فاصلاتی نظامِ تعلیم وقت کی ضرورت مگر؟؟؟

 تعلیم کامقصد کسی فرد کوجہالت کی عمیق گہرائیوں سے نکال کرروشنیوں کی جانب گامزن کرناہے۔تعلیم لاعلمی کی سیاہ شب کوطلوعِ آفتاب میں بدلنے کانام ہے‘تعلیم جسدِ خاکی کو معصوم نوری مخلوق پربرتری دلانے کانام ہے ‘تعلیم کسی بھی قوم کی شہ رگ ہے اگریہ درست اورمعیارکے مطابق کام کررہی ہوتوپھروہ قوم مضبوط وتوانارہتی ہے ‘دوسری صورت وہی ہے جو آج کشمیر‘فلسطین‘بوسنیا‘چیچنیا‘قبرص اورباقی مسلم علاقوں کی ہے۔

تعلیم کاسب سے پہلا مقصدہی یہی ہے کہ انسان کی باطنی وظاہری صلاحیتوں کواُجاگرکرکراُسے معاشرتی وجدیدتقاضوں کے مطابق ایک پُرکیف وبامعنی زندگی گزارنے کاراستہ مہیاکرے اورمعاشرہ بھی اس سے برابرمستفید ہوتارہے۔

کسی بھی قوم کے عروج وزوال میں تعلیم کا اہم کردار ہوتاہے۔روزِ اول سے لے کرآج تلک جس معمولی سی قوم نے بھی تعلیم کازیورپہنااوراسکی حفاظت کی تووہ قوم دیکھتے ہی دیکھتے تحت الثری سے عروج ثریاتک پہنچ گئی۔جب تلک اسلامی ریاستوں میں علم کوپہلی ترجیح حاصل رہی اوراس اُمت کامامون الرشید مترجم کو کتاب کے وزن کے برابر سونادیتارہاتواسوقت تلک اس اُمت کی کشتی پانی کے اوپرہی رہی اورجب اس نے اس حدیث کوبُھلادیا’’علم حاصل کرنا ہرمسلمان مرد اورعورت پرفرض ہے۔‘‘تو پھر زوال وپستی اس کامقدرٹھہری۔

زوال کی تلخ داستان خونِ دل سے لکھتی ہے کہ یورپ میں چودویں صدی عیسوی میں ایجاد ہونے والا چھاپہ خانہ اسلامی دنیا (استنبول )میں 1739کوپہنچا اوراُسے اس شرط پرلگانے کی اجازت دی گئی کہ اس شیطانی مشین پر قرآن وحدیث کونہیں چھاپاجائے گا۔اس کام کی ہمت بھی ہنگری سے تعلق رکھنے والے ایک نومسلم ابراہیم متفرقہ نے کی۔آہ !یہ اس اُمت کاحال ہے جس کی بنیاد قرآن مجید میں ’’علم‘‘اورتعلیم کے الفاظ چارسوپچیس سے زائدمرتبہ آئے ہیں ۔

پاکستان تعلیم پر اپنی آمدنی یعنی جی ڈی پی کا جوحصہ خرچ کرتاہے ‘اُس حساب سے ہم دنیا میں 125نمبر پر آتے ہیں۔قدیم چین کے بادشاہ گُر فلسفی کنفیوشس (پیدائش 551قبل مسیح ‘وفات 479قبل مسیح )سے ایک والئی ریاست نے پوچھا’’آقا!یہ بتلائیں کہ اچھی حکومت کی نشانی کیاہے؟‘‘کنفیوشس نے جواب دیا۔’’اخراجات ِ حکومت کی کمی۔‘‘اگر حکومت اپنانام ومقام بنانا چاہتی ہے تو اقتدارکے ایوانوں کو سادہ بناکرسب کچھ تعلیم پر خرچ کردیاجائے ۔

اسوقت پاکستان میں 91سرکاری اور72نجی جامعات ہیں ‘جن میں زیرتعلیم طلباء کی تعداد کم وبیش گیارہ لاکھ ‘پچھتر ہزار‘پانچ سوستاسی ہے ‘جس میں فاصلاتی نظام ِ تعلیم کے ذریعے تعلیم کی روشنی سے اپنے من کو منور کرنے والے طالباء کی تعداد کم وبیش پونے پانچ لاکھ ہے۔

