شہدائے بالاکوٹ

یہ بلبلوں کا صبا مشہد مقدس ہے
قدم سنبھال کے رکھیو یہ تیرا باغ نہیں
برصغیر سے انگریزوں کا اخراج اور ان کی غلامی سے آزادی کی تحریک اس کے پس منظر محرکات و اسباب اور قربانیوں کی لازوال داستان کا مطالعہ کیا جائے تو ناممکن ہے کہ اس میں شہداء بالاکوٹ کا کوئی ذکر نہ ہو۔ سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید اور ان کے رفقاء کا عزم و ہمت قوت ارادی اور قوت عمل، ایثار، قربانی اور سرفروشی، سیف و تسبیح کی جامعیت ان کی للہیت، خلوص، نظم و اتحاد اور سیاست و تنظیم ہمیشہ باعث صد افتخار اور قابل تقلید رہیں گے۔ انہی حضرات کی کوششوں اور قربانیوں کا تسلسل تھا جس نے بالآخر انگریز کو برصغیر سے نکلنے پر مجبور کیا اور مسلمانوں کو پاکستان کی شکل میں ایک نعمت بے بہا ممالک اسلامیہ نصیب ہوئی۔ تاریخی حقیقیت ہے کہ آزاد اور باشعور قومیں اپنے محسنوں کو بھلایا نہیں کرتیں بلکہ انہیں یاد رکھ کر اس آئینے میں اپنے مستقبل کو سنوارا کرتی ہیں۔ آج پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے لازمی ہے کہ اپنی نوجوان نسل کو اپنے ان روحانی اور ملی آباء و اجداد کے کارناموں سے واقف کرایا جائے جنہوں نے بے پناہ گھمبیر حالات میں ملکی، قومی اور ملی ناﺅ کو سنبھالا دیا اور فکر و عمل کی نئی راہیں متعین کیں۔ اسلامی حساب سے یہ ذیقعدہ کا مہینہ ہے اور اسی مہینے میں برصغیر کے مسلمانوں کے عظیم محسن اور آزادی کے دو عظیم ہیرو انگریز دشمن اور سکھوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر کے اس دارفانی سے حیات جاودانی کی طرف چل دیئے۔

سید الملت حضرت مولانا سلیمان ندویؒ تحریر فرماتے ہیں ”یہ سادات حسنی کا خاندان تھا جس میں مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہؒ کی تعلیمات کا فیض آ کر مل گیا تھا اس خاندان کا آغاز شیخ الاسلام امیر کبیر قطب الدین محمد مدنی سے ہوا جنہوں نے ساتویں صدی ہجری کی ابتداء میں ہندوستان آ کر کڑا مانک پور کے نواح میں جو اس زمانے میں الہ آباد سے پہلے اللہ آباد تھا، جہاد کیا۔ تیرہویں صدی کا آغاز تھا کہ اس خاندان میں چودھویں کا چاند طلوع ہوا یعنی ۱۰۲۱ھ میں مجاہد کبیر حضرت سید احمد شہیدؒ کی پیدائش ہوئی چند سال کے بعد یہ چاند مجاہدہ و عرفان کا آفتاب بن گیا“

سید صاحبؒ نے ان مختصر مگر جامع الفاظ میں سید احمد شہیدؒ کے خاندانی پس منظر اور ان کے اپنے حقیقی مقام کے عروج و رفعت اور قدرو منزلت کا کتنا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا ہے۔

ولادت، سلسلہ نسب ،ابتدائی حالات
سید شاہ علم اللہ صاحب کے دائرے میں جو تکیہ رائے بریلی کے نام سے بھی مشہور ہے صفر ۱۰۲۱ھ میں حضرت سید احمد شہیدؒ کی ولادت ہوئی۔

آپ کا سلسلہ نسب ۳۳ واسطوں سے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے صاحبزادے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔

چار سال کی عمر میں شرفاء کے دستور کے موافق مکتب میں بٹھائے گئے آپ کے بڑے بھائیوں سید ابراہیم اور سید اسحاق جنہیں آپ کی تعلیم کا اہتمام تھا اور بہت تاکید کرتے تھے ان سے والد ماجد نے فرمایا ” میاں ان کو خدا پر چھوڑ دو، جو ان کے حق میں بہتر سمجھے گا کرے گا، بچپن ہی میں مردانہ اور سپاہیانہ کھیلوں کا بڑا شق تھا کبڈی بڑے شوق سے کھیلتے تھے، لڑکوں کے دو گروہ بنا کر فوجی حملوں کی مشق کراتے، گویا ابھی سے آپ کی جسمانی و فوجی تربیت کی جا رہی تھی۔ سن بلوغ کو پہنچتے ہی خدمت خلق کا ایسا جذبہ پیدا ہوا اچھے اچھے بزرگ اور خدا پرست انگشت بدنداں رہ جاتے۔

مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ تحریر فرماتے ہیں، ضعیفوں، اپاہجوں اور بیواﺅں کے گھروں پر دونوں وقت جاتے ان کا حال پوچھتے اور کہتے اگر لکڑی پانی وغیرہ کی ضرورت ہو تو لے آﺅں؟ وہ لوگ آپ ہی کے بزرگوں کے مرید اور خادم تھے کہتے میاں کیوں گنہگار کرتے ہو؟ ہم تو آپ اور آپ کے باپ دادا کے غلام ہیں۔ ہماری مجال کہ ہم آپ سے کام لیں؟ آپ ان کو خدمت گزاری اور اعانت کے فضائل اس طرح سناتے کہ وہ زار و قطار روتے اور آپ باصرار ان کی ضرورتیں معلوم کر کے پوری کرتے، بازار سے ان کیلئے سودا لاتے۔ لکڑی لاد کر اور پانی بھر کر لاتے اور ان کی دعائیں لیتے.... اسی کے ساتھ آپ کو عبادت اور ذکر الٰہی کا بے حد ذوق تھا رات کو تہجد گزاری اور تلاوت و دعا و مناجات میں مشغول رہتے ، قرآن مجید میں تدبر فرماتے رہتے اور یہی آپ کا مشغلہ تھا۔ دن کے اوقات میں ورزش اور خدمت خلق میں مصروف رہتے ۔ کہتے ہیں کہ معین خان کے مقبرے کے پاس پتھر کا ایک ستون تھا۔ چار ہاتھ لمبا اور بہت دبیز، نیچے سے موٹا، اوپر سے پتلا یہ شہ زوروں کی ورزش گاہ تھی۔ اوپر سے ہر زور آور اس کو اٹھا کر کھڑا کر دیتا تھا، نیچے سے کوئی زانو تک کوئی کمر تک لے آتا ایک روز چاندنی رات میں آپ وہاں سے گزرے تو فرمایا اس کو اٹھانا چاہئے چنانچہ کرتہ اتار کر کندھے پر رکھا اور پتھر کے قریب کچھ جھک کر اس کو اپنے کاندھے پر رکھ لیا اور بیس قدم چل کر اس کو زمین پر اس زور سے پٹکا کر ایک ہاتھ کے قریب زمین کھد گئی۔ دوسرے روز لوگ آئے اور اس کو اپنی جگہ سے اتنی دور گڑھے میں پڑا دیکھا تو کہنے لگے دیو یا جن تھا جس نے اتنی دور لا کر ڈال دیا۔ جوان ہوئے تو والد صاحب کا انتقال ہو چکا تھا، تحصیل معاش کیلئے ۷۱،۸۱ سال کی عمر میں لکھنو کی طرف سفر کیا تین مہینے تک والی لکھنو کے ساتھ سیر و شکار میں بھی ساتھ رہے آپ سفر بھر اپنے ساتھیوں کو سمجھاتے رہے ” عزیز و ! اس تلاش و جستجو، اس تکلیف و مصیبت کے باوجود تمہیں دنیا نہیں ملتی، ایسی دنیا پر خاک ڈالو اور میرے ساتھ دہلی چلو اور شاہ عبدالعزیز صاحب کا وجود غنیمت سمجھو۔

دہلی کا قیام، سلوک و تکمیل
سید صاحب دہلی پہنچ کر حضرت شاہ عبدالعزیز کی خدمت میں حاضر ہوئے شاہ اصحب نے مصافحہ و معانقہ فرمایا اپنے پاس بٹھایا ور دریافت کیا کہاں سے تشریف لائے؟ آپ نے فرمایا رائے بریلی سے”فرمایا“ کس خاندان سے ہیں؟ کہا وہاں کے سادات میں شمار ہے فرمایا سید ابوسعید صاحب اور سید نعمان سے واقف ہیں؟ سید صاحب نے فرمایا” سید ابوسعید صاحب میرے نانا اور سید نعمان صاحب میرے حقیقی چچا ہیں“ شاہ صاحب نے اٹھ کر دوبارہ مصافحہ و معانقہ کیا اور پوچھا کس غرض کیلئے اس طویل سفر کی تکلیف برداشت کی؟ سید صاحب نے جواب دیا آپ کی ذات مبارک کو غنیمت سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی طلب کیلئے یہاں پہنچا، شاہ صاحب نے فرمایا اللہ کا فضل اگر شامل حال ہے تو اپنے ددیال، ننہال کی میراث تم کو مل جائے گی“

پھر اپنے ایک ملازم کے ساتھ اپنے بھائی شاہ عبدالقادر ؒ کی خدمت میں بھجوا دیا اور خصوصی تربیت اور خدمت کی تاکید کی۔ چنانچہ آپ شاہ عبدالقادر ؒصاحب کے پاس اکبر آبادی مسجد میں رہنے لگے یہاں آ کر سید صاحب کی خصوصی تربیت ہونے لگی اور آپ نے ساتھ ساتھ پڑھنا بھی شروع کر دیا۔ ایک روز عجیب واقعہ ہوا کہ آپ کتاب دیکھتے ہیں تو سامنے سے حروف غائب ہو جاتے ہیں۔ آپ نے مرض سمجھ کر طبیبوں سے رجوع کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا، شاہ عبدالعزیز کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ باریک چیزوں کی طرف نظر کرو، معلوم ہوا کہ اس میں کوئی فرق نہیں صرف کتابوں کی خصوصیت ہے، شاہ صاحب نے فرمایا کہ پڑھنا چھوڑ دو۔
بینی اندر خود علوم انبیا
بے کتاب و بے معید و اوستا

سید صاحب نے اگرچہ درسیات کی تکمیل نہیں کی لیکن آپ کو ہر وقت علمائ، مفسرین، محدثین فقہاء کی صحبت میں رنے کی وجہ سے دینی علوم سے ضروری واقفیت ہو گئی۔ قرآن مجید تو آپ نے خاص طور سے پڑھا اور ترجمان قرآن شاہ عبدالقادرؒ صاحب کی توجہ اور صحبت نے اس کو جلا دی۔

بیعت و اجازت
قیام دہلی کے چند دن بعد ہی ایک شب جمعہ کو آپ شاہ عبدالعزیزؒ صاحب سے بیعت ہو گئے اور انہوں نے طرق ثلاثہ، چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ میں آپ کو داخل فرما لیا۔ آپ کو چند دنوں میں اس قدر باطنی ترقی ہوتی اور وہ بلند مقامات حاصل ہوتے جو سالہا سال کی ریاضت و مجاہدوں سے بھی کم حاصل ہوتے ہیں اور آپ پر بیداری و خواب انعامات الٰہیہ کی خوب بارش ہوتی جس جس کی نظیر کم ملتی ہے۔

کچھ عرصہ دہلی قیم کے بعد وطن واپس لوٹے اور سید محمد روشن کی صاحبزادی بی بی زہرہ سے نکاح کیا جن سے ۴۲۲۱ھ میں آپ کی بڑی صاحبزادی بی بی سارہ پیدا ہوئیں۔

۶۲۲۱ھ میں دوبارہ دہلی تشریف لائے کچھ مدت قیام فرما کر ۷۲۲۱ھ میں نواب امیر خان کے لشکر میں تشریف لے گئے جو وسط ہند کے بعض راجاﺅں سے برسرپیکار تھے، سیدؒ صاحب کم از کم چھ سال نواب امیر خان کی رفاقت اور ان کے لشکر میں گزارے اور آپ صرف ریاضت و مجاہدہ، دعائے خیر و برکت اور وعظ و نصیحت ہی پر اکتفانہ فرماتے بلکہ نازک موقعوں پر خود شریک جنگ ہوتے فوج کا حوصلہ بڑھاتے اور قائدین کو جنگ کی تدبیر اور صلاح بتاتے۔

اب دہلی میں جوق در جوق علماءو فضلا و صالحین آپ سے بیعت ہونے لگے۔ مولانا عبدالحیؒ اور شاہ اسماعیل شہید دونوں خاندان ولی اللہی کے چشم و چراغ تھے۔ شاہ عبدالعزیز نے ایک کو شیخ الاسلام اور دوسرے کو حجة الاسلام کا لقب دیا تھا۔ وہ بھی شاہ عبدالعزیزؒ ہی کے کہنے پر آپ سے بیعت ہو گئے۔ دن بدن آپ کی شہرت و مقبولیت بڑھتی گئی دفعةً لوگوں کے قلوب عموماً اور علماءو صلحاءکی خصوصاً آپ طرف پھیر دیئے گئے۔ کثرت سے دعوت نامے آنے لگے، آپ نے وہ سب دعوت نامے شاہ اسماعیلؒ صاحب کے ہاتھ حضرت شاہ عبدالعزیز ؒصاحب کے پاس بھجوائے اور عرض کیا جیسے ارشاد ہو کیا جاتے۔ شاہ صاحب نے اپنا خصوصی لباس پہنایا اور بڑی خوشی کے ساتھ رخصت کیا۔ آپ کے ان اسفار اور دوروں سے کثرت سے مسلمانوں نے دینی نفع اور خیر و برکت حاصل کی۔ مسلمانوں کی سیاسی طاقت فنا ہو رہی تھی اور دوسری طرف ان میں مشرکانہ رسوم و بدعات کا زور تھا۔ حضرت سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل کی مجاہدانہ کوششوں نے جدید دین کی نئی تحریک شروع کی۔ سارے پنجاب پر سکھوں اور باقی ہندوستران پر انگریز کا قبضہ تھا۔ ایسے وقت میں ان دو بزرگوں نے اپنی بلند ہمتی سے اسلام اک علم اٹھایا، مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دی جس کی آواز ہمالیہ کی چوٹیوں اور نیپال کی ترائیوں سے لیکر خلیج بنگال کے کنڈوں تک یکساں پھیل گئی۔ مسلمانوں میں جوش و عمل کا دریا موجیں مارنے لگا۔ خود سید صاحب ہندوستان کے طول و عرض کا دورہ کیا۔ بے شمار خلفاء مختلف صوبوں اور ولایتوں میں پہنچ گئے۔ تجدید و اصلاح کا کام انجام دیا جانے لگا، مشرکانہ رسول کا صفایا ہونے لگا، بدعتیں چھوڑی جانے لگیں۔ ہزاروں کافر دائرہ اسلام میں آ گئے شراب کی بوتلیں بہا دی گئیں۔ بازاری فواحش کے بازار سرد ہو گئے۔ علماءحجروں سے ،امراءایوانوں سے نکل کر حق و صداقت کا کلمہ بلند کرنے لگے۔ سینکڑوں ہزاروں کے قافلے ہر وقت آپ کے ساتھ ہوتے مولانا عبدالحئی ؒاور مولانا اسماعیلؒ صاحب کے بیانات اور مواعظ نے لوگوں کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔

ہجرت و جہاد اور مرکز کا انتخاب
خلافت اسلامیہ کے احیاء اور انگریزوں کو ملک سے باہر نکالنے کیلئے اب آپؒ نے اصل کام ہجرت اور جہاد کا راستہ اپنایا۔ رائے بریلی سے نکل کر گوالیار،ٹونک، اجمیر، پالی، پھر سندھ میں حیدرآباد، رانی پور، سید صبغت اللہ شاہ راشدیؒ سے ملاقات اور قیام پیر کوٹ، شکارپور، شبال، چھتر، بھاگ، ڈھاڈر، پھر افغانستان کے علاقوںقندھار،غزنی ، کابل ان تمام مقامات کا دورہ کیا ان کے امراءو روسا کو صحیح صورتحال سے آگاہ کر کے جہاد کیلئے آمادہ کیا اور سرحد کے مقام کو اپنا مرکز بنایا کیونکہ وہاں انگریزوں اور سکھوں کی عملداری نہ تھی اور پنجاب چونکہ سرحد سے متصل تھا اس لئے یہ طے کیا کہ اس مرکز میں مضبوط ہو کر سکھوں سے مقابلہ کیا جائے انہیں شکست دینے کے بعد ہندوستان میں انگریزوں سے جہاد کیا جائے اور اس ملک میں دوبارہ اللہ کا کلمہ بلند ہو، رسول اللہ ﷺ کی سنت زندہ ہو۔

ایک طویل عرصے تک سکھوں اور مجاہدین کے درمیان معرکہ آرائیاں ہوتی رہیں۔ مسلمانوں میں وہی میر جعفر و میر صادق کا کردار ادا کرنے والے یہاں بھی موجود تھے اور انہوں نے وہ نقصانات کئے جو غیر کبھی نہیں کر سکے۔ بالآخر بالاکوٹ کے میدان میں ۴۲ ذیقعدہ کو آخری معرکہ برپا ہوا۔ شہادت کی جو تمنا لئے اب تک آپ اور آپ کے رفقاءدن رات ایک کئے ہوئے تھے اس کا وقت آن پہنچا تھا۔

شہادت کے دن سے ایک رات قبل آپ نے سب غازیوں کو بلوا کر اپنے پاس جمع کر لیا اور ان سے فرمایا بھائیو آج رات کو اپنے پروردگار سے بکمالِ اخلاص، توبہ و استغفار کرو اور گناہوں کی بخشش چاہو ،یہی وقت فرصت کا ہے، کل صبح کو کفار سے مقابلہ ہے۔ خدا جانے کس کی شہادت ہے اور کون زندہ رہے۔ چنانچہ اگلی صبح سکھوں کی افواج اور مجاہدین میں زبردست معرکہ آرائی ہوئی اور شروع میں مجاہدین کی دلیری اور بے جگری کے سامنے سکھ افواج منہ پھیرنے لگیں لیکن تحریک کے قائد سید احمد شہیدؒ اور پھر شاہ اسماعیل شہیدؒ کی شہادت سے مجاہدین کے حوصلے کمزور پڑ گئے اور وہ ٹکڑیوں میں بٹ گئے جس کی بنیاد پر سکھ افواج نے دوبارہ منظم ہو کر مجاہدین پر حملہ کیا اور یوں تاریخ کا یہ عظیم باب بالاکوٹ کی سرزمین پر بند ہو گیا۔ لیکن آپ کی تحریک کے اثرات بعد میں بھی اپنا اثر دکھاتے رہے۔ اسی کے اثرات ۷۵۸۱ھ کی جنگ آزادی کی شکل میں ظاہر ہوئے او ر بالآخر انہی کوششوں کے تسلسل کے نتیجے میں انگریز برصغیر سے نکل گیا اور مسلمانوں کو ایک آزاد اسلامی ریاست پاکستان کی شکل میں حاصل ہوئی۔
بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372735 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.