آراء فقہائے کرام
اب ہم دیکھتے ہیں کہ فقہائے کرام نے ان احادیث کی روشنی میں مسلم جاسوس کا
کیا حکم صادر فرمایا ہے۔
پہلی رائے: مسلم جاسوس کا قتل حرام ہے۔ البتہ حسب اقتضاء تعزیری سزا دینا
جائز ہے۔ احناف، شافعیہ اور امام احمد بن حنبل (رح) کا یہی مسلک ہے۔
مسلک احناف:امام ابو یوسف (رح) کی کتاب”الخراج“ میںامام ابو یوسف، ہارون
الرشید کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ”وسالت یا امیر المومنین
عن الجواسیس؟.... یقول ابو یوسف فی الجواب:ان کانوا من اھل الاسلام معروفین
، فاوجعہم عقوبة و اطل حتی یحدثواتوبة“(کتاب”الخراج“ص ۵۰۲،۶۰۲۔ وانظر السیر
الکبیر:۵\۰۴۰۲،۱۴۰۲)
خلاصہ یہ ہے کہ امام ابو یوسف، ہارون الرشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے
ہیں کہ اے امیرالمومنین آپ نے جاسوسوں کے متعلق دریافت کیا ہے تو سنیے! ابو
یوسف اس کے جواب میں کہتا ہے کہ اگر جاسوس کا اہل اسلام میں سے ہونا مشہور
و معروف ہو تو انہیں تکلیف دہ سزا دو اور لمبا عرصہ قید میں رکھو یہاں تک
کہ وہ اس فعل سے توبہ کر لیں۔
اسی طرح سیر کبیر کی شرح میں مسلم جاسوس کو قتل نہ کرنے پر حضرت حاطب کے
واقعہ سے استدلال کیا گیا ہے۔ الفاظ یہ ہیں: ”واستدل علیہ بحدیث حاطب بن
ابی بلتعة فلو کان بہذا کافرا مستوجبا للقتل ماترکہ رسول اﷲ ﷺ بدریاکان،
اوغیر بدری، وکذلک لولزمہ القتل بہذا حدا ما ترک رسول اﷲ اقامتہ علیہ“(شرح
السیر الکبیر:۵\۰۴۰۲،۱۴۰۲)
یعنی مسلم جاسوس کو قتل نہ کرنے پر حضرت حاطب کے واقعہ سے استدلال کیا گیا
ہے وہ اس طرح کہ اگر اس جاسوسی سے آدمی کافرہو جاتا ہو جس کی سزا قتل ہو تو
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم انہیں ہرگز یوں نہ چھوڑتے خواہ وہ بدری ہوتے
یا نہ ہوتے۔ اسی طرح اگر جاسوسی کی سزا بطور حد شرعی کے قتل ہوتی تب بھی
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم انہیں یوں نہ چھوڑ دیتے(کیونکہ حد شرعی تو
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بھی معاف نہیں فرماسکتے)
مسلک شافعیہ:
امام شافعی (رح) کا مسلک بھی یہی ہے کہ مسلم جاسوس کا قتل جائز نہیں کیونکہ
جاسوسی ایسا فعل نہیں جو اسے مباح الدم بناتا ہو۔ امام شافعی (رح) اپنی
کتاب”الام“ میں تحریر فرماتے ہیں: ”لایحل دم من ثبتت لہ حرمة الاسلام الا
ان یقتل او یزنی بعد احصان، اویکفر کفرا بینا بعد ایمان ثم یثبت علی الکفر،
ولیس الدلالة علی عورة مسلم، ولاتایید کافر بان یحذر ان المسلمین یریدون
منہ غرةلیحذرھا ، او یتقدم فی نکایة المسلمین بکفر بین“(الام للشافعی:۴\۹۴۲)
