گل طارق تلاش کیجیے
(Abdul Qadoos Muhammadi, )
سوشل میڈیا پر نبی اکرم صلی اﷲ
علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے حوالے سے مضمون نگاری کے عالمی مقابلے کے انعقاد
کا اعلان سن کر دل باغ باغ ہو گیا ۔اس مقابلے کے انعقاد کے لیے کچھ سعادت
مند بھائیوں اور بہنوں نے جو اہتمام کیا ،جس طرح کا ماحول بنایا ،جس طرح
نئے لکھنے والوں کو مقصدیت کی طرف لانے کی کوشش کی ،جس طرح سوشل میڈیا کے
پلیٹ فارم کو عالی نصب العین کے لیے برتنے کا ہنر سکھانے کی داغ بیل ڈالی
اس پر اتنی خوشی ہو ئی کہ بیان سے باہر ہے ۔ایسی اجتماعیت ،ایسی نیٹ ورکنگ
،ایسا نظم وضبط کہ گاہے کراچی ،اسلام آباد ،ملتان ،قطر اور دنیا کے دوسرے
خطوں میں بیٹھے ہوئے اہل قلم اور مقابلے کے منتظمین کے بارے میں گمان گزرتا
کہ ایک گھر کے فرد ہیں ،ایک کمرے میں بیٹھے ہیں ۔ مقابلے کے ججز اور
منتظمین کے ناموں سے اس قوس قزح کے رنگوں کا انداز کیجیے ۔ مقابلے کی کمیٹی
کے امیر محمد تیمیہ اشرفی صاحب تھے۔اور باقی ججز کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ عربی
زبان کے مضامین کے لیے 1۔ مفتی محمد عاصم2. جنید شبیر خان۔انگلش مضامین کے
ججز (پاکستان اور دوسرے تمام ممالک کے لیے)1۔ محمد ابو بکر2۔پردہ دار خاتون
۔بیرون ملک جج (پاکستان کے علاوہ تمام ممالک شامل ہیں)1۔ محمد نعمان
بخاری2۔ حوریہ ذیشان3۔صادق الامین۔4حارث اعظمی ……صوبہ سندھ1۔ مفتی نوید2۔
شیث بھائی3۔ خرم شہزاد……صوبہ بلوچستان1۔حبیب بنوی2۔رفیع اﷲ3۔ذہین احمق
آبادی۔جنوبی پنجاب 1۔سید محمد سمیع2۔صفوان احمد3۔مہران درگ ……شمالی پنجاب
1۔ید بیضا2۔فرنود عالم3۔حجاب گل ……صوبہ خیبر پختون خواہ1۔مفتی شاد محمد
صاحب2۔عبداﷲ خان3۔ مروہ خان……آزاد و مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان1۔مولانا
صہیب صاحب2۔محمد مامون3۔بشارت وارثی ……فائنل جج1۔ مفتی محمد صاحب2۔ مولانا
سمیع اﷲ سعدی،3۔ عبدالرشید صاحب(شاد مردانوی)4۔ ظفر اقبال اعوان (ظفر جی)
مقابلے کا اعلان ہو ا ،پہلے وہ اعلان ایک اسٹیٹس کی شکل میں آیا ،پھر
اشتہار بنا ،اشتہار کے بعد ایک مہم کی شکل اختیار کی اور اس کے بعد ایک مشن
اور نصب العین ہو گیا ۔ایک ایسی کوشش جس میں عبادت کا تقدس ،عشق مصطفی کا
جنون ،محبت دین کا وارفتگی اور ڈھیر سارے رنگ جھلک رہے تھے ۔ مضامین تو
اگرچہ سینکڑوں لوگوں نے لکھے لیکن اس مقابلے میں حصہ لینے کی تمنا نے جن
قلوب میں انگڑائی لی ان کی تعدا د یقینا لاکھوں میں ہوگی ۔اس مقابلے کے
انعقاد کا نتیجہ وہ سینکڑوں مضامین نہیں جو موصول ہوئے اس کا اصل ثمرہ یہ
ہے کہ اس مقابلے نے لاکھوں مسلمان نوجوانوں کی توجہ پائی ،اس مقابلے نے
سیرت طیبہ کے مطالعہ کا احساس دلایا ، اس مقابلے نے بہت سے دلوں میں محبت
مصطفےٰ کے دیپ جلائے ،اس مقابلے نے نوجوانوں کو اپنے آ قاصلی اﷲ علیہ وسلم
کی بارگاہ میں اپنے اپنے انداز سے خراج عقید ت پیش کرنے کی کوشش کرنے کا
حوصلہ دیا ……سچی بات یہ ہے کہ اس مقابلے نے سرشار کر دیا ،چپ چاپ ایک خاموش
تماشائی کی طرح اسے دیکھتا رہا ،نوجوانوں کی تحریریں پڑھتا رہا ،ان تحریروں
سے جھلکتے جذبات ،ان میں ہلکورے کھاتی محبت مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی جھلک
،ان تحریروں میں خلو ص اور والہانہ پن نے خوب مزہ دیا ۔مقابلے کی فضاء
