خاموش احتجاج

پرائمری سکول میں تو ہم زمین پر بیٹھ کر زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے ہی تھے۔ ہائی سکول میں بھی پہنچ کر ہمیں بیٹھنے کے لیے زمین ہی میسر آئی۔ ٹاٹوں کا تو بس نام ہی سنا تھا۔ اس پر بیٹھنے کا ابھی تک شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔کلاس انچارج سے بات کی تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ہمارے پاس ٹاٹوں کے لیے کوئی فنڈز نہیں آتے۔ پھر ایک سال یوں ہی گذر گیا۔ چھٹی سے ساتویں جماعت میں چلے گئے۔ ٹاٹوں پر بیٹھنے کا شوق شدت اختیار کر گیا۔ کیونکہ ہرروز یونیفارم میلی ہو جانے پر گھر سے ڈانٹ پڑتی تھی۔ ویسے بھی جب ہم ہائی حصے کے طلباء کو دیکھتے جو کہ کمروں کے اندر بینچوں پر بیٹھا کرتے تھے ۔ہمارے دلوں میں ٹاٹوں پر بیٹھنے کی خواہش مزید شدت اختیار کر چکی تھی۔ ہم نے ایک دفعہ پھر سے منہ کھولا۔جس جس نے منہ کھولا اس کے ہاتھوں پر چھڑیوں کے نشانات دیر تک واضح رہے۔ ہم بھی سٹوڈنٹ تھے ۔ سن رکھا تھا کہ سٹوڈنٹ بہت طاقت رکھتے ہیں۔ اپنی ہر بات منوا سکتے ہیں۔ کسی شاہراہ پر کھڑے ہو جائیں تو ٹریفک رک جاتی ہے۔ ان کے جلسے جلوسوں سے حکومتیں لرز جاتی ہیں۔ اس لیے ٹیچر بھی ان سے ڈرتے ہوں گے۔

چھٹی کے وقت ہم چند لڑکوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم بھی احتجاج کریں گے۔ ہم بھی اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں گے۔ ہم اپنا مطالبہ منوا کر رہیں گے۔ ہم بتا کر رہیں گے کہ سٹوڈنٹ پاور کیا ہوتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ ہمارا کلاس روم۔۔۔ ارے نہیں۔ وہ روم نہیں تھا۔ وہ تو ایک کھلا میدان تھا۔ ہم سردیوں میں دھوپ سینکتے اور گرمیوں میں شیشم کے درخت کی چھاوٗں تلے بیٹھ جاتے۔ہماری کلاس سکول کی دیوار کے ساتھ ہی بیٹھا کرتی تھی تھی۔ اس لیے بلیک بورڈ کے لیے ہم نے دیوار کو ہی کالا کر رکھا تھا۔ ۔۔ ہمارے احتجاج کا طریقہ کیا ہونا چاہیے۔۔۔؟ یہ ہمارے لیے سب سے بڑا سوال تھا۔ کلاس انچارج کو ایک دفعہ پھر سے اپنی محرومی کا احساس دلایا جائے؟ نہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیوں کہ وہ تو روزانہ ہمیں زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھنے کی وجہ سے اٹھتے وقت اپنے گرد آلود کپڑے جھاڑتے ہوئے دیکھا کرتے تھے۔ نہ صرف دیکھا کرتے بلکہ ڈانٹا بھی کرتے تھے۔ کہ" عقل کے اندھو میرے قریب یہ حرکت مت کیا کرو ساری غبار میرے سفید کپڑوں پر آ گرتی ہے"۔ ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملنے کی کسی طالب علم کو اجازت نہیں تھی۔ تو پھر کیا کیا جائے۔ سڑک پر جا کر اپنے حق کے لیے نعرے بلند کیے جائیں؟ لیکن کون سنے گا۔۔۔۔؟ بلکہ جو سنے گا وہ سکول میں ہماری شکایت کر دے گا۔جس کا نتیجہ سزا کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا۔ تو پھر ہمارے احتجاج کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔۔۔؟؟؟

