قارئین ذرا سوچ کر یہ بتائیں کہ
اگر ہمارا باس ہمیں اپنے پاس طلب کرے یا ہمیں کسی بڑے عہدے دار یا کسی
سرکاری افسر کے پاس جانا ہو یا کسی وزیر منسٹر سے ہماری کوئی ملاقات طے ہو
تو کیا یہ ممکن ہے کہ ادھر ہم باس یا وزیر یا سرکاری افسر کے سامنے جائیں
اور اُدھر ہمارے موبائل کی گھنٹی بج جائے اور ہم سب کو ایک طرف چھوڑ کر
موبائل سننے لگ جائیں اور اطمینان سے اپنا فون سننے کے بعد اپنے باس یا اس
وزیر کی بات سنیں ؟ یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہوگا اور آپ یہی کہیں گے کہ
نہیں اصولی طور پر ہمیں اپنا موبائل بند کر کے پہلے ان کی پاس جانا چاہیے
اور ان کی بات سننے کے بعد یا ان سے ملاقات کرنے کے بعد اپنے موبائل کی
جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ اور ویسے بھی اخلاقی طور پر یہ درست نہیں ہے کہ ہم
سے کوئی عام فرد بھی ملنے آئے اور وہ ہم سے توجہ کا متقاضی ہو اور ہم اپنے
موبائل سے کھیل رہے ہوں۔
آپ کی بات بالکل درست ہے ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن بد قسمتی سے ہم اپنے رب
کے ساتھ جو کہ ہمارا خالق، ہمارا مالک، ہمارا رازق، ہمارا حاجت روا اور رب
العالمین ہے اس رب کے ساتھ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنے رب کے دربار میں
پیش ہوتے ہیں اور محض اپنے موبائل کی وجہ سے اس دربار سے ہماری واپسی
ہوجاتی ہے یا پھر یہ کہہ لیں کہ ہم مالک کے حضور سکون و دلجمعی اور یکسوئی
کے ساتھ متوجہ نہیں ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں جو ہمارا مشاہدہ ہے وہ ہم آپ کے
سامنے رکھیں گے اور اس کے مطابق بات کریں گے۔ ہمارے آفس کے سامنے ایک مسجد
ہے جہاں ہم اور ہمارے کئی ساتھی نماز کی ادائیگی کے لئے جاتے ہیں وہاں کئی
دفعہ ایک عجیب سی بات ہوئی جس نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اس موضوع پر کچھ
لکھیں۔ ایک دن جب ہم مسجد میں داخل ہوئے اور وضو کر رہے تھے، جماعت کھڑی
ہونے والی تھی اتنے میں ایک صاحب مسجد میں داخل ہوئے غالباً ان کا وضو پہلے
سے تھا اسی لئے وہ سیدھا صفوں کی جانب بڑھے کہ اچانک ان کے موبائل کی گھنٹی
بجی، گھنٹی کی آواز سنتے ہی وہ صاحب رکے، واپس پلٹے اور فون سننے لگ گئے
ہماری توجہ ان کی جانب تھی ہم نے دیکھا کہ وہ موبائل پر اپنی کاروباری
سرگارمیاں نمٹا رہے تھے اور دوسری جانب جماعت کھڑی ہوگئی اور ہمارے جماعت
میں شام ہونے تک وہ صاحب فون پر ہی گفتگو کررہے تھے۔
اسی طرح ایک دفعہ اور اسی مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا کہ عشاء کا وقت تھا ہم
مسجد کی جانب جارہے تھے ہم سے آگے چند نوجوان تھے وہ بھی ہمارے ساتھ وضو
خانے میں داخل ہوئے اور ہم سے پہلے وضو کر کے وہ صفوں کی جانب بڑھ گئے
جماعت کھڑی ہونے والی تھی ہم نے اپنا اپنا وضو مکمل کیا اور صفوں کی جانب
روانہ ہوئے ہم نے دیکھا کہ مذکورہ نوجوانوں میں سے ایک پہلی صف میں پہنچ
گیا تھا کہ اچانک اس کے موبائل کی گھنٹی بجی اور وہ نوجوان صف میں جانے کے
