ثقافتی جنگ:عالم کفر تیسرا وار
ثقافتی میدان میں کرتا ہے۔ کافر خود تو مادیت پرستی، شہوت رانی، دیناوی
انہماک اور آخرت سے یکسر غفلت میں زندگی گزارتا ہی ہے۔ ساتھ ہی یہ کوشش
کرتا ہے کہ مسلمانوں کو بھی اس لہوولعب میں کھپا دیا جائے۔ تہذیب وثقافت کے
نام پر فحاشی اور عریانی کو فروغ دیا جائے۔ اخلاق بگاڑنے اور نسل نو کی
آوارگی کے اسباب اور وسائل عام کردیئے جائیں ۔ روحانیت کے پرنور ،سکون بخش
اور اطمینان آور ماحول کو ختم کرکے مادیت اور خواہشات نفسانیت کا تباہ کن
اور جہنم خیز ماحول بنا دیا جائے۔ ہر شخض تسکین خواہشات کی دلدل میں غلطاں
رہے۔ ہمارے ماحول میں ٹی وی، وی سی آر، ڈش انٹینا، انٹرنیٹ، کیبل نیٹ ورک،
سینما اور اس طرح کے دیگر کئی ذرائع امت کی جڑ کو کاٹنے میں مصروف ہیں۔ صرف
ٹی وی سے ظہور پذیر ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو رونگھٹے کھڑے
ہو جاتے ہیں ٹی وی کی نظر میں اصحاب علم وقدر اورارباب علم وحکمت کی کوئی
قیمت اور کوئی قدر وتہمت نہیں بلکہ عام فنکاروں، اداکاروں اور رقاصاﺅں کی
اہمیت اجاگر کی جاتی ہے۔ مختصر دورانیے کے ڈرامے ہوں یا مسلسل سیریز سب
نوجوانوں کے عشق ومحبت کے گرد گھومتے ہیں اور یہ عشاق محفلوں اور تفریح
گاہوں میں باہم مسرت وشادمانی سے ملتے جلتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں تاکہ رفتہ
رفتہ ناظرین کے ذہنوں میں یہ مناظر رچ بس جائیں اور وہ ان کو ناپسندیدہ
واجنبی خیال کرنے کے بجائے لازمہ حیات سمجھنے لگیں۔ گھر گھر میں موجود ایسے
فحاشی وعریانی کے اڈے ایمان اور اصحاب یقین کے خانگی ،معاشرتی بلکہ معاشی
ماحول تک کو تباہی وبربادی کی غار میں دھکیل رہے ہیں۔ انہی ڈراموں اور
فلموں کے ماحول میں پل کر نوجوان ہونے والی نسل اپنی تاریخ سے کٹ چکی ہوتی
ہے۔ ان کی نظر میں علما، صلحاء، اصفیا، اتقیا، شرفا، اصحاب فکر وعزیمت اور
مجاہدین کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ان کے ہاں رہنما پسندیدہ اور آئیڈیل شخصیت
وہی ہوتی ہے جسے وہ روزمرہ ان پروگراموں میں دیکھتے اور سنتے ہیں۔ اپنے آپ
کو اسی کے رنگ میں رنگنا کمال زندگی تصور کیا جاتا ہے۔ ایک غریب کے پاس
جہاں بنیادی ضروریات زندگی مفقود ہیں وہیں نفسانی خواہشات کی تسکین کیلئے
راتوں کے پرسکون اور پرنور اوقات میں باطن کی تاریکی اور نامہ اعمال کی
سیاہی کیلئے یہ خرافات ننگا رقص کررہی ہوتی ہیں۔ کل تک جو گھرانے شرافت کی
عطر بیزیوں سے بہار آفریں تھے ان خرابات نے انہیں عیاشی اور آوارگی کا
بدبودار گڑھ بنا دیا۔ ہر سلیم العقل اور صحیح الفطرت شخص ان خرافات وخرابات
کی تباہ کاریوں کا ادارک بھی کرتا ہے اور ارباب بست وکشاد کی توجہ اس جانب
مبذول بھی کراتا ہے مگر اُنہیں اس سے کیا غرض؟یہ سب شیطانی آلات حکومتی
کمائی کا ایک ذریعہ ہے اس لئے آمدن پر نظر رکھ کر اس کی شیطنت سے آنکھیں
چرائی جاتی ہیں۔ آئے روز ہمارے اسلامی ملکوں میں خاص کر اپنے ملک کولے
