پرانے شہر بریلی کے ایک محلہ میں
آج صبح ہی سے ہر طرف چہل پہل تھی۔ دلوں کی سر زمین پر عشق رسالت کا صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیف اور سرور کالی گھٹاؤں کی طرح برس رہا تھا۔ بام
و در کی آرائش اور گلی کوچوں کا نکھار (یعنی گھروں کے باہر سے اور گلی
محلوں کو بڑی شان اور شوکت سے سجایا جا رہا تھا) رہگزاروں صفائی اور دور
دور تک رنگین جھنڈیوں کی بہار ہر گزرنے والے کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔
بالاخر چلتے چلتے ایک راہ گیر نے دریافت کیا یہاں کیا ہونے والا ہے؟ کسی نے
جواب دیا دنیائے اسلام کی عظیم ترین شخصیت، دین کے مجدد اہل سنت کے امام
فنافی العشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی امام
احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تشریف لا نے والے ہیں۔ انہیں کے خیر مقدم میں
یہ سارا اہتمام ہو رہا ہے۔
پھر اس شخص نے فوراً ہی دوسرا سوال کیا کہاں سے تشریف لائیں گے وہ؟
کسی نے جلدی سے گزرتے ہوئے جواب دیا اسی شہر کے محلہ سوداگران سے۔ جواب سن
کر وہ حیرت سے منہ تکتہ رہ گیا۔اور دیر تک سوچتا رہا کہ آنے والا اسی شہر
سے آرہا ہے۔ وہ آنا چاہے تو ہر صبح شام آسکتا ہے۔ مسافت بھی کوئی اتنی طویل
نہیں کہ آنے والے کو کوئی خاص اہمیت دی جائے۔ اور ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھ
کر اسکا خیر مقدم کیا جائے۔
آخر لوگوں کے سامنے اپنے دل کی اس خلش کا اظہار کئے بغیر نا رہا گیا۔ ایک
بوڑھے آدمی نے ناصحانہ انداز میں اسے جواب دیا بھائی ! پہلے تو یہ سمجھ لو
کہ وہ آنے والا کس حیثیت کا ہے؟ کس شان کی اس کی ہستی ہے۔
آنے والے مہمان کی زندگی یہ ہے کہ وہ اپنے دولت کدے سے نکل کر یا تو فرائض
کی بندگی کے لئے خدا خانے میں جاتا ہے یا پھر جذبہ عشق کی تپش بڑھ جاتی ہے
تو دیار حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفر کرتا ہے۔
اس کے علاوہ اس کی شام و سحر اور شب و روز کا ایک ایک لمحہ دینے مہمات میں
اس طرح درجہ مصرف ہے کہ نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی بھی اسے مہلت نہیں ملتی اس
کے حریم دل پر ہر وقت عشق بے نیاز کا پہرہ کھڑا رہتا ہے۔ ہزار ہا انداز
دلربائی پر بھی آج تک خیال غیر کو بازیابی کی اجازت نہیں مل سکی۔ اسکے خون
جگر کی سرخی سے ویرانوں میں دین کے گشن لہلہا اٹھے ہیں۔
عشق اور ایمان کی روح اس کے وجود کی رگ رگ میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اپنے
محبوب کے شوکت جمال کے لئے ہر وقت بے چین رہتا ہے۔ اس کے جگر کی آگ کبھی
نہیں بجھتی اس کے دل کا دھواں کبھی نہیں بند ہوتا۔ اور علم و حکمت کے نقش
کے لئے اس کے قلم کی روشنائی کبھی نہیں سوکھتی۔ پلکوں کا قطرہ ڈھلکنے نہیں
پاتا کہ اس کی جگہ آنسوؤں کا نیا طوفان امنڈنے لگتا ہے۔ وہ اپنے محبوب کے
وفاداروں پر اس قدر مہربان ہے کہ ان کے قدموں تلے دل بچھانے کو بھی تیار ہے۔
وہ اپنے قاتلوں اور دشمنوں اور خون کے پیاسوں کو تو معاف کر سکتا ہے لیکن
اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخوں کے لئے اس کے دل میں دور
دور دور تک کو جگہ نہیں وہ ان کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا اور ان سے صلح
کی بھی کوئی گنجائش نہیں ۔علم کا ایسا دریا بہایا کہ بڑے بڑے قلم داں دنگ
رہ گئے۔
دوستی تو بہت دور کی چیز ہے کہ وہ علم کے لئے اتنا مصروف ہے کہ اپنے دوستوں
سے ہنس کر بھی بات نہیں کرتا۔
بارگاہ رب العزت اور شان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ادب احترام کا
اس قدر ذوق ہے کہ ایک ایک لفظ اور حرف پر ادب کا پہرہ بٹھا رکھا ہے۔ اب اہل
عرفاں کی دنیا بیک زبان اسے مجدد کہتی ہے۔
تقویٰ اور پرہیز گاری کا یہ عالم ہے کے اس کو کے مصداق ہیں ــ۔(کہ جہاں تیر
رب نے تجھے رہنے کا حکم دیا وہا سے کبھی غائب نہ ہونا اور جہاں جانے سے منع
کیا وہاں کبھی نظر نہ آناچا ہے موت آجائے)
وہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گدائی پر دونوں جہاں کا اعزاز نثار
کرچکا ہے۔ اس بوڑھے آدمی نے اپنے گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ اب تم ہی بتاؤ
کہ اتنی عظیم شخصیت کہ جس کی علم اور ذہانت کا سکہ عرب و عجم نے مانا ہو
اگر آج وہ ہمارے محلہ میں قدم رکھنے کی سعادت بخش رہا ہے تو کیا یہ ہماری
معراج نہیں اور کیا اب بھی ہم سجاوٹ نا کریں۔ وہ شخص یہ باتیں سن کر کافی
