رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کی آخری عسکری کوشش
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ”حجة الوداع“ سے واپس آنے کے بعد خداوند
تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ دو اہم فرائض (فریضہ حج اور حضرت علی علیہ
السلام کی جانشینی کے اعلان) کے انجام دینے کے بعد اگرچہ بہت زیادہ اطمینان
محسوس کر رہے تھے لیکن اس کے باوجود آپ کی دور رس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ
ابھی امت مسلمہ کے سامنے ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے وہ فتنہ و فساد سے
دوچار رہے گی۔ چنانچہ یہی فکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تشویش
کا باعث تھی۔
11 ہجری کے اوائل میں جب کچھ لوگوں نے یہ خبر سنی کہ سفر کی وجہ سے رسول
خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت ناساز ہے تو انہوں نے نبوت کا دعویٰ کر
کے فتنہ و فساد و غوغا برپا کر دیا۔
چنانچہ ”مسلیمہ“ نے ”یمامہ“ میں ”اسود غسنی“ یمن میں اور ”طلحہ“ نے بنی اسد
کے شہروں میں لوگوں کو فریب دے کر گمراہ کرنا شروع کر دیا۔
”مسیلمہ“ نے تو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خط بھی لکھا اور آنحضرت
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ اسے بھی امر نبوت میں شریک کرلیا جائے۔ (تاریخ
طبری ج۳ ص ۱۴۶)
دوسری طرف ان لوگوں کو جو کل تک کافر اور آج منافق تھے اور جن کے دلوں میں
پہلے سے ہی اسلام کے خلاف بغض و کینہ بھرا ہوا تھا، جب یہ معلوم ہوا کہ
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے پیشوائے اسلام
اور جانشین پیغمبر ہونے کا اعلان کر دیا ہے تو ان کا غم و غصہ کہیں زیادہ
ہوگیا۔ چنانچہ جب انہیں یہ علم ہوا کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
طبیعت ناساز ہے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت عنقریب ہی واقع
ہونےوالی ہے تو ان کا جوش و خروش کئی گنا ہوگیا۔
ان واقعات کے علاوہ، مشرقی روم کی پرزور و خود سر حکومت اور اس کی
نوآبادیات کو مسلمانوں کے ساتھ چند مرتبہ نبرد آزمائی کرنے کے بعد ان کی
طاقت کا اندازہ ہوگیا تھا اور ان سے کاری ضربیں کھا چکے تھے اسی لیے ان کا
وجود مدینہ کی حکومت کے لئے خطرہ بنا ہوا تھا کیونکہ سیاسی عوامل سے قطع
نظر اس خاص مذہبی حسیاسیت کے باعث بھی جو عیسائی سربراہوں کے دلوں میں
اسلام کے خلاف تھی وہ شمالی سرحدوں پر ہمیشہ بدامنی پھیلائے رکھتے تھے۔ ان
حالات میں بقول رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فتنے و فسادات سیاہ رات کی
طرح یکے بعد دیگرے اسلامی معاشرے پر چھانے شروع ہوگئے ہیں۔ (ارشاد مفید ص
۹۷)
چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں خاموش کرنے کے لئے بعض
اقدامات بھی کئے اور یہی آپ کی سعی و کوشش کا آخری ثمر تھا۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یمن ”یمامہ“ اور قبیلہ بنی اسد کے
درمیان فرماندار نمائندگان روانہ کرنے کے علاوہ حکم بھی صادر فرمایا کہ
اٹھارہ یا انیس سالہ ”اسامہ ابن زید“ نامی فرمانداری کی زیر قیادت طاقتور
سپاہ روانہ کی جائے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اسامہ کی
تحویل میں پرچم دینے کے بعد فرمایا کہ” پوری امت مسلمہ کے ساتھ جس میں
مہاجر و انصار شامل ہوں اپنے والد ”زید بن حارث“ کی شہادت گاہ کی جانب، جو
بلادر روم میں ہے، روانہ ہوں۔ (مغازی ج۳ ص ۱۱۱۷)
حضرت اسامہ کو فرماندار مقرر کرنے کی وجوہ ان کی مہارت و لیاقت کے علاوہ یہ
بھی ہوسکتی تھی کہ” رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی جانب حضرت اسامہ کو
فرماندار مقرر کرنے کی وجہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے ان
خرافات کے خلاف عملی جدوجہد تھی جو دورِ جاہلیت سے بعض صحابہ کے ذہنوں میں
بسے تھے کیونکہ ان کی نظر میں کسی مقام و مرتبہ کا معیار یہی تھا کہ صاحب
