کعبہ بہار ِ رحمت روضہ قرار
وراحت
نوٹ: حج ڈائری کی دوسری قسط قلم بند کر نے سے قبل بعض مخلص احباب کی اطلاع
کے لئے یہ کہنا مناسب سمجھتاہوںکہ مد ینہ منورہ کی حاضری کے دوران اس عاصی
کو۳ / اکتوبر کو نما زِمغرب تاعشا مسجدنبوی کے موذن صاحب جناب الشیخ صالح
بُراق کا شرفِ دیدار حاصل ہوا۔ اس کا باضابطہ تذکرہ اپنے موقع پر ہوگا ،
انشاءاللہ۔ انہوں نے مجھے ”کشمیر عظمیٰ“ کے ایک ادنیٰ خادم کی حیثیت سے شرفِ
نیاز بخشا، جس کے لئے میں آں جناب کا ، مولانا عبدالطیف الکندی اور مدینہ
اسلامک یونیورسٹی کے متعلم اور” کشمیرعظمیٰ“ کے کالم نگار منظور احمد
گورکھو صاحب کا تہِ دل سے شکر گزارہوں۔ اس موقع پر موذن ِ محترم الشیخ صالح
صاحب کا ارشاد گرامی یہ بھی تھا کہ اَحقر حج بیت اللہ کے بارے میں اپنے
مشاہدات اور وارداتِ قلبی ضبطِ تحریر میں لائے ۔ آں جناب کے اِسی حکم کی
تعمیل میں راقم اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں یہ چند گزارشات نذرِ قارئین کرنے
کی جسارت کر رہاہے ۔ دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ اس نیک کام میں میری مدد
فرمائے اورمجھے خود ستائی اور خود نمائی کے شر و فتن سے محفوظ رکھے۔ نیز
پہلی قسط میں اس عاجز نے خواب کو غلطی سے بنوت کا سترواں حصہ لکھا ہے، جب
کہ جناب مفتی نذیر احمد صاحب نے از راہ ِ کرم اس کی تصحیح فرماتے ہوئے
بتایا کہ ایک حدیث شریف میں خواب کو نبوت کا ۶۳ واںا ور ایک ودسری حدیث
مبارک میں ۰۴ واں حصہ فرمایاگیا ہے۔ اس تسامح کے لئے اللہ کے حضور معافی
طلب کر تا ہوں اور قارئین باتمکین سے معذرت خواہی کی جاتی ہے۔۔۔ ش م احمد
٭٭٭٭٭
”لبیک“ سری نگر کے عمر تبت بقال صاحب سے پتہ چلا کہ عمرہ کا ایک قافلہ دلی
سے دسمبر ۴۱ءکے آواخرمیں روانہ ہونے والاہے ،جب کہ دوسرا گروپ جنوری ۵۱ ءکے
وسط میں سری نگر سے سوئے حجاز مقدس رخت ِ سفر باندھ لے گا۔ انہوں نے بڑی
لجاجت کے ساتھ ہم پرفیصلہ چھوڑا کہ ہم کس قافلے کے ساتھ جا نا چا ہیںگے۔
ہمارا گروپ چھ عازمین ِ عمرہ پر مشتمل تھا۔ میرے ساتھ میری اہلیہ بھی بڑے
شوق سے حج ِاصغر کوجانے کے لئے لمحہ لمحہ گن رہی تھیں جب کہ دوسرے عازمین
میں میرے عزیز بھائی محترم حاجی غلام محمد بیگ صاحب بٹہ پورہ، منظور احمد
بیگ صاحب صدرہ بل، بشیر احمد راتھر صاحب نوشہرہ اور عبدالاحد بٹ صاحب بٹہ
پورہ شامل تھے۔ اللہ ان سب کو خیر دارین عطا کرے ۔ یہ سب پشمینہ تاجر ہیں ،
پنبہ کی طرح نرم اور ملائم طبع ہیں، مزاجوں کی ہم آہنگی اور نیکی کے جذبے
