بہترین امت کے بہترین لوگ

حضرت ابو ہریرہ (رض) سے ایک حدیث مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ”یہ امت محمدیہ لوگوں کیلئے سب سے بہترین ہے کیونکہ یہ انہیں بیڑیوںمیں جکڑ کر لاتی ہے اور اسلام میں داخل کر دیتی ہے“۔ یہ حدیث اپنے معنی و مدلول اور مقاصد و اہداف کے لحاظ سے بالکل واضح ہے۔ اور اسمیں ظاہری طور پر جو اعتراض و سوال اٹھتا ہے تھوڑے سے غوروفکر سے دور ہو جاتا ہے۔
اکثر مفسرین حضرات نے یہ حدیث اس آیت کریمہ کے ذیل میں نقل کی ہے۔
کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر و تومنون باﷲ
”تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی نفع رسانی کے لئے بھیجے گئے ہو، نیکی کا حکم کرتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اﷲپر ایمان لاتے ہو۔“

اس آیت کریمہ میں بتلایا گیا ہے کہ یہ امت دیگر تمام امتوں سے بہتر و باعث خیر ہے۔ اور بہتر ہونے کی وجہ قرآن کے الفاظ میں”امر بالمعروف ونہی عن المنکر“ ہے۔ قرآن کریم کے یہ الفاظ عام ہیںاور ہر قسم کے امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کو شامل ہیں مگر حدیث مبارک میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ایک اعلی مرتبے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ بتلایا گیا ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی عمومی خصوصیت کیوجہ سے یہ امت دیگر امتوں کے مقابلے میں بہتر وافضل ہے۔ اورپھر اس امت کے باہمی افراد وطبقات میں امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے خصوصی اور اعلیٰ درجے سے منسلک افرادو طبقات اسی امت کے دیگر افراد و طبقات سے بہتر اور عنداﷲ محبوب و مقبول ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ”معروف“ (نیکی) کے مختلف درجات ہیں اور نیکی کا سب سے اعلیٰ درجہ ایمان ہے۔ اسی طرح ”منکر“ (برائی) کے مختلف درجات ہیں اور برائی سب کی بڑی اور بری شکل کفر ہے۔ اس لئے جو طبقہ ایمان پھیلانے اور کفر مٹانے کیلئے کھڑا ہوا گا وہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے اعلی درجے پر عمل پیرا ہو گا اور اس بنیاد پر دیگر افراد امت سے بہتر و باعث خیر ہوگا۔ اسی بات کو حضرت ابوہریرہ (رض) والی حدیث میں کچھ دوسرے انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ جب مجاہدین جہاد کیلئے نکلیں گے اور جہاد کی برکت سے اﷲ کا کلمہ بلند ہو گا، ایمان کی دولت عام ہوگی، لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوں گے اور نور کی ان ایمانی کرنوں کے پھیلنے سے کفر و شکر کی ظلمتیں کافور ہوںگی اور بہت سے وہ لوگ جو اپنی سلامتی طبع کے باعث ایمان قبول کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں مگر اپنے بالادست حکام وسرداران کے خوف و رعب سے اسلام قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں مگرجب جہاد کی تلوار ان سرکش بالا دست حکام کی گردنیں اڑا دے گی اور یہ لوگ اسلام کے قیدی بن جائیں گے اور انہیں قریب سے اسلام کے محاسن اور اسلامی تعلیمات کی پاکیزگی و عمدگی کا مشاہدہ و مطالعہ کرنے کا موقع ملے گا تب یہ قید ان کیلئے باران رحمت ثابت ہوگی اورلوہے کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ایمان کی بیڑیوں میں جکڑ جائیںگے۔بقول اقبال :
ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند
قطرہ نیساں ہے زندان صدف سے ارجمند
مشک اذفر چیز کیا ہے اک لہو کی بوند ہے
مشک بن جاتی ہے ہو کر نافہ آہو میں بند
ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت مگر
کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام و قفس سے بہرہ مند
شہپر زاغ و زغن دربند قید وصید نیست
ایں سعادت قسمت شہباز و شاہیں کردہ اند

اس سے وہ اعتراض بھی ختم ہوجاتا ہے جو ظاہری طور پر اس حدیث پر وارد ہو رہا ہے کہ اسلام میں جبر نہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لا اکراہ فی الدین
دین قبول کرنے پر کوئی جبر نہیں

