فتنہ کبریٰ اور اس کا مقابلہ قسط ١

ستیزہ کاررہا ہے ازل سے تاامروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
جن کی نظروں میں مادیت پرستی، دلوں میں مال ودولت کی محبت ،رگ وپے میں عشرت کدوں کی رنگینیاں رچ بس چکی ہوں جو ہر چیز کو دنیاوی نفع ونقصان کی آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہوں جن کے ہاں دوستی ودشمنی کا معیار محض زن یازرپرستی ہو انہیں دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی حوالے سے پیدا ہونے والی کشمکش میں مادی مفاد ہی کارفرما نظر آتا ہے حق وباطل کی معرکہ آرائی،نوروظلمت کی پنجہ آزمائی اور جہاد وفساد کی ٹکر ان کے نزدیک ایک بے معنی سی چیز ہوتی ہے اگرچہ محض مادی مفاد کیلئے محاذ آرائی کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن جس چیز کی ستیزہ کاریاں ازل سے جاری ہیں جو شرار ہمیشہ بھڑکتا ہی رہتا ہے وہ بولہبی شرار ہے جو حق کے مقابل اور چراغ مصطفوی سے مقابلہ آرا ہوتا ہے۔ وہ حق وباطل کی معرکہ آرائی اور اسلام وکفر کی محاذ آرائی ہے اس سے لاکھ آنکھیں چرانے کی کوشش کی جائے لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس کا اظہار شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے اس متذکرہ بالا شعر میں کیا ہے ۔ چراغ مصطفوی بھی نور پھیلاتا اور روشن رہے گا اور بولہبی شرار کی ستیزہ کاریاں بھی جاری رہیں گی۔ گریبان میں جھانک کر دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس قطار میں؟اس مختصر تحریر میں اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ عالم کفر اور شرار بولہبی کے طریق ہائے واردات کیا ہیں؟وہ کن میدانوں میں کس انداز سے حملہ آور ہو کر اپنی یلغار کرتا ہے اور عالم اسلام ان سازشوں کا مقابلہ کس طرح کرے اور کس عمل سے ان وارداتوں کو ناکام بنائے؟ قرآن کریم جو ہمارے لئے تاقیام قیامت رہنما کتاب ہے اس سلسلے میں مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے عالم کفر کی تمام سازشوں کو بے نقاب کرکے انہیں ناکام بنانے کا تیربہدف اور مؤثر ترین علاج متعین کرتا ہے۔

عالم کفر کے پانچ طریق ہائے یلغار:سورة انفال جو مکمل طور ر حق وباطل کے درمیان جاری کشمکش اور محاذ آرائی کے سلسلے میں سدابہار ہدایات وقوانین پر مشتمل ہے۔ اس کی آیت نمبر ۰۳ سے آیت نمبر۹۳ تک اسی موضوع کو بیان کیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ عالم کفر ۵ میدانوں میں عالم اسلام پر یلغار کرتا ہے (۱)عسکری میدان(۲)تعلیمی میدان(۳)ثقافتی میدان(۴)معاشی واقتصادی میدان(۵)اتحادی میدان ۔

عسکری جنگ: ارشاد ربانی ہے :واذیمکر بک الذین کفروا لیثبتوک اور یقتلوک اویخر جوک ویمکرون