ڈاکٹریٹ کی سطح پر دیکھا جائے تو سرکاری جامعات میں پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد7500اورنجی جامعات میں یہ تعداداٹھارہ سوتک محدود ہے‘اس سے آپ پاکستان میں علم کی پیاس ‘اس کے معیار‘حکومتی ترجیحات اورریاست کی تعلیمی اصلاحات کابخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔

فاصلاتی نظامِ کاپسِ منظر
سب سے پہلے اس نظام کا تصور 1728میں متعارف ہوا‘جب طالب علموں کو ہفتہ وار خط وکتابت کے ذریعے تعلیم دینے کا آغاز ہوا۔

ماضی قریب میں پہلے باقاعدہ فاصلاتی کورس کی ابتداء 1840میںsir isaac pitman نے کی۔جس کے تحت وہ شارٹ ہینڈ کے ذریعے اپنے لیکچرء طلباء کو بھجواتے اوران کے طلباء کی مشقیں پوسٹ کارڈز کے ذریعے ان تک پہنچتیں جس کی وہ اصلاح کرتے۔

university of londonکو فاصلاتی نظام کی پہلی ڈگری دینے کا اعزاز حاصل ہے ‘جس نے اپنے ایک ایکسڑنل پروگرام کے ذریعے 1858میں شروع کیا۔

کینیڈا میں پہلی اوپن یونیورسٹی 1970 میں قائم ہوئی‘ سپین میں 1972میں ‘ جرمنی کے شہر ہیگن میں 1974جبکہ پاکستان کی پہلی اوپن یونیورسٹی بھی 1974میں قائم ہوئی۔اور2002میں پاکستان کی پہلی جدیدانفارمیشن اورکمونیکیشن ٹیکنالوجی کی بنیاد پر حکومت پاکستان کی جانب سے 22002میں ایک پبلک سیکٹر کے طورپرقائم کی گئی۔

اندراگاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی 1985میں قائم ہوئی ‘ یہ ہندوستان کی سب سے بڑی اوپن یونیورسٹی ہے جس کے تین ہزار سٹڈی سنٹرز اورنوسو امتحانی مراکزکام کررہے ہیں اورسالانہ لاکھ35کے قریب طالب علم اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ڈاکٹر بی آر امبیڈ یونیورسٹی ‘حیدرآباد 1983‘کوٹایونیوسٹی راجھستان 1987‘نالڈا‘یشونت روا چوہان‘مدھیہ پردیش بوجھ‘ڈاکٹربابا صاحب امبیڈکر‘کرناٹک سٹیٹ ‘نیتاجی سبھاش‘یوپی راج رشی ٹنڈن اوپن یونیورسٹیزاوراسکے علاوہ بیس سے زائد جامعات نے ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹنس ایجوکیشن کے ڈیپارٹمنٹ ہندوستان میں قائم کیئے ہوئے ہیں۔

فاصلاتی نظام ِ تعلیم کے فوائد
اس نظام کے آنے سے شرح ِ خواندگی میں اضافہ ہواہے۔اس نظام کے تحت سرکاری ونجی ملازم ‘کاروباری حضرات سمیت وہ تمام لوگ تعلیم حاصل کررہے ہیں جو روایتی نظامِ تعلیم تک کسی بھی وجہ سے نہیں پہنچ پاتے ۔بعض لوگ گھریلوپریشانیوں‘مالی مجبوریوں یا کم عمری میں شادی کی ذمہ داریوں کی وجہ سے اپناتعلیمی تسلسل برقرارنہیں رکھ سکتے ‘یا کسی بھی مجبوری کی وجہ سی ایک لمبے عرصے کیلئے تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دیتے ہیں تو چونکہ وہ عمر کی ایک خاص حد گزرنے کے بعدروایتی تعلیمی نظام کے تحت چلتے اداروں میں داخلہ حاصل نہیں کرسکتے تو وہ فاصلاتی نظام تعلیم ہی سے مستفید ہوتے ہیں ‘جہاں عمر کی کوئی حد مقررنہیں۔