لیجئے ان خرافات وخرابات کی کس طرح سرپرستی کی جاتی ہے۔ فلمی ادکاراﺅں اور
فنکاروں کو کس طرح ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کی
فخریہ ملاقاتیں اور میڈیا کا انہیں نمایاں کرکے پیش کرنا یہ سب دشمن کی اس
ثقافتی جنگ کا حصہ ہے جس میں وہ ہر ممکنہ طریقے سے مسلمانوں کو زیر کرنے کی
کوشش کرتا ہے۔ قرآن کریم نے کافروں کی اس سازش کو اس طرح ذکر کیا ہے:وماکان
صلاتہم عندالبیت الامکاءوتصدیة فذوقواالعذاب بماکنتم تکفرون مطلب ہے کہ یہ
مشرکین کفار مسجد حرام کے حقدار نہیں ہیں کیونکہ یہ عبادت کے نام پر اس کی
بے حرمتی کرتے ہیں وہاں سیٹیاں اور تالیاں بجاتے ہیں اب ان کو اپنے کفر کی
وجہ سے عذاب کا مزہ چکھنا ہی پڑے گا۔
غور کا مقام ہے جس طرح اُس دور میں مشرکین کفار روم وفارس اور ایران سے لہو
ولعب اور موسیقی کے اسباب مہیا کرتے۔ گانے والی لونڈیاں اور باندیاں خرید
کر لاتے تاکہ اہل ایمان کو قرآن سے مسجد سے مدرسہ اور دین سے دور کیا جائے
تو کیا آج ان کرتوتوں والے دین کے خدمت گار اور مسلمانوں کے خیر خواہ
کہلائے یا تسلیم کیے جا سکتے ہیں....؟
اقتصادی جنگ:کفار کا چوتھا طریقہ واردات اقتصادی اور معاشی طرز کا ہوتا
ہے۔کافر مال کی بنیاد پر اور معاش واقتصاد کو ذریعہ بنا کر اپنی جنگ برپا
کرتے ہیں۔ پیسے کی بنیاد پر کرائے کے فوجی بھرتی کرتے ہیں۔ اس مال وزر کی
لالچ میں منافقین کو خریدتے ہیں ۔ معاشی واقتصادی تعاون کے نام پر اسلام د
شمن سرگرمیاں کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کے حکمرانوں کو اسی بنیاد پر اپنا غلام
بناتے ہیں ۔ اپنی مرضی کی پالیسی مسلط کرواتے ہیں،جس کسی نے ایمانی غیرت
وجرات کا مظاہرہ کر کے ان کی پالیسیوں کو مسترد کیا اسے معاشی بائیکاٹ کی
دھمکیاں دیکر اپنے زیر تسلط لانے کی کوشش کی جاتی ہے،اگرچہ انجام کار ان کا
یہ تمام مال انہیں کوئی نفع نہیں پہنچاتا اور ان کی تمام سازشیں دم توڑ
جاتی ہیں اور انہیں سوائے حسرت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ قرآن کریم نے ان کفار
کی اس سازش کو یوں بیان کیا ہے۔ ان الذین کفرواینفقون اموالہم لیصدواعن
سبیل اللّٰہ خلاصہ یہ ہے کہ کفار ومشرکین لوگوں کو دین اسلام سے روکنے
کیلئے مال خرچ کرتے ہیں ۔ یہ ابھی اور مال بھی خرچ کریں گے پھر انہیں اپنے
خرچ کیے ہوئے مال پر حسرت ہوگی اور وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مغلوب ہوں گے اور
جوان میں سے کفر پرمریں گے وہ جہنم میں ہانکے جائیں گے مفسرین نے لکھا ہے
کہ یہ آیت ابوسفیان کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے اُحد کے موقع پر
مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے حبشہ کے دو ہزار جنگجو کرائے پر بھرتی
کئے۔(فتح الجواد)
غزوہ بدر کے موقع پر آنحضرتﷺ اور حضرات صحابہ کرام جس تجارتی قافلے پر حملے
