کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ان دنوں امریکہ میں صدارتی انتخابات کا ماحول گرم ہے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے امیدوار اپنی تقاریر کے ذریعہ عوام کو حقیقت سے آشنا کرنے یا سابق حکمرانوں کی ناکامیوں کا پردہ فاش کرنیکی کوشش میں لگے ہوئے ہیں،تاکہ امریکی عوام کو اعتماد میں لے کر ووٹ حاصل کرسکیں ۔ گذشتہ دنوں صدارتی دوڑ میں شامل ایک امریکی امیدوار ڈونا لڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر امریکی عوام ہی نہیں بلکہ دنیا کو حیرت زدہ کردیا کہ عراق میں صدام حسین اور لیبیا میں معمر قذافی کی حکومت ہوتی تو آج دنیا ایک بہتر جگہ ہوتی۔ان کا مطلب صدام حسین یا معمرقذافی کو بہترین حکمراں کی حیثیت دینا نہیں تھا اور نہ وہ انہیں ان مسلم حکمرانوں کو اچھا سمجھتے ہیں بلکہ وہ عوام کے درمیان ملک سے باہر متعین امریکی فوج کی سلامتی کو لاحق خطرہ اور امریکی معیشت کی تباہی کا ذمہ دار موجودہ صدربارک اوباما اور سابق وزیر خارجہ ہلاری کلنٹن کو بتاتے ہوئے عوام کی تائید و حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ادھر سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے بھی سی این این کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو کے دوران جس میں ان سے سوال کیا گیا تھا کہ کیا عراق جنگ بھی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) کے وجود کا باعث بنی ہے،اسکے جواب میں ٹونی بلیئر کا کہنا تھا : ’’ میں سمجھتا ہوں کہ اس بات میں کسی حد تک صداقت کا عنصر موجود ہے۔ ٹونی بلیئر 2003میں عراق پر حملے کے دوران کی گئی غلطیوں پر معافی مانگی ہے اور کہا ہے کہ اس بات میں ’’صداقت کا عنصر‘‘ موجود ہیکہ شدت پسند تنظیم داعش کا وجود اسی جنگ سے ہے۔سابق وزیر اعظم نے عراق جنگ سے قبل غلط جاسوسی کی اطلاعات اور جنگ کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ناقص حکمتِ عملی پر معافی مانگی ہے۔ وہ برطانوی پارلیمان اور جنگی تحقیقات کمیشن کے سامنے یہ باتیں دہرا چکے ہیں۔ 1991ء میں عراقی صدر صدام حسین کی جانب سے تیل سے مالامال ممالک کے درمیان تیل کی قیمتوں میں توازن برقرار نہ رکھنے پر اپنی فوج کو کویت میں اتار دیا تھا اور کویت کے امیر الصباح کی درخواست پر امریکی اتحاد نے عراق پر خطرناک حملہ کرکے عراقی معیشت کو تباہ و برباد کردیا یہی نہیں بلکہ ہزاروں بے قصور عراقیوں کی ہلاکت کا سبب بنا۔ صدام حسین نے چند برسوں کے درمیان عراق کی معیشت کو دوبارہ بحال کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے جو ملک کئی سال پیچھے چلا گیا تھا دنیا کے سامنے پھر سے ایک مرتبہ طاقتور اور معاشی اعتبار سے مستحکم حیثیت حاصل کرچکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صدام حسین پر جھوٹے الزامات عائد کرکے پھر سے اسے ایک مرتبہ تباہ و تاراج کرنا اور صدام حسین کو کسی نہ کسی بہانے اقتدار سے محروم کرکے ان کا قتل کرنا تھا۔

