دوسری بحث:
دوسری بحث یہ ہے کہ جو حربی کافر جاسوس معاہد اور مستامن نہ ہو آیا اسے قتل
کرنا واجب ہے یا جائز ہے۔ جواز کا مطلب یہ ہے کہ اسے قتل کرنا بھی جائز ہو
اور اگر کوئی مصلحت ہو تو اسے قتل نہ کرنا بھی درست ہو۔ایسے جاسوس کے بارے
میں فقہاء کی عبارات سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ اُس کی سزا قتل ہے، بغیر اِس
تفصیل کہ وہ قتل وجوباً ہو گا یا جوازاً۔ اِس سلسلے میں پہلی بات جو طے ہے
وہ یہ کہ اگر کوئی حربی کافر مسلمانوں کے ہاتھوں آجائے تو اسے قتل کرنا یا
قتل کئے بغیر قیدی اور غلام بنا لینا دونوں صورتیں جائز ہوتی ہیں۔ اسی طرح
ایسا ہی ایک احتمال یہاں ہے کہ اگر کوئی حربی کافر جاسوسی کرتے ہوئے
مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائے تو اُس کا بھی یہی حکم ہوگا کہ اسے قتل کرنا یا
قیدی اور غلام بنانا دونوں صورتیں جائز ہوں گی۔ جیسا کہ علامہ ابن حجر(رح)
نے بنو ہوازن کے جاسوس کے قتل والی حدیث میں یہ جملہ تحریر کیا ہے:
”وکان فی قتلہ مصلحة للمسلمین“
یعنی اِس قتل میں مسلمانوں کی مصلحت تھی۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کبھی قتل نہ کرنے میں مصلحت ہو تب قتل نہ کرنا
بھی جائز ہوگا۔
اِس مسئلے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اُسے قتل کرنا واجب ہے، یہی وجہ ہے کہ
فقہاء نے جوب اور جواز کی تفصیل کے بغیر صرف قتل ہی کا حکم ذکر کیا ہے۔
ابن عربی کی احکام القرآن میں ہے:
”قال اصبغ: الجاسوس الحربی یقتل“ (احکام القرآن لابن العربی: ۴/۲۷۷۱)
یعنی اصبغ فرماتے ہیں کہ حربی جاسوس کو قتل کیا جائے گا۔
اسی طرح امام ابو یوسف (رح) کی کتاب الخراج میں امام صاحب اور خلیفہ ہارون
الرشید کے درمیان جو مکالمہ ہے اس میں حربی جاسوس کے متعلق سوال وجواب یوں
درج ہے:
”وسالت یاامیرالمومنین عن الجواسیس........ فان کانو! من اہل الحرب، فاضرب
اعناقہم“ (کتاب الخراج لابی یوسف:ص۵۰۲)
اے امیرالمومنین آپ نے جاسوس کے متعلق حکم دریافت کیا ہے، پس اگر وہ حربی
جاسوس ہو تو آپ اُس کی گردن مار دیجئے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہی دوسرا نقطہ نظر راحج ہے کہ حربی جاسوس کوقتل کرنا واجب
ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے قتل کا حکم صادر فرمایا اور
فقہاء نے بھی قتل ہی کا حکم ذکر فرمایا ہے۔ یہ تمام تفصیلات اُس حربی جاسوس
کے متعلق ہیں جو معاہدا اور مستامن نہ ہو۔
حربی کافر کی دوسری قسم
وہ حربی کافر جو معاہد اور مستامن ہو خواہ اس کا معاہدہ شخصی ہو یا ملکی
سطح کا ہو مثلاً ایک اسلامی ملک اور دوسرے کافرملک کے درمیان معاہدہ ہوا کہ
ان دونوں ملکوں کے شہری آپس میں بغیر کسی روک ٹوک آجاسکیں گے، خاص شخصی
