جانشین کا تعین
مناسک حج مکمل ہو گئے اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم واپس مدینہ کی
طرف روانہ ہوئے لیکن جو فرض آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر واجب تھا وہ
ابھی ادا نہیں ہوا تھا۔ مسلمانوں نے یہ سمجھ کر کہ کام انجام پذیر ہو چکا
ہے اسی لیے ان میں سے ہر ایک شخص نے اس سفر سے معنوی فیض کسب کیا اور اب ہر
ایک کی یہی تمنا تھی کہ جس قدر جلد ہوسکے تپتے ہوئے بے آب و ویران ریگزاروں
کو پار کر کے واپس وطن پہنچ جائے۔ لیکن رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
چونکہ اپنی عمر عزیز کے 23 سال اول سے آخر تک رنج و تکالیف میں گزار کر
آسمانی آئین یعنی دین اسلام کی اشاعت و ترویج کے ذریعے انسانوں کو پستی و
گمراہی اور جہالت و نادانی کی دلدل سے نکالنے میں صرف کئے تھے اور آپ اپنے
مقصد میں کامیاب بھی ہوئے تھے۔ آپ یہی چاہتے تھے کہ پراگندہ انسانوں کو ایک
پرچم کے نیچے جمع کرلیں انہیں امت واحد کی شکل میں لے آئیں جب یہ ہدف حاصل
کر لیا تو اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اسلام کا
مستقبل اور رہبر کے انتخاب کا مسئلہ تھا۔
بالخصوص اس صورت میں جبکہ آپ کے روبرو یہ حقیقت بھی تھی کہ اس پر افتخار
زندگی کے چند روز ہی باقی رہ گئے ہیں۔ کوئی ایسا ہی لائق و شائستہ شخص جو
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مقرر کردہ شرائط کو پورا کرسکے اس آیت
قرآنی کی روشنی میں ”الیوم اکملت و لکم دینکم“ دین اسلام کو بے حد کمال تک
پہنچا سکتا ہے نیز امت اسلامی کی کشتی کو اختلافات کی پرجوش و خروش اور
داخلی کشمکش سے نجات دلا کر ساحل تک پہنچانے میں معاون و مددگار ہوسکتا ہے۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اگرچہ جانتے تھے کہ امت مسلمہ میں وہ کون
شخص ہے جو آپ کی جانشینی اور مستقبل میں اس امت کی رہبری کے لئے مناسب و
موزوں ہے اور خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کتنی ہی مرتبہ مختلف
پیرائے میں یہ بات لوگوں کے گوش گزار بھی کر دی تھی لیکن ان حقائق کے
باوجود اس وقت کے مختلف حالات اس امر کے متقاضی تھے کہ جانشینی کے لئے
خداوند تعالیٰ کی طرف سے جدید حکم واضح و صریح الفاظ میں نازل ہو۔ آنحضرت
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم یہ بات بھی خوب جانتے تھے کہ اس معاملے میں اللہ
تعالیٰ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مدد فرمائے گا تاکہ اس فرض کی
ادائیگی میں آپ کی طرف سے کوئی کوتاہی نہ ہو کیونکہ رسالت کی طرح مقام
خلافت و امامت بھی الٰہی منصب ہے اور حکمت الٰہی اس امر کی متقاضی ہے کہ اس
منصب کے لئے کسی لائق شخص کو ہی منتخب کیا جائے لیکن اس کے ساتھ ہی رسول
خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خدشہ بھی لاحق تھا کہ اگر یہ عظیم اجتماع
پراگندہ ہوگیا اور ہر مسلمان اپنے اپنے وطن چلا گیا تو پھر کبھی ایسا موقع
نہ مل سکے گا کہ کسی جانشین کے مقرر کئے جانے کا اعلان ہوسکے اور آپ کا
پیغام لوگوں تک پہنچ سکے۔ قافلہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا کہ 18ذی
الحجہ ”حجفہ“ کے نزدیک ”غدیرخم“ پر پہنچا اور یہ وہ جگہ ہے جہاں مدینہ سے
مصر و عراق کی جانب جانے والی راہیں ایک دوسرے سے جدا ہوتی ہیں۔ اس وقت
فرشتہ وحی نازل ہوا اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جس پیغام کی
توقع تھی وہ ان الفاظ میں پہنچایا۔”اے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کہہ دو
کہ میرے بعد کوئی نبی و پیغمبر نہیں ہوگا اور تمہارے بعد کوئی امت نہ ہوگی۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات تاکید سے کہی کہ اے لوگو! میری بات
کو اچھی طرح سنو اور اس پر خوب غور و فکر کرو کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس کے
