سچے رضاکار کو کسی تعریف یا
تحسین کی ضرورت نہیں ہوتی۔ رضاکارانہ جذبہ انسانی تسکین اور روحانی تشفی کے
ساتھ جُڑا ہوتا ہے۔ طمانیت قلب ہی سب سے بڑا صلہ ہوتاہے۔ ایک مسلمان خلق
خدا کے کاموں میں اس لئے حصہ لیتا ہے تاکہ اﷲ پاک کی رضا مندی اور قربت
حاصل کرسکے۔ جہاں تک کسی فرد کی رضاکارانہ سرگرمیوں کے حوالے سے سماجی اور
سماجی تنظیموں کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کے لئے رضاکاروں کی عزت افزائی‘
تصدیق اور توثیق ضروری ہوتی ہے۔
پاکستان میں انسانی خدمت کے درجنوں ادارے موجود ہیں۔ سرکاری ‘ نیم سرکاری
اورغیر سرکاری سب کی اپنی اپنی خدمات ہیں۔دُکھ اور درد کی گھڑی میں ہمدرد ی
کے دو بول بھی بہت وقعت رکھتے ہیں۔ ہلال احمر پاکستان ان سب اداروں سے
نمایاں مقام رکھتا ہے۔
ریڈکریسنٹ یعنی ہلال احمر ایک طرف قومی سطح کا ادارہ ہے تو دوسری طرف یہ
ریڈکراس /ریڈکریسنٹ موومنٹ کا حصہ بھی ہے۔ ایک سو نوے ممالک میں ایسے قومی
ادارے موجود ہیں۔ انسانی خدمت کی اس تحریک کا ہیڈکوارٹر جنیوا میں ہے۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈکراس اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈکراس/ریڈ کریسنٹ
سوسائٹیز کے ملاپ سے یہ ایک تحریک بنتی ہے ۔ کسی ممبر مُلک میں کوئی قدرتی
آفت آئے‘ دہشت گردی ہو یا جنگیں ہوں اس تحریک میں شامل تمام ادارے اور
سوسائٹیاں مدد کو پہنچتی ہیں۔ لیکن اصل امتحان اس ملک کی ریڈکراس یا
ریڈکریسنٹ کا ہوتا ہے۔ اگر قومی ریڈکریسنٹ کے فعال رضاکاروں کی صحیح تربیت
ہو اور ہر ضلع اور ہر تحصیل میں ان کا نیٹ ورک موجود ہو تو تباہی کے نتیجے
میں متوقع خطرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان جغرافیائی طور پر ایسے خطے
میں واقع ہے جہاں زلزلے اور سیلاب کا اندیشہ برقرار رہتا ہے۔ ایسے ملک میں
ریڈکریسنٹ یا ہلال احمر کو بہت زیادہ فعال رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خصوصاً
جب ملک میں وبائی امراض اور دہشت گردی کا خطرہ منڈلاتا رہے پھر ہلال احمر
جیسے انسانی خدمت کے اداروں کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔
پاکستان ہلال احمر اپنے قیام سے ہی فعال دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اس کے دائرہ
کار کی محدویت نے اسے عوامی نہیں ہونے دیا۔ ادارے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے
وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف نے سیاسی دامن میں کھلنے والے خوبصورت
پھول کو اس ادارے کے لئے مختص کردیا تھا۔ جواں ہمت اور جواں سال ڈاکٹر سعید
الٰہی نے جونہی اس ادارے کی باگ ڈور سنبھالی تو ہلال احمر کے دائرہ کار میں
اضافہ ہوتا دکھائی دیا۔ انہوں نے اس ادارے کو محض تباہی کے دوران خدمات
سرانجام دینے تک محدود نہیں رہنے دیا بلکہ اسے ہمہ وقت متحرک رکھنے کا عظیم
منصوبہ تشکیل دیا اور اس پر عمل شروع کردیا۔
عرصہ دراز سے رضاکاروں کی تعداد پانچ لاکھ تھی۔ ان میں سے اکثریت خاموش تھی
اور ہیڈ آفس کی طرف سے ان کے ساتھ کوئی مربوط رابطہ نہیں تھا۔ڈاکٹر سعید
الٰہی نے تین سالوں میں پچاس لاکھ نئے رضاکار بنانے کا ہدف طے کیا اور پہلے
سال کے اندر سترہ لاکھ کی حد کو چُھو لیا۔ اس غرض کے لئے پنجا ب یونیورسٹی
اور علامہ اقبال یونیورسٹی جیسی بڑی بڑی جامعات کے ساتھ معاہدے کئے گئے۔اور
