مرد ِکامل
(Prof Abdullah Bhatti, Lahore)
کرہ ارض پر بسنے والے ڈیڑھ ارب
مسلمانوں کے دل میں اکثر ایک خواہش مچلتی ہے کہ کاش اُس کو کسی مردِ کامل
کی زیارت ہو جائے ‘وہ چندگھڑیاں کسی مردِ کامل کی صحبت میں گزارسکے، اُس کے
دل و دماغ اور روح کے عمیق ترین اور بعید ترین گو شوں کی کثافت لطافت میں
بدل سکے، اُس کی بے نور آنکھوں کو ایمان کی روشنی نصیب ہوسکے کیونکہ کسی
مردِ کامل کی صحبت کی چند گھڑیاں سالوں کی عبادت سے بہتر ہے، یہ خواہش کچے
گھروں میں رہنے والوں سے لیکر قصر مر مر میں گداز آرام دہ پلنگوں پر
استراحت فرمانے والوں میں ضرور انگڑائی لیتی ہے، یہی خواہش ایک رات خلیفہ
ہارون رشید کے دل میں جاگی، خلیفہ ہارون رشید ایک بار حج کیلئے مکہ میں گیا
مِنی میں قیام کی پہلی رات تھی تو خلیفہ ہارون نے سوچا دنیا کے کونے کونے
سے نیک لوگ حج کرنے کے لیے اِس میدان میں جمع ہیں تو یقینًا اِن میں اﷲ کے
بہت سارے نیک اور مردِ کامل بھی ضرور ہونگے۔لہٰذا اِس موقع سے فائدہ اٹھایا
جائے اور کسی مردِ کامل کی زیارت کی جائے اِس کے لیے خلیفہ ہارون رشید اٹھا
اور اپنے وزیر فضل بن ربیع کے خیمے تک گیا اور آواز دی ‘وزیر باہر آیا
خلیفہ کو اپنے در پر دیکھا تو ادب سے بولا امیرالمومنین آپ نے میرے خیمے تک
آنے کی زحمت کیوں فرمائی، مجھے حکم کرتے میں آپ کے پاس چلا آتا تو ہارون
رشید بولا اِس وقت میرے دل میں شدید خواہش جاگی کہ دنیا جہاں کے نیک اور
اہل حق یہاں موجود ہیں تو کیوں نہ کسی مردِ کامل کی زیارت کی جائے، لہٰذا
تم مجھے کسی مردِ کامل کے پاس لے چلو ‘وزیر نے عرض کی عالی جناب اِس طرف
موجودہ دور کے بہت بڑے بزرگ فضیل بن عیاض مقیم ہیں آئیں اُن کی زیارت کرتے
ہیں، لہٰذا دونوں فضیل بن عیاض کے خیمے پر پہنچے جو اُس وقت نماز پڑھ رہے
تھے ‘جب آپ فارغ ہو گئے تو وزیر نے دستک دی اور بتایا کہ امیرالمومنین
تشریف لائے ہیں تو مردِ کامل نے ادائے بے نیازی سے کہا ‘یہاں امیرالمومنین
کا کیا کام اُن سے کہو تشریف لے جائیں اور میری عبادت میں مخل نہ ہوں۔وزیر
نے کہا سبحان اﷲ کیا صاحب امر (خلیفہ) کی اطاعت آپ پر واجب نہیں؟ تو فضیل
نے جواب دیا میری اجازت تو نہیں لیکن ہاں اگرآپ حکومت کے زور پر اندر آنا
چاہیں تو آپ کی مرضی ‘ساتھ ہی انہوں نے دروازہ کھول دیا اور چراغ گُل کردیا
تاکہ ہارون کا چہرہ نہ دکھائی دے، ہارون اور فضل دونوں خیمے میں داخل ہو
گئے اور اندھیرے میں فضیل بن عیاض کو ڈھونڈنے لگے، ہارون کا نرم و نازک
ہاتھ فضیل کے ہاتھ سے مس ہوگیا تو انہوں نے فرمایا کیا یہی نرم و نازک ہاتھ
کتنا خوش نصیب ہوگا اگر قیامت کے دن جہنم کی آگ سے محفوظ رہا تو خلیفہ
بولااﷲ آپ پر رحمت کرے ہمیں کوئی نصیحت کریں تو آپ بولے تیرے باپؓ سرتاج
الانبیا کے چچاتھے انہوں نے ایک دفعہ آقائے دوجہاں سے درخواست کی کہ رسول
اﷲ مجھے کسی علاقے کی حکومت عطا فرمایے تو حضور ﷺ نے فرمایا اے عباس میں نے
تمھیں تمھارے نفس پر امیربنایا ‘ایسا نفس جو اطاعت حق میں مشغول رہے اِس
حکومت سے بہتر ہے جس کی ذمہ داریوں کا کوئی شمار نہیں ‘حکومت قیامت کے دن
شرمندگی کا باعث ہوگی۔ہارون رشید کچھ اور ارشاد فرمائیے ‘فضیل بن عیاض:
امیر المومنین جب عمر بن عبدالعزیز خلافت پر بیٹھے تو انہوں نے رجاء بن
حیواۃ، سالم بن عبداﷲ اور محمد بن کعب کو بلا بھیجا اور اُن سے کہا میں
آزمائش میں ڈال دیا گیا ہوں مجھے کوئی مشورہ دو، اے ہارون رشید تُو ذرا
اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو عمر بن عبدالعزیز نے تو خلافت کو آزمائش