سے بدرجہ اتم آراستہ ہونے کے علاوہ ان میں مشترکہ چیز یہ تھی کہ یہ سب پہلے
ہی حج کی سعادت سے مستفیض ہوئے ہیں۔ میں اور میری اہلیہ رہ روِراہِ محبت
میں پہلی بار پابہ رکاب تھے۔ میں قدرے بے تاب وبے قرارتھا ،ا س لئے اولین
قافلے کے ساتھ حجاز مقدس جانے کے لئے فوراً حامی بھرلی۔ اپنی اس بے تابی کو
سوچ کی کسوٹی پر جانچنے پرکھنے کی باری آئی توعقل نے دنیا بھر کے تجربات کی
پٹی پڑھائی، احتیاط کی منطق نے قائل کرنا شروع کیا تاخیر نہ کر، موقع غنیمت
ہے، جتنی جلدی ا ُتنا بہتر، نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے ،کیا پتہ کل
کلاں کشمیر میں باد وباراں اوربرف باری ہو کہ یکایک ہوائی رابطہ منقطع اور
زمینی جوڑ قصہ پارینہ ہوجائے اور تم ہاتھ مَل کے رہ جاو ۔۔۔یا کوئی اور
ناگفتہ بہ معاملہ پیش آئے۔ دفعتاً میری زبان سے نکلا”عمر صاحب! اب سوچنا
کیا، ہم دلی والے قافلے کے ساتھ جانے پر تیار ہیں“ انہوں نے مسکراتے ہوئے
اثبات میں سر ہلایا ۔یہ قافلہ براہ ِراست ”لبیک“کے ساتھ نہیں بلکہ اس کے
اشتراک سے اٹیلس ٹراول ایجنسی ممبئی کے جھنڈے تلے روانہ ہونے والاتھا ۔
چٹکیوں میں بقیہ تمام تفاصیل بھی طے ہوگئیں ۔ بر سر موقع پاسپورٹ، فوٹو
کاپیاں اور پیشگی رقم عمر صاحب کے حوالے کرکے گھر پہنچاتو سب سے کہا کہ چلو
عمرہ کے لئے تیاری کرو۔ مجھے لگا کہ اہل ِ خانہ کے سامنے اس لاثانی خوشی
میں چند گرم گرم آنسو میرے رُخساروں پر چھلکنے ہی چاہیے تھے مگر اے بساکہ
آرزو۔ خلوت کی بات الگ ہے ۔ دوسرے ہی لمحے سے یک بہ یک ہم میاں بیوی کے دل
کی کائنات بدل گئی ، اب ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہنے لگی کہ عمرہ کیسے
کرناہے، میری اہلیہ کو وقت گزاری کے لئے کیبل سے سٹار ٹی وی اور زندگی چنل
سے گھریلو سئیریلوں کے برعکس سعودی چنل دیکھنے کا شو ق چرایا، مکہ معظمہ
اور مدینہ شریف کا لائیو ٹیلی کاسٹ روحانی تلذذ کا سامان بننے لگا ۔ موقع
کی مناسبت سے عاصی نے ”عورتوں کا حج“ اور دوسرے کتابچے مطالعہ کے واسطے اُن
کے حوالے کر دئے، جب کبھی اُن کو قرآن کریم کے علاوہ ان کتابچوں کی خواندگی
میں مشغول پاتاتومجھے اقبال کے اس لافانی فرمودے کی حقیقت اور تعبیر وتشریح
ذہن نشین ہوجاتی
دراطاعت کوش اے غفلت شعار
می شود از جبر پیدا اختیار
(اسرار خودی)
یعنی بلاشبہ انسان تقدیر کی لکیروں میں محصور ہے مگر مادی یاروحانی ترقیات
کے باب میں اگر وہ اپنے سعی وعمل کی کدال زمین ِآرزو پر آزمائے تو اس کی
