پسماندہ پرائیویٹ سکولز کے تحفظات

پرائیویٹ سکولز کی جانب سے فیسوں میں اضافے پر ملک بھر شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے والدین سراپائے احتجاج ہی نہیں بلکہ عدالت کے دروازے تک بھی جا پہنچے ہیں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے پرائیویٹ سکولز کی ایسو سی ایشنز بھی عدالت کا رخ کر چکی ہیں گورنمنٹ نے نئے آرڈیننس کو پاس کرنے کے بعد اس پر عمل درآمد کا تہیہ کر رکھا ہے عمل میں اس لئے تاخیر ہو رہی ہے کہ پرائیویٹ سکولز مالکان نے عدالے سے stay لے رکھا ہے پرائیویٹ سکولز مالکان کے اس پر تحفظات ہیں جن کا تذکرہ ازحد لازم ہے ۔

ہمارے ہاں فیسوں کے اعتبار سے بنیادی طورپر تین طرح کے تعلیمی ادارے ہیں ایک وہ ادارے ہیں جن کی فیس ایک لاکھ ماہانہ سے پندرہ بیس ہزار تک ہے انھیں ایلیٹ کلاس سکولز کہا جاتا ہے ،یہاں تعلیم حاصل کرناعام شہری کے بس میں نہیں ہے غریب اور درمیانہ طبقہ کے لوگ ان تعلیمی اداروں کے باہر سے گیٹ ہی دیکھ سکتے ہیں اور کچھ نہیں ۔دوسرا درجہ اس سے کم فیس والے تعلیمی اداروں کا ہے ان کی فیسیں پندرہ سے تین ہزار تک ہیں جبکہ تیسرا درجہ تین ہزار سے دو سو روپے(مزید دو درجوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جن کی فیس تین ہزار سے نو سو تک ہے اور باقی آٹھ سو سے دو سو والے ادارے ہیں) تک والے تعلیمی اداروں پر مشتمل ہے ۔پہلے دو درجات کے حامل تعلیمی اداروں کی تعداد بہت کم ہے جبکہ تیسرے درجہ کے سکولز گلی، محلہ میں قائم ہیں جہاں غریبوں کے بچے معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن اتنی معیاری نہیں جتنی مندرجہ بالا دو درجات کے سکولز ۔۔۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے حوالے سے گورنمنٹ نے ایک آرڈیننس پاس کیا ہے جس کی شرائط اس قدر سخت ہیں کہ تیسرے درجہ کے نوے فیصد سکولز اس پر پورا اتر ہی نہیں سکتے ،حکومت نے تینوں درجات کے حامل سکولز کیلئے ایک جیسی شرائط عائد کرکے پسماندہ علاقوں میں مقیم بچوں کو تعلیم دینے والے تعلیمی اداروں کو پریشان کردیا ہے اول الذکرپہلے دو طرح کے ادارے تو حکومتی شرائط پوری کردیں گے یا اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے اپنے دس فیصد تعلیمی ادارے بچا لیں گے مگر نوے فیصد پسماندہ تعلیمی ادارے جن کی ایسو سی ایشنز مالی اعتبار سے کمزور ہیں نہ تو قانونی جنگ لڑ سکیں گی اور نہ ہی حکومتی قواعد و ضوابط پورے کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس طرح پسماندہ تعلیمی ادارے بند ہونا شروع ہو جائیں گے جس کا نتیجہ غریب عوام کیلئے تعلیم کے دروازے بند ہونے کی صورت میں نکلے گا۔

