ن لیگ کے لیے بلدیاتی الیکشنز کے
حالیہ تباہ کن نتائج کسی اور کے لیے غیر متوقع ہو ں تو ہوں مگر مجھے ایسے
ہی نتائج کی توقع تھی ،ن لیگ کے حاکم،حکمران ،شہزادے اور شہزادیاں بلکہ
پورا پورا کنبہ اپنے اہل و عیال سمیت جس طرح عوام کی گردونوں پر سوار ہو
چکا تھا اور رعونت کا گھوڑا بگٹٹ دوڑا ہی چلا جا رہا تھا اسے بریک لگا نا
ضروری تھا اور یہ بریک کسی انتطامی افسر یا اکیلے کسی فردیا گروہ کے بس کی
بات نہیں تھی،لوگ پیچ و تاب کھاتے رہے اور الیکشن کا انتظار کرتے رہے ،ن
لیگ کی خوش قسمتی کہ بار بار الیکشن کے انعقاد کا اعلان کینسل ہوتا رہا مگر
بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی کے مصداق آخر کار سپریم کورٹ کے حکم پر
الیکشن منعقد کروانا پڑا اور وہ روایت کم از کم چکوال کی حد تک تبدیل ہو
گئی کہ ضمنی اور بلدیاتی الیکشنز حکمران جماعتیں ہی جیتا کرتی ہیں،اس سے
منتخب عوامی نمائندوں کے اس ڈر اور خوف کی وجہ بھی سامنے آ گئی کہ کیوں یہ
لوگ ان الیکشنز کی اتنی مخالفت کرتے تھے،انہیں یہی خدشہ تھا کہ یہ لوگ
جنہیں غلامی کی حد تک دبا کر رکھاہوا ہے انہیں موقع ملنے کی دیر ہے ان
لوگوں نے سارے حساب کتاب برابر کر دینے ہیں اور وہی ہوا الیکشنز سے قبل بڑے
بلند و بانگ دعوے کیے گئے پرانے حقیقی اور قربانیاں دینے والوں کو یکسر نظر
انداز کر کے بالکل نئے اور من مرضی کے امید وار میدان میں اتارے گئے،میڈیا
اور دیرینہ کارکن چیختے رہے کہ اب کی بار رزلٹ وہ نہیں آنا جس کی آپ لوگ
امید لگائے بیٹھے ہیں مگر کس کو پرواہ تھی،مدمقابل نونہالان انقلاب تھے جو
پورے ضلع میں اپنے امیدوار تک کھڑے نہ کر پائے،ایک ق لیگ جو صر ف لوگو ں کی
یاد داشتوں میں کہیں زندہ تھی اور وہ بھی صرف تلہ گنگ شہر کے اندر وجہ حافظ
عمار یاسر لیکن دوسری طرف سردار غلام عباس جنہیں انڈر اسٹیمیٹ کرنے کی غلطی
کی گئی بھولے بادشاہوں کو پتہ ہی نہیں کہ لاوہ سے سوہاوہ تک ہر گاؤں اور
گوٹھ میں کوئی نہ کوئی بیٹھک اگر کسی شخصیت کے لیے کھل جاتی ہے تو اس کا
نام سردار عباس ہے وہ الگ بات کہ سردار عبا س اپنی اس مقبولیت اور عوامی
محبت سے کبھی بھی انصاف نہ کر سکے مگر عوام نے کبھی بھی انہیں مایوس نہ
کیا،ان الیکشن میں بھی عوام نے انہیں بھرپور ووٹ دے کر ان پر ایک بار پھر
اعتماد کیا،مگر سردار عباس کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے،اس وقت نہ صرف ان
کا مورال ہمالہ کی بلندیوں کو چھو رہا ہے بلکہ انہیں ضلع بھر میں حکمران
جماعت پر ایک واضح برتری بھی حاصل ہے ،یہ برتری اخلاقی بھی ہے اور عددی
بھی،لوگوں نے بلا سوچے سمجھے ووٹ دیا صرف سردار عباس کی شخصیت کو سامنے رکھ
کے ،مگر اب جن لوگوں نے ووٹ دیا ان کی بھی خواہشات ہیں ان کے مسائل ہیں ان