کیلئے روانہ ہوئے تھے اس میں یہی نکتہ تھا کہ درحقیقت اس تجارتی قافلے سے
حاصل ہونے والی آمدنی مسلمانوں ہی کیخلاف استعمال ہونی تھی۔ ان کے تجارتی
قافلے پر حملہ کرنے کا قصد اس لئے تھا کہ کافروں کی اقتصادی قوت کو توڑا
جائے جس اقتصادی قوت کے بل بوتے پر وہ اسلام اور مسلمانوں کیخلاف کاروائیاں
کررہے تھے آج بھی اسلام دشمن ملکوں میں سب سے زیادہ سالانہ بجٹ اسلام اور
مسلمانوں ہی کے خاتمے کیلئے مختص کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے ادارے قائم کئے جاتے
ہیں تمام معاشی معاملات کو اپنے قبضے میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے قدرتی
وسائل تک رسائی حاصل کرنے کیلئے ہر ممکنہ اقدام کیا جاتا ہے ۔سودی کاروبار
کو فروغ دیکر اپنی تجارتی منڈیاں چمکائی جاتی ہیں ۔ اسلامی ممالک کو اپنا
دست نگر بنانے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اختیار کئے جاتے ہیں ۔ موجودہ بینکنگ کا
نظام کیا ہے؟یہی معاشی میدان میں غلبہ وتسلط کا نام ہے ۔ تمام ممالک عالمی
بینک کے دست نگرکیوں ہیں؟یہ سب انہی کی کارستانیاںہیں۔نت نئے خوشنما نعرے
لگا کر ،مال کا لالچ دلا کر درحقیقت اپنا غلام بنایا جاتا ہے،روپے ،پیسے سے
لیکر ڈیبٹ کارڈ تک ان کے پیچھے وہ خفیہ عزائم ہیں جس کا اندازہ لگانا مشکل
ہے غرض کافروں کا ایک وارداتی میدان ،معاشی میدان ہے جس کی انتہائی مختصر
جھلک آپ کو دکھائی گئی۔
برہمن ،ملحد،نصاریٰ اور یہود
ہر طرف عیاریوں کا وقت ہے
سازشیں ہی سازشیں ہیں ہر جگہ
دوستو!بیداریوں کا وقت ہے
ہیں منافق ہر طرف پھیلے ہوئے
سوچ لو!غداریوں کا وقت ہے
اتحادی جنگ:کفر کا پانچواں طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ سب متحد ہو کر عالم
اسلام کو تنہا کرکے اپنی یلغار کرتا ہے ان کے اتحاد کا مرکزی نقطہ مخالفت
اسلام ودشمنی مسلمین ہوتا ہے ۔آقا مدنی ﷺکی زبان فیض رسان نے الکفرملة
واحدہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ یہ کافر دنیاوی معاملات ،حکومتی
کھینچا تانی اور دیگر عدواتی کشاکش میں اگرچہ ایک دوسرے کے دشمن اور بام
رقیب ہوتے ہیں مگر اسلام دشمنی میں سب یک جان ویک قالب بن جاتے ہیں۔ اس
میدان میں کالے گورے کا ،روسی امریکی کا فرق نظر انداز کرکے متحد ہو جاتے
ہیں۔ جیسا غزوہ احزاب کے موقع پر تمام اندرونی اور بیرونی دشمن یہود
ومشرکین سب ملکر مسلمانوں کے مقابلے میں آئے تھے اسی طرح ہر دور میں آتے
رہتے ہیں اور کافروں کا یہ اتحادی وار واقعی بہت سخت اور ہولناک ہوتا ہے ۔
اس وقت کی حالت کو مسلمانوں کیلئے ایک عزیمت اور سامان تسلی ہوئے اور جو
لوگ کافروں کی اس اتحادی قوت کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں یا مرعوب ہو کر اہل
حق اور اصحاب عزیمت لوگوں کو ڈرانا شروع کردیتے ہیں ان کیلئے تازیانہ عبرت
ہوتی ہے ۔ بلکہ درحقیقت یہ وقت مومن ومنافق میں امتیاز کیلئے ہوتا ہے۔