معاہدے کی ضرورت نہ ہو گی ایسا حربی کافر جب جاسوسی کرے تو اس کا کیا حکم
ہوگا۔
مذہب حنفی:
امام ابو یوسف کا قول پہلے نقل کیا جاچکا ہے کہ ان کے نزدیک حربی کافر
جاسوس کا حکم قتل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ”حربی کافر“ ایک ایسا لفظ ہے جو
معاہد اور مستامن کافر کو بھی شامل ہے۔ اس بنیاد پر حربی کافر کا جو حکم
امام ابو یوسف نے اختیار کیا ہے اس حکم میں معاہد اور مستامن کافر بھی شامل
ہوگا اور ان کا حکم بھی بصورت جاسوسی قتل ہوگا۔
احناف میں سے امام محمد معاہد اور مستامن جاسوس کے قتل کے قائل نہیں ہیں
بلکہ دردانگیز تعزیر کا حکم فرماتے ہیں۔ہاں اگر اس کی آمد کا مقصد ہی
جاسوسی تھا اور معاہدہ وغیرہ محض دھوکہ دہی کیلئے تھا تب اسے قتل کرنا جائز
ہے، واجب پھر بھی نہیں البتہ اولیٰ یہی ہے کہ اسے قتل کیا جائے تاکہ دوسروں
کیلئے نشان عبرت ہو۔ اس کے علاوہ امام محمدیہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر امام
اس کو غلام بنانا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے۔ نیز اگر یہ جاسوس مرد کے
بجائے عورت ہو تو اس کو بھی قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں
فان کان مکان الرجل امراة فلا باس بقتلہا ایضا (السیر الکبیر وشرحہ،۵/۱۴۰۲،
۲۴۰۲)
مذہب مالکی:
مذہب مالکی میں دو قسم کی روایات و نصوص پائی جاتی ہیں
الف: وہ روایات جن سے قتل کا جواز مستفاد ہوتا ہے، وجوب نہیں
ب: وہ روایات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جاسوس کا قتل ہی متعین ہے
پہلی قسم کی روایات میں فقہ مالکیہ کی مشہور کتاب شرح دردیر سے یہ عبارت
ملاحظہ کریں۔
”وجاز قتل عین ای: جاسوس یطلع علی عورات المسلمین وینقل اخبارہم للعدو ان
امن: ای دخل بلادنا بامان....“
اور جاسوس کا قتل جائز ہے جو مسلمانوں کے خفیہ معاملات کی ٹوہ میں رہتا ہو
پھر دشمن کو منتقل کردیتا ہو اگرچہ وہ کافر امان لے کر ہمارے شہروں میں آیا
ہو (یعنی معاہد یا مستان ہو)۔
اِس عبارت میں لفظ ”جاز“ سے معلوم ہورہا ہے کہ ایسے جاسوس کو قتل کرنا جائز
ہے ،واجب نہیں۔
امام نووی نے بھی امام مالک اور امام اوزاعی کا یہی قول نقل کیا ہے۔
قال: ”واما الجاسوس المعاہد، والذمی، فقال مالک والاوزاعی: یصیر ناقضاً
للعہد فان رای (ای: امام المسلمین) استر قاقہ ارقہ ویجوز قتلہ“
معاہد اور ذمی جاسوس کے بارے میں امام مالک اور امام اوزاعی (رح) فرماتے
ہیں کہ اِس جرم جاسوسی سے اس کا عہد نامہ ختم ہوجائے گا پھر اگر امام اسے
غلام بنانا بہتر سمجھے تو غلام بنالے اور قتل کرنا بھی جائز ہے۔ (شرح نووی
علی صحیح مسلم :۷/ ۷۴۳)
دوسری طرف ایسی روایات ہیں جو قتل ہی کو متعین کرتی ہیں۔ فقہ مالکی کی کتاب
منح الجلیل کی یہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:
