بھارت: انتہاپسند ہندوؤں نے سیکولرازم کا پردہ چاک کر دیا

 انتہا پسندی اور عدم برداشت کے پے در پے دلخراش واقعات نے بھارت کے سیکو لرازم کا پردہ چاک کردیا ہے۔ تنگ نظری پر مبنی ’’ ہندوتوا ڈاکٹرائین‘‘ کے زیر اثر مذہبی شدت پسندی اور عدم برداشت بھارت جیسے کثیرالمذا ہب ، کثیرالثقا فت اوربڑی جغرافیہ والی مملکت کو تباہ کر کے تقسیم کر سکتی ہے۔ اگر چہ بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی میں اسکا امکان کم ہے لیکن سچ یہی ہے کہ بھارت کی سا لمیت اور بقا ء کا راز حقیقی سیکو لر ازم کے استحکام اور ہمسا یہ مما لک سے اچھے تعلقات میں ہے ۔

بھارتی انتہا پسندی کے وہ واقعات اور سانحات قبل ذکر ہیں جن سے بھار تی سیکولر ازم کا پردہ چاک ہو چکا ہے۔

ماہ ستمبر دارُ الحکومت دہلی سے پچاس کلو میٹر دور ’’دادری‘‘ کے علاقے قریبی مندر سے اعلان ہوا کہ اخلاق احمد کے گھر فریج میں گائے کا گوشت ہے ۔ جبکہ اصل میں وہ بکرے کا گوشت تھا۔ ہندو گائے کو مقدس سمجھتے ہیں۔ اسی رات 100 افراد کے مشتعل ہجوم نے اخلاق احمد کے گھر دہاوا بول دیا۔ اور اخلاق احمد کو اینٹیں اور لاٹھیاں مار مار کر ہلاک جبکہ اسکے بیٹے کو شدید زخمی کردیا ۔

بھارتی انتہا پسندی کا دوسرا وا قعہ اکتوبر میں پیش آیا۔ 20 سالہ نعمان اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ تجارت کے لئے ٹرک کے ذریعے مال مویشی لیکر جا رہا تھا۔ بجرنگ دل کے انتہا پسند کار کنوں نے ٹرک میں گائے کی مو جو دگی کی وجہ سے نعمان کو مار مار کر ہلاک اور دیگر ساتھیوں کو شدید زخمی کردیا۔
میڈیا پر ابھی اس واقعہ کا شور برپا تھا کہ 12 اکتوبر کو دنیا نے بھارت کے انتہا پسندووں اور جنونیوں کا ایک ا ور روپ دیکھا۔ سدھیندر کلکرنی بھارت کی ایک معروف شخصیت ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے سابق وزیر خار جہ خو ر شید قصوری کو اپنی کتاب کی تقریب رو نمائی کے لئے بھارت بلایا تھا۔ تقریب میں شیو سینا کے انتہا پسند کارکنوں نے امن پسند کلکرنی کے چہرے پر سیاہی پھینک کر کالا کردیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ شیو سینا کے انتہا پسندوں نے کلکرنی کا چہرہ نہیں بلکہ اصل میں بھارت کے سیکو لر ازم کا چہرہ کالا کر دیا ہے ۔
انتہا پسندوں نے اپنی تنگ نظری سے کتاب کی تقریب رونمائی کے لئے گھر آئے مہمان اور اپنے ہم وطن میز بان دونوں کو شرمندہ کردیا۔ بھارت کا سیکو لر ازم شیو سینا کے ہاتھوں بھر ے میڈیا کے سامنے رُسوا ہو گیا۔

12اکتوبر کو ہی فرید کوٹ ضلع کے متصل علاقے میں اس وقت فسادات پھوٹ پڑے جب سیکھوں کے مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کی بے حرمتی کی گئی۔ دو افراد ہلاک اور 82 زخمی ہوئے۔ سکھوں کا احتجاج بھارت کے علاوہ سری نگر۔۔۔۔ بھی پہنچ گیا ہے۔

یہاں قا رئین کی توجہ اس جانب بھی کرا دیں کہ جنونیت اور حیوانیت کی ایک اور شکل بھی بھارت کے چہرے پر کالک مل رہی ہے۔ اور وہ یہ کہ دہلی کو بھارت میں ’’ریپ کپیٹل آف دی کنٹری ‘ ‘ کہا جاتا ہے۔ اس شہر میں آئے روز لڑکیوں کا ریپ کیا جاتا ہے۔ کبھی بسوں میں آتی جاتی خواتین کو تو کبھی گھرکے قریب سے ڈھائی اور پانچ سال کی معصوم بچیوں کو اٹھا کرانکے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال بھارت میں ۔۔۔۔۔ جنسی ذیادتی کے 36000 ہزار واقعات ہوئے تھے۔