ابتلا اور آزمائش کے اس نازک موقع پر اخلاص اور نفاق کو پرکھا جاتا ہے۔
قرآن نے جو تصویر اس وقت کی کھینچی ہے ملاحظہ فرمائیں تاکہ اہل ایمان کے
ایمان میں تازگی آئے اور منافق کو اپنی شکل نظر آئے ”یاد کرو اس وقت کو جب
دشمن تمہارے سر پر آپہنچے اوپر کی جانب سے بھی اور نیچے کی جانب سے بھی اور
نگاہیں خیرہ ہوگئیں کلیجے منہ کو آنے لگے اور خدا کے ساتھ طرح طرح کے گمان
کرنے لگے اس جگہ اہل ایمان آزمائے گئے اور خوب ہلائے گئے“ جی ہاں ایسے ہی
وقت میں مومن مخلص اور منافق بدباطن کو پرکھا جاتا ہے اس موقع پر منافق
مختلف حیلے بہانے شروع کر دیتے ہیں مثلاً ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں۔ بچوں
اور عورتوں کی حفاظت کرنی ہے وغیرہ وغیرہ.... جب کہ اہل ایمان اور اصحاب
عزیمت کی حالت ایمانی اور ذوق یقینی ترقی کرتے ہیں آیئے قرآن کا وہ ایمان
افروز بیان پڑھیں جو اس موقع پر اہل ایمان کی حالت کا مکمل نقشہ پیش کرتا
ہے۔
”اور اہل ایمان نے جب کافروں کی فوجیں دیکھیں تو بے ساختہ کہا یہ وہی ہے جو
اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا اور اس کے رسول ﷺ نے سچ کہا اور اس
سے ان کے یقین اور اطاعت میں اور زیادتی ہوگئی “ غرض کافر مال کی لالچ میں
دیگر کافرقوموں اور منافقوں کو اپنے ساتھ ملا کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے
ہیں دورحاضرمیں ”نیٹو کا اتحاد“ اس کی واضح مثال ہے آپ نے کفار کی ان
پانچوں سازشوں کا نقشہ ملاحظہ فرمالیا اور اب دور حاضر میں نظر دوڑا کر
دیکھ لیں کافر ان میں سے ہر میدان میں ہمیں تڑپا رہے ہیں ۔ مسلمانوں کو
ستارہے ہیں،ان کا ایمان بھی لوٹ رہے ہیں،مالی وسائل پر قبضہ جما رہے
ہیں،اسلحہ کے زور پر اسلامی ممالک پر حملہ آور ہیں، کافروں کے اس اتحادی
وار کی طرف سورة انفال کی اس آیت میں واضح اشارہ موجود ہے۔
لیمیزاللّٰہ الخبیث من الطیب ویجعل الخبیث بعضہ علی بعض الخ
”تاکہ اللہ تعالیٰ ناپاک کو پاک سے جدا کردے اور پھر ناپاکوں کو ایک دوسرے
پر رکھ کر ان سب کا ایک ڈھیر بنائے پھر اسے جہنم میں ڈال دے وہی لوگ نقصان
اٹھانے والے ہیں“۔
صاحب فتح الجواد اس آیت کی تفسیر میں ”فائدہ“ کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے
ہیں” آیت مبارکہ میں کافروں کے اس اتحاد کی طرف واضح اشارہ ہے جو وہ مال کے
زور پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر زمانے میں بناتے رہتے ہیں پس
مسلمانوں کو اس سے گھبرانا نہیں چاہئے البتہ کافروں سے الگ رہنا چاہیے اور
اس طرح کے اتحادوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے کہ یہ سب جہنم کا ایندھن ہیں
سوائے ان کے جو اسلام قبول کر لیں“۔
اگر ہم عصر حاضر کے تمام فتنوں کا جائزہ لیں تو صاف نظر آئیگا کہ وہ ان
پانچ فتنوں میں سے کسی نہ کسی سے جڑ رہا ہوگا گویا یہ پانچ سازشیں فتنوں کی
بنیاد اور فتنوں کی جڑ ہیں جسے ہم فتنہ کبریٰ سے تعبیر کر سکتے ہیں اور اسی