اب ان اداروں کے طلبہ و طالبات کی ٹریننگ کے پروگرام ترتیب دیئے جارہے
ہیں۔عام سوچ سے ہٹ کر چیئرمین ہلال احمر نے مدرسوں کے طلباء و طالبات کو
قافلہ انسانیت میں شامل کرنے کا جاندار پروگرام ترتیب دیا۔ تمام مسالک کے
علماء کونیشنل ہیڈکوارٹر میں دعوت دی گئی اور ہلال احمر اور تنظیمات اتحاد
مدارس کے مابین ’’میثاق انسانیت‘‘ کے عنوان سے معاہدہ طے پا گیا۔ ضلعی
انتظامیہ کے تعاون سے پنجاب کے مختلف مدارس میں فرسٹ ایڈٹریننگ شروع کی
جاچُکی ہے۔
اسلام آباد دارالحکومت میں بین الاقوامی معیار کی کوئی ایمرجنسی ایمبولینس
سروس نہیں تھی۔ ہلال احمر نے جدید طرز کی یہ سروس شروع کی۔1030 کے ملانے پر
سات سے دس منٹ میں یہ سروس فراہم ہوجاتی ہے۔ ہلال احمر نے 1122 سے بھی
معاہدہ کر لیا ہے۔ جونہی اسلام آباد کے حوالے سے 1122 کو کوئی کال وصول
ہوتی ہے ‘ہلال احمر کی ایمبولینس حرکت میں آجاتی ہیں۔ ایمبولینس میں فرسٹ
ایڈ اور فوری طبی امداد کا سامان موجود ہوتا ہے۔ اس سروس کی افادیت کو
ایوان صدر نے بھی سند عطا کی اور خود صدر پاکستان جناب ممنون حسین نے اس کا
افتتاح فرمایا۔ ڈاکٹر سعید الٰہی ایسی سروس کو پورے مُلک میں شروع کرنا
چاہتے ہیں۔ انہوں نے نیشنل ایمبولینس سروس کا ایک منصوبہ وزیراعظم پاکستان
اور صدر پاکستان کی منظوری کے لئے بھجوا رکھا ہے۔ ایمبولینس کا مقصد محض
زخمیوں اور لاشوں کی ہسپتال تک منتقلی نہیں بلکہ زخمی کو اٹھانے سے پہلے
فوری طبی امداد فراہم کرکے جان بچانا بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مرحوم جنرل
آصف نواز کا ڈرائیور اور بیوی نے اگر فرسٹ ایڈ کی معمولی سی تربیت بھی حاصل
کی ہوتی تو جنرل صاحب کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ جہاں ہر گھر میں فرسٹ ایڈ
کی ضرورت ہے وہیں ایمبولینس پر موجود عملے کی تربیت بھی از حد ضروری
ہے۔ایمبولینس کا ڈرائیور ایک ماہر فرسٹ ایڈ ر ہونا چاہیے۔ اس مقصد کو پورا
کرنے کے لئے پاکستان میں آئرش تنظیم کے ملاپ سے پہلا ایمبولینس کالج بنایا
گیا ہے۔ ہلال احمر کے نیشنل ہیڈکوارٹرز میں ماہرین کی زیرنگرانی چلنے والے
اس کالج میں تربیت حاصل کرنے والے افراد نہ صرف پاکستان کے اندر قیمتی
جانیں بچانے میں معاون ثابت ہوں گے بلکہ بیرون ممالک جا کر قیمتی زرمبادلہ
بھی کما سکتے ہیں۔ کالج میں داخلے شروع ہیں اور معمولی فیس کے عوض غیر
معمولی ہنر سے آراستگی کا اہتمام کردیا گیا ہے۔ڈاکٹر صاحب اس کالج کوکافی
نہیں سمجھتے۔انہوں نے راقم کو بتایا کہ پاکستان میں ڈیزاسٹرز کے حوالے سے
کوئی یونیورسٹی نہیں ہے۔ڈیزاسٹر یعنی قدرتی آفات یا انسان ساختہ تباہی سے
نپٹنے کے لئے دُنیا میں نت نئی تحقیقات ہورہی ہیں ۔تعلیم وتربیت کے دس سے
زائد مضامین پڑھائے جارہے ہیں۔ نقصانات کو کیسے کم کرنا ہے ‘فوری امداد کی
رسائی کیسے ممکن بنانی ہے‘متاثرہ آبادیوں سے مکالمہ کیسے کرنا ہے۔حکومتی
اور امدادی اداروں کے درمیان رابطہ کاری کیسے ہوگی۔ آباد کاری میں حائل
مشکلات پر کیسے قابو پانا ہے۔ ڈونرز کو کس طرح اور کیسے شریک کرنا ہے۔
میڈیکل‘خوراک‘ رہائش کے انتظامات کیسے ہوں گے۔ خاندان سے بچھڑ جانے والوں
کو کس طرح ڈھونڈ نکالنا ہے۔ٹرانسپیرنسی اور شفافیت کو کس طرح یقینی بنانا
ہے۔ روزگار کے مواقع کس طرح بحال کرنے ہیں۔ نفسیاتی طور پر متاثر ہوجانے