حالیہ واقعات کے علاوہ اگر ہم بھارت کے ماضی میں جھانک لیں تو ہندو انتہا پسندی کے لا تعداد وا قعات ثابت کرتے ہیں کہ عدم برداشت اور غیر ہندو اقوام سے نفرت شروع سے بر ہمنوں کے سرشت میں شامل تھی۔

اس سلسلے میں سب سے بڑی مثال بھارت ماتا کا ٹوٹ کر ، پاکستان کا قیام ہے۔ مسلمان اور ہندو صدیوں اکھٹے رہے لیکن ایک قوم نہ بن سکے۔ ہندوؤں نے کبھی مسلمانوں کے الگ شناخت کو تسلیم نہیں کیا۔ ا نکے ا سی انتہا پسندی ،تنگ نظری ،تعصب اور مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے قائداعظم کانگریس سے ہوئے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے ۔ اسکے بعد مسلمانوں کے لئے الگ وطن کی جدوجہد کا آغاز ہوا ۔ تا ریخی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا قیام ہندو ؤں کی انتہا پسندی کا نتیجہ ہے۔

بھارتی تاریخ کا ایک اور واقعہ بتاتا ہے کہ سیکولر ازم کے دعوؤں کے برعکس ہندو انتہا پسندی اور عدم برادشت کی تاریخ خوفناک بھی ہے اور خونی ہے ۔ وہ واقعہ ’گو لڈن ٹیمپل‘ پر انڈین آرمی کی یلغار اور اسکے بعد سکھوں کا قتل عام تھا ۔ سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کی طرح سکھ قوم بھی بھارتی انتہا پسندی ریاستی دہشت گردی کا شکار رہی ہے ۔ جب ہندوؤں کی نفرت اور عدم رواداری بہت بڑھ گئی تو سکھوں نے ہندوؤں سے علیحدگی کی تحریک شروع کر دی ۔ 1982 میں سکھ علحیدگی پسندوں نے جرنیل سینگھ بھینڈرانوالا کی قیادت میں امر ت سر میں واقع سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل میں رہائیش اختیا کرلی تھی۔

تین جون تا 8 جون 1984کو ا ندرا گاندھی کے حکم پر سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف ’’آپریشن بلیو سٹار‘‘ کے نام سے گولڈن ٹیمپل پر ہیلی کاپٹروں کے علاوہ توپ خانے کے شدید گولہ باری سے سکھوں کے مقدس مقام اور انکے مقدس کتابوں کی توہین کی گئی تھی۔ اس آپریشن میں سینکڑوں سکھ بشمول جرنیل سینگھ بھینڈ رانوالا مارے گئے۔ اس واقعہ سے پوری دنیا میں سکھ برادری میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا ۔ اسے سکھ مذہب پر حملہ تصور کیا گیا جسکے نتیجہ میں 31 اکتوبر1984 کے دن اندراگاندھی کو اسکے دو سکھ باڈی گارڈز نے قتل کر دیا۔

اسکے اگلے دن یکم نومبر 1984 کو ملک بھر میں حکومتی سر پرستی میں سکھوں کا ’’قتل عام‘‘ کیا گیا۔انکے گھروں، دوکانوں اور خود سکھو ں کو بھی جلایا گیا۔ تقریباََ تین ہزار سکھ دہلی اور آٹھ ہزار ملک کے دیگر حصوں میں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے تھے ۔

تین دن کے لئے دہلی کے جیل، سب جیل ا ور لاک اپ کھول دیئے گئے۔عادی مجرموں کو کہا گیا کہ ’’ سکھوں کو سبق سیکھا دو‘‘

ہندو ہجوم ہاتھوں میں لوہے کے راڈ، چاقو، ڈنڈے اور مٹی کا تیل اور پیٹرول لیکر سکھ آبادیوں میں گھس جاتے۔جہاں سیکھ دیکھتے ، اسے مار مار کر ہلاک کر دیتے تھے اور انکے دکانوں اور گھروں کو آگ لگاتے تھے۔دہلی کے آس پاس بسوں اور ٹرینوں میں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر سکھوں کو نکالا جاتاپھر ان پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی جاتی تھی۔ سکھ خو اتین کیساتھ گینگ ریپ کیا گیا تھا۔

