ذمی جاسوس کا حکم
مذہب احناف:
(۱) امام ابو یوسف (رح) کے نزدیک ذمی جاسوس کو قتل کیا جائے گا۔ امام ابو
یوسف (رح) کی کتاب الخراج میں امام صاحب اور ہارون الرشید کا درج ذیل
مکالمہ تحریر ہے:
”وسالت یا امیرالمومنین عن الجواسیس؟.... فان کانوامن اہل الحرب اومن اہل
الذمة ممن یودّی الجزیة من الیہودوالنصاریٰ والمجوس فاضرب اعناقہم“ الخراج
لابی یوسف ص ۵۰۲)
”اے امیرالمومنین !آپ نے جاسوس کا حکم پوچھا ہے اگر وہ جاسوس حربی یا ذمی
ہو جو جزیہ ادا کرتا ہو مثلاً یہودی، عیسائی یا مجوسی.... تو آپ اس کی گردن
اڑا دیجئے“۔
(۲) امام محمد کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذمی کے عدم قتل کے قائل ہیں،
شرح سیر کبیر میں ہے:
”وکذلک لوفعل ہذا (ای التجسس علی المسلمین) ذمی فانہ یوجع عقوبة ویستودع
السجن ولایکون ہذا نقضاًمنہ للعہد“
”اسی طرح اگر ایک ذمی مسلمانوں کی جاسوسی کرے تو اسے سخت سزا دی جائے گی
اور قید میں ڈال دیا جائے گا اور اس جاسوس کا عہدِ ذمہ ختم نہ ہو گا“۔
البتہ ایک صورت میں ذمی کا عہدِ ذمہ ختم ہو جائے گا اور اس صورت میں امام
محمد کے نزدیک بھی اسے قتل کرنا جائز ہوگا۔ وہ صورت یہ ہے کہ ایک آدمی اصلاً
جاسوس تھا مگر لبادہ ذمیت کا اوڑھ کر آیا جیسا کہ آج کل مثلاً ایک کافر کسی
اسلامی ملک کی نیشنلٹی حاصل کر کے رہائش پذیر ہو یا بطور مستامن کے مگر
حقیقت میں وہ جاسوسی کیلئے آیا تھا اس صورت میں اس کا عہدِ ذمہ واستیمان
ٹوٹ جائے گا اور اسے قتل کرنا جائز ہوگا۔
مذہب مالکیہ:
مالکی حضرات جس طرح مسلم جاسوس کے قتل کے قائل ہیں اسی طرح ذمی جاسوس کے
بھی قتل کے قائل ہیں۔ ہاں اگر وہ ذمی اسلام لے آئے تب اس حکم سے مستثنیٰ
ہے۔ کتاب ”منح الجلیل“ میں ہے:
وقتل عین ای جاسوس علی المسلمین یطلع الحربیین علی عورات المسلمین وینقل
اخبار ہم الیہم وان کان الجاسوس ذمیا عندنا ویتعین قتلہ الا ان یسلم ونقل
عن سحنون ان رای الامام استرقاقہ فہولہ واستشکل بانہ لایدفع شرہ (منح
الجلیل ۳/۲۶۱)
”جاسوس کو قتل کیا جائے گا اگرچہ وہ ذمی ہی ہو، اُس کا قتل متعین ہے مگر یہ
کہ وہ مسلمان ہوجائے اور امام سحنون سے نقل کیا گیا ہے اگر امام اسے غلام
بنانا چاہے تو اس کیلئے جائز ہے لیکن اس پر یہ اشکال کیا گیا ہے کہ اس سے
اس کا شر ختم نہیں ہوگا“۔
اس کے علاوہ دو روایتیں اور بھی ہیں ایک یہ کہ اسے اس صورت میں قتل کیا
جائے گا جب وہ کفر کی مدد ونصرت کرے۔
قال اصبغ والجاسوس المسلم والذمی یعاقبان الاان تظاہرا علی الاسلام فیقتلان
“
”اصبغ فرماتے ہیں مسلم اور ذمی جاسوس کو سزا دی جائے گی ہاں اگر اسلام