پھر اس حدیث میں کیسے فرمایا گیا کہ اس امت کے بہترین لوگ وہ ہیں جو کافروں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لاتے ہیں اور اسلام میں داخل کردیتے ہیں۔ یہ تو واضح جبر واکراہ ہے۔ اسی وجہ سے منکرین حدیث اور تحریف پسند طبائع کے سامنے جب ایسی احادیث آتی ہیں تو بجائے عقل ودانش سے کام لینے کے وہ سٹپٹانے لگتے ہیں اور بلا جھجک ایسی احادیث کو رد کر دیتے ہیں حالانکہ قصور ایسی احادیث میں نہیں بلکہ خود ان کی عقلوں میں فتور ہوتا ہے اور ان کے دلوں میں جہاد و مجاہدین کا بغض اس درجہ رچا بسا ہوتا ہے کہ ان سے مجاہدین کی فضیلت و منقبت برداشت ہی نہیں ہوپاتی۔ مگر ظاہر ہے کہ ان کے چاہنے نہ چاہنے سے ہوتا ہی کیا ہے۔اسلام برحق، جہاد برحق، مجاہدین برحق اور تاقیامت تکوینی نظام کی طرح تشریعی نظام کا یہ پہیہ بھی خدائی فیصلوں کے مطابق اپنی سمت میں گھومتا اپنا سفر جاری رکھے گا۔ مجاہدین اپنے جہاد کی بدولت اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ایمان قبول کرنے کی بدولت سعادتوں سے دامن بھرتے رہیںگے اور مخالفین و معاندین حسرت و ذلت کی ناک رگڑنے کے سوا اپنے دامن میں اور کچھ نہ پائیں گے۔

قرآن کریم بتلاتا ہے کہ کفار و مشرکین کی خیرو بھلائی ایمان قبول کرنے میں ہے ورنہ کفر وشرک تو ایسی گندگی ہے جس کو لاحق ہو جائے اسے انسان تو کجا جانوروں سے بھی بدتر بنا چھوڑتی ہے۔ مگر نفسانی و شیطانی تسویلات نے انہیں اس قدر اپنے شکنجے میں کس رکھا ہوتا ہے کہ وہ اپنے خیر وبھلائی والے معاملے کا فیصلہ بھی نہیں کر پاتے۔ حالانکہ اگر دنیاوی ریاست و وجاہت رکھنے والے یہ کفارو مشرکین اور یہود ونصاری ایمان لے آئیں تو اس سے ان کی دنیاوی ریاست و وجاہت ختم نہ ہوگی بلکہ اسے دو اور چاندلگ جائیں گے اور اس دنیاوی ریاست و وجاہت کے ساتھ انہیں اخروی ریاست و وجاہت بھی مل جائے گی۔ اسی لئے قرآن نے کہا”اگر یہ اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کیلئے بہتر تھا۔“

اسی طرح منافقین کا شیوہ ہے کہ وہ جہاد سے کتراتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اگر ہم جہاد کیلئے نکل گئے تو ہماری ظاہری کروفر جاتی رہے گی۔ ہمارا مال بھی جہاد میں ختم ہو جائے گا اور جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ حالانکہ یہ محض نفسانی و شیطانی پھندے ہیں جن سے انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں ورنہ جہاد سے وابستگی خسران و نقصان نہیں بلکہ سراسر فائدے اور خیر وبھلائی کا باعث ہے۔ جہاد میں خرچ ہونے والا مال سینکڑوں ہزاروں گنا بڑھادیا جاتا ہے اور جہاد میں قربان ہونے والی جان”حیات ابدی“ کے تمغہ الہٰی سے سرفراز کی جاتی ہے۔

جہاد اہل ایمان کے ایمان کی سلامتی و ترقی کا باعث ہے اور کفار کو ایمان کی دولت سے سرفراز کرنے کا باعث ہے۔ اور یوں دونوں کیلئے رحمت الہٰی کا فیضان ہے۔ آج دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مجاہدین کے حالات و واقعات میں عبرتوں اور بصیرتوں کا ایک جہاں آباد ہے۔ جو پکار پکار کر اہل ایمان کو بھی دعوت دے رہا ہے کہ اے ایمان والو! آؤ دیکھو اﷲ کی مدد و نصرت کس طرح مجاہدین کے شانہ بشانہ شامل حال ہے اب کسی بھی مومن کا بلاعذر شرعی اس عظیم سعادت سے محروم ہونا کسی بھی طرح روا نہیں ہے۔ اور کفار ومنافقین کو بھی ”جہادی نشانیاں“ پوری وضاحت کے ساتھ بلا رہی ہیں کہ دیکھو کامیابی کا راستہ وہ نہیں جس پر تم چل رہے ہو ، جس طرح اس دنیا میں کامیابی مجاہدین کے قدم چوم رہی ہے اسی طرح آخرت میں بھی کامیابی ان کا مقدر ہے۔ یہ اﷲ کی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ان سے سبق لینا ہی باعث عزت و افتخار ہے اور انہیں جھٹلانا دنیا و آخرت میں تباہی کے منہ میں جاناہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ان نشانیوں سے سبق حاصل کر کے خود کو جہاد وایمان کے دامن سے وابستہ کر کے کو بہترین امت اور بہترین لوگوں کی صف میںشامل ہورہے ہیں۔ ایسی صف جو اﷲ کو محبوب و مقبول ہے۔
ان اﷲ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانہم بنیان مرصوص
”بے شک اﷲ تعالیٰ محبوب رکھتے ہیں ان لوگوں کو جو اﷲ کے راستے میں اس طرح صف بستہ ہو کر قتال کرتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔“
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372748 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.