ہمیشہ دو مقابل اور متحارب اقوام
ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رہنے اور ہر فریق دوسرے فریق کی کمزوریوں اور
خفیہ رازوں سے واقفیت حاصل کرنے کیلئے جاسوس سے کام لیتے ہیں۔ اس تحریر سے
ہماری غرض”جاسوس کی شرعی سزا“ اور شرعی حکم دریافت کرنا ہے۔ جاسوسی کی
مختلف نوعتیں ہیں مثلاً مسلمانوں کی باہمی لڑائیاں اور اُن کے باہمی جاسوس
وغیرہ مگر ہم یہاں اُس جاسوس کے شرعی حکم کا جائزہ لیں گے جو دشمن اسلام
کیلئے ایک اسلامی مملکت یامجاہدین اسلام کی جاسوسی کررہا ہو۔
اس ضمن میں چار ابحاث قابل ذکر ہیں۔
(۱)جاسوسی کا مطلب کیا ہے اور کون سے افعال جاسوسی کے زمرے میں آتے ہیں۔
(۲)مسلم جاسوس کا حکم
(۳)ذمی جاسوس کاحکم
(۴)حربی جاسوس کا حکم
جاسوسی کیا ہے؟
لغت عرب میں جاسوسی کیلئے ”التجسس“ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی”کسی
بھی معاملے کی اندرونی وخفیہ باتوں کو جاننے کی کوشش کرنا“جاسوسی کہلاتا ہے۔
لغت کی مشہور کتاب مختارالصحاح میں ہے”جسّہ بیدہ، ای مسّہ.... وجس الاخبار،
وتجسسہا: تفحص عنہا، ومنہ الجاسوس“(مختار الصحاح ،ص۶۸)
”یعنی ”جسہ بیدہ“ کا مطلب ہے اُس نے فلاں شخص یا فلاں چیز کو ہاتھ لگایا،
چھوا اور جس الاخبار یا تجسس الاخبار کامطلب ہے کہ اس نے خبروں کی ٹوہ
لگائی۔ اور اسی لفظ سے ”جاسوس“ بنا ہے“۔
علامہ ابن اثیرؒ ”النہایة“ میں تحریر فرماتے ہیں”التجسس .... : التفتیش عن
بواطن الامور“(النہایة:۱/۲۷۲)
”یعنی کسی بھی معاملے کے باطنی اور خفیہ پہلوو ¿ں کی ٹوہ لگانے کا نام
جاسوسی ہے۔
عصر حاضر کے اسلامی مفکرین و مصنفین کی تحریرات سے بھی”جاسوسی“ کی ایسی ہی
تعریف سامنے آتی ہے۔
الدکتورعبدالکریم زیدان تحریر فرماتے ہیں:
”نقصدبالتجسس ھھنا، محاولة الاطلاع علی عورات المسلمین و امورھم و احوال
الدولة الاسلامیة و اخبارالعدو بذلک ولا شک ان ھذا لفعل جریمة کبیرة
تہددسلامة الدولة لاسیما فی اوقات الحروب“
”یعنی مسلمانوں کے اور اسلامی حکومت کے خفیہ معاملات و احوال جاننے کی کوشش
کرنا اور وہ راز دشمنوں کو بتلانا، جاسوسی کہلاتا ہے اور بلا شبہ یہ اسلامی
حکومت کی بینادوں کو ہلا دینے والا ایک بہت بڑا جرم ہے۔ خاص کر اگر ایام
حرب میں یہ حرکت کیجائے۔(احکام الذمیین والمستا¿منین فی دارالسلام:ص ۰۴۲)
جاسوسی کی ایک یہ تعریف بھی کی گئی ہے:
”التخابر مع ای طرف ضد ای طرف آخر“
یعنی کسی بھی ایک جانب کی خبریں، دوسری جانب پہنچانا۔
(سرّالجاسو سة:ابراہیم العربی ص ۴۳)
خلاصہ کلام یہ کہ ایسی معلومات جو حرب اور اس سے متعلقہ امور سے تعلق رکھتی
ہوں اور خود اسلامی حکومت یا اسلامی لشکر ان معلومات کو خفیہ رکھنا چاہتے
ہوں، اُن کو حاصل کرنے کی ٹوہ لگانا جاسوسی ہے۔ خواہ وہ شخص ان معلومات کو
حاصل کرپایا تھا یا نہیں اور وہ ان معلومات کو دشمن تک منتقل کر چکا تھا یا
ابھی تک اس میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔
جاسوسی کی تعریف میں یہ اہم نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اُنہی
معلومات کا حصول جاسوسی کہلائے گا جن سے دشمن کو فائدہ پہنچتا ہو اور اُن