یہ خوفناک ظا لمانہ واقعات سکھوں کی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں جو ہندوؤں کے عدم رواداری اور مصنوعی سیکولر ازم کو ظاہر کرتے ہیں۔

اسی طرح مسلم اقلیت سے نفرت کا ایک واقعہ بھی قابل ذکر ہے ۔ 6 دسمبر 1992کواتر پردیش میں ایودھیا کے مقام پر واقع 450 سال پرانے بابری مسجد کا انہدام ہندو انتہا پسندی کی بد ترین مثال ہے۔ یہ تاریخی دہشت گردی بی جے پی، آر ایس ایس اور ویشوا ہندو پریشد کی مشترکہ کاروائی تھی۔ ’’ہندوتوا‘‘ (بھارت پر مکمل ہندو غلبہ ) کے فروغ کے لئے اس رتھ یاترا کی کمان ایل کے ایڈوانی، واجپائی اور کلیان سینگھ کے ہاتھ میں تھی ایک لاکھ پچاس ہزار انتہا پسند کارکنوں نے بابری مسجد پر حملہ کر کے تاریخی مسجد کو لمحوں میں شہید کر دیا تھا۔اس کے نتیجے میں بمبئی، کان پور، احمد آباد، سورت، دہلی اور دیگر شہروں میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ہزاروں مسلمانوں کو شہید جبکہ انکی کروڑوں مالیت کی پراپرٹی کو برباد کیا گیا تھا۔یہ مسلمانوں اور مسلم ثقافت سے نفرت کی خوفناک مثال ہے۔بابری مسجد گرا کر اسکے جگہ ’ رام مند‘ر کی بنیاد رکھنے سے بی ج پی کو ملک گیر شہرت اور طاقت مل گئی۔ اس انتہا پسندانہ کاروائی کے بعد ہی ا سے ہر انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں ملنا شروع ہوئی تھیں۔

ہندوؤں کی مسلم ڈشمنی ایک اور سانحہ سے بھی ثابت کی جا سکتی ہے ۔ 2002 میں گجرات فسادات میں دنیا نے بھارتی بربریت کا ناقابل فراموش خونی منظر دیکھا۔ نریندرا مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انہی کی سرپرستی میں انتہا پسندوں نے 2000 سے ذائد مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ اکثر مسمانوں کو زندہ جلایا۔ شیرخوار بچوں کے معصوم جسموں میں نیزے مار کر اوپر اٹھائے جاتے اور پھر آگ میں پھینک دیئے جاتے تھے۔ مسلمان عورتوں کو بے لباس کر کے پہلے پریڈ کرا ئی جاتی، پھر اجتماعی ریپ اور آخر میں انکے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے آگ لگا دی جاتی تھی۔

گجرات فسادات میں ’’گلبرگ سوسا ئٹی قتل عام‘‘ کو شہرت ملی ۔ جس میں کانگریس پارٹی کے سابقہ ممبر پارلیمینٹ احسان جعفری سمیت اکتیس مردوں، عورتوں کو زندہ جلایا گیا تھا۔ پولیس اور انتظامیہ کی سر پرستی میں سوسائٹی کے گھروں کو آگ لگائی گئی تھی۔ اسی واقعہ میں کل انسٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بلوائیوں نے بعض مسلمانوں سے زبردستی پہلے ’ ’جئے شیری رام‘‘ کا نعرہ بھی لگوایا ۔ صرف ایک خاتون زکیہ جعفری کسی طرح بچ گئی جو نریندرا مودی کو سزا دلوانے کے لئے آج بھی عدالتوں کے چکر لگا ر ہی ہے۔ جبکہ سنگدل نریندر مودی مارے جانے والے مسلمانوں کے لئے افسوس کا اظہار بھی نہیں کرنا چاہتا ہے۔ لگتا ہے کہ ان منظم فسا دات کا مقصد مسلم نسل کشی تھا۔ بھارت کے سابق چیف جسٹس آف سپریم کورٹ ’’وی این کھرے‘‘ نے ایک انٹرویو میں نریندر مودی کو اس قتل عام کا ذمہ دار قرار دیاتھا۔