بجائے دوبارہ پیچھے چلا گیا اور اس دوران جماعت کھڑی ہوگئی اور وہ نوجوان
اس بات سے بے نیاز اپنے موبائل میں گفتگو کرنے میں مگن تھا جب نماز مکمل
ہوئی تو میں دیکھا کہ وہ فرد جو کہ پہلی صف میں جاچکا تھا اب وہ آخر کے
نمازیوں میں شامل تھا اور اس کی دو رکعتیں نکل چکی تھیں۔ ایسے دو واقعات
اور بھی ہمارے سامنے پیش آئے۔
ذرا سوچیں کہ یہ کیا ہے؟ کیا یہ موبائل اتنا اہم ہے کہ ہم اپنے رب کے حضور
اطمینان قلب کے ساتھ حاضری بھی نہیں دے سکتے ہیں۔ کیا فون کرنے ولا ہمارے
رب سے بھی زیادہ معزز اور اہم ہے کہ اس کی بات سننے کے لئے ہم اپنے رب کے
دربار سے نکل آئیں یا اگر رب کے سامنے کھڑے بھی ہوں تو دل اسی جانب لگا رہے
کہ کہیں موبائل کی گھنٹی نہ بج جائے؟ اگر ہمیں کسی عام سے افسر یا اپنے باس
کے پاس بھی جانا ہو تا ہے تو ہم اپنا موبائل بند کردیتے ہیں یا کم از کم ان
کے سامنے موبائل فون کی جانب متوجہ نہیں ہوتے کہ کہیں صاحب ناراض نہ
ہوجائیں کہ میں تم سے بات کررہا ہوں اور تم موبائل فون میں لگے ہوئے ہوں!
نماز بھی تو رب سے ملاقات کا نام ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ
جب میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ مجھ سے بات کرے تو میں قرآن پڑھتا ہوں اور جب
میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ سے بات کروں تو میں نماز پڑھتا ہوں اب اس قول کو
سامنے رکھیں اور بتائیں کہ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ ہم اپنے رب سے گفتگو
کرنے جائیں جب ہماری اپنے رب سے ملاقات کا وقت ہو تو ہم اس اہم وقت کو
موبائل فون سننے میں گنوا دیں۔ ہے نا بدقسمتی کی بات۔
ہمارے تبلیغی بھائی ایک بات کہتے ہیں کہ ایمان اور یقین ہونا چاہے اور یہ
دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں اگر ایمان ہوگا تو پھر لامحالہ یقین بھی ہوگا
اور اگر یقین نہ ہو تو سمجھ لیں کہ ایمان بھی کمزور ہے۔ ہمیں یہ تو یقین ہے
کہ اگر افسر یا باس کی شان میں گستاخی ہوگئی تو وہ ناراض ہوگا لیکن یہ یقین
نہیں ہے کہ اگر اللہ نافرمانی کی تو اللہ ناراض ہوگا۔ اس بات کو سوچیں اور
غور کریں کہ ہم اپنے رب ک ساتھ ملاقات کرنے جائیں تو ہمارا کیا رویہ ہونا
چاہئے؟ آخر میں ہم یہ بات کہنا چاہیں گے کہ جب بھی مسجد میں داخل ہوں تو
اپنا موبائل فون خاموش (Silent ) کرنے کے بجائے مکمل طور پر بند کردیں تاکہ
ہمارے اور رب کے درمیان ملاقات میں کوئی مخل نہ ہو، حضورِ قلب کے ساتھ اللہ
کے دربار میں پیش ہوں اللہ سے ملاقات کریں، ملاقات کے آخر میں اللہ کے حضور
عاجزی سے اپنی گزارشات ( دعائیں) رکھیں نہایت ادب سے یہ ملاقات ختم کریں
اور اس کے بعد اپنے معمول کی کاموں کی جانب متوجہ ہوں اور موبائل بھی اس کے
بعد ہی کھولیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے دوست احباب اور جن لوگوں کو بھی
آپ اپنا موبائل نمبر دیں تو ان کو تاکید بھی کردیں کہ نماز کے اوقات میں
فون نہ کریں۔ |