مولانا محمد نافع صاحب مدظلہ
آیات قرآنی:امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے فضائل و
مناقب بے شمار ہیں۔قرآن مجید کی وہ آیات جن میں فضائل صحابہ کرامؓ ذکر کئے
گئے ہیں ان آیات کے مصداق جس طرح دیگر صحابہ کرامؓ ہیں اسی طرح حضرت علی
المرتضیٰؓ بھی ہیں ۔خصوصاً وہ آیات جن میں مہاجرین کرامؓ کی مدح و ثناء کے
ساتھ ان کا استحقاق خلافت بیان فرمایا گیا ہے۔ان آیات کے مفہوم اور استحقاق
خلافت میں آنجنابؓ شامل ہیں اور صحیح مصداق ہیں۔اس نوع کی آیات قرآنی کا
کافی ذخیرہ ہے۔
اول: وہ آیت جس میں اعلیٰ فضائل و درجات مذکورہ ہیں۔
والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ
عنھم و رضوا عنہ واعدلھم جنٰت تجری من تحتھا الانہار خالدین فیھا ابدا ذالک
الفوز العظیم(سورة توبہ،پ۱۱)
ترجمہ:” اور جو لوگ قدیم الاسلام ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد
کرنے والے اور جوان کے پیروکار ہوئے نیکی کے ساتھ اللہ راضی ہوا ان سے اور
وہ راضی ہوئے اس سے اور تیار کر رکھے ہیں واسطے ان کے باغ کہ بہتی ہیں نیچے
ان کے نہریں، رہا کریں ان میں ہمیشہ یہی ہے بڑی کامیابی“۔
آیت ہذا کے مدلول کی روشنی میں درج ذیل فضائل و کمالات بصراحت مذکور ہیں۔
۱۔ السابقون الاولون:دین اسلام میں داخل ہونے کے شرف میں سبقت کرنے والے
اور قدیم الاسلام ہیں۔
۲۔المہاجرین:فضیلت ہجرت کے ساتھ موصوف ہیں جو اسلام میں ایک اعلیٰ اور
امتیازی منصب ہے۔
۳۔ رضی اللہ عنھم و رضواعنہ: اللہ تعالیٰ کا ان پر راضی ہونا اور ان کا
اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا ان کے حق میں بشارت عظمیٰ ہے۔
۴۔اعدلھم جنت: دخول جنت کی نعمت ان کےلئے دائمی ہے۔
الفوز العظیم: مذکورہ چیزیں ان کے حق میں عظیم کامیابی کی سند ہیں۔
دیگر صحابہ کرامؓ کے ساتھ ان سب امور کے مصداق سیدنا علیؓ بن ابی طالب بھی
ہیں اور مذکورہ اوصاف و فضائل کے ساتھ متصف ہیں
دوم:ذیل آیت وعدہ خلافت کے متعلق ہے جو موجودہ مومنین صالحین کے ساتھ کیا
گیا ہے۔
وعد اللہ الذین اٰمنوا منکم وعملواالصٰلحت یستخلفنّھم فی الارض کما استخلف
الذین من قبلھم ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضیٰ لھم ولیبدلنھم من بعد خوفھم
امنا،یعبدوننی لایشرکون بی شیئا،و من کفر بعد ذالک فا ¿ولئک ھم
الفسقون۔(سورة نور، پ ۸۱)
ترجمہ:” وعدہ کر لیا اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے ہیں
اور انہوں نے نیک کام کئے ہیں البتہ حاکم کر دے گا ان کو ملک میں جیسا کہ
حاکم کیا تھا ان سے پہلے لوگوں کو ،اور جما دے گا ان کے لئے دین ان کا جو
پسند کیا ان کے لئے،اور ان کو امن دے گا ان کے خوف کے بدلہ میں،میری بندگی
کرینگے شریک نہ کرینگے میرے ساتھ کسی چیز کو اور جو ناشکری کرے گا اس کے
پیچھے سو وہی لوگ ہیں نافرمان“۔
مندرجہ بالا آیات کریمہ کے مفہوم سے صحابہ کرامؓ کے حق میں درج ذیل فضائل و
مناقب مستخرج ومستنبط ہیں۔
۱۔ استخلاف: اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ خلافت کا وعدہ فرمایا ہے
جس طرح کہ سابقہ امم کو خلافت کے شرف سے نوازا گیا تھا۔
تمکین: جو دین ان کےلئے اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے ان کو اس دین کے
قیام کی خاطر تمکین فی الارض یعنی قدرت نصیب ہو گی۔
۳۔ امن: اللہ تعالیٰ ان کے خوف کو امن میں تبدیل فرما دے گا (یعنی دین