بنانے میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ،ججز کو علاقوں اور زبانوں کے اعتبار
سے تقسیم کیا گیا تھا ، مضامین ان کی چھلنی سے گزر کر مرکز ی ججز کمیٹی تک
پہنچے ،پہلے مرحلے میں چار سو میں سے ستر مضامین کا انتخاب کیا گیا ،پھر ان
ستر میں سے چھبیس منتخب ہوئے اور بالآخر دس خوش نصیبوں کو انعام کا مستحق
قرار دیا گیا ۔ مقابلے کے نتائج کا بڑی شدت سے انتظار تھا اورجب نتائج کا
اعلان ہوا تو گل طارق پہلی پوزیشن کے مستحق قرار پائے جنہیں انعام کے طورپر
عمرے کے لیے بھجوایا جائے گا ۔خانہ کعبہ کے طواف اور بارگاہ رسالت کی حاضری
……اﷲ اﷲ!کیا انعام ہے اور کیسی خوش قسمتی ہے ؟
اب آپ اس عالمی مقابلے میں اول انعام کے مستحق قرار پانے والے گل طارق کی
کہانی سنیے! مگر اس کہانی کی ایک لمبی تمہید ہے……ہمارے محسن مولانا
عبدالعزیز مہتمم جامعہ فریدیہ پر ہر وقت کچھ نیا کر گزرنے کی دُھن سوار
رہتی ہے ،ان کے نائب مولانا عبدالغفار کی کوشش ہوتی ہے کہ جامعہ میں آنے
والے طلباء کو ان کے ذوق اور صلاحیت کے مطابق سیکھنے اور آگے بڑھنے کے
مواقع مہیا کیے جائیں ،یہی وجہ ہے کہ خطابت،قرآت،نعت، خطاطی ،کوئز پروگرام
، مباحثہ،رفاہی وفلاحی خدمات ،عربی زبان ،کمپیوٹر اور جو جو ہنر بھی سیکھا
اور سکھایا جا سکتا ہے مولانا نے اپنے ادارے میں اس کا بندوبست کر رکھا ہے
۔تحریر کا فن سکھانے کے لیے ،طلبہ میں تحریری صلاحیتیں اجاگر کرنے کے لیے
باقاعدہ فکر اور مشاور ت شروع ہوئی ،قلم اور کالم سے کچھ نسبت کی وجہ سے
راقم الحروف کو ذمہ داریاں تفویض کی گئیں ۔جامعہ میں لکھنے لکھانے کا عمل
شروع ہوا ،طلبہ کی حوصلہ افزائی اور مسابقت کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی
گئی،جب اس سلسلے کا آغاز ہونے لگا تو جامعہ کے دوچار طلبہ بھی لکھنے پر
آمادہ نہ تھے لیکن بتدریج ماحول بنتا گیا ،رہنمائی ،حوصلہ افزائی ،منتظمین
جامعہ کے اہتمام کی بدولت پہلے مرحلے میں ایک مجلہ سے آغاز ہوا اور پھرصرف
چند ماہ میں ہر کلاس کا مجلہ جداریہ (wall magazine)تیار ہونے لگا اور صرف
ایک ادارے سے ہر ماہ میں بارہ مجلات جداریہ کا اجراء ہو گیا جبکہ عربی
کلاسوں کے مجلات جداریہ اور عربی کا مرکزی مجلہ اس کے علاوہ ہے ۔مجلات
جداریہ کی ان نرسریوں کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ ہر کلاس کے منتخب طلباء پر
مشتمل ایک مجلس ادارت تشکیل دی جاتی ہے ۔جن میں سے ایک مدیر اور ایک نائب
مدیر ہوتا ہے ۔مجلس ادارت کے اراکین طلبہ کو مضامین لکھنے کی ترغیب دیتے
ہیں،ہر ایک کی شرکت یقینی بناتے ہیں ،مضامین کا جائزہ لیتے ہیں ،ابتدائی
جائزے کے بعد منتخب مضامین نگران استاذ کے سامنے پیش کرتے ہیں ،نگران
اساتذہ مضامین کی تصحیح کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی فیصلہ کرتے ہیں کہ
ان مضامین میں سے کون سا مضمون کلاس کے مجلہ جداریہ کی زینت بننا ہے ؟کون
سا مضمون جامعہ کے مرکزی مجلہ کا حصہ ہونا ہے ؟ اور کس مضمون کو قومی
اخبارات میں اشاعت کے لیے ارسال کرنا ہے؟جن مضامین کوکلاس کے مجلہ جداریہ
میں لگنا ہوتا ہے اس کے لیے نہ کمپوزنگ کا جھنجٹ ،نہ ڈیزائننگ کا تردد ،ہر
طالبعلم کو اس کی تحریر واپس کی جاتی ہے ،اسٹیشنری کی دکانوں سے ملنے والے
ڈیزائن شدہ صفحات پر طلبہ خود اپنی تحریر خوشخط لکھتے ہیں ،پھر ایک بڑا
