اس وقت منہ کا کینسر پاکستان کا دوسرا بڑا کینسر بن چکا
ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس کینسر سے سے متعلق تحقیق کی جارہی ہے-
منہ کے کینسر کا شکار بننے کی وجوہات انتہائی عام ہیں- پاکستان میں پان٬
چھالیہ٬ تمباکو اور گٹکے کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے لیکن یہ
اضافہ ہمیں ایک بہت بڑی تباہی کی جانب سے لے کر جارہا ہے کیونکہ انہی اشیا
کے استعمال کی وجہ سے ہی پاکستان میں منہ کا کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے-
پاکستان کے اسپتالوں میں ایسی مریضوں ایک بڑی تعداد دیکھی جاسکتی ہے جو کہ
منہ کے کینسر کا شکار بن چکے ہیں- ہماری ویب کی ٹیم نے منہ کے کینسر کے
اسباب اور اس اسے بچاؤ کے حوالے سے معروف ڈاکٹر امتیاز اطہر صدیقی خصوصی
بات چیت کی- آج کے آرٹیکل میں ہم آپ کو منہ کے کینسر کے حوالے سے ڈاکٹر
امتیاز اطہر سے حاصل ہونے والی اہم معلومات سے آگاہ کریں گے-
ڈاکٹر امتیاز کا کہنا ہے کہ “ کینسر سے متعلق اس وقت دنیا بھر میں بہت
زیادہ تحقیق ہورہی ہے اور ان تحقیق کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل
ہے- اس کی وجہ ہمارے ملک میں تیزی سے پھیلنے والا منہ کا کینسر ہے“-
|
|
“ حال ہی میں٬ میں نے خود بھی کراچی یونیورسٹی کے ایک شعبے پروٹین کی ڈاکٹر
شمشاد زرینہ کے ساتھ مل کر ایک ریسرچ کی ہے اور اس کے بعد اب ہم پہلے ہی یہ
معلوم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ یہ مریض منہ کے کینسر کا شکار بن سکتا
ہے یا نہیں“-
ڈاکٹر امتیاز کے مطابق “ اگر کینسر کی تشخیص درست وقت پر ہوجائے اور اس کا
علاج بھی مستند اور درست طریقے سے کیا جائے تو یہ ٹھیک ہوجاتا ہے“-
“ اب کینسر کوئی اتنا بڑا مرض نہیں رہا کہ جس کا نام سنتے ہی اکثر مریض
بےہوش ہوجاتے تھے یا پھر ان پر غشی کے دورے پڑنے لگتے تھے- لیکن اب ہمارے
پاکستانی معاشرے میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو کینسر کے مریض تھے لیکن
علاج کے بعد آج ایک خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں“-
|
|
ڈاکٹر امتیاز کا کہنا تھا کہ “ منہ کا کینسر ایک ایسا کینسر ہے جس سے بچاؤ
ممکن ہے- لیکن اس کے بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ان چیزوں کا عام استعمال
کرتے ہیں جن کی وجہ سے یہ کینسر لاحق ہوتا ہے جیسے کہ سگریٹ٬ پان٬ گٹکا٬
نسوار یا تمباکو وغیرہ“-
“ منہ کا کینسر پوری دنیا میں موجود ہے لیکن جاپان میں یہ تقریباً نہ ہونے
کے برابر ہے٬ اس کی وجہ یہ ہے کہ جاپان میں نہ تو پان کھایا جاتا ہے اور نہ
ہی پان کھانے دیا جاتا ہے“-
“اس کے برعکس پاکستان میں گٹکے پر پابندی عائد ہے لیکن اس کے باوجود بڑے
پیمانے پر کھایا جاتا ہے اور
فروخت بھی کیا جارہا ہے“-
“ جنوبی چین اور تائیوان بھی اس کینسر کی لپیٹ میں ہیں کیونکہ پاکستانی
افراد جن ممالک میں رہائش اختیار کرتے ہیں وہاں اپنا کلچر بھی ساتھ لے جاتے
ہیں“-
ڈاکٹر امتیاز کہتے ہیں کہ “ پہلے پان صرف پاکستان کے بڑے شہروں بالخصوص
کراچی میں کھایا جاتا تھا لیکن اب یہ پورے ملک میں کھایا جارہا ہے- اور اب
نسوار بھی پورے ملک میں عام ہوچکی ہے جبکہ پہلے یہ صرف خیبر پختونخواہ میں
ہی استعمال کی جاتی تھی- لہٰذا ان نشوں سے بچنا انتہائی ضروری ہے“-
|
|
“ نسوار بھی ایک خطرناک نشہ ہے اور یہ گال کے اندرونی حصے کو کاٹ دیتا ہے-
یاد رکھیے نشہ پان٬ چھالیہ٬ کھتہ٬ چونا٬ نسوار یا گٹکے کا ہو سب کا راستہ
منہ کے کینسر ہی کی طرف جاتا ہے“-
“ گزشتہ دس سالوں کے دوران پاکستان میں منہ کے کینسر کے مریضوں میں بہت
تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور آج یہ پاکستان کا دوسرا بڑا کینسر بن چکا ہے“-
“ میں والدین سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو اس کینسر سے بچائیں
کیونکہ اس کی شروعات اسکول میں چھالیہ کھانے سے ہوتی ہے- اگر گھر میں
والدین میں سے کوئی ایک بھی پان یا چھالیہ کھا رہا ہو تو وہ کبھی بھی اپنے
بچوں کو روک نہیں پائے گا- اس لیے ضروری ہے کہ پہلے خود ان نشوں سے جان
چھڑوائیں“-
ڈاکٹر امتیاز کا کہنا تھا کہ “ اس وقت منہ کے کینسر کے حوالے سے پوری دنیا
میں تحقیق جاری ہے تاکہ اس کا بہترین علاج کیا جاسکے- لیکن علاج سے بہتر
بچاؤ ہے جو کہ ممکن بھی ہے“-
|
|
“ پاکستان میں چھالیہ کھانے کے نام پر کم اور اگربتی کی تیاری کے نام پر
زیادہ منگوائی جاتی ہے- اتنی مقدار میں اگربتی تیار نہیں کی جاتی جتنی کہ
چھالیہ پاکستان میں لائی جاتی ہے- اب آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ باقی
چھالیہ کہاں استعمال کی جاتی ہے؟“-
“ لہٰذا اگر چھالیہ کی امپورٹ روک دی جائے تو بھی منہ کے کینسر سے بچاؤ
ممکن ہے- اس کے علاوہ گٹکا بھی نقصان دہ ہے لیکن صرف گٹکے کی فیکٹری بند
کرنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ ہمیں خود ہی گٹکا استعمال کرنا ترک کردیں گے تو
یہ فیکٹریاں بھی خود ہی بند ہوجائیں گی“-
“ گٹکا بہت خطرناک نشہ ہے اور یہ جسم کے کئی حصوں کو نقصان پہنچاتا ہے-
یہاں تک کہ یہ ہماری بھوک کو ختم کر دیتا ہے- ہم اپنے جسم سے کام پورا لیتے
ہیں لیکن کچھ کھاتے نہیں ہیں جس کی وجہ سے ہماری صحت گرنا شروع ہوجاتی ہے
اور اس وقت کینسر ہمیں آسانی سے جکڑ لیتا ہے- اس لیے اس تمام نشوں سے بچاؤ
ممکن ہے اور بچنا بھی انتہائی ضروری ہے“-
|
|
|