اسلام غالب آ جائے گا اور مخالفین سے خطرات ختم ہو جائیں گے)۔
توحید: یہ لوگ صرف اللہ کی عبادت کرینگے اور ان کے ساتھ کسی کو شریک نہیں
بنائیں گے۔
کفران نعمت پر وعید: جو ان حالات کے بعد کفران نعمت کرے گا وہ فساق میں
شمار کیا جائیگا اور بے دینی کی راہ پر ہو گا۔
حاصل یہ ہے کہ آیات قرآنی کا ایک ذخیرہ موجود ہے جن میں سابقین مہاجرین
کےلئے فضل و کمال،رضائے خداوندی کی سند اور خلافت کا حصول جنت کی بشارت
وغیرہ اشیاء مذکور ہیں۔ان سب میں دیگر صحابہ کرامؓ کے ساتھ سیدنا علی
المرتضیٰؓ بطریق احسن شامل و شریک ہیں۔
فلہذا جناب سیدنا علی المرتضیٰؓ کے فضل و کمال اور علومرتبت میں کوئی شک و
شبہ تک نہیں جس جماعت کی اللہ تعالیٰ خود مدح و ثناءفرمائیں ان کی فضیلت سے
انکار کرنا دین سے برگشتگی اور اسلام سے روگردانی کے مترادف ہے۔
احادیث نبویﷺ
اسی طرح امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰؓ کے بہت سے فضائل احادیث نبویﷺ
میں صحیح اسانید کے ساتھ موجود ہیں۔
ان میں سے چند ایک روایات اختصارا ذیل میں پیش کی جاتی ہیں اگرچہ قبل ازیں
ان کا ذکر اپنے اپنے موقعہ پر ہو چکا ہے۔
اول: غزوہ تبوک کے موقع پر سیدنا علی المرتضیٰؓ کے جہاد میں شرکت سے متخلف
ہونے کی پریشانی کا ازالہ فرماتے ہوئے نبی اقدس ﷺ نے بطور تسلی کے ارشاد
فرمایا:
اما ترضیٰ ان تکون منی بمنزلة ہارون من موسیٰ الاانہ لا نبی بعدی۔
یعنی نبی اقدس ﷺ نے (اس موقعہ پر ) سیدنا علی المرتضیٰؓ سے فرمایا کہ آپ
کیا پسند نہیں کرتے کہ میری جانب سے اس مقام پر ہوں جس مقام پر ہارون علیہ
السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے تھے مگر بات یہ ہے کہ کوئی نبی
میرے بعد نہیں ہو گا۔
اس فرمان نبوت میں جناب سیدنا علی المرتضیٰؓ کے لئے ایک عظیم منصب کا ذکر
فرمایا گیا ہے کہ آنجناب ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ
السلام کی نسبت سے حضرت علیؓ کی وقتی نیابت کی فضیلت بیان فرمائی۔
لیکن دائمی نیابت و خلافت مراد نہیں ہے جیسا کہ قبل ازیں اس کی وضاحت بیان
کر دی گئی ہے۔
دوم:سیدنا علی المرتضیٰؓ کے حق میں غدیرخم کے مقام پر بعض شکایات کے ازالہ
کےلئے نبی اقدسﷺ نے فرمایا:
من کنت مولاہ فغلی مولاہ
” یعنی جس شخص کےلئے میں محبوب اور دوست ہوں پس علی بن ابی طالب اس کے
محبوب اور دوست ہیں“۔
اس مقام پر سیدنا علی المرتضیٰؓ کے حق میں آنجنابﷺ کی زبان مبارک سے
معترضین کے اعتراضات کا ازالہ فرمایا گیا۔ اور حضرت موصوف کے ساتھ دوستی
اور محبت کی ترغیب دلائی گئی یہ چیز جناب علیؓ کے لئے شرف بالائے شرف ہے۔
حضرت عمرؓکا ایک قول:
حضرت فاروق اعظم ؓ نے اپنے آخری اوقات میں ایک اہم ارشاد فرمایا تھا وہ
ناظرین کرام کے پیش خدمت ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ نے ارشاد فرمایا کہ اس معاملہ یعنی(مسئلہ خلافت) میں ان
افراد حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت زبیرؓ بن عوام،حضرت طلحہؓ(بن عبید
اللہ)،حضرت سعد( بن ابی وقاص) اور حضرت عبدالرحمن ؓ بن عوف ( رضی اللہ
تعالیٰ عنہم اجمعین) سے بہتر کوئی شخص زیادہ حق دار نہیں (کیونکہ ) یہ وہ
افراد ہیں جن سے نبی اقدسﷺرضا مند ہو کر اس عالم سے رخصت ہوئے۔
مختصر یہ ہے کہ اپنی قابلیت و صلاحیت کے علاوہ ان حضرات کو جناب نبی کریم ﷺ