دشمنانِ اسلام نے اپنی سازش کے تحت عراقی صدر صدام حسین پر مختلف الزامات عائد کرکے انہیں حکومت سے بے دخل کرنے کے لئے خطرناک فضائی حملوں کا آغاز کیااور چند دنوں میں عراق کی اسلامی تاریخ کو بُری طرح ملیامیٹ کردیا ۔ عراق میں امریکہ، برطانیہ اور دیگر اتحادی ممالک کے حملوں کے بعد حالات بدلنے لگے ، عوام دشمنانِ اسلام کی چالوں کو سمجھنے لگے اور یہیں سے شدت پسند تنظیموں نے جنم لیا۔اور ہر روز عراق کے حالات بگڑتے گئے۔ آج القاعدہ، داعش اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا اصل ذمہ دار امریکہ، برطانیہ اورنیٹو ممالک ہی ہیں ۔

عالم اسلام کے موجودہ حالات کو امریکن ریپبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل ارب پتی تاجر ڈونالڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں امریکی مہمات کو ’’شدید ناکامی‘‘ قرار دیا ہے۔ انکا کہنا ہیکہ مشرق وسطیٰ کے بحران میں امریکی صدر بارک اوباما اور سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی وجہ سے مزید مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ہیلری کلنٹن خود بھی صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ٹرمپ اپنے مخالف امیدوار کی ناکامیوں اور خامیوں کو منظر عام پر لاکر امریکی عوام سے تائید حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ وہ بھی اگر امریکہ کے صدر بن جائیں تو اسلامی ممالک کے تعلق سے جو امریکی پالیسی ہے اس میں تبدیلی نہ لائیں گے۔

انکاکہنا ہے کہ عراق اور مشرقِ وسطیٰ میں لوگوں کے سرتن سے جدا کئے جارہے ہیں ، وہ ڈوب رہے ہیں، ابھی وہاں کا حال صدام حسین اور قذافی کے دورِ حکومت سے بہت بدتر ہوچکا ہے۔ ٹرمپ اپنے کہنے کا مطلب اس طرح بتاتے ہیں کہ ان دنوں لیبیا شدید تباہی سے دوچار ہے عراق اور شام میں ناکامی، تمام مشرق وسطیٰ میں ناکامی ہے۔ یہ سب ہیلری کلنٹن اور اوباما کے رہتے ہوئے ہوا ہے۔

انہوں نے عراق کو ’ہاروڈ آف ٹیرارزم‘ (دہشت گردی کی طاقت )قرار دیتے ہوئے کہا کہ عراق ہر قسم کے دہشت گردوں کی تربیت گاہ بن کر رہ گیا ہے۔انکا مزید کہنا ہیکہاگر آپ پیچھے مڑ کر یعنی ماضی کی طرف دیکھیں گے تو آپ یہ پائیں گے کہ پہلے بہتر تھا۔

ڈونالڈ ٹرمپ نے صدام حسین کو اچھا آدمی نہیں کہا بلکہ اس نے صدام کو خوفناک شخص قرار دیا۔ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر وہ امریکی صدارت پر فائز ہوجاتے ہیں تو انکی خارجہ پالیسی میں امریکی فوج کو مضبوط بنانا شامل ہے۔اور بارک اوباما پر الزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اوباما ملک کو تقسیم کررہے ہیں جبکہ ٹرمپ امریکیوں کو متحد کرنے کا عہد کیا ہے۔چونکہ امریکہ اور برطانیہ کی فوج کے کئی سپاہی عراق اور افغانستان کی جنگ میں ذہنی توازن کھو چکے تھے اور کئی سپاہی مختلف حملوں کے دوران ہلاک و زخمی بھی ہوئے جس کی وجہ سے امریکیوں نے احتجاج بھی کیا۔ جبکہ لاکھوں عراقیوں کے ناحق قتل عام پر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

