خلافت کے ادارے کوبچانے کیلئے کوفہ کے لوگوں کے سخت اصرارپراپنے چچازادبھائی حضرت مسلؓم بن عقیؓل کوکوفہ روانہ کیا' گو حضرت مسلؓم بن عقیل اس منصوبے سے متفق نہ تھے تاہم حضرت حسؓین کے اصرار پرکوفہ چلے گئے۔تاریخی کتابوں سے معلوم ہوتاہے کہ تقریباًاٹھارہ ہزار آدمی نیابتاًان کے ہاتھ پربیعت ہوچکے تھے لیکن جب یزیدکے حکم پر عبیداللہ بن زیادنے حضرت مسلؓم بن عقیل اوران کے کوفی میزبان ہانی بن عروہ کومحل کی چھت پر کھڑاکرکے قتل کردیاتوکوفہ والوں کوگویایزیدکاپہلاپیغام تھاکہ حضرت حسیؓن کی بیعت کی قیمت کیا ہو گی۔ اسی وقت کوفہ والے خاموش اپنے گھروں میں دبک گئے اورحضرت حسؓین جوکہ ان بے وفالوگوں کی قیادت کیلئے آدھے سے زیادہ سفر طے کرچکے تھے 'اپنے سفرسے بالکل واپس نہ لوٹے حالانکہ مکے میں تمام جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین نے ان کواس سفر سے منع کیا تھا ۔عبداللؓہ بن عمر ،عبداللؓہ بن عباس،عمروؓبن سعدؓبن العاص،عبدالرحمٰؓن بن حارث اور مکہ کے دوسرے بزرگوں نے شدت سے حضرت حسیؓن کومنع فرمایابلکہ حضرت عبداللؓہ بن زبیر نے کہاکہ آپ کوفہ جانے کی بجائے مکہ کی حکومت قبول فرمائیں' آپ ہاتھ بڑھائیں میں سب سے پہلے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتاہوں ۔عبداللؓہ بن جعفر بن ابی طالب نے مدینہ سے خط لکھ کربااصرارمنع کیالیکن حضرت امام حسؓین کی اولوالعزم طبیعت اس پرکسی طورراضی نہ ہوئی ،حتّیٰ کہ انہوں نے حضرت عبداللؓہ بن عباس کی اس آخری بات کو بھی ماننے سے انکارکردیا کہ عورتوں اور بچوں کومکہ میں چھوڑکرسفرکریں یاکم ازکم حج کے بعد روانہ ہوں جس میں صرف چنددن باقی ہیں۔

امام حسؓین ذوالحج٦٠ھ کے پہلے ہفتے میں کوفہ کے راستے میں حضرت عبدالؓلہ بن مطیہ سے جب ملے توانہوں نے بصد احترام حضرت امام حسؓین سے کہا: ''میں آپ کوقسم دلاتاہوں کہ آپ واپس مکہ تشریف لے جائیں'اگرآپ بنوامّیہ سے خلافت چھیننے کی کوشش کریں گے تووہ ضرورآپ کوقتل کرڈالیں گے اور پھرہرایک ہاشمی ہرایک عرب اورہرایک مسلمان کے قتل پردلیر ہوجائیں گے''۔لیکن حضرت امام حسؓین نے واضح الفاظ میں اپنے رفقاء کوبتادیاتھاکہ ان کے پیش نظر ''خلافت علیٰ منہاج نبوت''کے احیاء کے سواکچھ نہیں۔اسلامی نظام اطاعت میں خلافت کی جواہمیت ہے اس سے حضرت حسؓین پوری طرح باخبر تھے۔ اسلامی نظام اطاعت کے استحکام کیلئے اولی الامرکے ادارہ کو جس انداز میں رسول اکرمۖ اورخلفائے راشدین نے قائم فرمایاتھا'اس کے تحفظ اوردفاع کیلئے حضوراکرمۖ نے جوتاکیدفرمائی تھی وہ بھی حضرت حسؓین کے علم میں تھی۔معاویہ بن ابی سفیان کے مقررکردہ خلیفہ یزیدبن معاویہ نے اس ادارہ کی تعظیم اورتقدس کوختم کرکے رکھ دیاتھا۔اس ادارہ کے انہدام سے اسلامی معاشرہ کودینی اورسیاسی نقصان جوپہنچ رہاتھا اس کودیکھ کر حضرت حسؓین جیسی شخصیت کابیٹھ جانابڑامشکل تھا۔

تاہم آخر وقت میں کربلا کے میدان میں حضرت حسؓین کوصورتحال کااندازہ ہو گیاتھا۔حضرت مسلؓم بن عقیل کی شہادت 'کوفہ کے لوگوں کی بے وفائی 'یزید کے لشکر جرار کے مقابلے میں آپ کامختصرقافلہ بظاہرپہاڑاورچیونٹی کا مقابلہ لیکن حضرت حسیؓن نہائت بہادر'جرأت مند اورانتہائی شریف النفس تھے ۔ وہ موت سے بالکل خوفزدہ نہیں تھے مگراپنے ساتھ نیزعورتوں اوربچوں کیلئے اپنے دل میں جذبہ رحم کی پیدائش کوروکناان کیلئے ممکن نہ تھاچنانچہ آخری دن محرم الحرام کی دس تاریخ ٦١ھ کربلا کے میدان میں یزیدکی فوج کے سامنے جوتقریرفرمائی وہ فصاحت وبلاغت کا بے نظیر شاہکارہے ۔آپ نے دیگرباتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا:
’’عیسیٰ کاگدھااگرباقی ہوتاتوتمام عیسائی قوم قیامت تک اس کی پرورش کرتی 'تم کیسے مسلمان اورامتی ہوکہ نبیۖکے نواسے کوقتل کرناچاہتے ہو‘‘!