ویمکراللہ واللہ خیرالماکرین” یعنی جب مشرکین مکہ نے آپﷺ کے خلاف سازش کی کہ آپ کو قید کرلیں یا قتل کردیں یا جلا وطن کردیں وہ اپنی تدبیریں کررہے تھے اور اللہ تعالیٰ اپنی تدبیر کے ذریعے ان کی تدبیروں کو توڑ رہا تھا اور اللہ تعالیٰ بہترین تدبیر کرنے والا ہے“۔ چونکہ عسکری جنگ میں دشمن کا اہم وار یہی ہوتا ہے کہ اپنے مقابل فریق کی قیادت کو ختم کردیا جائے جب قیادت باقی نہ رہے توپیچھے ہزاروں،لاکھوں کے لشکروں کے قدم اکھڑ جاتے ہیں اور وہ میدان میں جم نہیں سکتے بھاگ نکلتے ہیں ۔ اس لئے اس آیت مبارکہ میں عسکری جنگ کے اس اہم پہلو کو لیا گیا ہے اور آپﷺ کی ہجرت کے وقت کفار جو سازشیں بنا رہے تھے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تفصیلی واقعے کیلئے سیرت کی کسی بھی کتاب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے غرض کفر کی یلغار کا ایک میدان عسکری ہے۔ بدر واحد کے میدانوں سے لیکر آج افغانستان،کشمیر،عراق،فلسطین وغیر ہ کے میدان اس کی واضح سی مثالیں اور ملا عمر مجاہد حفظہ اللہ،اسامہ بن لادن حفظہ اللہ،مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ کے خلاف سازشیں اور شیخ عبداللہ عزام کی شہادت سے لیکر شیخ احمد یسٰین کی شہادت سب انہی ریشہ دوانیوں کی آئینہ دار ہیں اور اب آئے روز پاکستانی علاقوں پر امریکی جاسوس طیاروں کی بمباریاں،مسلمانوں کے گھروں کی ویرانیاں اور شہادتیں انہی کافرانہ مکروہ عزائم کا شاخسانہ ہیں ۔ خود یورپی ممالک کے روز بروز عسکری وایٹمی قوت میں اضافہ اور دیگر ممالک پر پابندی اس عسکری میدان میں فتح حاصل کرنے کیلئے ہیں اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ....!