امریکہ ، برطانیہ اوردیگر اتحادی ممالک نے20؍ مارچ 2003میں عراق پر حملہ کیا تھا اور اس وقت کے حکمراں صدام حسین کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی جو سازش رچی گئی تھی اس میں کامیابی حاصل کی، صدام حسین کو گرفتار کرنے کے بعدمقدمہ چلایا گیا اور آخر کار دشمنانِ اسلام مسلمانوں کے اس عظیم رہنما و مردِ مجاہد کو 30؍ ڈسمبر 2006کے روز یعنی 9؍ ذی الحجہ کوحج کے موقع پر پھانسی پر لٹکا دیا جس وقت صدام حسین کو قتل گاہ لیجایا گیا اس وقت وہ ایک مرد مجاہد کی طرح بہادری کے ساتھ تختہ دار تک پہنچے اور کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے شہادت پائی۔ صدام حسین کی موت کا ویڈیو دیکھنے کے بعدانکے مخالف مسلمانوں نے بھی رنج و غم کا اظہار کیا ۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ملک کے نظم و ضبط اور قوانین کے خلاف کوئی بغاوت کرتا ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنا ضروری ہوجاتا ہے اور اگر صدام حسین کے دورِ حکمرانی میں بھی کسی کو سزائیں دی گئیں ہے تو انہیں قانون توڑنے کی وجہ سے دی گئیں ہونگی اور یہ ملک کے قوانین کے مطابق عمل آوری تصور کی جاتی ہے۔ لیکن صدام حسین پر جھوٹے الزامات عائد کرکے جس طرح ایک مسلم حکمراں کو جو اسلام اور مسلمانوں کیلئے اہم ستون کی حیثیت رکھتا تھا ، دشمنانِ اسلام اسے مستقبل کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے جھوٹے الزامات عائد کرکے عراق جیسے ترقی یافتہ یعنی تعلیمی ، معاشی استحکام والے ملک کو تباہ و تاراج کیا اورصرف چار سال یعنی2003سے 2006کے دوران چھ لاکھ عراقیوں کو ہلاک کردیا گیا۔جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور اسکے اتحادی ممالک کے حملوں کے بعد سے عراق میں شورش کا آغاز ہوا اور القاعدہ ، داعش (آئی ایس آئی ایس )جیسے شدت پسند تنظیموں نے جنم لیااور آج عراق جن حالات سے دوچار ہے شاید اسے سنبھلنے کیلئے برسوں لگ جائیں گے۔ ہر روز عراق میں بم دھماکے، خودکش حملوں کے ذریعہ تباہی و بربادی جاری ہے۔ شاید یہی وجہ ہوگی کہ عراق کے اندرونی حالات کو دیکھتے ہوئے امریکہ 2011میں اپنی فوج کو عراق سے دستبردار کروالیا۔