خیال کیا جبکہ تم اور تمھارے ساتھی اِسے نعمت سمجھ کر اِس پر ٹوٹ پڑے
ہیں۔سنو عمر بن عبدالعزیز کو سالم بن عبداﷲ نے کیا کہا تھا کہ اگر آپ چاہتے
ہیں کہ روز محشر عذاب الٰہی سے محفوظ رہیں تو مسلمانوں میں جو بڑی عمر کا
ہے اُس کو باپ سمجھ جو آپ کی عمر کا ہے اُسے بھائی اور چھوٹا ہے اُس بیٹا
سمجھ اِسی طرح عورتوں کو اپنی بیٹیوں، ماؤں اوربہنوں کی طرح سمجھ، رجاء بن
حیواۃ نے کہا تھا اگر روز قیامت شرمندہ نہیں ہونا چاہتے تو مسلمانوں کے لیے
وہی پسند کیجئے جو اپنے لیے اور جس چیز کو اپنے لیے بُرا سمجھتے ہیں اسے
مسلمانوں کے لیے بُرا سمجھئے، اے ہارون رشید میں تمھیں اُس دن کا خوف دلاتا
ہوں جب بڑے بڑے قدم ڈگمگا جائیں گے اﷲ تم پر رحم کرے کیا تمھارے ساتھی عمر
بن عبدالعزیز کے ساتھیوں کی طرح ہیں ‘یہ سن کر ہارون رشید پر رقت طاری ہو
گئی اِس قدر رویا کہ غشی طاری ہو گئی جب ہوش میں آیا تو عرض کی کچھ مزید
فرمائیے تو فضیل بن عیاض بولے ‘ہارون رشید تیرے نرم و نازک حسین چہرے کو
دیکھ کر ڈرتا ہوں کہ کہیں جہنم کی آگ میں جھلس نہ جائے۔یاد رکھ قیامت کے دن
اﷲ تعالیٰ تجھ سے ایک ایک مسلمان کی نسبت سوال کرے گاتو نے انصاف کیا کہ
نہیں زندگی اِس طرح گزار کہ تیرے دل میں اپنی رعیت کے بارے میں کوئی کھوٹ
اور کینہ نہ ہو کیونکہ محبوب خدا ﷺ کا فرمان ہے جس حاکم نے اِس حالت میں
صبح کی کہ اس کے دل میں اپنی رعایا کے خلاف کینہ بھراہوا ہو وہ جنت جانا تو
دور کی بات ہے وہ جنت کی بو بھی نہ سونگھ پائے گا، ہارون رشید زاروقطار
رونے لگا اُس کی ہچکی بندھ گئی اور وہ چیخیں مار کر رونے لگا تو وزیر نے
درخواست کی کہ آپ امیرالمومنین کے حال پر رحم فرمائیں آپ نے تو انہیں مار
ہی ڈالا تو آپ نے فرمایا اے ربیع کے بیٹے ہارون رشید کو تم اور تمھارے
ساتھیوں نے ہلاک کیا ہے میں نے نہیں، میں تو خلیفہ کی خیر خواہی کر
رہاہوں۔وہ آج جتنا روئیں گے کل قیامت کو گریہ زاری سے بچ جائیں گے ایک تم
ہو خلیفہ کو یہاں خوش رکھنے کی کوشش کر رہے ہو لیکن کل یوم آخرت کو رنج و
الم میں تنہا چھوڑ دوگے، پھر جب ہارون رشید ہوش میں آیا تو عرض کی اگر آپ
پر کوئی قرض ہو تو وہ میں خزانہ خلافت سے چکانے کو تیار ہوں آپ نے فرمایا
ہاں مجھ پر اﷲ کا قرض ہے مگر اُسے میرے سوا کوئی اور ادا نہیں کرسکتا اور
میں ہی کیا کرہ ارض پر موجود ہر انسان اﷲ کے کرموں مہربانیوں اور نعمتوں کا
مقروض ہے اور اِس قرض کو صرف عبادت و اطاعت سے ہی چکایا جا سکتا ہے ‘خزانے
اور دولت سے نہیں تم بھی قرض کی ادائیگی کی فکر کرو ، قرض بندوں کا ہو یا
اﷲ کا وہ کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا، ہارون رشید: میں نے لوگوں کے قرض
کی بات کی ہے تو فرمایا: میرے رب نے مجھے اِس کا حکم نہیں دیا اﷲ تعالیٰ نے
جنوں اور انسانوں کو عبادت کے سوا اورکسی غرض کے لیے پیدا نہیں کیا بے شک
اﷲ ہی رزاق اور زبردست قوت والا ہے۔ہارون رشید: یہ ایک ہزار دینار کی تھیلی
ہے میری والدہ کی میراث ہے اور خالص طیب ہے اِس کو قبول فرمائیے، فضیل:
افسوس میری تمام نصیحتیں رائیگاں گئیں اور تم نے اِن کو دل میں جگہ نہ دی
یہ مال اُس کو دو جس کو اِس کی ضرورت ہے مجھ پر ظلم نہیں تو کیا ہے میں
تجھے نجات دلانا چاہتا ہوں اور تو مجھے ہلاکت میں ڈالنا چاہتا ہے، اِس کے
بعد ہارون رشید نے سلام کیا اور خیمے سے باہر آگیا ‘واپسی پر ہارون رشید نے
اپنے وزیر سے کہا دیکھا مردِ کامل مردان حق ایسے ہوتے ہیں آئندہ میں جب بھی
تم سے کہوں کہ کسی مردِ کامل کے پاس لے چلو تو تم فضیل بن عیاض جیسے مردِ
کامل کے پاس لے جایا کرو۔ |
|