”وقتل عین ای جاسوس علی المسلمین ان لم یومن بل وان کان الجاسوس ذمیا عندنا
اوحربیا امن ویتعین قتلہ الا ان یسلم“
مسلمانوں کی جاسوسی کرنے والے کو قتل کیا جائے گا اگر وہ بغیر عہدو امان کے
آیا ہو بلکہ اگر وہ جاسوس ذمی ہو یا امان لے کر آیا ہو تب بھی اس کا قتل
متعین ہے۔ ہاں اگر وہ کفر سے توبہ کرکے اسلام قبول کرلے تو اسے معافی دے دی
جائے گی۔ (منح الجلیل: ۳/ ۲۶۱، ۳۶۱)
مذہب شافعیہ:
امام شافعی کی کتاب ”الام“ میں یہ مسئلہ یوں مذکور ہے:
”ارایت الذی یکتب بعورة المسلمین من المستامن ،والموادع قال یعزرھولا
ویحبسون عقوبة ولیس ہذا بنقض للعہد ویحل سبیہم واموالہم ودمائہم“
سائل نے پوچھا آپ اس شخص کا حکم بتلائیے جو مستامن یا موادع ہوکر مسلمانوں
کی جاسوسی کرتا ہو تو امام شافعی نے فرمایا ایسے لوگوں کو تعزیر لگائی جائے
گی اور سزا کے طور پر حبس میں رکھا جائے گا۔ اس سے ان کا عہد نامہ ختم نہ
ہوگا۔ اسی بناءپر انہیں غلام بنانا اور ان کے اموال وخون کو مباح سمجھنا
درست نہ ہوگا۔ (الام للشافعی: ۴ / ۰۵۲)
امام نووی کی شرح مسلم میں یوں منقول ہے:
”اما الجاسوس المعاہد والذمی.... قال جماہیرالعلمائ:لا ینتقض عہدہ بذلک قال
اصحابنا: (ای الشافعیہ) الا ان یکون شرط علیہ
انتقاض العہد بذلک۔ (شرح النووی علی صحیح مسلم :۷ / ۷۴۳)
رہا معاہد اور ذمی جاسوس تو جمہور علماء یہ فرماتے ہیں کہ اِس جاسوسی کی
وجہ سے اس کا عہد نامہ ختم نہیں ہوگا۔ ہمارے اصحاب یعنی حضرات شافعیہ یہ
فرماتے ہیں کہ اگر یہ شرط رکھی گئی ہوکہ جاسوسی کرنے سے تمہارا عہد نامہ
ختم ہو جائے گا اس کے باوجود اس نے جاسوسی کی تو پھر اس کا عہد نامہ ختم
ہوجائے گا۔ یعنی اِس صورت میں جب کہ عہدنامہ ختم ہوجائے گا تب اس کو قتل
کرنا جائز ہوگا ورنہ پہلی صورت میں جب شرط نہ ہونے کی وجہ سے عہدنامہ ختم
نہ ہوگا تو اس کا خون بھی مباح نہیں ہوگا۔
شافعی مسلک کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ اگر امان دیتے وقت جاسوسی نہ کرنے کی
شرط طے ہوئی ہو پھر وہ شرط کی مخالفت کرتے ہوئے جاسوسی کا ارتکاب کرے تب اس
کا امان نامہ ختم ہو جائے گا اور اسے قتل کرنا درست ہوگا اور اگر یہ شرط نہ
طے ہوئی تب اس کا امان نامہ ختم نہ ہوگا۔ دریں صورت اس کیلئے تعزیر اور حبس
کا حکم ہوگا۔
حنبلی مذہب:
حنبلی مذہب میں بھی دو روایات ہیں اول تو یہ کہ معاہد اور مستامن اگر
جاسوسی کرے گا تو اس کا امان نامہ ختم ہوجائے گا تب اسے ”حربی قیدی“ کی طرح
قتل کرنا، غلام بنانا، فدیہ لے کر چھوڑنا یا احسان کرتے ہوئے چھوڑنا، ان
چاروں صورتوں کا اختیار ہوگا اور یہی روایت صحیح ہے۔ دوسری روایت یہ ہے کہ
جاسوس سے امان نامہ ختم نہ ہوگا اس لئے وہ تعزیر کا مستحق ہوگا۔ |