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ کسی مسلمان کا قتل جائز نہیں بجز ان صورتوں کے(۱)
ناحق کسی کو قتل کرے(۲) محصن(شادی شدہ) ہو کر زنا کرے(۳) اسلام چھوڑ کرمرتد
ہوجائے۔ باقی رہا یہ فعل کہ وہ مسلمانوں کے کسی خفیہ راز کی دشمن کو اطلاع
دے یا انہیں کسی منصوبے سے آگاہ کرے یہ کفر کا باعث نہیں(اس بنا پر اس کا
قتل جائز نہ ہوگا)
یہی نہیں امام شافعی (رح) اس سے بڑھ کر یہ بھی فرماتے ہیں کہ دنیا میں کوئی
جاسوسی، اس جاسوسی سے خطرناک نہیں ہو سکتی جو حضرت حاطب نے نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کے راز کے بارے میں کی تھی مگر جب ان کا عذر قبول کر لیا
گیا تو کسی اور جاسوس سے جس کی جاسوسی اُن سے کم خطرناک ہے بدرجہ اولیٰ اس
کا عذر قبول کیا جائے گا۔
امام شافعی(رح) جاسوسی کی سزا تعزیر قرار دیتے ہیں اور اس کو بھی امام کی
رائے پر چھوڑتے ہیں۔ ایک تفصیل یہ بیان کرتے ہیں اگر جاسوسی کرنے والا
مسلمان صاحب حیثیت ہو اوراپنے اسلام و اخلاص میں متہم بھی نہ ہو بلکہ اپنی
جہالت سے جاسوسی کے کام میں لگ گیا ہو تب اس کو معاف کردینا مستحسن ہے اور
اگر صاحب حیثیت نہیں ہے تب اسے تعزیر لگانا بہتر ہے۔
اسی طرح شافعی مسلک کے مستند و معروف ترجمان شارح مسلم علامہ نووی(رح)
تحریر فرماتے ہیں:
”ومذہب الشافعی و طائفة ان الجاسوس السملم یعزرولا یجوز قتلہ“(شرح صحیح
مسلم:۹\۳۰۴)
یعنی امام شافعی (رح) اور ایک جماعت فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ مسلم جاسوس پر
تعزیر لگائی جائے گی اس کو قتل کرنا جائز نہیں ہے۔
مسلک حنابلہ:
امام ابن تیمیہ (رح)، امام احمد بن حنبل (رح) کے مسلک کی نشاندہی کرتے ہوئے
تحریر فرماتے ہیں:
”فی مثل الجاسوس المسلم، اذا تجسس للعدو علی المسلمین فان احمد یتوقف فی
قتلہ“ (السیاسة الشرعیة لابن تیمیہ:ص ۳۲۱)
”مسلم جاسوس، جب مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کیلئے جاسوسی کرے تو امام احمد بن
حنبل (رح) اس کے قتل کے بارے میں توقف کرتے ہیںیعنی قتل کے بارے میں کوئی
فیصلہ نہیں فرماتے۔“
علامہ ابن القیم ،زاد المعاد میں تحریر فرماتے ہیں:
”وقال الشافعی و ابو حنیفہ: لایقتل وھو ظاھر مذہب احمد“(زادالمعاد لابن
القیم:۳\۳۲۴)
یعنی امام شافعی (رح) اور امام ابو حنیفہ (رح) فرماتے ہیں:مسلم جاسوس کو
قتل نہیں کیا جائے گا اور امام احمد (رح) کا ظاہر مذہب بھی یہی ہے۔
دوسری رائے:
فقہا ئے اربعہ میں سے فقہائے ثلاثہ کی رائے اور مسلک تو معلوم ہو چکا کہ وہ
حضرات مسلم جاسوس کی سزا تعزیرتجویز کرتے ہیں، اس کا قتل جائز نہیں سمجھتے۔
دوسری رائے فقہائے مالکیہ کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ مسلم جاسوس کو قتل کیا