تعلیمی جنگ:دوسرا میدان جس میں عالم کفر مسلمانوں پر حملہ آور ہوتا ہے وہ تعلیمی میدان ہے کیونکہ مسلمانوں کے پاس جو نصاب تعلیم(قرآن وحدیث وغیرہ)ہے وہ ہمہ گیر ہمہ جہت،اٹل اور دائمی ہے قرآن اگر وحی متلو ہے تو حدیث وحی غیر متلو ہے۔ قرآن کلام خداوندی ہے اور حدیث ارشادات نبوی کا ذخیرہ ہے ۔ دنیا میں اس سے پہلے نہ اس کے بعد اس سے بہتر کوئی نصاب ونظام تعلیم آیا ہے نہ آئیگا۔یہ نصاب ونظام تعلیم صرف علمی و فکری غلبے کا حامل ہی نہیں ظاہری غلبے کا بھی ضامن ہے اور یہی نصاب ونظام تعلیم اسلامی تہذیب وتمدن اور اسلامی تشخص وثقافت کے قیام وبقا میں کلیدی کردار کرتا ہے ۔ اس لیے عالم کفر اہل اسلام کو اپنی بنیاد سے کاٹنے اور اپنا نصاب ونظام تعلیم مسلط کرنے کیلئے تعلیمی میدان کو اپنی مکروہ سازشوں کیلئے منتخب کرتا ہے۔ اس سلسلے میں عالم کفر کی پہلی کوشش روزاول سے اب تک یہی رہی ہے کہ قرآنی تعلیمات وہدایات کو فرسودہ اور ناکافی قرار دیا جائے۔ سورة انفال ہی میں اس سازش کو یوں بیان کیا گیا ہے واذاتتلی علہیم آیاتنا قالو اقدسمعنا لونشاءلقلنا مثل ہذا ان ہذا الااساطیرالاولین ”اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اگر ہم چاہیں تو اس کے برابر بھی کہہ دیں اس میں پہلوں کے قصوں کے سوا کچھ نہیں مطلب یہ کہ نعوذ باللہ قرآن تو بے سند قصوں کا مجموعہ ہے امام رازیؒ اس آیت اور پہلی آیت میں ربط بیان کرتے ہوئے نکتے کی بات تحریر فرماتے ہیں ”پچھلی آیات میں ان کافروں کی اس سازش کا ذکر تھا جو انہوں نے ذات محمدﷺ کے خلاف کی تھی اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ دین محمدﷺ کے خلاف ان کی سازش کو بیان کررہے ہیں“ آج بھی اگر ہم غورکریں تو صاف معلوم ہو گا کہ قرآنی تعلیمات سے روکنے کی کتنی سازشیں ہورہی ہیں اور اس موقع پر لارڈ میکالے کا وہ جملہ جو اس نے برصغیر میں برطانوی عہد حکومت کے وقت کہا تھا تو تمام نقشہ آسانی سے سمجھ میں آجائیگا اس نے کہا تھا”ہم ہندوستان (قبل از تقسیم) میں ایسا نظام تعلیم رائج کرنا چاہتے ہیں جس سے ایسی نسل تیار ہو جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو مگر دل ودماغ کے لحاظ سے فرنگی ہو“غور کریں اس دور کے کافروں نے کہا کہ یہ قرآن پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں ۔ کوئی خاص چیز نہیں ایسی باتیں تو ہم بھی کہہ سکتے ہیں اور آج بھی یہی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ قرآن وسنت کی تعلیمات فرسودہ ہیں اس کے مطابق زندگی گزارنا قدامت پرستی ہے اگر جدید دور کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنا ہے تو انہیں ایک طرف کرنا ہوگا جہاد میں تحریف وتاویلات، پردے اور حدود اللہ کا مذاق ،داڑھی وپگڑی کی توہین،مدارس دینیہ پر مکروہ اور بے بنیاد الزامات سب انہی کافروں کی وہ جنگ ہے جو تعلیمی میدان میں وہ ہمارے ساتھ کھیل رہا ہے ۔آج مسلمان نوجوان قرآن وحدیث پڑھنے اور سمجھنے پر اس وقت کا پانچواں دسواں فیصد حصہ بھی خرچ نہیں کرتا جتنا مغربی مسلط کردہ نصاب ونظام تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ بلکہ ایک بڑا طبقہ تو ایسا وجود میں آچکا ہے جو قرآن وسنت کی تعلیمات کو اپنی زندگی سے یکسر خارج کرچکا ہے اور ان کے شب وروز کے چارٹ میں اس کا ایک خانہ بھی نہیں اور آج جتنے ملحدانہ افکار ونظریات اسلامی معاشرے میں پھیل رہے ہیں وہ زیادہ تر اسی مغربی نصاب تعلیم کے سانچے میں ڈھلے ہوئے افراد سے وجود پذیر ہو رہے ہیں بقول اقبال مرحوم
ہم خوش تھے کہ لائے گی خوشحالی تعلیم
کیا پتہ تھا چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ ساتھ

غرض جس طرح اس دور میں نصربن حارث بن کلدہ مشرک وزندیق اپنے زمانے کا بڑا جہاندیدہ،روشن خیال اور ایران جیسے مہذب ومتمدن ملک کی سیر کیے ہوئے تھا اور قرآن کو یوں ٹھکراتا تھا آج بھی جب یہاں کارہنے والا کوئی شخص یورپ چلا جاتا ہے اور وہاں کے حالات سے متاثر ہوتا ہے خصوصاً اگر کوئی ڈگری وغیرہ لے آئے تو اسلامی تعلیمات اس کی نظروں میں جچتی ہی نہیں۔الغرض کفار کے وار کا ایک میدان تعلیمی میدان ہے جس کے متعلق چند سازشوں کو بطور عنوان اور بحیثیت اجمال ذکر کردیا گیا ہے:
اہل مغرب کے سارے شرور وفتن
ہم نے اپنالئے خیر کو چھوڑ کر
رہنما،رہزنوں کو سمجھتے ہوئے
اپنی پونجی ہی ساری لٹا دی گئی
دل چرا لے گئیں ان کی رنگینیاں
ہم بھی زنگیں مزاج ہوگئے اس قدر
ان کی تہذیب کو ہم نے اپنا لیا
اور پہچان اپنی مٹا دی گئی
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 343893 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.