کے حل کے لیے بھی سردار غلام عباس کو بڑی سنجیدگی اور گہرائی میں جا کر
عمیق جائزہ لینا ہو گا،جہاں لوگوں کے اور بے پناہ مسائل ہیں وہیں سب سے بڑی
مصیبت سدا سے حکمرانوں کی دست بدستہ غلام پنجاب پولیس بھی ہے جس کا سب سے
بڑا موٹو ہی جیہڑا جتے اس دے نال ہے،سردار عباس کو اپنے لوگوں کے مسائل کا
بھی ادراک کرنا ہو گا ساتھ ہی انہیں وہ تحفظ بھی دینا ہو گا جس کی شروعات
جعلی پرچوں سے ہو چکی ہے ،جن لوگوں نے ووٹ نہیں دیا وہ ایم این ایز اور ایم
پی ایز کی نظروں میں ہیں،سب سے پہلا کام ایک بھرپور اور جامع پریس کانفرنس
کر کے حکمران جماعت کو خبر دار کیا جائے کہ وہ اس قسم کے اوچھے ہتکنڈوں سے
باز رہیں اپنے لوگوں کو اان کے سر پہ ہونے کا احساس دلائیں،ہر ووٹر تک یہ
میسج پہنچائیں کہ جس جس نے بھی ووٹ دیا ہے وہ لاوارث نہیں ہے ،اور اس
معاملے میں میڈیا کی مدد لی جائے میڈیا اور خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کے
نمائندوں سے رابطوں کو تیز کیا جائے اورکہیں بھی کوئی اس قسم کا واقع رونما
ہو تو اسے فی الفور میڈیا کے ذریعے لوگوں کے سامنے لایا جائے،سردار غلام
عباس اس وقت جس پوزیشن میں ہیں سودا کرنے کے لیے اس سے بہتر وقت شاید کبھی
ان کے پاس دوبارہ نہیں آئے گا،سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا اور
اپنے ہاں تو بالکل بھی نہیں ہوتا،ن لیگ کو ہی دیکھ لیں مشرف لیگ کا تمام
کاٹھ کباڑ اور کچرا تک ن لیگ میں شامل ہو چکا ہے میں تو کہتا ہوں خود پرویز
مشرف بھی درخواست کرتا توآج کم از کم صوبائی وزیر تو ضرور ہوتا،خود سردار
غلام عباس کبھی کہاں تھے اور آج کہاں ہیں،پیپلز پارٹی سے شروع ہو کے قاف
لیگ اور پی ٹی آئی سے ہو کر پھر وہیں آگئے جہاں تھے،ان کا ایک خاصہ یہ بھی
ہے کہ یہ جس کو لیڈر مانتے ہیں بھلے وقتی ہی سہی اس کی گاڑی بھی خود ہی
ڈرائیو کرتے ہیں،پرویز الٰہی ،گورنر خالد مقبول اور عمران خان کو اپنی
شاندار ڈرائیونگ سے بہرہ مند کر چکے ہیں،اب کی بار چونکہ آزاد حیثیت سے بڑے
واضح انداز سے بھرپور مقابلہ کر کے جیتے ہیں اب کسی بھی طرف چھلانگ لگائیں
کم از کم ان پہ قلابازی کھانے یا لوٹا ازم کا الزام نہیں لگایا جا سکے
گا،انہیں چاہیے کہ چپ کر کے اپنے تمام چئیرمین اور وائس چئیر مینوں کو بس
میں بھریں خود لیڈ کریں اور سیدھا چکری چوہدری نثار یا رائے ونڈ میاں شہباز
شریف کے پاس جا پہنچیں کہ جناب یہ لیں ہم جمہوری حکومت کا حصہ بننے کے
خواہشمند ہیں ،میرے ضلع کی عوام نے مجھ پہ اور میرے نامزد لوگوں پر اعتماد
کیا میں خالصتاً عوامی اور ملکی مفاد میں آپ پر اعتماد کرتا ہوں اور اپنے
گروپ سمیت ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کرتا ہوں،اگر آپ تھوڑی سی جرء ات اور
