معلوم ہوا ہے کہ رومانیہ کے
وزیراعظم وکٹر پونٹا نائٹ کلب میں آتشزدگی کے واقعے کے بعد عوام کے شدید
احتجاج پر مستعفی ہوگئے ہیں، گذشتہ دنوں رومانیہ کے نائٹ کلب میں آتشزدگی
کے باعث 30 کے قریب افراد ہلاک جب کہ 150 زخمی ہوگئے تھے جن میں سے بیشتر
اب بھی تشویشناک حالت میں اسپتال میں ہیں۔اس قبل چند ماہ پہلے شمالی کوریا
کے وزیر دفاع ہیون یانگ چول جو سرکاری تقریبات میں سو جاتے تھے ان کو وہاں
کے سپریم لیڈر کم جونگ ان نے غداری کے مترادف قرار دیتے ہوئے سزائے موت دی
تھی ، موت بھی ایسی کہ جو دوسروں کیلئے نشان عبرت بن گئی ہو۔ ہیون یانگ کو
توپ کے سامنے کھڑا کرکے گولے سے اڑا دیا گیا ۔ اِس ظالمانہ سزا کو دیکھنے
کے بعد اب شاید شمالی کوریا میں لوگ راتوں کو بھی نہ سو پاتے ہوں۔ یہاں یہ
خبر سنانے کا مقصد کیا تھا شاید آپ کو اگے چل کر سمجھ آجائے ۔
پاکستان میں جتنا بڑا سانحہ ہوجائے سزا اور استعفیٰ دینا تو دور کی بات
یہاں کوئی اس کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کرتا،لاہور میں فیکٹری کی ناقص
عمارت گرنے کا واقعہ کوئی چھوٹا نہیں اور نا ہی کوئی پہلا واقعہ ہے اس سے
قبل بھی کئی واقعات ہوئے۔چاہیے تو یہ تھا کہ کوئی عوام کا حقیقی خادم ہونے
کا ثبوت دیتا ،اپنی ناکامی تسلیم کرتا اور عہدہ چھوڑ دیتا۔اس واقعہ نے ایک
بار پھر سرکاری مشینری کی ناکامی اور نااہلی پر کئی سوالات اٹھا دیے
ہیں۔سرکاری اداروں،پاک فوج اور بحریہ ٹاوء ن کی امدادی ٹیمیں ملبے کو ہٹانے
میں لگی ہیں، ان کی کوششوں سے درجنوں افراد کو زندہ بھی نکالا گیا ہے۔لیکن
افسوس کہ ایمرجنسی میں کام کرنیوالے اداروں کی طرح دوسرے بھی کام
کرلیتے۔کاش فیکٹری مالکان ،متعلقہ ادارے پیسے کے بجائے انسانی جانوں کو
اہمیت دیتے
ہم سانحات کے کے بعد ہی کیوں جاگتے ہیں۔تخت لاہور تھوڑا سا جاگتا ہے اسلام
آباد پریس ریلیز جاری کرتا ہے اور راولپنڈی بھی انگڑائی لیتا ہے۔ا جلاس
ہوتے ہیں، کھاتا پیتا چلتا ہے ، میڈیا کے سامنے کچھ رٹے رٹائے روائتی لفظ
بولے جاتے ہیں، زخمیوں اور مرنے والوں کے لیے کبھی 2 تو کبھی 5 لاکھ لگائے
جاتے ہیں اور سکون سے اگلے واقعہ کا انتظار کیا جاتا ہے ، اگر کچھ کرنا ہی
نہیں تو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟جنہوں نے کچھ کرنا ہوتا ہے وہ سانحات
کا انتظار نہیں کرتے وہ سونے سے پہلے ہی ان کو ایسی نیند سلاتے ہیں کہ
آئندہ کوئی ایسی جرات نہ کرسکے ۔کیا یہ لوگ قانون سے بالاتر ہیں؟ نہیں تو
پھر کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ شاید میری طرح کئی لوگ بھول بیٹھے ہیں کہ
یہ ان کا ملک ہے ، یہ وطن ان کا ہے ، نہیں نہیں یہ ملک صرف جاگیرداروں کی
جاگیر نہیں ہے جیسے چاہا ہل چلادیے ، یہ سرمایہ داروں کی خریدی ہوئی کمپنی
ہے کہ جیسے چاہا نیلام کردیا، یہ 18 کروڈ انسانوں کا ملک نہیں ہے یہ 18
کروڑ تو ان کیلئے کیڑے مکوڑے ہیں، جیسے چاہا مسل دیے،مرگئے دو سے پانچ لاکھ
دے دیے،بچ گئے تو اپاہجوں کو چند ہزار دے دیے،پیٹ کا جہنم بھرنے کیلئے محنت
مزدوری کرنے والوں کی اوقات ہی کیا ہے۔
یہاں یہ بھی ہورہا ہے کہ استاد سابق وائس چانسلربہاء الدین زکریا یونیورسٹی
پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد علقمہ کو تو ایک صرف کرپشن کا الزام ہونے پر
ہتھکڑیوں میں جیل لایا جاتا ہے،تذلیل کی انتہا کی جاتی ہے،استاد بھی ایسا
جس کی ملک کیلئے خدمات ہیں۔جس کا پورا خاندان پاکستان کے دو لخت ہونے پر
بنگلہ دیش رہ گیا ہو۔جو یمن میں پاکستان کا سفیر رہا ہو۔دوسر ی جانب ایک
ماڈل ایان علی کو مکمل پروٹو کول کے ساتھ عدالت لایا جاتا ہے۔مجرم دونوں
نہیں ۔دونوں ہی ملزم ہیں تو پھر یہ تضاد کس لئے۔تاریخ تو یہ کہتی ہے جس قوم
نے بھی ترقی کی منزلیں عبور کیں اس نے استاد کو عزت دی،دنیا کے دس ہزار
شعبوں کو دیکھ لیں آپ کو انہی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل لوگ ملیں گے
جنہوں نے یورپ کا نقشہ ہی بدل دیا،آپ اگر سپر پاور امریک کی پارلیمنٹ کا
جائزہ لیں تو آپ کو بیشتر پارلیمنٹیرینز وائس چانسلر،پروفسیر،ڈاکٹر نظر
آئیں گے اور ملک کی فارن پالیسی ہویا آئی ٹی،ایجوکیشن ودیگر شعبوں میں
نمایاں خدمات دی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج ان کی قدر کرتی ہے۔مانا کہ خواجہ
صاحب قصور وار ہونگے ،قصور ثابت تو نہیں ہوا ناں!اگر استاد کے ساتھ یہ رویہ
رکھنا ہے تو باقیوں کو بھی ہاتھ پاؤں باندھ کر عدالت لایا جائے۔پرویز
مشرف،آصف زرداری،یوسف رضا گیلانی،ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین،سانحہ
ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کو بھی جیل ڈالا جائے،ملک ایک ہے،قانون ایک
ہے،عدالت ایک ہے تو انصاف کے پیمانے دو کیوں ہیں؟یہ بات تو طے ہے کہ اگر آپ
صاحب استطاعت ہیں، قوت و اختیار رکھتے ہیں، اثرو رسوخ یا پھر پیسے کے
معاملہ میں آپکا وزن زیادہ ہے ،سارے نظام کا انصاف ملکر بھی آپکا کچھ نہیں
بگاڑسکتے ! کاش کہ اس ظالمانہ سیاست کو سمجھ سکتے کہ جو اپنے ہی بچے کھا
جاتی ہے۔ |