کی رضا مندی کی سند فضیلت بھی حاصل ہے اور ان حضرات میں سیدنا علی
المرتضیٰؓ کا ذکر خیر نمایاں طور پر موجود ہے اور یہ آپؓ کے مقام رفعت کا
بین ثبوت ہے۔
فضائل علوی کا اجمالی خاکہ
اسی طرح سیدنا علی المرتضیٰؓ کے فضائل و کمالات احادیث نبویﷺ میں صحیح
اسانید کے ساتھ بہت مواقع میں مذکور ہیں ان کا احصاءاور شمار کر لینا ایک
مشکل امر ہے تاہم ذیل میں چند ایک فضائل ایک نظر میں اجمالاً پیش کئے جاتے
ہیں۔
۱۔ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام صحابہ کرامؓ کا اپنی اپنی
نوعیت کی صورت میں جس طرح تعلق قائم ہے اور رابطہ عقیدت مستحکم ہے۔اسی طرح
سیدنا علی المرتضیٰؓ کا نسبی تعلق اور خاندانی انتساب قائم ہے۔
۲۔ جناب علی المرتضیٰ ؓنبی اقدسﷺ کے قبیلہ مقدس کی سربرآور دہ شخصیت ہونے
کے ساتھ ساتھ آپؓ کو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف بھی
حاصل ہے۔
۳۔ امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰؓ کو آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے
سایہ شفقت میں ابتداءہی سے تربیت پانے کا شرف حاصل ہے۔
۴۔ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقعہ پر سید الکونین ﷺکے بستر مبارک
پر آنجناب ﷺکے حکم کی تعمیل میں استراحت کرنے کی فضیلت ان کو نصیب ہوئی اور
نبی اقدس ﷺکے ودائع اور امانات کو متعلقہ لوگوں تک پہنچانے کی سعادت ان کو
حاصل ہوئی۔
۵۔ اسلام میں ہجرت مدینہ کی عظیم فضیلت سے آپ کا مشرف ہونا مسلمات میں سے
ہے،آنجناب رضی اللہ عنہ مہاجرین کاملین سے ہیں۔
۶۔ مشہور مشہور غزوات (غزوہ بدر،احد،احزاب وغیرہ) میں آپؓ کے شجاعانہ
کارنامے مشہور ہیں۔خصوصاً جنگ خیبر میں آپؓ کے ہاتھوں آخری قلعہ (قموص) کے
فتح ہونے کی بشارت ان کےلئے اسلام میں مشہور و معروف ہے۔اسی بناء پر فاتح
خیبر ہونے کا لقب عوام و خوارص کی زبانوں پر پایا جاتا ہے۔
۷۔آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کے مختلف مواقع (بیعت رضوان وغیرہ )
میں آپؓ کا شامل ہو کر مستفیض ہونا روز روشن کی طرح واضح ہے۔
۸۔ امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰؓ کا سردار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم
کا کاتب وحی ہونا اور دیگر کئی مکاتیب وثائق کا محرر ہونا امر مسلم ہے۔
۹۔ اسلام میں عشرہ مبشرہ حضرات کا مقام دیگر افراد امت سے بہت رفیع ہے ان
میں جناب سیدنا علی المرتضیٰؓ شریک و شامل ہیں اور زبان نبوت کے ذریعہ
انہیں جنت کی بشارت حاصل ہے۔
۰۱ ۹ھ میں جب آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
کو امیر حج بنا کر روانہ فرمایا تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو سورة
براة(توبہ) کی بعض آیات کی تبلیغ کے منصب پر فائز فرمایا اور آپ نے مکہ
مکرمہ جا کر اس فریضہ کاحق ادا کیا۔
۱۱۔سیدنا علی المرتضیٰؓ کو آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری اوقات میں
تیمار داری کے فرائض سر انجام دینے کا شرف حاصل ہوا۔
۲۱۔سیدنا علی المرتضیٰؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد دیگر
اکابر صحابہ کرامؓ کی معیت میں غسل نبوی کی متعلقہ خدمات تکمیل کرنے کی
سعادت حاصل ہوئی۔
۳۱۔ سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت و خلافت راشدہ کے اعلیٰ مناصب
میں آپ کو راشدخلیفہ رابع ہونے کا ارفع منصب نصیب ہے اور آنے والے تمام
