بلدیاتی نظام اور اس کی صورت حال
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں
تو معلوم ہوگا کہ بلدیاتی نظام بہت پرانا ہے اور کسی بھی علاقے کی تعمیر و
ترقی میں نہایت ہی اہم کردار کا حامل ہے برصغیر میں مدراس وہ پہلا علاقہ ہے
جہاں پرایسٹ انڈیا کمپنی نے 1688 میں سٹیزنز کمپنیاں قائم کی۔1726 میں
میونسپل چارٹر کی بنا پر بمبئی اور کلکتہ میں کارپوریشنز کا قیام عمل میں
لایا گیا جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ برصغیر پاک وہند میں میونسپل گورنمنٹ
یا لوکل باڈیز کی ابتدا کے مراکز مدراس بمبئی اور کلکتہ تھے۔1846 میں
کراچی،1867 میں راولپنڈی اور لاہور کیلئے میونسپل ایکٹ پاس ہوا وائسرائے
لارڈ رپن جب گورنر جنرل بنا تو اس نے مقامی حکومتوں کے کردار میں نہایت اہم
کردار ادا کیا1884 میں پنجاب میونسپل ایکٹ کا نافذ ہونا اور1891 میں اس میں
ترامیم کرکے میونسپل کمیٹیز کے ساتھ ساتھ علاقائی کمیٹیز کا بنایا جانا بھی
شامل ہے 1911-12 میں بنگال اور پنجاب میں لوکل باڈیز کیلئے سب سے زیادہ
قانون سازی کی گئی۔ 1941 میں قائم ہونے والی لاہور میونسپل کارپوریشن سب سے
قدیم اور تاریخی حیثیت کی حامل مقامی حکومت ہے بعد ازاں قیام پاکستان کے
بعد شہروں میں میونسپل کمیٹیز اور کنٹونمنٹ بورڈزبنائے گئے پنچایت سسٹم کا
نفاد اور پھر1953 میں ویلج پروگرام پر کام کا آغا کیا گیا۔1959-60 ایوب خان
کے دور حکومت میں بنیادی جمہوریت اور میونسپل ایڈمنسٹریشن آرڈیننس جاری ہوا
جس کے تحت80 ہزار کے قریب کونسلرز کو اختیارات تفویض کئے گئے۔قصبوں میں
ٹاؤن کمیٹی، دیہاتوں میں یونین کونسلز شہروں میں میونسپل کمیٹی اور وارڈز
جبکہ ضلع میں ضلع کونسل اور کارپوریشنز بنائی گئی۔1972 میں لوکل گورنمنٹ
ایکٹ اور1975 پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کا نفاذ تو ہوا لیکن بلدیاتی الیکشن
نہ کرائے گئے۔1977 میں ضیاء الحق نے مارشل لگایااور1979سے اپنے دور حکومت
میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے تحت تین بلدیاتی الیکشن کا انعقاد کروایا
1998 میں پنچایت سسٹم کی شمولیت کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس پر ہائی
کورٹ نے پرانا سسٹم بحال کردیایہ وزیراعظم نواز شریف کادوسرا دور اقتدار
تھا جس میں پنجاب میں شہروں کی سطح پر، بلوچستان کے مکمل صوبے میں انتخابات
کرائے گئے جبکہ سندھ اور سرحد میں سیاسی چپقلش کی بنا پرانتخابات کو روبہ
عمل میں نہ لایا جاسکا۔اکتوبر1998 جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد2002
اور2005 میں دو مرتبہ الیکشن ہوئے اور بلدیاتی حکومتوں نے اپنی مدت پوری
کی۔2010 کے بعد قانون سازی کا بہانہ بناکراور اپنی مصلحتوں کے پیش نظر2015
وسط تک انتخابات نہ کرائے گئے پھر خدا خدا کرکے بلوچستان اور خیبر
پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات کا سلسلہ مکمل ہوا تو پنجاب کی باری آئی اب
پنجاب میں تین مرحلوں میں سے پہلے مرحلے میں پنجاب کے 12 اضلاع میں31
اکتوبر کو بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔جس میں ضلع لودھراں بھی شامل
ہیں۔ 12 اضلاع میں2696 نشستوں پر الیکشن ہونگے چیئرمین و وائس چیئرمین کے
پینل پر6307 میں سے 16 کا پینل بلامقابلہ منتخب ہوچکا ہے اسی طرح یونین
کونسلز کی نشستوں پر33794 میں سے756 بھی کونسلرز بلامقابلہ اپنی جیت کا طبل
بجاچکے ہیں جبکہ 156 اقلیتی امیدوار بھی دوڑ میں شامل ہیں۔تحصیل کہروڑپکا
کی میونسپل کمیٹی کی حدود میں 28 وارڈز میں37126 مرد و خواتین ووٹرز اپنا