کامیابی کے لئے اللہ امکانات کی وسیع دنیا کھول دیتاہے ۔ البتہ اس کے لئے
قانونِ قدرت کی اطاعت پر کمر بستہ رہنے کی شرط سرخ روئی کی پہلی سیڑھی ہے۔
ایک مر د مومن کو جب یہ ہنر آیا تو شوق کی شاہرائیں کھل گئیں ، آرزوں کے
سمندر چشم زدن میں پار ہوگئے، نخلِ تمنا موسموں کا انتظار کئے اپنے برگ
وبار لے آیا ۔ اسلام اسی جہد مسلسل کے کھونٹے سے ہر باایمان بندے کوبند ھا
ہو ادیکھنا چاہتاہے جس کی پشت پر قبولیت ِالٰہیہ کی تصدیق ہونا از بس لازم
ہے ۔
عمرہ کی سعادت اپنی جگہ مگر ”کشمیرعظمیٰ“ کے حوالے سے ناچیز کی مشغولیات سے
فراغت لینا بھی میرے نزدیک کار دارد والا معاملہ تھا۔ اس کے لئے میں نے
رسماً رُخصتی کی درخواست منجمنٹ کو قبل ا ز وقت ارسال کی بلکہ خود بھی
روانگی سے چند روز قبل رنگر یٹ میں واقع جی کے کمیونکیشنز کے ہیڈکوارٹر پر
جاکر دوستوں سے بالعموم اور مدیر اعلیٰ جناب فیاض احمد کلو صاحب سے بالخصوص
رُخصت لی ۔ واللہ فیاض صاحب نے جس خندہ پیشانی سے دعاکی درخواست کے ساتھ
مجھے وداع کیا، اُس سے میرے دل نہ صرف اُن کا احترام مزید بڑھ گیا بلکہ میں
دل جمعی کے ساتھ عمرے کی تیاریوں میں لگ گیا۔ گھر میں چونکہ شدومد سے اس
سعادت کے حصول کے ضمن میں تیاریاں ہونے لگیں،اس کا مجموعی اثر یہ ہوا کہ ہم
سب کو دِ کھنے لگا جیسے ہمارے گھرکا گوشہ گوشہ شادمانیوں میں جھوم رہاہے،
چہک رہاہے، عید جیسا دن آنے والا ہے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اب دل میں رَہ رَہ
کے کعبہ شریف کی حیات آفریں اور جاذب ِ نظر صورت ہمہ وقت رقصاں ہونے لگی،
روضہ مبارک کی جالیوں اور گنبد خضریٰ نے چشم ِ تصور میں ایک نئی چمک
اورروشنی پیدا کردی، اب میں نے اذان سن کر بھی نماز کو جانے میں کسمل مندی
اور کہالت کے ناروا طرز عمل کو خیر باد کہنا شروع کیا ، جن دوستوں کے ساتھ
بوجوہ یا بلاوجہ شکر رنجی تھی، ا ن سے میل موانست کا رشتہ پھر سے استوار کر
نے کا جذبہ ¿ درووں انگڑائیاں لینے لگا ، کل تک عیب چینی کر نے اور غیبت
سننے یا کر نے میں کوئی مضائقہ دکھائی نہ دیتاتھا لیکن اب ضمیر کا مفتی
ٹوکنے لگا کیا یہی ایک معتمر کا شیوہ ہونا چاہیے، دل میں اچھا بننے ،ا چھا
کر نے ، اچھا کہنے ، اچھا لکھنے، اچھا پڑھنے،ا چھا سننے کی ایک عجیب روحانی
تڑپ پیدا ہوئی۔ حد یہ کہ میں ایک دوسرے قلمی نام سے عرصے سے ایک فکاہی کالم
اخبار کے لئے تحریر کیا کرتاتھا ، پہلے اُسے صیام کے تقدس میں لکھنا ترک