جائے گا۔ بعض حنابلہ کی رائے بھی مالکیہ کے ساتھ ہے۔مالکیہ حضرات مسلم
جاسوس کی سزا قتل تجویز کرتے ہیں مگر اس میں اُن کے ہاں کچھ تفصیل ہے۔
پہلا قول:مسلم جاسوس کو قتل کرنا مطلقاً واجب ہے۔
علامہ ابن القیم تحریر فرماتے ہیں: ” قال سحنون:اذاکاتب المسلم اھلالحرب
قتل ولم یستتب ومالہ لورثتة.... وقال ابن القاسم:یقتل ولا یعرف لہذا توبة
وھو کالز ندیق“ (زادالمعاد لابن القیم۵\۴۶،۵۶)
یعنی امام سحنون مالکی فرماتے ہیں :جب کوئی مسلمان ،اہل حرب کافروں کو کوئی
راز وغیرہ لکھ بھیجے یعنی مسلمانوں کی، حربی کافروں کیلئے جاسوسی کرے تو
اسے قتل کیا جائے گا، اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، البتہ اس کا مال
ورثا کو ملے گا.... ابن القاسم فرماتے ہیں:مسلم جاسوس کو قتل کیا جائے اور
اس کی توبہ کو کوئی حیثیت نہیں دی جائے گی اور وہ زندیق کی مانند ہے۔
دوسرا قول: دو صورتوں میں مسلم جاسوس کو قتل کرنا واجب ہے(۱) جاسوسی کرتے
ہوئے پکڑا جائے اور ابھی تک توبہ کا اعلان بھی نہ کیا ہو۔(۲) اس نے جاسوسی
کی مستقل عادت بنا لی ہو۔
کتاب”منح الجلیل“میں ہے:
”والمسلم العین کالزندیق ای الذی اظہر الاسلام واخفی الکفر فی تعین قتلہ،
وان اظہر التوبة بعد الاطلاع علیہ، وقبول توبة ان اظہرھا قبل الاطلاع
علیہ“(منح الجلیل:۳\۳۶۱)
یعنی مسلم جاسوس بھی زندیق کی طرح قتل کیا جائے گا اگرچہ پکڑے جانے کے بعد
اس نے توبہ کر لی ہووہ معتبر نہ ہوگی۔ ہاں اگر جاسوسی ظاہر ہونے سے پہلے وہ
توبہ کرلے تب توبہ قبول کر لی جائے گی۔
ابن عربی مالکی تحریر فرماتے ہیں:
”وقال عبدالملک: اذا کانت تلک عادتہ قتل لانہ جاسوس“(احکام القرآن لابن
العربی:۴\۱۷۷۱)
یعنی عبدالملک ابن الماجشون مالکی فرماتے ہیں:اگر یہ جاسوسی اس کی عادت بن
گئی ہو تو اسے قتل کیا جائے گا۔
تفسیر قرطبی میں ہے کہ علامہ ابن ماجشون قتل کیلئے عادت کو شرط اس لئے قرار
دیتے ہیں کہ اگر عادت نہ ہو بلکہ اکا دکا واقعہ ہو تو پھر قتل جائز نہ ہو
گا جیسا کہ حضرت حاطب کا معاملہ ہے کیونکہ ان کا پہلا واقعہ تھا اس لئے
انہیں قتل نہیں کیا گیا۔
تفسیر قرطبی کی عبارت یہ ہے:
”ولعل ابن الماجشون انما اتخذ التکرار فی ھذا لان(حاطباً) اخذ فی اول فعلہ
، واﷲاعلم“احکام القرآن للقرطبی:۸۱\۳۵)
تیسرا قول: مسلم جاسوس کے قتل کا معاملہ” صاحب اختیاروسلطنت“ کی رائے پر
منحصر ہوگا چاہے وہ اس کے قتل کا فیصلہ کرے یا کوئی اور سزا دے۔
ابن العربی المالکی تحریر فرماتے ہیں:
”من کثرتطلعہ علی عورات المسلمین و ینبہ علیہم ویعرف عدوھم باخبار ھم اذ