کیخلاف کفر کی مدد ونصرت کریں تب انہیں قتل کردیا جائے گا۔ (تفسیر القرطبی
۸۱/۳۵)
اور دوسری رائے یہ ہے کہ امام کو اس کے قتل کرنے اور قید کرنے کا اختیار ہو
گا: ”وامافی التطلع علی عورات المسلمین فیخیر الامام بین قتلہ واسرہ“ (حکم
الجاسوس الذمی، الشرح الکبیر للدردیر ۲/۵۰۲)
”ذمی جاسوس کے متعلق امام کو قتل کرنے اور قید کرنے کا اختیار ہے“۔
مالکیہ میں سے امام اصبغ مصری کی رائے امام قرطبی (رح) نے بایں الفاظ نقل
کی ہے:
”قال اصبغ.... والجاسوس المسلم والذمی یعاقبان الاان تظاہرا علی الاسلام
فیقتلان“
امام اصبغ فرماتے ہیں: مسلم اورذمی جاسوس کو عقوبت (مار پٹائی) والی سزا دی
جائے۔ البتہ اگر انہوں نے اسلام کیخلاف کفار کی مدد کی ہو تب انہیں قتل کیا
جائے۔ (الجامع لاحکام القرآن، للقرطبی، ۸۱/۹۴)
مذہب شافعیہ:
ذمی جاسوس کے متعلق شافعی مسلک میں کچھ تفصیل ہے جس کا خلاصہ درج ذیل نکات
ہیں۔
(۱) ذمی کو عقد ذمہ دیتے وقت ”جاسوسی نہ کرنے“ کی شرط نہ رکھی گئی ہو تب
جاسوسی کی وجہ سے اُس کا عقد ذمہ ختم نہ ہوسکا۔ مطلب یہ کہ اب اسے قتل نہیں
کیا جائے گا البتہ علاوہ قتل کوئی اور سزا دی جائے گی۔
(۲) ذمی کو عقد دیتے وقت ”جاسوسی نہ کرنے“ کی شرط رکھی گئی ہو لیکن پھر بھی
اُس نے جاسوسی کا ارتکاب کیا اب اِس کے متعلق دو صورتیں ہیں:
(الف) شرط کی مخالفت کے باوجود اُس کا عقد ذمہ ختم نہ ہوگا۔ (جس کا مطلب
یہی ہوا کہ علاوہ قتل کوئی اور سزا دی جائے گی)۔
(ب) شرط کی مخالفت کرنے کی وجہ سے عقد ذمہ ختم ہو جائے گالیکن سزا کیا
ہوگی؟ اس میں پھر دو باتیں منقول ہیں:
الف: قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ دارالاسلام سے نکال دیا جائے۔
ب: صحیح اور راجح قول یہ ہے کہ عقد ذمہ ختم ہونے کے بعد اُس کی حیثیت
”کافرقیدی“ والی ہوگئی، اب جس طرح کافر قیدی کو قتل کرنا، غلام بنانا ،فدیہ
لے کر چھوڑ دینا یا احسان کرتے ہوئے بلا فدیہ چھوڑ دینا کوئی سی صورت بھی
جائز ہوتی ہے اسی طرح اِس ذمی کے متعلق بھی اِن چار صورتوں میں سے کسی پر
بھی عمل کیا جاسکتا ہے۔( تفصیل کیلئے دیکھئے، المہذب للشیرازی،۲/۷۵۲)
حنبلی مذہب:
ذمی جاسوس سے متعلق حنبلی مذہب کا خلاصہ یہ ہے:
(۱) جاسوسی کے جرم کی وجہ سے عقد ذمہ ختم ہوجائے گا لہٰذا امام کو اُن چار
صورتوں کا اختیار ہو گا جو اوپر شافعی مذہب میں ذکر کی گئی ہیں۔
(۲) عقد ذمہ ختم نہ ہوگا بلکہ تعزیری سزا دی جائے گی جس سے دوسروں کو عبرت
ہو اور وہ اِس حرکت سے رُک جائیں۔
تفصیل کیلئے دیکھیئے: (الاحکام السلطانیہ للفرّا، ص ۲۴۱، ۳۴۱، المغنی لابن
قدامہا: (۰۱/۹۰۲) الشرح الکبیر للمقدسی: (۰۱/۴۳۲)