بعد میری تم سے ملاقات نہ ہوسکے۔ ان الفاظ کے ذریعے آنحضرت صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم لوگوں کو مطلع کر رہے تھے کہ وقت رحلت نزدیک آگیا ہے اور شاید
اسی وجہ سے اس حج کو ”حجة الوداع“ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔
رسول خدا رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہر شخص سے زیادہ اپنے معاشرے کی
سیاسی اور ثقافتی وضع و کیفیت سے واقف و باخبر تھے۔ آپ کو اس بات کا بخوبی
علم تھا کہ آسمانی تعلیمات آپ کی دانشورانہ قیادت و رہبری اور حضرت علی
علیہ السلام جیسے اصحاب کی قربانی کے باعث قبائل کے سردار و شرفاء قریش
اسلام کے زیر پرچم پہنچا دیا۔
فرشتہ وحی نے پیغام الٰہی پہنچایا
یا ایھا الرسول بلغ ما انزل من ربک وان لم تفعل فما بلخت رسلتہ واللہ یعصمک
من الناس ”اے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم
پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی
رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔ اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچائے گا۔“
گرمی سخت تھی اور کافی طویل قافلہ زنجیر کے حلقوں کے مانند پیوستہ اپنی
منزل کی جانب گامزن تھا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے یہ
قافلہ رک گیا اور سب لوگ یک جا جمع ہوگئے اور سب لوگ یہ جاننے کے متمنی تھے
کہ کون سا اہم واقعہ رونما ہوا ہے۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے تو نماز ظہر کی امامت فرمائی اور
اس کے بعد ایک اونچی جگہ پر جو اونٹ کے کجائوں سے بنائی گئی تھی تشریف فرما
ہوئے اس موقع پر آپ نے مختلف مسائل کے بارے میں مفصل خطبہ دیا اور ایک بار
پھر لوگوں کو یہ نصیحت فرمائی کہ کتاب اللہ نے اور اہل بیت رسول کی پوری
دیانتداری کے ساتھ پیروی کریں کیونکہ یہی دونوں ”متاع گرانمایہ“ بیش قیمت
مال ہیں۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اصل مقصد کی جانب توجہ
فرمائی۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کا دست مبارک اپنے
دست مبارک میں لے کر اس طرح بلند کیا کہ سب لوگوں نے رسول نیز حضرت علی
علیہ السلام کو ایک دوسرے کے دوش بدوش دیکھا چنانچہ انہوں نے سمجھ لیا کہ
اس اجتماع میں کسی ایسی بات کا اعلان کیا جائے گا جو حضرت علی علیہ السلام
کے متعلق ہے۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا”اے مومنو!
تم لوگوں میں سے کون سا شخص سب سے زیادہ برتر و بالا ہے؟ مجمع نے جواب دیا
کہ ”خدا اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔“
اس پر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ” میرا مولا خدا ہے۔ میں
مومنین کا مولا ہوں میں سب سے بہتر ہوں اور سب پر مجھے فضیلت حاصل ہے اور
جس کا مولا میں ہوں یہ علی علیہ السلام اس کے مولا ہیں، اے خداوندا جو علی
علیہ السلام کے دوست ہوں انہیں تو عزیز رکھ اور جو علی علیہ السلام کے دشمن
ہوں تو ان کے ساتھ دشمنی کا سلوک کر۔ علی علیہ السلام کے دوستوں کو فتح و
نصرت عطا فرما اور دشمنانِ علی علیہ السلام کو ذلیل و خوار کر۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا خطبہ ختم ہو جانے کے بعد مسلمان حضرت
علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کی طرف سے مرتبہ خلافت و قیادت تقویض کئے جانے پر مبارکباد پیش کی اور آپ
علیہ السلام سے مولائے مسلمین کہہ کر ہمکلام ہوئے۔ خداوند تعالیٰ نے بھی
حضرت جبرئیل کو بھیج کر اور مندرجہ ذیل آیت نازل فرما کر لوگوں کو اس نعمت
عظمیٰ کی بشارت دی۔
”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا“
”آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر
تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند فرمایا ہے۔“
اس روز سے 18 ذی الحجہ کو مسلمان اور حضرت علی علیہ السلام کے پیروکار ”عید
غدیر“ کے نام سے ہر سال جشن مناتے ہیں اور اس عید کا شمار اسلام کی عظیم
عیدوں میں ہوتا ہے۔
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی۔ |