خواتین کی بڑی تعداد مذہبی اصولوں اوررسم ورواج کی وجہ سے مخلوط نظامِ تعلیم میں جاناپسند نہیں کرتی ‘فاصلاتی نظامِ تعلیم ان کیلئے بھی زندگی کے مراحل میں پیش قدمی کرنے کاموقع فراہم کرتاہے۔
ہفتہ وار‘ہفتہ میں دوروز ‘تین روز یا اپنے حالات کے مطابق مختلف جامعات نے تعلیمی دنوں اوراوقات کا تعین کررکھاہے۔مختصر وقت کی وجہ سے طالب علموں کیلئے کرایہ ‘رہائش‘لباس اورمیس کی مد میں بہت سی بچت ہوجاتی ہے اوریوں مفلس طلباء بھی اس نظام سے برابر مستفید ہورہے ہیں ۔

فاصلاتی نظام کے طلباء کے مطالبات
اس تحریر کو مرتب کرنے سے پہلے ہم نے پاکستان کی مختلف جامعات کے طلباء سے رابطے کیئے ‘بعض جامعات میں خود جاکرطلباء کے مسائل اوران کے مطالبات سنے ‘جس کاخلاصہ فاصلاتی نظام کی خامیوں‘ اربابِ اختیار کی غفلتوں ‘اورتعلیمی نظام کی پیچیدگیوں کا اظہارکرتاہے۔
1:۔فاصلاتی نظامِ تعلیم کیلئے اساتذہ کی مستقل اسامیاں ہونی چاہیئے اوراساتذہ کی بھرتی میں عالمی معیار کاخیال رکھاجائے نہ کہ ادھر اُدھر سے پکڑ دکڑ کر ڈگری نما کاغذرکھنے والوں کو بھرتی کیاجائے۔ یا ریگولر پروفیسرز ان کو پڑھائیں۔
2۔ہفتہ واتوار کو جامعات کی لائبریری فاصلاتی نظام کے طلباء کیلئے کھولی جائے۔
3۔ فاصلاتی نظام میں چونکہ طلباء دور دراز سے آتے ہیں ‘ ۔وہ بہرطور یونیورسٹی کے طالب علم ہیں ‘اس لیئے مینجمنٹ کا فرض ہے کہ ورکشاپ ‘پرچہ جات اور کلاسز کے دوران انہیں مناسب معاوضے پر جامعہ میں ہی جگہ دے۔
4.۔طلباء نے اس بات پر بھی دکھ کا اظہارکیا کہ کچھ جامعات اپنا پہلا مڈٹرم مختلف حیلے کرکے extendکرتی رہتی ہیں تاکہ طلباء کی زیادہ سے زیادہ تعداد شامل ہو اوروہ اپنی تجوریوں کوبھرسکیں ۔جس کی وجہ سے طلباء کا قیمتی وقت ضائع ہوتاہے۔
بعض جامعات کے طلباء نے بتایاکہ ان کی کے چارسمسٹرمکمل ہوچکے ہیں لیکن چار‘پانچ ماہ گزرجانے کے باوجود جامعہ نے ان کا کمپرہینسولے کر ان کو ڈگری جاری نہیں کی۔تعلیمی عرصۂ اڑھائی سے تین سال کی شکایت فاصلاتی نظام میں بکثرت پائی جاتی ہے۔
4۔فاصلاتی نظامِ تعلیم میں مستحق طلباء کیلئے رعایت یا قسطوں کا پراپر طریقہ کاروضع کیاجائے ۔کیونکہ کچھ جامعات کے فاصلاتی پروگرامز کی فیس ریگولرسے دگنی ہے‘ اس لیئے طلباء کیلئے یک مشت ادا کرنا دشوارہوجاتاہے۔
5۔ لیپ ٹاپ ‘ٹیبلٹ‘سکالرشپس اور فیس کی واپسی جیسی سکیمیں فاصلاتی نظامِ تعلیم کیلئے بھی ہونی چاہیں ۔
7۔مختلف ناجائز ذرائع کی بنا پر طلباء کے مشقوں اورپرچہ جات میں نمبر لگوانے کی حوصلہ شکنی کی جائے ‘اس سے محنت کرنے والے طلباء کی محنت بے ثمر رہتی ہے اورجامعہ میں طلباء کی حاضری پربھی اسکے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
8۔جامعات کو سائنس کے شعبے میں کلاس کاآغاز کرنا چاہیئے تاکہ بی ایس سی کرنے والے طلباء آرٹس میں ماسڑکرنے پر مجبور نہ ہوں ۔
9۔فاصلاتی نظام کے تحت چلنے والی جامعات کے تمام شعبوں اسٹڈی سنٹرزاور اساتذہ کی حاضری ‘امتحانی طریقہ کار میں check and balanceکا سخت طریقہ کار ہونا چاہیئے ‘۔کیونکہ طلباء کو تو اچھے نمبروں کے حصار میں لے کر رسن بستہ حالت میں سنہر ی سپنوں کے جال میں مقید کردیاجاتاہے۔
10۔ اوپن یونیورسٹی میں سالانہ چودہ لاکھ طلباء وطالبات تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔اوپن یونیورسٹی کے ملک بھر میں 44علاقائی دفاتر قائم ہیں اورسترہزار ٹیوٹر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ ایک اندازے کے مطابق جامعہ سے 52فیصد دیہی اور48فیصد شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے تشنگان علم فیض یاب ہورہے ہیں ‘طالبات کی شرح پچاس فیصدسے زائد ہے ۔اسکے ساتھ ساتھ اس یونیورسٹی کواپنے نظام کوجدید اورطلباء تک کتب کی ترسیل کے نظام میں بہتری لاناہوگی ‘اسکے بہت سے کورسز اپ ڈیٹ ہونے کاتقاضاکرتے ہیں ۔