جاہ و مرتبہ معمر شخص ہو اور کسی قبیلے کی سرداری سے وابستہ شخص ہی اس کا
حقدار ہوسکتا ہے۔
حضرت زید ابن حارث کی شہادت چونکہ رومیوں کے ہاتھوں ہوئی تھی اسی لیے ان کے
دل میں رومیوں کے ساتھ جنگ کرنے کا جوش و ولولہ بہت زیادہ تھا۔ رسول خدا
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی یہ کوشش تھی کہ ان کے اس جوش و ولولے میں مزید
شدت و کثرت ہو۔ چنانچہ اسی وجہ سے جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمانداری کی ذمہ داری ان کی تحویل میں دی تو اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد
فرمایا کہ ”اپنے باپ کی شہادت گاہ کی جانب روانہ ہو جاؤ۔(شرح نہج البلاغہ
ج۳ ص ۱۵۹)
اگر اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سپاہ کی فرمانداری مہاجر و انصاری
میں سے کسی معمر شخص کی تحویل میں دے دی جاتی تو اس بات کا امکان تھا کہ وہ
شخص اس عہدے سے سوئے استفادہ کرتا اور اسی وجہ سے خود کو پیغمبر اکرم صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ و جانشین سمجھنے لگتا لیکن حضرت اسامہ کی یہ
حیثیت نہیں تھی اور نہ ان کے خلیفہ بننے کا کوئی امکان تھا۔
حضرت اسامہ نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق ”جرب“ نامی
مقام پر خیمے نصب کئے اور دیگر مسلمانوں کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں بالخصوص مہاجر و انصار کے
سرداروں کو حضرت اسامہ کے لشکر میں شامل کرنے کے لئے بہت زیادہ اہتمام سے
کام لیا اور جو لوگ اس اقدام کے مخالف تھے انہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے مطعون بھی کیا۔ حضرت اسامہ کی عسکری طاقت کو تقویت دینے کے علاوہ
اس اہتمام کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم چاہتے
تھے کہ وقت رحلت وہ لوگ مدینہ میں موجود نہ رہیں جو امت میں اختلاف پیدا
کرنے اور منصب خلافت کے حصول کی فکر میں ہیں تاکہ حضرت علی علیہ السلام کی
قیادت و پیشوائی کے بارے میں فرمان خدا و رسول جاری کئے جانے کے لئے راستہ
ہموار رہے۔ (ارشاد مفید ص ۹۶)
لیکن افسوس بعض مسلمانوں نے کہ جنہیں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مدینہ
سے باہر بھیجنے کے لئے کوشاں تھے یہ بہانہ بنا کر کہ حضرت اسامہ بہت کم عمر
ہیں مخالفت شروع کر دی اور ان کے خیمہ گاہ کی طرف جانے سے انکار کر دیا۔
نیز یہ دیکھ کر کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت ناساز ہے تو
انہوں نے حضرت اسامہ کے لشکر کو روم کی طرف جانے سے یہ کہہ کر روکنا چاہا
کہ چونکہ اس وقت رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بہت علیل ہیں لہٰذا ان
حالات کے تحت ہمارے دلوں میں آپ سے جدائی کی تاب و طاقت نہیں ہے۔ (الملل
والنحل ج۱)
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو منافقین کے اس رویئے سے سخت تکلیف پہنچی
آپ طبیعت کی ناسازی کے باوجود مسجد میں تشریف لے گئے اور مخالفت کرنے والوں
سے فرمایا کہ ”اسامہ کو فرماندار مقرر کئے جانے کے بارے میں یہ کیا سن رہا
ہوں۔ اس سے پہلے جب ان کے باپ کو فرماندار مقرر کیا تھا تو اس وقت بھی تم
طعن و تشنیع کر رہے تھے۔ خدا گواہ ہے کہ وہ لشکر کی فرمانداری کے لئے مناسب
تھے اور اسامہ بھی اس کے اہل ہیں۔ (طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۹۰)
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس وقت بھی جبکہ صاحب فراش تھے تو ان لوگوں
سے جو عیادت کے لئے آتے تھے مسلسل یہی فرماتے کہ ”انفذوابعث اسامة“ لیکن
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی یہ سعی و کوشش بے سود ثابت ہوئی۔ کیونکہ
صحابہ میں جو سردار تھے انہوں نے اس قدر سہل انگاری سے کام لیا کہ آنحضرت
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت واقع ہوگئی اور سپاہ واپس مدینہ آگئی۔
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی۔ |