2011میں بہار عرب کے نام سے عرب ممالک میں اقتدار کے خلاف عوامی احتجاج کا آغاز ہوا۔ مصر کے صدر حسینی مبارک کا اقتدار ختم ہوا تو ادھر لیبیا کے معمر قذافی جنہیں کرنل قذافی بھی کہا جاتا تھا۔معمر قذافی یکم ؍ ستمبر1969سے 23؍ اگسٹ 2011تک یعنی چار دہائیوں سے زائد عرصہ تک لیبیا کے اقتدار پر براجمان رہے۔وہ لیبیاء کے سب سے بڑے رہنماء شمار سمجھے جاتے تھے ، اسلامی ممالک کے علاوہ عالمی سطح پر انہیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔معمر قذافی ریاستہائے متحدہ افریقہ بنانے کے بڑے حامی تھے، انہیں افریقی اتحاد جس میں 53افریقی ممالک شامل ہیں کے صدر نشین (چیئرمین) تھے۔ بہار عرب کے نام پر شروع ہونے والی باغیانہ سرگرمیوں میں لیبیاء کے اس مرد مجاہد کو دشمنانِ اسلام اپنی سازشوں کے تحت اقتدار سے بے دخلکرنے کے منصوبہ میں کامیابی حاصل کی اور 20؍ اکٹوبر2011کو انکے آبائی شہر سرت میں نیٹو اور قبائلی باغی جنگجوؤں نے حملہ کرکے شہید کردیا۔ معمر قذافی کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسلام پسند تھے اور انہوں نے لیبیا میں اسلام پر پہلی کتاب لکھی۔ صدام حسین کے خاتمہ کے بعد دشمنانِ اسلام کی آنکھوں کا کانٹا بنے ہوئے معمر قذافی کو کسی نہ کسی طرح بدنام کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ انہیں عیاش حکمراں کی حیثیت سے متعارف کرانے کی کوششیں بھی ہوئیں لیکن تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ قذافی ایک کٹر اور پابند مسلمان تھے ، انکی سیکیوریٹی میں خواتین فورس کو دیکھتے ہوئے عوام میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ ایک عیاش قسم کے رہنماء ہیں۔جبکہ خواتین سیکیوریٹی متعین کرنے کی وجوہ کوئی اوربتائی جاتی ہے جسے تجربہ کار حکمراں اور سیکیوریٹی کے اعلیٰ افسر ہی سمجھ سکتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہ خواتین سیکیوریٹی رکھنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ ایک عیاش حکمراں تھے۔ عراق سے صدام حسین کا خاتمہ اور شہادت اور لیبیا سے کرنل قذافی کا خاتمہ و شہادت دشمنانِ اسلام کے لئے بڑی کامیابی ہے۔ ان دوقائدین کی وجہ سے فلسطین میں یاسرعرفات کو مضبوط موقوف حاصل تھا اورآج اسرائیلی حکومت اور فوج کی جانب سے معصوم فلسطینیوں پر جو ظلم و زیادتی دکھائی دے رہی ہے مسلمانوں کے ان دو اہم قائدین کی کمی کا احساس دلاتی ہے ۔ صدام حسین اور قذافی عالمِ اسلام کے لئے مضبوط اور طاقتور ترین حکمراں کی حیثیت رکھتے تھے جس کا شدیداحساس دشمنانِ اسلام کو ہوچکا تھا ، یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جس طرح مسلم حکمرانوں کو سازشوں کے ذریعہ بدنام کرکے ہلاک کیا گیا وہی سبق دشمنانِ اسلام خصوصاً بش اور بلیئر نے صدام حسین اور قذافی کے ساتھ دہرانے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے، آج بلیئر کواپنی غلطی کا احساس ہوچکا ہے لیکن مسلمانوں کو اس سے خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمان بغیر تحقیق کے ہر چیز کو قبول کرلیتے ہیں انہیں دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا پتہ تب چلتا ہے جب سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔ مسلمان جس طرح بغیر تحقیق کے اپنے دشمن کی باتوں پر یقین کرلیتے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ آج عالمِ اسلام میں قتل و غارت گیری کا بازار گرم ہے۔ شام میں 2011سے شروع ہونے والی خانہ جنگی میں تین لاکھ سے زائد شامی ہلاک ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوچکے ہیں۔ ایک طرف سعودی عرب پر الزام ہے کہ وہ بشارالاسد کے خلاف شدت پسند تنظیموں کی مدد کررہا ہے تو دوسری جانب ایران، روس بشارالاسد کے اقتدار کو بچائے رکھنے کے لئے بھر پور امداد پہنچا رہے ہیں یہی نہیں بلکہ شدت پسند تنظیموں پر فضائی حملے کررہے ہیں جبکہ امریکہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک بھی شدت پسند تنظیموں کے خلاف فضائی کارروائی میں مصروف ہیں ان فضائی اور زمینی حملوں میں زیادہ تر ہلاک ہونے والوں میں عام شہری شامل ہیں ۔ خطہ میں لاکھوں مسلمانوں کی ہلاکت کے باوجود اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے ۔ امریکہ،روس اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک ، ان اسلامی ممالک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پرخود کھلی دہشت گردی کررہے ہیں جبکہ عالمی سطح پر مسلمانوں کو دہشت گرد بتاکر ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن حق اور باطل کے درمیان فرق کسی بھی حال ظاہر ہوتا ہے اور انشاء اﷲ العزیز عنقریب اسلام کی سربلندی بھی ہوگی اور جوق در جوق کفار و مشرک مشرف بہ اسلام بھی ہونگے۔
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اِس زود پشیماں سے پشیماں ہونا
 
Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 352 Articles with 209668 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.