کافی سوچ بچار کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ کہ کیوں نہ خاموش احتجاج کیا جائے۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور ہماری آواز بھی متعلقہ حکام تک پہنچ جائے گی ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کو خط لکھا جائے۔ نہیں یہ تو بہتر نہیں۔۔۔ میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔۔۔۔ وہ یہ تھا کہ ہم بلیک بورڈ پر اپنا نعرہ لکھ دیتے ہیں۔اس سے کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ یہ جرات کس نے کی ہے۔ آئیڈیا سب کو پسند آ یا۔سو بلیک بوڑد پر ہم نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی اور جلی حروف میں لکھ دیا کہ " ہمیں جلد ازٹاٹ مہیا کیے جائیں" ۔۔ یہ تحریر ہم نے پورے بلیک بورڈ پر لکھ دی تھی۔ یعنی سب نے الگ الگ یہ نعرہ لکھا تھا۔ ۔۔ دوسرے دن صبح سب لڑکے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ جو اس کارنامے میں شریک نہیں تھے وہ حیران تھے کہ ایسا کس نے کیا ہے؟ پھر ایک آواز آئی " اسے مٹا دو۔۔۔ کیوں پٹنے کا ارادہ ہے" ۔ کسی نے کہا" رہنے دو یار شاید اسی طرح ہمیں ٹاٹ نصیب ہو جائیں ابھی سب لڑکے اسی کشمکش میں تھے کہ کیاکیا جائے ۔ان سنہری حروف کو مٹا دیا جائے یا ہمیشہ کے لیے اس سکول میں ایک مثال قائم کر دی جائے۔ اتنے میں ہمارے کلاس انچارج (ماسٹر سرور صاحب مرحوم اﷲ ان کی قبر پر ہزاروں رحمتیں نازل فرمائے۔ ) کلاس میں پہنچ گئے۔ جیسے ہی ان کی نظر احتجاجی تحریر پر پڑی تو وہ غصے سے بولے " کس نے کی ہے یہ حرکت" ۔ کلاس میں خاموشی چھا گئی۔ ہمارے پاؤں تلے زمین نکل گئی ۔ اور دل زور سے دھڑکنے لگا۔سب ایک دوسرے کا چہرہ تکنے لگے۔ ٹیچر کی آواز ایک دفعہ پھر گونجی۔اب اُن کا غصہ پہلے سے زیادہ تھا۔

استاد محترم نے اپنے کچھ خاص ہونہار طالب علموں کی طرف بھی دیکھا جہاں سے انہیں کسی مخبری کی امید تھی۔ لیکن ہم جن لڑکوں نے یہ کام کیا تھا۔ اس میں کوئی ایسا لڑکا شامل نہیں تھا جو نمبر ٹنگنے کی خاطر ہماری شکایت لگا دیتا۔ہم ہر لحاظ سے مطمئن تھے۔ پھر ماسٹر صاحب کی آواز گونجی۔" پوری کلاس کان پکڑ لے" مطلب مرغا بن جائے۔ ہم نے حکم کی تعمیل کی۔ اور پورے سکول کے سامنے ایک لمبی قطار میں مرغا بن گئے۔ہر طالب علم کی پیٹھ پر چار چار چھڑیاں رسید کی گئیں۔اس کے بعد پھر دریافت کیا گیا کہ یہ کس کی حرکت ہے۔ ایک دفعہ پھر سے جرم کا اقرار نہ کرنے پر ماسٹر صاحب کی چھڑی ہر طالب علم کے دونوں ہاتوں پر برسی تھیں۔ہم نے سمجھا سستے میں جان چھوٹ گئی ۔ لیکن ماسٹر صاحب کا غصہ ابھی کم نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے سب کو حکم دیا کہ جو کچھ بھی بلیک بورڈ پر تحریر ہے وہی اپنی اپنی کایپوں پر لکھو۔ حکم ملتے ہی سب نے ایسا ہی کیا۔ پھر ماسٹر صاحب نے ہر لڑکے کی تحریر کابلیک بورڈ پر لکھی ہوئی تحریر سے مواذنہ کیا۔ جس کسی کا ایک لفظ بھی بلیک بورڈ پر لکھی ہوئی تحریر سے میل کھا جاتا اسے ایک علیحدہ قطار میں کھڑا ہونے کا حکم صادر فرما دیتے۔ یوں میرے سمیت دس سے بارہ لوگوں کی پھر سے شامت آ گئی۔ اب انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ کس نے لکھا ہے۔اب ان کا حکم تھا کہ " کان پکڑ لو" ۔۔۔۔
 
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 99847 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.