کی بنیاد پر وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہوں۔
اس تفصیل سے درج ذیل فوائد معلوم ہوئے۔
(۱) ہر قسم کی معلومات کی ٹوہ لگانا جاسوسی نہیں۔
(۲) بلکہ وہ معلومات جو حرب اور اس سے متعلقہ امور سے تعلق رکھتی ہوں اُن
کی ٹوہ لگانا جاسوسی ہے۔
(۳) اُن معلومات کی بنیاد پر دشمن مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتا ہو ۔
(۴) حصول معلومات میں کامیابی ملی ہو یا نہ ہو بہر حال وہ جاسوس کاحکم لاگو
ہوگا۔
(۵) اسی طرح حصول معلومات کے بعد انہیں منتقل کر سکا ہو یا نہ اس پر جاسوسی
کا حکم لاگو ہوگا۔
جاسوسی کے زمرے میں آنے والے افعال
چار نوعیتوں کے افعال جاسوسی کے زمرے میں آتے ہیں۔
(۱) مسلمانوں کی (عورات) خفیہ معلومات کی ٹوہ لگانا۔
(۲) دوران جنگ خفیہ راز دشمن کو پہنچانا۔
(۳) اسلامی لشکر کی حربی معلومات کی ٹوہ لگانا۔
(۴) اسلامی حکومت کی حربی معلومات کی ٹوہ لگانا۔
مسلمانوں کی خفیہ معلومات:
صاحب ”مصباح المنیر“ تحریر فرماتے ہیں:
”العورة فی الثغرو الحرب:خلل یخاف منہ، والجمع عورات“( المصباح المنیر ص
۶۶۱)
یعنی اسلامی سرحد اور حرب کی ”خفیہ بات“ وہ خلل ہے جہاں کسی کمزوری کے باعث
دشمن کے وار چل جانے کا اندیشہ ہو۔
اس کی ایک شکل فقہاء نے یہ بیان فرمائی ہے کہ:”مثلاً دشمن کو لکھ کر بھیجے
یا کسی آدمی کے ذریعے یہ پیغام اُن تک پہنچائے کہ مسلمانوں کا فلاں مقام
ایسا ہے جہاں کوئی پہرہ دار نہیں ہے، تاکہ دشمن وہاں سے حملہ کر دے“(الشرح
الکبیر للدردیر:۲\۵۰۲)
خفیہ معلومات منتقل کرنا:
دشمن کو کوئی جنگی راز بتلانا بھی جاسوسی ہے۔ امام شافعی (رح) اس کی مثال
دیتے ہو ئے تحریر فرماتے ہیں:
”یکتب الی المشرکین من اھل الحرب بان المسلمین یریدون غزوھم“(الامّ
للشافی:۴\۹۴۲)
یعنی حربی مشرک کو لکھ کر بھیجے کہ مسلمان تمہارے خلاف جہاد کی تیاری کر
رہے ہیں۔
اسلامی لشکر یا اسلامی حکومت کی حربی معلومات کی ٹوہ لگانا:
اسلامی لشکر یا اسلامی حکومت کے حربی امور کی ٹوہ لگانا بھی جاسوسی ہے ۔
جیسا کہ صحابہ کرام (رض) ،نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں
قبیلہ ہوازن کے خلاف جہاد کیلئے نکلے تو ایک مقام پر ایک جاسوس بھی لشکر
میں آ شامل ہوا تاکہ اسلامی لشکر کی معلومات حاصل کر سکے۔ صحیح بخاری کے
الفاظ یہ ہیں:
”اتی النبی عین من المشرکین.... فجلس عندا صحابہ یتحدث“(صحیح البخاری ،رقم
الحدیث 3051)
یعنی مشرکین کا ایک جاسوس نبی کریم (ص) کے پاس آیا اور صحابہ کرام (رض) کے
پاس بیٹھ کر گپ شب لگانے لگا۔
مسند احمدکے الفاظ درج ذیل ہیں:
”فاتی بعیرہ فقعد علیہ فجعل یرکضہ وھو طلیعة للکفار“(مسند احمد:۴\۱۵)
یعنی حضرات صحابہ کرام (رض) کے پاس بیٹھ کر گپ شپ کرنے کے بعد اپنے اونٹ کے
پاس آیا، اس پر بیٹھا اور پھر اسے تیزی سے بھگانے لگا، کیونکہ وہ دشمن کا
جاسوس تھا۔
دوسری بحث یہ ہے کہ اُس مسلمان کے بارے میں شریعت کا کیا فیصلہ ہے جو
مسلمانوں کے خلاف کافروں کیلئے جاسوسی کرتا ہو۔ اس مسئلے کو جاننے کیلئے
دوپہلوؤں پر گفتگو ضروری ہے۔
(۱) اس مسئلے سے متعلق شرعی نصوص کیا کہتی ہیں۔
(۲) اس بارے میں فقہائے کرام کیا فرماتے ہیں۔
جاری ہے |