کیا ، بعدازاں جب عمرے کی رحمت ہمارے نصیبے کی جھولی میں آیا چاہتی تھی تو
محسوس یہ ہوا کہ اس بارے میں میرے جذبے کی صداقت اور تخلیقی ذہن کی اُکساہٹ
اپنی جگہ، کہیں جانے ا نجانے میرے کم مایہ قلم کی چوٹ سے کسی کادل تو نہ
دُکھتا ہو، کسی کے جذبات مجروح نہ ہوتے ہوں ؟اسی خیال کے تحت یہ کالم لکھنا
وقتی طور موخرکیا۔ ایک اور مشغولیت کا زریںباب بھی ا س صورت میں کھل گیا کہ
ذرا یہ دیکھیں کہ حرمین شریفین کی زیارت کے کیا شرعی لوازمات ہیں، کونسی
دعائیں اَزبر کر نی ہیں ، کس طرح کے دینی مشاغل میں منہک رہناہے، کن چیزوں
سے ا جتناب برتناہے۔ اے کاش! اسی رُوح پرور، ایمان افروز اور قبر کی فکر سے
عبارت اپنے تمام شب وروز گزر جاتے
کبھی دریا سے مثل ِ موج اُبھر کر
کبھی دریا کے سینے میں اُترکر
کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر
( اقبال)
بہر کیف کسی اللہ والے کے لئے شوق کے دریا اورمستی کی موجوں میں اُ بھر نے،
اُترنے ،گزرنے اور خودی کو فاش تر کر نے سے مطلوب یہی ہے کہ بندہ خود آگہی
اور خدا آگاہی کا مئے عرفان حاصل کرلے۔ عمرہ کی تیاریوںمیں مجھے بیک وقت ان
چار روحانی مراحل کی آبلہ پائی لازم وملزوم نظر آئی۔ میں نے قدم قدم پر
عمرہ کے بارے میں اپنے مر بی ومشفق مشہور داعی دین اور معروف کالم نگار
جناب مرحوم مظفر خادم صاحب سے بہت سارے استفسارات کر کے کارآمد معلومات
حاصل کیں۔ چونکہ ا نہوں نے تین یا چار مر تبہ عمروں کی سعادت حاصل کی تھی ،
اس لئے وہ مجھے ہدایات دیتے رہے کیا کیا کرناہے ۔ا یک موقع پرا نہوں نے کہا
کہ بیت اللہ پر پہلی ہی نظر پر جو دعا مانگی جائے، وہ قبول ہوتی ہے، اس لئے
آپ جب کعبتہ اللہ دیکھیں تو روتے روتے یہ دعا مانگیں کہ اے اللہ! جو بھی
دعا میں یہاں مانگوں اُسے قبول فرما۔ بس آپ کی تمام دعاوں کی اجابت کا
پروانہ مل گیا ۔ مجھے یاد آتاہے کہ اس بار حج کے موقع پر مکہ معظمہ میں
حضرت مولانا پیر ذوالفقار مد ظلہ العالی خود بھی تشریف فرما ہوئے تھے ، اُن
کے دوخلفاءحضرت صلاح الدین سیفی اور مفتی محمد ایوب شوپیانی مکہ معظمہ میں
ہمارے ہی ہوٹل میں قیام پذیر تھے ۔ سیفی صاحب نے اپنے ایک بیان میں پتے کی
بات فرمائی کہ مومنِ کامل کی پاک نظر کعبتہ اللہ پر ہر بار پہلی ہی نظر
ہوتی ہے ، اسی یقین و اُمید کے ساتھ اللہ کے حضور اُسے اپنا دامن ِ طلب
پھیلانا چاہیے ۔
عمر تبت بقال صاحب کے تجر بے پر مبنی اس مفیدمشورے پر کہ حجا زمقدس کی