قلنا: انہ لایکون بہ کافرا فھل یقتل بہ حدّاً،ام لا؟ فقال مالک وابن القاسم
واشھب:یجتہد فیہ الامام“( احکام القرآن لابن العربی:۴\۱۷۷۱)
یعنی جو شخص مسلمانوں کی جاسوسی میں کثرت سے منہمک رہتا ہو اور دشمن کو
مسلمانوں کے حالات وواقعات سے خبردار رکھتا ہو تواس فعل سے وہ کافر نہیں
ہوگا۔ باقی رہی یہ بات کہ اسے بطور”حد شرعی“ قتل کی سزادی جائے گی یا
نہیں....؟ امام مالک، ابن القاسم اور ا شہب کا کہنا یہ ہے کہ اس کا معاملہ
امام کی رائے پرموقوف ہو گا(یعنی چاہے قتل کرے یا کوئی اور سزادے)
علامہ ابن القیم بھی امام مالک کا یہی مسلک نقل کرتے ہیں:
”ھل یجوزان یبلغ بالتعزیر القتل؟ فیہ قولان:احد ھا:یجوز،کقتل الجاسوس
المسلم اذا اقتضت المصلحة قتلہ وھذا قول مالک وبعض اصحاب احمد، واختارہ ابن
عقیل“(الطرق الحکمیة لابن القیم:ص ۷۱۱)
یعنی”تعزیر“ والی سزا قتل بھی ہو سکتی ہے یا نہیں؟ تو اس بارے میں دو قول
ہیں ۔ایک قول جواز کا ہے یعنی تعزیراً قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ کسی
مصلحت کیوجہ سے مسلم جاسوس کو قتل کرنا۔ امام مالک اور بعض حنابلہ کا یہی
مسلک ہے اور علامہ ابن عقیل نے اسی کو راجح اور مختار قرار دیا ہے۔
خود علامہ ابن القیم (رح) نے بھی اسی رائے کو راجح قرار دیاہے:
”والصحیح: ان قتلہ راجع الی رای الامام فان رای فی قتلہ مصلحة للمسلمین
قتلہ وان کان استبقاہ اصلح استبقاہ، واﷲ اعلم“(زادالمعاد لابن القیم:۳\۲۳۴)
صحیح بات یہ ہے کہ مسلم جاسوس کے قتل کا فیصلہ”امام“ کی رائے پر موقوف ہے
اگر وہ اس کے قتل میں مسلمانوں کا فائدہ اور مصلحت دیکھے تو قتل کر دے
اوراگر اسے قتل نہ کرنا بہتر ہو تو قتل نہ کرے۔
نکتہ:جمہور فقہا کے نزدیک مسلم جاسوس کا قتل جائز نہیں بلکہ تعزیری سزا دی
جائے گی اور اس کو بھی قتل کی حد تک نہیںپہنچایا جائے گا بلکہ جب تک سچی
توبہ کا اظہار نہ کرے قید میں رکھا جائے گا۔ قتل نہ کرنے کا سبب اس کا
اسلام ہے اور جاسوسی ایسا فعل نہیں جو ایک مسلمان کو مباح الدم بناتا ہو۔
دوسری جانب جن فقہاء نے مسلم جاسوس کی سزا قتل تجویز کی ہے ان کے نزدیک
جاسوس کا اسلام مانع قتل نہیں ہو سکتا اور وہ حضرت حاطب (رض) کے واقعے کو
استدلال میں پیش کرتے ہیں۔ جس میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت
عمر (رض) کے قتل کی اجازت چاہنے کے جواب میں جو مانع بیان کیا وہ اسلام
نہیں بلکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا:”انہ قد شہد بدرا“
یعنی بدری صحابی ہونے کی وجہ سے آپ نے قتل کی اجازت نہیں دی۔ اگر مانع قتل
اسلام ہوتا تو آپ ”انہ قدشہد بدرا“ نہ فرماتے بلکہ فرماتے کہ اے عمر (رض) !