دراصل کوئی دوسری قسم کامسئلہ ہوتاتوکوفی مسلمان شائدعیسائیوں سے چار ہاتھ آگے ہوتے لیکن یہاں یزیدکے لشکر کے سامنے نواسہ رسولۖ ان کے سیاسی حریف کے طورپرکھڑے تھے اورسیاسی حریف کونہ مسلمان بخشنے کوتیارہوتے ہیں نہ عیسائی ۔وہی یزیدجس نے ٦٤ھ میں مدینہ پرچڑھائی کی تھی اس نے مسلم بن عتبہ کوتاکیدی حکم دیاتھاکہ حضرت امام حسؓین کے صاحبزادے حضرت زین العابؓدین کاپوراپوراخیال رکھنا کیونکہ وہ مدینے میں سیاسی زندگی سے الگ ہوکرمدینہ کے نواح میں الگ تھلگ زندگی گزاررہے تھے کیونکہ یزیدنے اپنے باپ سے سیاست کا ایک اصول ورثے میں جولیاتھا اس پربڑی سختی سے کاربند تھا:''میں لوگوں اوران کی زبانوں کے درمیان اس وقت تک حائل نہیں ہوتاجب تک وہ ہمارے اورہماری سلطنت کے درمیان حائل نہ ہوں''۔(ابن تاثیرکامل جلد٤صفحہ٥)

چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ آخروقت میں حضرت حسین یزیدسے صلح کیلئے راضی ہوگئے تھے ۔انہوں نے یزیدکے نمائندے عبیداللہ بن زیادکے سامنے تجاویز پیش کیں:
١۔میں مکہ واپس چلاجاؤں اوروہاں خاموشی کے ساتھ عبادت الٰہی میں مشغول ہوجاؤں۔
٢۔مجھے کسی سرحدکی طرف نکل جانے دوکہ وہاں کفارسے لڑتاہوا شہید ہو جاؤں۔

حضرت حسین کے رویے میں تبدیلی سے یزیدکی فوجوں میں خوشی کی لہر دوڑگئی'اگرچہ کربلاکے میدان میں وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء تھے 'اس کے باوجودنواسۂ رسول کے احترام کایہ حال تھاکہ دونوں طرف کے لوگ مل کرنمازاداکرتے تھے اوراکثرحضرت حسؓین ہی کی اقتداء میں نمازاداکرتے تھے ۔ عبیداللہ بن زیادکے پاس جب یہ پیغام پہنچاتووہ بھی بغیرلڑائی کے اس عمدہ حل پربہت خوش ہوالیکن اس کامشیر شمرذی الجوشن جوکہ حضرت حسؓین کا پھوپھااورانتہائی بری طبیعت کامالک تھا'اس نے عین وقت پرعبیداللہ بن زیادکاذہن پھیردیا۔اس نے حضرت حسؓین کے لوٹنے کے سارے راستے بند کر دیئے اوربالآخرکربلاکاوہ معرکہ جس میں عمروبن سعد نے پہل کرکے حضرت حسؓین کے قافلے پرپہلاتیرپھینک کراس کاآغازکیاتھاجس کاانجام حضرت حسؓین کی شہادت پرمنتج ہوا۔یہاں قابل ذکربات یہ ہے کہ عمروبن سعد حضرت حسؓین کارشتے میں ماموں اورشمرذی الجوشن پھوپھاتھا۔

تاریخ کے ان دوکرداروں پرملت اسلامیہ قیامت تک جتنابھی فخرکرے کم ہے۔ گوحضرت حسؓین نے بھی آخری وقت میں حضرت حسن کے غیرسیاسی طریقہ کارکوبھی عمل میں لانے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ کوحضرت حؓسین سے ''خلافت علیٰ منہاج نبوت''کے تحفظ اوردفاع کاکام لیکر ان سے بے مثال قربانی لینامقصود تھی اوران کی شہادت سے امت مسلمہ تک یہ پیغام پہنچانا مقصودتھا کہ حالات کیسے ہی پرآشوب اوردگر گوں ہوں 'اسلامی نظام حکومت، اسلامی نظام اطاعت کے قیام ونفوذجوکہ ایمان کے اوّلین تقاضوں میں سرفہرست ہیں کی کوشش ہروقت،ہرزمانے میں جاری رکھنی چاہئے جب تک خلافت کے ادارہ کو مکمل اس کی اصلی شکل میں بحال نہ کرلیاجائے ۔اس کے علاوہ بھی ان کرداروں میں بے شماردوسرے اسباق ہمارے لئے موجودہیں'صرف شرط یہ ہے کہ ہم خودمخلص ہوں۔
خوشاوہ آبلہ پاکارواں اہل جنوں
لٹاگیاوہ بہاروں پہ اپنی سرخیٔ خوں
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390686 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.