س۔اگر دل میں تکبر نہ ہو تو کیا
مردوں کے لیے جائز ہے کہ وہ ازار ٹخنوں سے نیچے کر لیا کریں؟
ج۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا ازار کو ٹخنوں سے نیچے کرنا تکبر کی وجہ سے
نہیں ہے لہٰذا ہمارے لیے ازار کو ٹخنوں سے نیچے کرنا درست ہونا چاہیے اور
استدلال کے طور پر اس واقعہ کو پیش کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ نے
فرمایا ہے کہ ازار کو ٹخنوں سے نیچے نہ کرو لیکن میرا ازار بار بار ٹخنے سے
نیچے ڈھلک جاتا ہے میرے لیے اوپر رکھنا مشکل ہوتا ہے میں کیا کروں؟تو نبی
کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ، تمھارا ازار جو نیچے ڈھلک جاتا
ہے یہ تکبر کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ عزر اور مجبوری کی وجہ سے ڈھلک جاتا ہے
اس لیے تم ان میں داخل نہیں(ابو داؤد) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت
صدیق اکبر (رض) کو ان کی مجبوری کی وجہ سے اجازت دی تھی لیکن خود کبھی
زندگی بھر ٹخنوں سے نیچے ازار نہیں پہنا۔ علمائے محققین کا صحیح قول یہ ہی
ہے کہ ٹخنوں سے نیچے ازار پہننا ہر حالت میں مکروہ تحریمی ہے۔
س۔ کیا اسلام میں فیشن کرنے کی اجازت ہے؟
ج۔ لوگوں میں فیشن کا لفظ خواہ مخواہ بدنام ہوگیا ہے یہ کوئی بری چیز نہیں
ہے اللہ تعالیٰ نے طبعیتوں میں حسن ذوق رکھا ہے جو ایک نعمت ہے بلکہ اللہ
رب العزت نے انسان کی طبعیت میں جو بھی چیزیں رکھیں ہیں سب اچھی ہیں البتہ
ان نعمتوں اور جذبات کے استعمال کا جو اختیار انسان کو دیا ہوا ہے اس میں
غلط کاری کر کے یا حد سے آگے بڑھ کے انسان گناہ گار ہو جاتا ہے اور وہ جذبہ
اس کے لیے قابل ملامت ہو جاتا ہے، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے
کہ اللہ تعالیٰ جمیل ہیں اور جمال کو پسند کرتے ہیں۔ اچھا لباس پہننا بھی
اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر کرنا ہے اسی لیے جسے اللہ رب العزت نے توفیق دی
اسے اچھا لباس ہی پہننا چاہیے۔
س۔ کفار کے فیشن کی کیا برائیاں ہیں؟
ج۔ کفار کے فیشن کی سب سے بڑی برائی تو یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ اور
مسلمانوں کے دشمنوں کی مشابہت ہے اور پھر لباس کا اصل مقصد ستر جو محرموں
کے سامنے بھی ضروری ہے وہ پورا نہیں ہوتا جیسے کہ گریبان، بازوؤں اور
پنڈلیوں وغیرہ کا کھلا رہنا اور جس لباس سے اصل غرض حاصل نہیں ہوتی وہ
بیکار ہے عرفا خواہ اس کا اعتبار ہو لیکن شرعاً وہ معتبر نہیں۔ کفار کا
فیشن اختیار کرنے میں مال بہت زیادہ ضاٰئع ہوتا ہے کیونکہ قیمتی کپڑے صرف
دو تین بار ہی پہننے کی نوبت آتی ہے کہ فیشن بدل جاتا ہے اور کپڑے بےکار ہو
جاتے ہیں یہ اللہ رب العزت کی نعمت کی ناشکری ہے اور اسراف ہے۔ اسی فیشن کی
وجہ سے حسد و بغض، دنیا کی حرص اور قرض کی مصیبت جیسی برائیاں پیدا ہوتی
ہیں کیونکہ یہ سب اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے اور یہ مرض سارے
ہی دین اور معاشرے کی خرابیوں کی جڑ ہے۔
س۔ ترقی یافتہ ممالک میں اکثر عورتیں مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور
اکثر مرد عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے،
اسلام نے اس کے بارے میں کیا حکم دیا ہے؟
ج۔اسلام نے اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دی کہ عورتیں مردوں کی یا مرد
عورتوں کی مشابہت اختیار کریں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے کسی نے عرض کیا
کہ ایک عورت (مردانہ)جوتا پہنتی ہے آپ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے ایسی عورت پر لعنت کی ہے جو مردوں کے طور طریقے اختیار
کرے(مشکوہ شریف) اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے مرد پر لعنت کی جو عورت کا لباس پہنے اور ایسی
عورت پر لعنت کی جو مرد کا لباس پہنے۔
جاری ہے۔ |