چارٹ لے کر ان سب تحریروں کو اس پر چسپاں کر دیا جاتا ہے اور اسے ایک مرتبہ
پھر اساتذہ جامعہ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے ،حتمی منظوری اور دعائیہ
کلمات لکھوانے کے بعد وہ چارٹ مجلہ جداریہ کی شکل اختیار کر کے نوٹس بورڈ
پر آویزاں کردیا جاتا ہے ۔ایک مخصوص مدت تک یہ مجلہ جداریہ جامعہ کے نوٹس
بورڈ پر طلبہ کی توجہ کا مرکز رہتا ہے اور پھر اس کی جگہ دوسری کلاس کا
مجلہ جداریہ لے لیتا ہے ۔ ان مجلات جداریہ کو کے عکس لے کر سوشل میڈیامیں
بھی ڈال دئیے جاتے ہیں ،اس کے علاوہ ہر کلاس کے مجلات جداریہ میں اچھے
مضامین لکھنے اور فعال کردار اداکرنے والے طلبہ کو ان کی کارکردگی اور
اہلیت کی بنیاد پر جامعہ کے مرکزی مجلہ کی مجلس ادارت کے لیے منتخب کیا
جاتاہے ۔مرکزی مجلہ جداریہ کی ادارت سے لے کر کمپوزنگ تک اور کمپوزنگ سے لے
کر طباعت اور سرکولیشن تک جملہ امور طلبہ خودسرانجام دیتے ہیں ۔گل طارق
جامعہ فریدیہ کے مجلات جداریہ کے اس منفرد سسٹم کا ایک شاہکار ہیں ۔ان کی
خداداد تحریری صلاحیتوں کو مہمیز انہی مجلات جداریہ سے ملی ،ان کی حوصلہ
افزائی ہوئی ،رہنمائی ملی ،اساتذہ نے تھپکیاں دیں ،مہتممِ جامعہ ، نائب
مہتمم ِجامعہ اور دیگر اساتذہ کرام نے دعاؤں سے نوازا چند سال جامعہ فریدیہ
میں زیر تعلیم رہنے کے بعد وہ دارالعلوم کراچی چلے گئے ۔دارالعلوم کراچی
ایک ایسا ادارہ جہاں کے تمام اکابر اساتذہ کرام قلم اور تحریر وتصنیف کی
دنیا کے بادشاہ ہیں ،انہیں دیکھ کر گل طارق کو بہت سے دیگر طلبہ کی طرح آگے
بڑھنے کا حوصلہ ملا اور وہ سیرت طیبہ کے عالمی مقابلے میں پہلی پوزیشن کے
مستحق قرار پائے……
ہم میں سے ہر ایک کے دائیں بائیں ایسے بہت سے گل طارق یقینا موجود ہوں گے ،صرف
دارالعلوم کراچی اور جامعہ فریدیہ میں ہی نہیں بلکہ اس ملک کے چھوٹے سے
چھوٹے مدارس اور اسکولز میں گل طارق موجود ہوتے ہیں انہیں تلاشنے کی ،انہیں
تراشنے کی ،انہیں بنانے اور سجانے کی ضرورت ہوتی ہے ……سوشل میڈیا پر موجود
لکھاریوں نے ایک ماحول بنا لیا ،ایک انوکھی مثال قائم کردی ،اسے اب ٹوٹنا
اور بکھرنا نہیں چاہیے ،اس نیٹ ورک کو درسگاہ کی شکل ملنی چاہیے ۔جہاں
رعایت اﷲ فاروقی ، شفیع چترالی ،عنایت شمسی ،محمد فیصل ،ندیم تابانی ، سیف
اﷲ خالد،سبوخ سید ،فرنود عالم ،عمر فاروق ،عابدعزام ،لطیف لطف،نعمان بخاری
،ظفر جی ،شکیل رانا، حافظ صفون ،ید بیضا،عبدالروف محمدی ،فرحان فانی ،عرفان
ندیم ،غلام نبی مدنی ،عظمت رحمانی ،حوریہ ذیشان ،سید متین ،سمیع اﷲ
سعدی،امیر حمزہ ،مفتی محمد اور ڈھیر سارے اساتذہ اور اہل قلم کی پوری
کہکشاں ہو وہاں بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے لیکن جن لوگوں کی سوشل میڈیا تک
رسائی نہیں یا سوشل میڈیا جن کے لیے بے مقصدیت یا وقت کے ضیاع کا باعث بن
سکتا ہے جامعہ فریدیہ کا تجربہ ان کے سامنے ہے ۔جامعہ دارالعلوم کراچی ،جامعہ
فاروقیہ کراچی ،جامعہ الرشید کراچی ، جامعہ بنوریہ عالمیہ کا اخبار المدارس
،جامعہ اسلامیہ کلفٹن کے صوت الاسلام کے کورسز، جامعہ امدادیہ فیصل آبا د
اورمدارس فاونڈیشن کی مدارس میڈیا ورکشاپ اس سلسلے کی کئی روشن مثالیں ہیں۔
باقی اداروں اور افراد کو بھی ان اداروں کے تجربات سے ضرور فائدہ اٹھانا
چاہیے تاکہ بہت سے گل طارق کھِل کر اور کھُل کر سامنے آسکیں ۔
|
|