روانگی کی تاریخ سے قبل ہی ہمارادلی پہنچنا موزوں رہے گا ،ہم نے سری نگر سے
روانہ ہوکر دلی میں اس خدشے سے کچھ دن پہلے ہی ڈیرا جماڈالا کہیں موسم کی
نامہربانی رہ ِ شوق میں مانع نہ ہوجائے۔ دلی میں محبتوں کے پیکراپنے بیٹے
بلال بیگ صاحب ہمارے گر م جوشانہ استقبال میں چشم براہ تھے، ان کے یہاں
لاجپت نگر میں ہماراقیام رہا۔ سری نگر میں اپنے غریب خا نے سے رُخصت ہوئے
تو اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوست ہمسایوں کی مختصر سی جمعیت رُخصت کے لئے
جمع تھی ۔ اب اشک اشک آنکھوں کے ساتھ ہرا یک کے ساتھ مصافحے اور معانقے
ہورہا تھا، دل دھڑک رہے تھے ، ہونٹ لر زرہے تھے، وفورِ جذبات میں اپنے
نواسے اور پوتے کو چمٹ کر گلے لگالیا، وہ ننھے منے معصوم بچے اس ساری صورت
حال سے بے خبر اپنی ہی دنیا میں مست و محو تھے مگر ہم دونوں اُن کی جدائی
پر دل میں بھاری پن کا بوجھ ڈھو رہے تھے ۔ روانگی سے قبل میں نے اپنی مسجد
کے سیکر ٹری کے ہاتھ مسجد کے لیٹر ہیڈ پر ہی اپنا وصیت نامہ لکھ کر دیا جس
پر میرے علاوہ میری اہلیہ ، بیٹے اور بیٹی نے دستخط کئے۔ یہ وصیت نامہ
وراثت کے بارے میں تھا اور آج بھی اُن کے پاس امانتاً موجودہے۔ گھر سے
روانہ ہواتو محلے کی مسجد میں دورکعت سفر کے کامیابی کے لئے پڑھی ۔
دلی میں قیام کے دوران چونکہ دوپانچ دنوں کی مہلت ملی ،اس لئے جامع مسجد
میں نمازیں اد اکر نے کے علاوہ ہم نے محض زیارتِ قبور کی نیت سے وقفے وقفے
سے خواجہ نظام ا لدین اولیاءؒ، خواجہ بختیار کاکیؒ مہر ولی اور شاہ ولی
اللہ محدث دہلوی ؒ کے مرقدوں پر حاضری دی۔ ان نابغہ روزگار شخصیات نے
مسلمانانِ ہند کو توحید ورسالت کی دعوت دے کر” یہ چمن معمور ہوگا جلوہ
خورشید سے“ کی تعبیر وتفسیر کی۔ ہم نے نظام الدین اولیاءؒ اور امیر خسروؒکے
مر قد وں کے قرب وجوار میں مر قد غالب کو بھی دیکھا اور وہاں فاتحہ پڑھی۔
یہاں بہ نگاہِ حسرت تاریخ کا وہ سنگ میل اور انقلابِ دہر کا فسانہ ایک کتبے
کی صورت میں ایک دیوار میں چنا ہوا پایاجس پر بخشی غلام محمد، وزیراعظم ریا
ست جموں وکشمیر کانام موٹے حروف میں کندہ ہے۔ اس کے علاوہ مر قد ابوالکلام
آزاد پر بھی ہمیں فاتحہ خوانی کا موقع ملا۔ ہائے! کتنی بڑی علمی شخصیت یہاں
تہِ خاک آرام فرما ہے۔ وہ آزاد جس نے مکہ معظمہ میں ایک معزز گھرانے میں
ولادت پائی اور پھر ہندوستان میں اپنے پُر جلال علمی ، تصنیفی، صحافتی اور
سیاسی زندگی کی روشنائی سے ایک ایسی داستان ِ حیات لکھی جس کی چمک دمک آج
بھی باقی ہے ۔ |