ذمی جاسوس کے متعلق اسی قدر گفتگو پر اکتفا کیا جارہا ہے کیونکہ آج کل ذمی
کا وجود ناپید ہے۔
حربی جاسوس کاحکم
جاسوس کی تیسری قسم ”حربی کافر جاسوس“ ہے۔ ایسے حربی کافر جاسوس کے بارے
میں شرعی حکم کیا ہے؟ اِس کا جائزہ لینے کیلئے تین نکات پر گفتگو کی جاتی
ہے۔
(۱) حربی جاسوس کے شرعی حکم سے متعلق ائمہ فقہاءکے دلائل۔
(۲) اُس حربی جاسوس کا حکم جو معاہد اور مستامن نہ ہو۔
(۳) اُس حربی جاسوس کا حکم جو معاہد یا مستا من ہو۔
پہلی بحث: فقہاء کے دلائل
حربی جاسوس کے بارے میں فقہاء نے مختلف احادیث کو سامنے رکھا ہے۔ اِن میں
ایک حدیث صحیح بخاری میں مروی ہے:
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) فرماتے ہیں ”نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس
مشرکین کا ایک جاسوس آیا۔ اس وقت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنے
صحابہ کے ساتھ سفر میں تھے۔ وہ جاسوس صحابہ کے پاس بیٹھ کر گپ شپ میں مصروف
ہو گیا، کچھ دیر بعد صحابہ کی مجلس سے اُٹھ کر غائب ہو گیا، (نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع ہوئی) تو آپ نے فرمایا اُس جاسوس کو تلاش کرو
اور قتل کردو۔ (حضرت سلمہ بن اکوع (رض) فرماتے ہیں میں نے اسے تلاش کیا)
اور قتل کردیا۔ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کا سامان مجھے دے
دیا۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث۱۵۰۳)
امام مسلم نے اسی حدیث کو کچھ تفصیل سے نقل کیا ہے۔ فتح الباری میں امام
ابن حجر (رح) نے مسلم کی روایت نقل کرنے کے بعد درج ذیل عبارت درج کی ہے جس
سے اِس مسئلے کی حقیقت پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ تحریر ہے:
”ظہر من روایة عکرمة ای: ہذا الحدیث الاخیر الذی اخرجہ مسلم) الباعث علی
قتلہ وانہ اطلع علی عورة المسلمین وبادر لیعلم اصحابہ یغتنمون غرتہم وکان
فی قتلہ مصلحة للمسلمین“
یعنی عکرمہ کی اِس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کافر کو قتل کیوں کیا گیا
تھا؟ وجہ یہ تھی کہ اُس نے مسلمانوں کی جاسوسی کی تاکہ اپنے ساتھیوں کو
مسلمانوں کی جماعت اور اُن کے حالات سے باخبر کرے....اور اُس کافر کے قتل
میں مسلمانوں کا فائدہ تھا۔
(فتح الباری: ۷/۹۶۱)
اسی حدیث کی شرح میں شارح مسلم امام نووی (رح) تحریر فرماتے ہیں: ”وفیہ قتل
الجاسوس الکافر الحربی، وہو کذ لک باجماع المسلمین“ یعنی اِس حدیث میں حربی
کافر جاسوس کے قتل کی واضح دلیل موجود ہے۔ اِسی حکم پر مسلمانوں کا اجماع
ہے۔ (شرح النووی علی مسلم: ۷/۷۴۲)
جاری ہے |