اس صورت حال کے بعد پسماندہ علاقوں کے تعلیمی اداروں کی پرائیویٹ سکولز ایسو سی ایشنز نے اپنے اپنے اجلاس کال کرلئے ہیں اور حکومتی آرڈیننس پر غور فکر شروع کردیا ہے پسماندہ اداروں پر مشتمل پرائیویٹ سکولز ایسو سی ایشن کے صدر ملک خالد محمود کی صدارت میں متعدد اجلاس ہو چکے ہیں ایک اجلاس میں راقم کو بھی خصوصی شرکت کی دعوت دی گئی جس میں پرائیویٹ سکولز مالکان نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ان کا کہنا تھا کہ پسماندہ علاقو ں کے تعلیمی ادارے فروغ علم میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اگر یہ ادارے بند ہونا شروع ہو گئے تو شرح خواندگی پر انتہائی منفی اثر پڑے گا سرکاری تعلیمی ادارے اتنی زیادہ تعداد میں طلبہ وطالبات کو تعلیم کسی قیمت پر نہیں دے سکیں گے ۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا رزلٹ ہمیشہ سرکاری اداروں سے معیاری ترین رہا ہے ۔ایسے وقت میں گورنمنٹ کو چاہیے کہ وہ فیسوں،رجسٹریشن، سیکیورٹی ودیگر معاملات پرتعلیمی اداروں کے درجہ بندی چار درجوں اے،بی،سی،ڈی میں کرے ۔اس طرح جو تعلیمی ادارہ جس معیار کا ہوگا اسی معیار کے مطابق اس کیلئے شرائط رکھی جائیں تاکہ ایلیٹ ،اول درجہ کے سکولز کے ساتھ پسماندہ کم فیس والے پرائیویٹ تعلیمی ادارے کونتھی نہ ہو ں۔ اس طرح پسماندہ تعلیمی ادارے تعلیمی سلسلہ جاری وساری رکھ سکیں گے،ان کا کہنا تھا کہ رجسٹریشن کا طریقہ کار اتنا پچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ درجہ دوئم کے ادروں کیلئے مشکل اور سوئم کے تعلیمی ادارے توکسی قیمت پر اس پر پورا نہیں اتر سکیں گے ۔ لہٰذا گورنمنٹ کو چاہیے کہ رجسٹریشن کا پرانا طریقہ بحال کرے تاکہ تعلیمی ادارے اپنی رجسٹریشن آسانی سے اپنے ادارے کے معیار کے مطابق کروا سکیں۔ذمہ داران کا کہنا تھا کہ ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ ہر سکول رجسٹرڈ ہو کوئی تعلیمی ادارہ غیر رجسٹرڈ نہیں ہونا چاہیے لیکن گورنمنٹ کو بھی نرمی دیکھانا ہوگی پرانا طریقہ بحال کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بھی کئی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جن کی درخواستیں تمام مکمل کوائف کے ساتھ پانچ سے چھ سال قبل آفس جمع کروائی گئیں مگر ان کی رجسٹریشن ابھی تک نہیں ہوئی آخر کیوں؟ تعلیمی ادارے اپنے اداروں کی رجسٹریشن کروانا چاہتے ہیں مگر حکومت رجسٹریشن کا نظام انتہائی پچیدہ کرکے پسماندہ علاقوں کے سکولز مالکان کے ہاتھ پاؤں باندھنا چاہتی ہے ۔اگر حکومت ان اقدام سے باز نہ آئی تو پسماندہ تعلیمی ادارے بھی احتجاج کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

ہماری رائے ہے کہ گورنمنٹ پسماندہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے تحفظات پر نظر ثانی کرے اور تعلیمی اداروں کی درجہ بندی کردی جائے اس سے تعلیم کا سفر کامیابی سے تمام طبقات میں جاری وساری رہ سکے اگر تناؤ بڑھا تو تعلیمی ادارے بند ہونے کی صورت میں تعلیمی نقصان غریب کے بچوں کا ہی ہوگا اس لئے حکومت اس قانون پر نظر ثانی کرے ۔ساتھ ہی یہ بھی عرض کرنا ہے کہ فیسوں پر گورنمنٹ درجہ بندی کے تحت فیسیں خود مقرر کرے اور نگرانی بھی اگر درجہ بندی سے ہٹ کر کام ہوا تو یقیناً پسماندہ اداروں کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا ۔ضیاء الحق دور سے قبل نجی تعلیمی ادروں کو نیشنلائز کرنے کا عمل شروع ہوا تو لوگوں نے پرائیویٹ تعلیمی ادارے کھولنا بند کردئیے تھے ضیاء الحق نے تعلیمی ادارے کھلوانے کی مہم شروع کی تھی تاکہ تعلیمی شرح میں اضافہ ہو ۔موجودہ آرڈیننس بھی کچھ ایسا ہی رنگ دکھانے جارہا ہے جس کے تعلیم پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے ساتھ یہ بھی بات لازم ہے کہ جن تعلیمی اداروں نے تعلیم کو کاروبار بنا رکھا ہے ان کا محاسبہ بھی کیا جائے تاکہ والدین پر ایلیٹ سکولز اور درجہ اول کے ادارے جو زیادتیاں کر رہے ہیں ان کا ازالہ ہو سکے۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 269352 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.