’’نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ کے نتیجے میں صحافی جان بحق‘‘
یہ پہلی خبر نہیں ہے۔ اس طرح کی خبریں روزانہ کا معمول بن چکی ہیں۔ پاکستان
سمیت دنیا بھر میں صحافیوں کا قتل عام جاری ہے۔ کہیں جنگ کی کوریج کرتے
ہوئے، تو کہیں ظلم کو بے نقاب کرتے ہوئے۔ کہیں آندھی گولی کانشانہ بنتا ہے
تو کہیں جرائم پیشہ افراد کی گولی اس کا پیچھا کرتی نظر آتی ہے۔
صحافی قوم کا ایک ایسا سرمایہ ہیں جو ہر حالت میں زمینی حقائق کو عوام تک
پہنچانے میں لگا ہوا ہوتا ہے۔ قدرتی آفات ہو یا حالت جنگ، مصالحتی جرگے ہو
یا عدالتی فیصلے، سیاسی گہماگہمی ہو یا عسکری میٹنگز، فوجی مشقیں ہو یا
دہشت گردوں کے خلاف آپریشن، صحافی ہی ان تمام حالات سے بے نیاز موقع پر
پہنچ کر حالات کا جائزہ لینا اور معلومات اکھٹے کر کے قوم کے سامنے پیش
کرتا ہے۔ وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالتا ہے لیکن ہمیشہ یہی کوشش کرتا ہے کہ
کوئی خبر چھپی نہ رہے۔
جو طبقہ ہر وقت اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر حالات کو حکمرانوں اور قوم کے
سامنے لاتا ہے ، آج دنیا بھر میں ان کا کوئی مستقبل نہیں۔ ایک صحافی مشکل
ترین محاذوں اور آپریشنوں میں شرکت کرکے کوریج دیتا ہے ۔ اس کی ڈیوٹی بھی
کسی فوجی جوان سے کم نہیں۔ ہر وقت، ہر گھڑی اور ہر مشکل میں یہ متحرک رہتے
ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طبقے کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ عوام کے ساتھ
کوئی ظلم کرے تو وہ پریس کلب جاکر صحافیوں پر برستے ہیں۔ کوریج کے لیے جاتے
ہوئے پولیس کبھی لائسنس کے نام پر تو کبھی گاڑی کے کاغذات کے بہانے سے ان
کا ضائع کرتی ہے اور ہراساں کرتی ہے۔چیک پوسٹوں پر آرمی والے چیکنگ کے نام
پر ان کا ڈھیر سارا وقت ضائع کرتی ہے۔ حکومت کبھی ان کے خدمات کو مد نظر
رکھ کر اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔
حکومت سے اپیل ہے کہ فوری طور پر صحافت سے منسلک تمام شعبوں کے لیے قانون
سازی کرے۔ کمپیو ٹر اپریٹر سے لے کر کالم نگاروں تک ہر ایک کے لیے ان کے
خدمات کے مطابق حقوق وضع کریں۔ اس شعبے میں موجود افراد کی تحفظ کو یقینی
بنائے۔ پولیس اور فوجی ناکوں اور چیک پوسٹوں پر ان کو فری لائن مہیا کریں۔
مختلف محکموں میں صحافیوں کے بچوں کے لیے کوٹہ مختص کیا جائے۔ شعبہ صحافت
سے منسلک تمام افراد کو خصوصی کارڈ جاری کیے جائے۔ پیٹرول پمپس، ریلوی
سٹیشنز اور ائیر پورٹس سمیت مختلف مقامات پر ان کو ڈسکاونٹس دیے جائے۔
کوریج کے دوران زخمی ہونے کی صورت میں ان کے علاج کے ساتھ صحت یاب ہونے تک
ان کے لیے وظیفہ مقرر کریں۔ جان کا نذرانہ دینے والے صحافیوں کے ورثاء کو
معقول وظیفہ دینے کے علاوہ ان کے لیے ماہانہ پینشن مقرر کیے جائے۔ |