ہمت کا مظاہرہ کریں انا کو ایک طرف رکھ دیں تو یقین کریں نہ صرف آپ کے تمام
لوگ اچھی طرح ایڈجسٹ ہوں گے انہیں بہتر عوامی خدمت کا موقع ملے گا بلکہ آپ
کی سیاست کو بھی چار چاند لگیں گے اور مسلم لیگ ن کی بظاہر نظر وں سے اوجھل
صدارت بھی آپ کو ملے گی اور یوں دوبارہ آپ کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن چکوال
کی واحد مقبول جماعت بن جائے گی اور چکوال ن لیگ کا قلعہ کا بھرم بھی قائم
رہے گا،دوسری صورت میں سچائی بڑی سفاک ہے کہ آپ کے لوگ آپ کی کمزور چھتری
تلے زیادہ دیر تک نہیں ٹھر سکیں گے کہ دوسری طرف حکومت اپنی بھرپور طاقت
اور تمام تر وسائل کے ساتھ موجود ہے ،گو کہ آپ کے لوگوں کی آپ کے ساتھ
وفاداری اور کمٹمنٹ کسی بھی قسم کے شک و شبے سے بالا ہے مگر اس میں بھی
کوئی دو رائے نہیں کہ کہ پیسے میں بھی بڑی طاقت ہے اور دھونس دھاندلی اور
جبر سے بڑے بڑے طرم خاں اپنے پاؤں کا ناپ بتا دیتے ہیں،ان لوگوں کو جب بڑی
بڑی آفرز دی جائیں گی تو ان ان میں سے کچھ اس بات کو جواز بنائیں گے کہ
سردار صاحب نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا ،ہمیں لاوارث چھوڑ دیا اور سب سے
آخر میں یہ کہ جس کو آپ نے چئیرمین کے لیے نامزد کیا وہ ہر لحاظ سے مجھ سے
کم ہے قربانیاں میں نے دیں اب میرا حق تھا مجھے نظر انداز کیا گیا اور یہ
ایسا جواز ہے کہ جس کا کوئی توڑ نہیں ہے،دوسری اہم وجہ آپ کا گروپ تلہ
چکوال سمیت پورے ضلع چکوال میں پھیلا ہوا ہے،اور تلہ گنگ چکوال کے لوگوں کے
درمیان ایک دوسرے کے لیے سرد مہری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کوئی لاکھ کہے کہ
ایسی کوئی بات نہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹہی کے ملک عبدالقادر صابر کسی
بھی صورت میں چوہدری غضنفر بھیں کو تلہ گنگ کے بندے کے مقابلے میں ووٹ نہیں
دیں گے ،بلکسر بکھاری ،چوا سیدن شاہ اور منگوال کے لوگ کبھی بھی قدیر باز
کو ووٹ نہیں دیں گے اور اسی چیز کو حکمران جماعت کے لوگ بھرپور انداز میں
کیش کروائیں گے ،آپ خود چیئرمین بنتے تو اور بات تھی صرف سردار غلام عباس
کی ذات ان لوگوں کو ایک جگہ متحد رکھ سکتی تھی،اب آپ کو ایک کڑے اور سخت
امتحان بلکہ منیر نیازی کی طرح ایک اور دریا کا سامنا ہے چکوال کی عوام
منتظر ہے کہ آپ کیا فیصلہ کرتے ہیں ،کیا اب کی بار بھی آپ سالوں کی محنت
اور ریاضت سے جیتی گئی بازی آرام سے ہار دیں گے اور پکی پکائی کھیر پلیٹ
میں رکھ کے کسی اور کے حوالے کر دیں گے یا خود اپنی مرضی سے اسے تقسیم اور
استعمال کریں گے ،مشورہ ہم نے دے دیا ہے قبول کریں نہ کریں یہ آپ پہ منحصر
ہے کہ بحرحال آخری فیصلہ آپ ہی کو کرنا ہے کہ ضلع بھر کے عوام نے اس کا
اختیارآپ کو دیا ہے،،،،اﷲ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو |