مسلم جاسوس کے متعلق نصوص شرعیہ
اس مسئلے سے متعلق تین نصوص شرعیہ خاص اہمیت اور بنیاد کی حامل ہیں اور اُن
تینوں کا اس سے واضح اورمربوط و مضبوط تعلق ہے۔پ ہلی چیز حضرت حاطب بن ابی
بلتعة (رض) کا واقعہ ہے جو صحیح بخاری، مسلم اور دیگر کتب حدیث میں تفصیل
سے مروی ہے۔ امام بخاری (رح) نے ”باب الجاسوس“ کا عنوان قائم کر کے وہ حدیث
بایں الفاظ روایت کی ہے۔
پہلی حدیث:
”عن علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ قال: بعثنی رسول اﷲ انا والزبیر و
المقداد بن الاسود و قال: انطلقوا حتی تاتوا روضة خاخ فان بہا ظعینة ومعہا
کتاب فخذوہ منہ فانطلقنا تعادی بنا خیلنا حتی انتہینا الی الروضة ، فاذا
نحن بالظعینة ، فقلنا:اخر جی الکتاب، فقالت: مامعی کتاب، فقلنا:لتخرجن
الکتاب او لنلقین الثیاب فاخر جتہ من عقاصھا فاتینا بہ رسول اﷲ فاذا فیہ:
من حاطب بن ابی بلتعة الی اناس من اھل مکة یخبرھم ببعض امر رسول اﷲ فقال
رسول اﷲ ماھذا یا حاطب؟ قال: یا رسول اﷲ لاتعجل علی انی کنت امرا¿ ملصقامن
قریش ولم اکن من انفسھاوکان من معک من المہاجرین لھم قرابات بمکة یحمون بھا
اھلیھم و اموالھم فاحببت اذفاتنی ذلک من النسب فیہم ان اتخذعندھم یدا یحمون
بھا قرابتی وما فعلت کفرا و لا ارتدادا ولا رضا بالکفر بعد الاسلام، فقال
رسول اﷲ:قد صدقکم فقال عمر:یا رسول اﷲ دعنی اضرب عنق ھذا المنافق!قال: انہ
قد شہد بدراً و مایدریک لعل اﷲ ان یکون قد اطلع علی اھل بدر، فقال اعملوا
ما شئتم فقد غفرت لکم“(صحیح البخاری ،رقم الحدیث: ۷۰۰۳)
خلاصہ: اس تمام روایت کا یہ ہے ،حضرت علی (رض) فرماتے ہیں، نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے مجھے، حضرت زبیر (رض) اور حضرت مقداد بن اسود (رض) کو
حکم فرمایا کہ تم”روضة خاخ“ نامی جگہ پہنچو وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی اس
کے پاس ایک خط ہوگا وہ اس سے لے آؤ۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں ہم یہ حکم سن
کر چل پڑے اور تیزی سے منزل طے کرتے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے وہاں ہمیں ایک
عورت ملی ہم نے اس سے کہا خط نکالو! وہ کہنے لگی میرے پاس کسی قسم کا کوئی
خط نہیں ہے۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں ہم نے اسے کہا خط دیدے ورنہ ہم کپڑے
اتروا کر تلاشی لیں گے۔ یہ سن کر اس عورت نے بالوں کو باندھنے والے کپڑے کی
دھجی سے ایک خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا۔ہم وہ خط نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لیکر حاضر ہوئے۔ وہ خط حضرت حاطب بن ابی بلتعة
کا تھا۔ جو انہوں نے مشرکین مکہ کے نام تحریر کیا تھا اور اس میں رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مکہ پر حملے کی اطلاع تھی۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے یہ خط دیکھا تو حضرت حاطب سے دریافت فرمایا: اے حاطب یہ کیا
معاملہ ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میرے بارے
میں جلدی سے کوئی فیصلہ نہ فرمائیے۔ بات کچھ یوں تھی کہ میں رہتا تو مکے
میں تھا مگر میرا قبیلہ قریش نہیں ہے جبکہ دیگر مہاجرین اسی قبیلے سے تعلق
رکھتے ہیں تو ان کے رشتہ دار وہاں پیچھے رہ جانے والے ان کے اہل خانہ کی
حفاظت کرتے ہیں جبکہ میرا معاملہ ایسا نہ تھا، تو میں نے سوچا اس بہانے اہل
مکہ پر ایک احسان کر دوں تاکہ اس کی وجہ سے وہ میرے اہل خانہ کو تنگ نہ
کریں اور ان کی حفاظت ہوتی رہے۔
یہ سن کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس نے سچ کہا، حضرت عمر
(رض) نے اس موقع پر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کی
یارسول اﷲ! مجھے اجازت دیں میں اس منافق کی گردن اڑادوں۔ نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ بدر میں شریک تھا اور تمہیں کیا معلوم کہ اﷲ
تعالیٰ نے اہل بدر میں کونسی چیز محسوس کی اور یہ ارشاد فرمایا: اے اہل بدر
جو چاہو عمل کرو، میں نے تمہاری مغفرت کردی۔
دوسری حدیث:
سنن ابو داود میں سند صحیح کے ساتھ ”باب فی الجاسوس الذمی“ کے تحت یہ حدیث
مروی ہے:
”عن فرات بن حیان، ان رسول اﷲ امر بقتلہ، وکان عینالابی سفیان، وکان
حلیفاًلرجلٍ من الانصار، فمر بحلقةٍمن الانصار، فقال: انی مسلم فقال رجل من
الانصار:یا رسول اﷲ، انہ یقول: انی مسلم فقال رسول اﷲ:ان منکم رجالا نکلھم
الی ایمانہم، منھم فرات بن حیان“(سنن ابی داو ¿د، رقم الحدیث:۲۵۶۲)
خلاصہ اس حدیث کا یہ ہے کہ حضرت فرات بن حیان فرماتے ہیں کہ میں ابو سفیان
کا جاسوس بن کر مسلمانوں میں آیا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے میرے
قتل کا حکم دیدیا جبکہ میں ایک انصاری کا حلیف بھی تھا، میں انصار کے ایک
حلقے سے گزرا تو میں نے کہا ”انی مسلم“ یعنی میں مسلمان ہوں۔ میری یہ بات
سن کر ایک انصاری نے خدمت اقدس میں عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم وہ تو اپنے کو مسلمان کہتا ہے یہ سن کر حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا: تم
میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں ہم ان کے ایمان کے حوالے کرتے ہیں اور فرات
بن حیان بھی انہی میں سے ہیں۔ گویا ان کے مسلم ہونے کی وجہ سے آپ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے قتل کا فیصلہ واپس لے لیا۔
تیسری حدیث:
صحیح البخاری اور مسلم میں ایک روایت ہے جس میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے ان اعمال پر متنبہ فرمایا ہے جن سے ایک مسلمان کا خون بہانا جائز
ہو جاتا ہے۔
”عن عبداﷲ بن مسعود قال:قال رسول اﷲ لا یحل دم امریءمسلم یشھد ان لا الہ
الا اﷲ، وانی رسول اﷲ الا باحدی ثلاث:النفس بالنفس، والثیب الزانی،
والمفارق لدینہ التارک للجماعة“(صحیح البخاری ، رقم الحدیث:۸۷۸۶)
خلاصہ یہ کہ تین افعال ایسے ہیں جن کے کرنے سے ایک مسلمان مباح الدم ہوجاتا
ہے یعنی اس کا خون بہانا جائز ہو جاتا ہے۔
(۱) قتل کرنے سے۔(۲) شادی شدہ زانی۔(۳) دین اسلام اور جماعت مسلمین کو
چھوڑنے والا یعنی مرتد
جاری ہے |