ورچوئل یونیورسٹی سالانہ نوسے دس ہزار افراد کوتعلیم سے آراستہ کرتی ہے‘اب تک دس لاکھ افراد کوانرول کر چکی ہے اوراسکے 200سٹڈی سنٹرز ہیں۔ملک کے قابل وناموراساتذہ سے ویڈیولیکچرزریکارڈ کرواکے اپنے چار چینلز سے ہمہ قوت نشریات جاری کرکے اس نے فاصلاتی نظام تعلیم کو ایک نئی جہت دی ہے ‘اس کاطالب علم اپنی ڈیٹ شیٹ خود سلیکٹ کرتاہے ‘جبکہ اسکے سٹڈی سنٹرز کی تعداد محدود ہے جسے بڑھاوادینے کی اشدضرورت ہے۔

گومل یونیورسٹی کے ddeڈیپارٹمنٹ کی بنیاد مارچ 2011میں رکھی گئی اورپروفیسر جمیل کو انچارج بنا یا گیا‘یہ جامعہ سالانہ بارہ سو علم کے پیاسوں کی تشنگی بجھاتی ہے ۔بارہ مضامین میں ماسٹرکی تعلیم دیتی ہے جس میں پانچ ٹیوٹوریل اورچاردنوں کی ورکشاپ شامل ہے۔ اسوقت اس کے ڈائریکڑ ڈاکٹر عمر علی خان پرعزم ہیں کہ اس پروگرام کو خوب سے خوب تربنائیں گے۔ان کی معقول فیس کا اس بات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ایم اے انگریزی جیسے مضمون کو کم وبیش تینتیس ہزارمیں مکمل ہوجاتے ہیں۔

اسکے علاوہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور‘بہاؤالدین زکریاملتان‘جی سی فیصل آباد‘پنجاب‘جی سی لاہور‘سرحد یونیورسٹی اورکشمیریونیورسٹی نے بھی فاصلاتی نظام کاالگ شعبہ قائم کیاہواہے‘جوملک کی شرح خواندگی میں اضافہ کررہاہے۔

فاصلاتی نظامِ تعلیم کی اہمیت وافادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن اس کی ڈائنوسار جتنی چھوٹی چھوٹی خامیوں پر اگرتوجہ نہ دی گئی تو وہ دن دورنہیں جب لوگ ایم فل اورپی ایچ ڈی کرنے کے باوجود ان پڑھ ہی رہیں گے۔ہرکسی کو ڈگری کاحق دینا احسن قدم ہے مگر معیاری اوربامقصد تعلیم ہی ملک وقوم کیلئے سودمند ہوسکتی ہے۔اگر اربابِ اختیارنے اس جانب توجہ نہ دی تو ہماری اگلی نسل کواس کاخمیازہ بھگتناپڑے گااورہزاروں پی ایچ ڈی افراد ماسٹرکی سطح پر بھی تعلیم دینے کے لائق نہ ہوں گے اورہمیں دوسرے ملکوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔
برگِ حنا پر لکھ دی ہے دردِ دل کی بات
شاید کے دھیرے دھیرے لگے دل رُوباکے ہاتھ
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174323 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.