یہ تو مسلمان ہے۔ مگر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں کہا معلوم ہوا
”اسلام“ جاسوس کے قتل سے مانع نہیں ہے۔ اس سلسلے میں علامہ ابن حجر (رح) کی
یہ عبارت ملاحظہ فرمائیں خلاصہ وہی ہے جوہم نے اوپر بیان کیا ہے:
”ووجہ الدلالة انہ اقر(عمر) علی ارادة القتل، لولا المانع، وبین المانع
ھوکون حاطب شہد بدرا وھذا منتف فی غیر حاطب فلو کان الاسلام مانعا من قتلہ
لما علل باخص منہ“ (فتح الباری:۸\۵۳۶)
جمہور کی طرف سے اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم جاسوس کے قتل کامانع”اسلام“ ہی
ہے۔جیسا کہ پہلے حدیث نمبر۲ کے تحت حضرت فرات بن حیان کا واقعہ نکل کیا جا
چکا ہے کہ وہاں”انی مسلم، یعنی میں مسلمان ہوں“ کہنے کی وجہ سے باوجود یکہ
آپ نے قتل کا حکم صادر فرمادیا تھا مگر یہ سننے کے بعد اس حکم کے قتل کاحکم
جاری نہ فرمایا۔
رہا معاملہ حضرت حاطب (رض) کا کہ وہاں آپ نے ”انہ قد شہد بدرا“ فرمایا۔ وہ
اس لئے کہ حضرت عمر (رض) کو یہ بتلانا مقصود تھا کہ اے عمر (رض)! مسلمان
ہونا ہی جاسوس کے قتل سے مانع ہے جب کہ یہاں تو حضرت حاطب کو ”اسلام“ کے
علاوہ ایک اور خاص مقام بھی حاصل ہے کہ وہ بدری صحابی ہیں اس لئے ان کے قتل
کی اجازت تو کسی طرح بھی نہیں دی جاسکتی۔
مسلم جاسوس کے متعلق ائمہ ثلاثہ کی رائے تو یہی ہے کہ اسے تعزیری سزا دی
جائے گی قتل نہیں کیا جائے گا۔ البتہ یہ عمومی حالات کا حکم ہے لیکن بعض
مخصوص حالات میں مسلم جاسوس کو قتل کرنا بھی جائز ہے۔
اس سلسلے میں شامی میں فتاوی بزازیہ کے حوالے سے ایک جزئیہ مذکور ہے جس کی
بنیاد پر مسلم جاسوس کے قتل کا فتویٰ دیا گیا ہے:
”وقدافتوا بان قتل الاعونة والسعاة جائز فی ایام الفتنة“(ردالمحتار ص ۲۶۵ج
۶)
”علماءنے فتنوں کے زمانے میں معاون وساعی کے قتل کو جائز قرار دیا ہے“۔
یعنی ایک آدمی براہ راست قتل میں شریک نہیں بلکہ محض قاتل کا معاون تھا عام
حالات میں تو اس معاون کو قتل نہیں کیا جائے گا لیکن اگر فتنوں کے دن ہوں
اور اس فتنے کا سدباب کسی اور طرح ممکن نہ ہو تب ان معاونین کو بھی قتل کیا
جائے گا۔ اسی طرح مسلم جاسوس کی جاسوسی سے مجاہدین کا اہم نقصان ہو گیا ان
کے ساتھی مارے گئے اور جاسوسی روکنے کی کوئی اور صورت ممکن نظر نہیں آتی تب
انہیں قتل کرنا جائز ہوگا۔
دوسری دلیل قتل کے جواز کی یہ ہے کہ تعزیر کے مختلف درجات ہیں ایک درجہ اور
آخری حد قتل ہے اس لئے اگر جاسوسی اہم نوعیت کی ہو بایں طور کہ اس جاسوسی
کی بنیاد پر مجاہدین کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہو تب اس جاسوس کو تعزیری طور
پر قتل کرنا بھی جائز ہوگا۔
جاری ہے |