سورة انفال سے آیت نمبر 30سے آیت نمبر37تک ان کافرانہ سازشوں کو بیان کیا
اور آگے آیت نمبر39میں اس کے مقابلہ کا طریقہ کار بتلایا ہے کاش ہم مسلمان
اس حقیقت کا ادارک کرسکیں۔
مقابلے کا طریقہ کار:اس حوالے سے ہم اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے قرآن کا
بتلایا ہوا طریقہ کار اور چند تفسیری اقوال بحوالہ فتح الجواد نقل کرتے
ہیں۔
”وقاتلوھم حتی لاتکون فتنة ویکون الدین کلہ للّٰہ فان انتھوا فان اللّٰہ
بما یعملون بصیر“
خلاصہ:اے مسلمانو!تم کافروں سے برابر لڑتے رہو یہاں تک کہ ان کا زور ٹوٹ
جائے ان کی قوت وشوکت ختم ہو جائے اور دین اسلام کو سب ادیان پرغلبہ مل
جائے پھر اگر وہ کفر سے باز آجائیں تو جنگ روک دو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال
کو دیکھنے والا ہے حضرت لاہوری رحمہ اللہ اس کے حاشیے میں تحریر فرماتے
ہیں”وفاداران مملکت الٰہی(مومنین)اس وقت تک تلوار نیام میں نہیں ڈالیں گے
جب تک باغیوں(کفار)کی قوت کو پاش پاش نہ کرلیں اور توحید کا پھر پرا(یعنی
پرچم)ساری دنیا میں لہرانے نہ لگ جائے“۔
مولانا عاشق الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں
”بعض حضرات نے فرمایا کہ آیت کا معنی یہ ہیں کہ برابر کافروں سے لڑتے رہو
وہ جہاں کہیں بھی ہوں یہاں تک کہ اسلام کا غلبہ ہو جائے ۔غلبہ کی دو صورتیں
ہیں ایک یہ کہ اسلام قبول کر لیں اور دوم یہ کہ جزیہ دنیا منظور کرلیں ۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو برابر جہاد کرتے رہے ان کے بعد بہت سے
امرآوملوک نے جہاد جاری رکھا۔دورحاضر کے مسلمانوں نے جہاد شرعی چھوڑ دیا تو
اب خود مقہور ومغلوب ہو رہے ہیں۔
عروج وزوال کا میعار:آخر میں فتح الجواد سے ایک نکتہ رس اور نتیجہ خیز
عبارت ملاحظہ کریں جو گویا کہ اس پورے مضمون کا خلاصہ اور اس کی جان ہے
”چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ آیت مسلمانوں کے عروج وزوال کا معیار اور
نصاب بیان فرماتی ہے مسلمان”قاتلوھم“ کے کے حکم پر عمل کریں گے تو”فتنہ“
ٹوٹے گا اور کمزور ہوگا اور زمین پر اللہ کا دین غالب ہوگا اور جب مسلمان
”قاتلوھم“ کے حکم پر عمل چھوڑ دیں گے تو ”فتنہ“ ہر میدان میں انہیں تڑپائے
گا،ستائے گا اور مغلوب بنائے گا،مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام دنیا
میں نافذ ہونے اور غالب ہونے کیلئے آیا ہے چنانچہ اس بات کو کافی نہ سمجھا
جائے کہ کوئی کافر ہمیں مسلمان ہونے اور نماز پڑھنے سے نہیں روکتا“ اللہ رب
العزت تمام مسلمانوں کو اس فتنہ کبریٰ کی حقیقت کو سمجھنے اور اس کے مقابلہ
کے طریقہ کار کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)
تمہاری شان ہے مومن خودی و خودداری
خیال ہدیہ وخوئے سوال سے نکلو
اٹھاﺅ تیغ اور مقتل کو سرخرو کر دو
ارے ان ذلتوں سے اور زوال سے نکلو
جمال یار کے انور نہ تذکرے چھیڑو
لب ورخسار سے،ہجرو وصال سے نکلو! |