والے افراد کو کس طرح ہنسی مسکراتی زندگی لوٹانی ہے۔انفسٹرکچر کمیونیکیشن
میں ٹیکنالوجی کا کیا رول ہوسکتا ہے۔غرض بیسیوں مضامین ہیں جو اس مجوزہ
ریڈکریسنٹ ڈیسرایئریونیورسٹی میں پڑھائے جائیں گے۔
پڑھانے کی بات شروع ہوئی تو ایک اور اہم منصوبے کا ذکر بھی آگیا۔ڈاکٹر سعید
الٰہی نے بتایا کہ انہوں نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ سکولوں‘کالجوں اور
یونیورسٹیوں میں ’’ریڈکریسنٹ کورز‘‘ کا اجراء کیا جائے۔ یہ ایک لحاظ سے
نیشنل کیڈٹ کور (National Cadet Corps) کی طرز پر تربیتی پروگرام ہوگا۔ این
سی سی کی بجائے آر سی سی کا مقصد ہر طالبعلم کو فرسٹ ایڈ کی ٹریننگ دینا
‘والنٹیئر اور بلڈ ڈونر بنانا ہے۔ ایسا پروگرام خود حکومت کے لئے بھی نیک
نامی کا سبب بنے گا۔ یہ ایک صدقہ جاریہ ہوگا۔ ایک بار اگر ایسے پروگرام پر
عمل شروع ہوگیا تو چند سالوں کے اندر پاکستان میں خون عطیہ کرنے والوں کی
کمی رہے گی‘ نہ بوقت ضرورت تربیت یافتہ رضاکاروں کے لئے دیگر ممالک کی طرف
دیکھنا پڑے گا اور نہ ہی آئے روز فوری طبی امداد نہ مل پانے کے سبب قیمتی
جانوں کا ضیاع ہوگا۔ یہ ایک انقلابی منصوبہ ہے اور ہلال احمر کے چیئرمین اس
منصوبے کو ہر حال میں شروع کروانا چاہتے ہیں۔
’’آپ لوگ اس سلسلے میں ہماری مدد کریں‘ کالم لکھیں‘ حکومتی حلقوں میں اسے
پروموٹ کریں۔پاکستان کی اس سے بڑی خدمت کوئی نہیں ہوگی‘‘ ان کی آنکھوں میں
ایک اشتیاق تھا اور وہ لب ولہجہ کے اعتبار سے پُراُمید دکھائی دے رہے تھے۔
گھنٹہ بھر کی اس بریفنگ کے دوران مختلف شعبہ ہائے زندگی کی کتنی شخصیات ان
سے ملنے آئیں۔ سینئر ترین صحافی بھی دکھائی دیئے‘ سماجی رہنما بھی جلوہ گر
تھے۔ وہاں جو بھی آیا اس کے اندر خدمت انسانیت کا موثر اور مجسم احساس
بیدار ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کی ہمہ گیر شخصیت نے ہلال احمر کو گمنامی سے نکال کر
عوامی بنا دیا ہے۔ وہ رضاکاروں کی عزت افزائی کا بہتر سے بہتر راستہ
نکالنتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا‘ڈاکٹر صاحب ہلال احمر کے پلیٹ فارم سے جو
بھی دُکھی انسانیت کی خدمت کرنے کا عزم کرے گا وہ رضاکار نہیں کہلائے گا۔
ہم اس ادارے کا باقاعدہ سٹار بنائیں گے۔ وہ معاشرے کا ستارہ ہے۔ اس کا جذبہ
اس قابل ہے کہ اسے ’’سٹار‘‘ کہا جائے‘‘۔
ملاقات کے لئے آئے ایک سینئر کالم نگار کو ڈاکٹر سعید الٰہی نے اپنے ہاتھوں
سے سنہری اور دمکتا ہوا سٹار لگایا اور ہلال احمر کے ستارے اور چاند دونوں
جگمگاتے ہوئے دکھائی دیئے۔ ان چاند تاروں کی روشنی پھیل رہی ہے اور
نفسانفسی کے اس عالم میں بھی ہلال احمر لوگوں کے غم بانٹنے‘ دکھ کم کرنے
اور بے لوث خدمت کرنے کیلئے تصور‘ منصوبہ اور عمل کے مراحل تیزی سے طے کر
رہی ہے۔
قارئیں! آپ بھی اس تحریک خدمت انسانیت کے دست و بازو بن کر‘ اور تَعاوَنُو
عَلی البِروَالتقویٰ کی عملی تفسیر بن جائیں۔ڈاکٹر سعید الٰہی پُکار رہے
ہیں‘
اب وقت ہے پیچ وخم دستار کو بدلو
اخلاق کو عادات کو اطوار کو بدلو
بدلو گے تو بچ جاؤ گے تم قہر خدا سے
اڑجائیں گے یہ ریگ محل ورنہ ہوا سے
جو کچھ ضرورت سے زیادہ ہے لُٹادو
ٹل جاتی ہیں آفات غریبوں کی دُعا سے
حدیث قدسی ہے‘
’’مخلوق اﷲ کا کُنبہ ہے اور کوئی اﷲ کے کنبہ کے ساتھ سب سے اچھا سلوک کرتا
ہے وہ اﷲ کو سب سے زیادہ پیارا ہے‘‘۔ |