ؓ بھارت میں مسمانوں اور سکھوں کی طرح عیسائی بھی ہندو انتہا پسندی کا شکار ہے۔ 31 اگست 2008 کو بھارتی عیسائیوں کی تاریخ کا خوفناک واقعہ پیش آیا تھا۔ اس دن ہندو انتہا پسندون نے ’’اُڑیسہ‘‘ میں تقریباََ 100 عیسائیوں کا قتل عام کیا تھا۔ تین سو چرچ او ر چھ ہزار گھروں پر ہندوؤں نے حملہ کر کے پہلے لوٹ مار کی تھی پھر آگ لگا دی تھی۔ عیسائی خوا تین کے ساتھ زیادتی بھی کی گئی تھی۔ 28 جون 2014 کو ’نارپور‘ گاؤں میں پچاس عیسائیوں کو زبردستی ہندو بنایا گیا تھا۔

بھارت کا اصل چہرہ وہ نہیں جو سنیما اور ٹی وی سکرین پہ نظر آتا ہے۔ جس میں سیکولر ازم اور روشن کا پرچار کیا جاتا ہے۔ بھارتی سماج کا اصل چہرہ وہ خوفناک تضادات ہیں جنکی پیچیدہ جڑیں ہندو مذہب میں جا ملتی ہیں۔ اونچ نیچ ذاتوں پر مشتمل طبقا تی اور معاشرتی تقسیم ہزاروں سال پرانی ہو کر آج بھی اسی طرح ہندو سماج کا لازمی حصہ ہے۔ ہزاروں برس سے برہمنوں کا ظلم وجبر سہہ کر بھی کو ئی دلت ، اچھوت یا شودر ا علیٰ ذات کا ہندو نہیں بن سکتا۔

بی جے پی راشٹریہ سوک سینگھ کا بازو ہے۔ یہی ’ ’ ہندوتوا‘‘ کے اصل کرتا دھرتا ہیں جو بھارت کو ایک ہندو مذہبی ریاست بنا نا چاہتے ہیں۔ یہی انتہا پسند ہیں جو غیر ہندوؤں کو زبر دستی ہندو بنا رہے ہیں لیکن بی جے پی کو ایک غلط فہمی ہے کہ بھارت کے 20 کروڑ مسلمان شودروں کی طرح ہر بار بھارتی انتہاپسندی اور ظلم و جبر پر ہمیشہ خاموش رہیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندوؤں کی انتہا پسندی، عدم برداشت اور مسلم دشمنی ہی کی وجہ سے پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اور اگر بھارت کے انتہا پسند اِسی طرح مسمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے رہے تو پھر تاریخ بھی اپنے آپکو اُسی طرح دہرائی گی۔ جو عوامل اور وجو ہات تقسیم ہند کا سبب بنے تھے آج پھر بی جے پی سرکار میں بھارتی انتہا پسندی سے وہی عوامل پوری قوت سے وجود میں آ رہے ہیں۔

بی جے پی حکومت کی سر پرستی میں ’’ہندوتوا ‘‘ کے فروغ کے لئے مذہبی شدت پسندی اور اسے زبردستی ایک ارب کی آبادی پر مسلط کرنے سے بھارت کی داخلی سلامتی کو آگ لگ سکتی ہے۔ اگر سکھوں ، مسمانوں اور دیگر اقلیتوں کے مذہبی جذبات اسی طرح مجروح ہوتے رہے تو آذاد خالصتان ، ناگالینڈ ، میزولینڈ، کشمیری کی تحریک آذادی ، انڈین مجا ہدین اور دیگر آذادی کی تحریکوں کی چنگاریاں کسی بھی وقت خوفناک آگ کی شکل اختیار کر ستی ہے۔

ٓانتہا پسندی سے بھارتی سیکولر ازم کا پردہ چاک ہو چکا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قا ئد ا عظم کا پاکستان کا مطالبہ درست تھا۔ ہم قائد اظم کی دور بین نگاہی اور بصیرت کو اس طرح خیراج عقیدت پیش کر سکتے ہیں کہ ہم اپنے آزاد وطن کی قدر کریں۔
akbarkhan
About the Author: akbarkhan Read More Articles by akbarkhan: 10 Articles with 15129 views I am MBA Marketing and serving as Country Sales Manager in a Poultry Pharmaceutical Pakistani Company based at Karachi. Did BA from Punjab University... View More