حق رائے دہی استعمال کریں گے جبکہ15 یونین کونسلز نمبر50-64 میں141403
ووٹرز اپنے ووٹ کا استعمال کرکے چیئرمین وائس چیئرمین اور کونسلرز کو
ایوانوں تک پہنچائیں گے۔ اب کہروڑپکا میں محرم الحرام کے عاشورہ کے اختتام
کے بعد سے الیکشن سرگرمیوں میں روز افزوں اضافہ ہوگیا ہے سیاسی گرما گرمی
سے ووٹرز بھی اب محظوظ ہورہے ہیں روایات کے برعکس اب ووٹرز بھی سیاستدانوں
کی پالیسی اپناتے ہوئے سیاست کررہے ہیں اور اپنے گھرا ور علاقے میں آنے
والے تمام امیدواروں کو مکمل یقین دہائی کرائی جارہی ہے کہ ووٹ تو صرف ان
کا ہے۔ کارنر میٹنگز اجتماعات اور جلسوں کا سلسلہ بھی زور پکڑتا جارہا ہے
حکومتی ارکان بھی بھرپورانداز میں اپنے امیدواروں کی کھلے بندوں کمپین
چلارہے ہیں جیسے جیسے الیکشن کا وقت قریب آتا جارہا ہے ویسے ویسے سیاسی
ماحول اور میدان گرم ہوتا جارہا ہے الزمات کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے کہیں
کہیں مخالف امیدوارکی کردار کشی کرکے بھی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوششیں جاری
ہیں بلندوبانگ دعوے کرنے والے روایتی سیاستدانوں کو حسب روایت مزاحمت
برداشت کرنا پڑ رہی ہے کوئی دل جلا ووٹر جلی کٹی سنانے میں بھی کوئی رعایت
نہیں برت رہا لیکن چونکہ یہ لوگ اس قسم کی واقعات کے عادی ہوتے ہیں اس لئے
وہ اسے روٹین کی کارروائی جان کا دل سے نہیں لگاتے کیونکہ ان کا ماننا ہے
کہ ایک لمبے عرصے کے بعد اگر دو باتیں یا دو لفظ سننے سے ہاضمہ درست رہتا
ہے-
برادریوں کے اعلانات اور شمولیت کو سب سے زیادہ اہمیت او ر اولیت دی جاتی
ہے کیونکہ بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے دوباتیں زبان زد عام ہوتی ہیں کہ ایک
تو بلدیاتی الیکشن حکومت کا اور حکومتی تعاون سے الیکشن لڑنے والے
امیدواروں کا ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ بلدیاتی الیکشن میں برادری کا ووٹ
ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے چھوٹی بڑی برادریوں کے آپس میں ادغام اور
سپورٹ سے بڑے بڑے اپ کئے جاسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ امیدواروں کی کوشش ہے کہ
جس طر ح بھی بن پڑے برداریوں کے بااثر افراد کو قابو میں کرکے ووٹ کا حصول
ممکن بنایا جائے جبکہ اسی ایشو کی بنا پربرادریوں میں اثر رسوخ رکھنے والے
افراد اپنی افادیت کو بھرپور انداز میں کیش کراتے بھی دکھائی دیتے ہیں
دعوتوں اور ضیافتوں کا ایک نہ رکنے والہ سلسلہ شروع ہے۔ خال خال ایسی عجیب
اور دلچسپ صورت حال میں دیکھنے میں آرہی ہے کہ پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر کے
مقابلے میں اسی پارٹی کے سپورٹرآزاد حیثیت میں الیکشن contest کرتے دکھائی
دیتے ہیں۔ پارٹی رہنما بھی کش مکش الجھن اور گومگو کی کیفیات کا شکار
دکھائی دیتے ہیں کہ ٹکٹ ہولڈر کو سپورٹ کریں کہ سپورٹر۔ایک امیدوار کے
فلیکس پر ایک رہنما کی تصویر ہے تو دوسرے مخالف کے فلیکس پر اسی پارٹی کے
دوسرے رہنما کی تصویر بہت سے سوالات جنم دے رہی ہے ایسی صورت حال اکثر و
بیشتر شہید کانجو گروپ کے امیدواروں اور ان کے سپورٹرز کے مابین کچھ زیادہ
ہی دکھائی دے رہی ہے ایسی صورت حال پیش نظر یہ فضا بنتی جارہی ہے کہ لوگ اب
آزاد امیدوار یا کسی پھر دوسری پارٹی کی طرف رغبت دکھا رہے ہیں اور اس طرح
سے آزاد امیدواروں کیلئے فضا سازگار بنتی جارہی ہے۔اس سچوئیشن کے پیش نظر
سرکاری مشینری کو بروئے کار لاکر حکومتی نمائندے چھپ چھپا کے کھمبے
ٹرانسفارمرز سولنگ سیوریج کے کام بھی کرارہے ہیں تاکہ حکومتی نشان کے حامل
حلقے میں اپنی گرفت مضبوط رکھ سکیں
|
|