خلفاءامت پر فوقیت قائم ہے۔
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ قلیل سے فضائل اختصاراً ذکر
کئے ہیں ان کا اختتام ان کلمات پر ہم کرنا چاہتے ہیں جو حضرت شاہ ولی اللہ
ؒ نے آنجناب رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں اجمالاً بیان کئے ہیں۔
شاہ صاحب سیدنا علی المرتضیٰؓ کی فضیلت میں فرماتے ہیں کہ:باید دانست کہ
شبہ نیست کہ حضرت مرتضیٰؓ از افاضل امت است وخدا تعالیٰ دروی وجوہ فضیلت بے
حساب جمع کردہ است ازورع و شجاعت و حضورت مشاہد خیر و قرب نسبت و محبت
کاملہ آنحضرت ﷺ وشدت در آمر خدا تعالیٰ و تابع امر الحق شدن و زہد دردنیا
کردن وغیر آن۔
یعنی اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ امت کے اولین
کاملین میں سے ہیں خدا تعالیٰ نے ان میں بے حساب شرف و فضیلت کی اقسام جمع
فرما دی ہیں۔مثلاً پرہیز گاری،تقویٰ اور بہادری اور مشاہد خیر میں حاضر
رہنا اور نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبتی قرابت اور محبت کاملہ
اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں شدید ہونا اور حق بات کے تابع رہنا اور دنیا
کا تارک اور زاہد ہونا وغیرہ وغیرہ ۔
نیز اکابر صوفیہ کرام رحمھم اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات مشہور ہے کہ
بزرگان دین کے بیشتر سلاسل کا مرکز فیض اور مصدر سند سیدنا علی المرتضیٰؓ
کی ذات گرامی ہے اور یہاں سے فیوض و برکات نبوی جاری ہیں۔
تنبیہ
اہل تحقیق کی خاطر یہ ذکر کر دینا فائدہ سے خالی نہیں ہے کہ ابن کثیرؒ نے
”البدایہ والنہایہ“ جلد سابع (طبع اول) کے آخرمیں ص ۲۳۳ سے ۱۶۳ تک سیدنا
علی المرتضیٰؓ کے واقعہ شہادت اور آپؓ کی اولاد شریف کا ذکر کرنے کے بعد آپ
کے فضائل کےلئے ایک مستقل باب باندھا ہے۔ اس باب میں فضائل کی بہت سی چیزیں
ذکر کی ہیں اور ساتھ ساتھ قابل نقد چیزیں بھی بیان کر دی ہیں۔ گویا اہل علم
کے لئے بہت سی مفید چیزیں نقد و تحقیق کے بعد یکجا سامنے آگئی ہیں۔گزشتہ
سطور میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کے چند ایک مسلم فضائل و کمالات اجمالاً
اختصاراً ذکر کئے ہیں۔
سیدنا علی المرتضیٰؓ کے فضائل و کمالات کتابوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں
جیسا کہ امام احمدؒ اور دیگر علماءکبار سے منقول ہے۔
حافظ ابن حجرؒ عسقلانی فتح الباری میں اس کو نقل کرتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ
میں سے کسی صحابی ؓ کے حق میں اتنی کثیر عمدہ روایات وارد نہیں ہوئیں جتنی
سیدنا علی المرتضیٰؓ کے حق میں پائی گئی ہیں۔
کثرت فضائل کا سبب
آپ کے فضائل و مناقب میں روایات کی کثرت کی وجہ بیان فرماتے ہوئے علماءنے
لکھا ہے کہ آپؓ کے مخالفین کی کثرت تھی۔بعض مخالفین آپ کے فضائل و مناقب کے
منکر تو نہ تھے مگر ان کا اختلاف سیاسی نوعیت کا تھا اور بعض مخالفین آپ کی
مخالفت میں انتہا درجہ کے متشدد تھے اور سیاسی و مذہبی اختلاف میں سیدنا
علی المرتضیٰؓ کے ساتھ شدید عناد اور بغض رکھتے تھے ان لوگوں کو خوارج کے
نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
چنانچہ اس مخالفت کی وجہ سے صحابہ کرامؓ اور دیگر اکابر حضرات نے سیدنا علی
المرتضیٰؓ کے فضائل و کمالات کی روایات کو خوب واضح کیا اور ان روایات کا