دیر حیران کھڑا رہا۔
ادھر امام اہل سنت کی سواری کے لئے پالکی(یعنی پرانے زمانے میں ایک چار
بانسوں والی ڈبا نما کرسی ہوتی تھی) درواز پر لگا دی گئی تھی۔ سینکڑں
مشتاقاں دیدار کے لئے انتظار میں کھڑے تھے۔ امام صاحب وضو سے فارغ ہو کر
کپڑے زیب تن فرمائے عمامہ باندھا اور عالمانا وقار پر باہر تشریف لائے۔
چہرہ انور سے فضل و تقویٰ کی کرن پھوٹ رہی تھی۔ مجمع پر دیدار کے لئے بے
خودی کا عالم طاری تھا بڑی مشکل سے سواری تک پہنچے۔
سواری میں بیٹھنے کے بعد کہاروں نے پالکی اٹھائی اور سوار لے کر چلنا شروع
کردیا۔ آگے پیچھے دائیں بائیں نیاز مندوں کی بھیڑ ساتھ چل رہی تھی۔
پالکی لیکر تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ امام اہل سنت نے آواز دی۔
پالکی روک دو۔۔۔۔۔حکم کے مطابق پالکی رکھ دی گئی۔ ہمراہ چلنے ولا مجمع بھی
وہیں رک گیا۔
اضطراب کی حالت میں باہر تشریف لائے پالکی اٹھانے والوں کو اپنے قریب
بلایا۔اور بھر آئی ہو اور غم زدا آواز میں دریافت کیا۔
اے پالکی اُٹھانے والوں! آپ میں کوئی آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو
نہیں ہے۔آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ سچ بتائیے ــــــــ
،میرے ایمان کا ذوق لطیف سید زادے کی خوشبو محسوس کر رہا ہے۔
جب آپ نے سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ دیا تو حیاء کی
وجہ سے ان پالکی اٹھانے والوں میں سے ایک شخص آگے آیا اور کہنے لگا۔ جناب
میں ہی سید زادہ ہوں کسی دوسرے شہر سے یہاں چند دنوں ہی سے رہائش اختیار کی
ہے کوئی کاروبار نہیں تھا اس لئے ان مزدوروں کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ اور
آپ نے میر جد امجد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ پیش کیا اس لئے میں
سامنے آگیا۔ ورنہ یہاں سید زادے کو کون پوچھے اور اس کا خیال
رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ابھی اس سید زادے کی بات مکمل بھی نا ہوئی تھی کہ یہ منظر دنیا نے اپنی
آنکھوں سے دیکھا کہ ۔۔۔۔۔۔
وقت کے امام وقت کے مجدد امام اہل سنت عاشق ماہ نبوت حضرت امام احمد رضا
خان نے اپنا عمامہ اتار کر اس سید زادے کے قدموں میں رکھ دیا ہوا تھا اور
رو رو کر ہاتھ جوڑ کر عرض فرما رہے تھے اور رونے کا انداز ایسا تھا جیسے
کوئی روٹھے ہوئے عاشق کو مناتا ہے۔
آپ اس سید زادے سے رو رو کر عرض کرنے لگے۔ اے میرے پیارے سید زادے یہ میں
نے کیا کر دیا کہ میں نے ایک سید زادے کے کندھے پر سفر کرنے کی کوشش کی۔
اور اگر بروز قیامت میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھ لیا کہ کیا
ہمارے نواسوں کے کاندھے تم جیسوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے تھے تو میں کیا
جواب دوں گا۔۔۔۔۔۔
اے پیارے سید زادے میری عرض سنو! اور مجھ کو معاف کر دو۔۔۔انہوں نے معاف تو
کر دیا لیکن پھر بھی آپ پر خوف کا غلبہ طاری رہا اور بار بار ان کے آگے
ہاتھ جوڑتے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر گزرنے کے بعد فرمانے لگے اب میری سزا یہی ہے کہ اے سید زادے آپ
پالکی میں بیٹھو! اور میں اس کو اُٹھاؤں گا۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ یہ منظر دیکھ کر دھاڑیں مار کر رونے لگے اور ہر کسی کی یہی خواہش تھی
کہ یہ امام صاحب پالکی نہ اُٹھائیں کاش یہ پالکی اُٹھانے کا موقع ہم کو مل
جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور امام صاحب نہ مانے اور خود ہی پالکی اُٹھائی۔
اور زمانے نے یہ منظر اپنے آنکھوں سے دیکھا۔اور یہ بھی بتاتا چلوں جنہوں نے
یہ واقعہ سنایا یہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا
عشق کے بیمار کی کوئی دوا ہو تو ہی آرام بخشے
ڈال دی قلب میں عظمت آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مرشدی اعلی حضرت پر لاکھوں سلام
اے مسلمانوں اس واقعہ کو نگاہوں میں رکھتے ہوئے زرا سوچو کہ ہم سید زادوں
کی کتنی عزت کرتے ہیں۔ اور ان لوگوں سے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
نام سن کر منہ چڑھانا شروع کر دیتے ہیں میرا ان سے صرف ایک ہی سوال ہے۔
کیا تم لوگوں کو اپنا نبی اچھا نہیں لگتا کہ جن کا تم کلمہ پڑھے بغیر
مسلمان نہیں رہ سکتے؟ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو سید زادوں کی عزت کرنے کی
توفیق عطا فرمائے (آمین بجاالنبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) |