بار بار اعادہ کیا تاکہ مخالفینِ حضرت علیؓ کے اعتراضات کا مکمل جواب ہو
سکے ۔اس طرح یہ طریق کار سیدنا علی المرتضیٰؓ کے حق میں کثرت روایات کا
موجب ہوا۔اس سلسلہ میں بعض لوگوں نے حضرت علی المرتضیٰؓ کے فضائل میں افراط
اور غلو کی راہ اختیار کی اور اس معاملہ میں حد سے متجاوز ہو گئے ۔ان لوگوں
کو روافض کہا جاتا ہے۔
فضائل میں غلو
علماء نے لکھا ہے کہ جتنا قدر اس امت میں سیدنا علی المرتضیٰؓ پر جھوٹ
لگایا گیا ہے اس قدر کسی شخصیت پر جھوٹ نہیں باندھا گیا ۔اس سلسلہ میں حافظ
ذھبیؒ نے عامر الشعبی کا قول بالفاظ ذیل نقل کیا ہے۔
ما کذب علی احد من ھذہ الامة ماکذب علیٰ علیؓ
اسی طرح حافظ ابن قیمؒ نے کتاب ”المنار المنیف“ میں ابو یعلیٰ الخلیلی کا
قول ”کتاب الارشاد“ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
حضرت علیؓ اور اہل بیت کے فضائل میں رافضیوں نے تین لاکھ کے قریب روایات
وضع کر کے چلا دی ہیں۔
حافظ ابن قیمؒ اس قول کی تائید میں آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں کہ:
اس (بات کو )بعید نہ جاننا چاہئے کیونکہ اگر تم اس مواد کاتتبع اور جستجو
کرو جو ان لوگوں کے پاس موجود ہے تو تم اس معاملے کو اسی طرح پاﺅ گے جیسا
کہ (ابو یعلیٰ الخلیلی) نے کہا ہے۔
الحاصل
مندرجات بالا میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کے فرامین کی روشنی میں یہ مسئلہ
واضح کردیا گیا ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کے فضائل و حقوق میں لوگوں کی
طرف سے بہت افراط اور تفریط کی گئی ہے اور یہ امر شریعت میں ناپسندیدہ ہے۔
سیدنا علی المرتضیٰؓ کے فضائل میں غلو کرنے والے طبقے سے خودسیدنا علی
المرتضیٰؓ نے براة کا ذکر کیا ہے اور تفریط کرنے والے طبقے سے بھی اظہار
نفرت فرمایا ہے۔
ان طبقات کے درمیان ”اہل السنة والجماعة“ کا طریقہ نہایت بہتر اور متوسط ہے
وہ نہ اس مسئلہ میں غلو کے قائل ہیں اور نہ ہی شان مرتضوی میں تقصیر و
تفریط کو جائز سمجھتے ہیں”خیر الامور اوسطھاً “ کے قاعدہ کے مطابق ان کا
طریقہ صحیح ہے اور بین الافراط و التفریط ہے۔
چنانچہ اہل السنة کے مسلک اعتدال کی تائید میں اس موقعہ پر ہم حضرت علی بن
الحسین(سیدنا زین العابدینؒ) کا فرمان ذکر کرنا مناسب خیال کرتے ہیں
،ملاحظہ فرمائیں۔
یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ حضرت زین العابدین ؒکی خدمت میں
موجود تھے اس اثناءمیں کوفیوں کی ایک جماعت حاضر ہوئی( امام زین العابدینؒ)
ان لوگوں کی غلو عقیدت سے واقف تھے) تو حضرت زین العابدینؒ نے ان سے خطاب
کرتے ہوئے فرمایا کہ اے اہل عراق تم لوگ اسلام کے قاعدے کے مطابق ہمارے
ساتھ محبت رکھا کرو ۔(غلو سے کام نہ لیا کرو) اور فرمایا کہ میں نے اپنے
والد گرامی سید نا امام حسینؓسے سنا ہوا ہے کہ وہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم کا فرمان نقل کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺنے ارشاد فرمایا: اے لوگو! ہمارے
مرتبے سے ہم کو بلند نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی بنانے سے پہلے
اپنا عبد بنایا ہے“۔
فلہذا ”فرمودات نبوی“ اور آئمہ کرام کے بیانات کی روشنی میں مسئلہ ہذا میں
کمی بیشی اور افراط و تفریط کی راہ نہیں اختیار کرنی چاہئے اور روافض اور
خوارج و نواصب کے طریقے کو متروک کر کے جاد ہ اعتدال پر قائم رہنا چاہئے۔ |