حقیقت میلاد النبی - چھیاسٹواں حصہ

6۔ ذوقی و حبّی پہلو (Motivational aspect):-

ہر شے کی دو جہات ہوتی ہیں :

1۔ ظاہری جہت
2۔ باطنی جہت

کسی چیز کا نظر آنے والا پہلو اُس کی ظاہری جہت کہلاتا ہے جب کہ باطنی جہت کسی چیز کا وہ پہلو ہے جو ہر کس و ناکس کو نظر نہیں آتا بلکہ مخفی ہونے کی بنا پر ہمارے حواس اس کا ادراک نہیں کرسکتے۔ یہ مجرب اَمر ہے کہ جو چیز جس قدر مخفی، غیر مرئی اور غیر محسوس ہوگی وہ اُسی قدر لطیف اور زیادہ قدر و قیمت کی حامل ہوگی۔ روز مرہ زندگی میں سے اس کی مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ آپ دو قسم کے سیب لیں : ایک عام ضخیم سیب اور دوسرا سرخ پتلا سیب۔ پہلی قسم میں سوائے نفسِ سیب کے کوئی ذائقہ ملے گا نہ خوشبو، جب کہ دوسری قسم کا سیب جسے عرف عام میں ’’گولڈن سیب‘‘ کہا جاتا ہے اس میں حلاوت، ذائقہ اور خوشبو اس درجہ ہوگی کہ آپ دیر تک اُس کا ذائقہ اور حلاوت محسوس کرتے رہیں گے۔ آپ نے موازنہ کیا کہ دونوں میں کیا فرق ہے؟ بظاہر دونوں اپنی ہیئت اور شکل میں یکساں نظر آتے ہیں لیکن دونوں کے اندر موجود گودے میں مخفی حلاوت اور خوشبو۔ جو نظروں سے اوجھل ہے۔ نے ان کی قدر و قیمت میں بہت فرق پیدا کر دیا۔

اَعمال کی ظاہری اور باطنی جہت:-

دینِ اسلام کے اَحکامات کے مطابق عبادات اور اَعمالِ صالحہ بجا لانے کے باب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :

إنما الأعمال بالنيات.

’’بے شک اَعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب بدء الوحي، باب بدء الوحي، 1 : 3، رقم : 1
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإمارة، باب قوله : إنما الأعمال بالنية، 3 : 1515، رقم : 1907
3. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب فضائل الجهاد، باب ما جاء في من يقاتل رياء والدنيا، 4 : 179، رقم : 1647
4. ابو داؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب فيما عني به الطلاق والنيات، 2 : 262، رقم : 2201
5. نسائي، السنن، کتاب الطهارة، باب النية في الوضوء، 1 : 58، رقم : 75
6. ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب النية، 2 : 1413، رقم : 4227

اﷲ تعالیٰ نے بہ طور عبادت نماز کا حکم دیا جو تسبیح، تکبیر، رکوع، قیام و سجود اور جلسہ و قعدہ پر مشتمل ہے، اس میں قرآن مجید کی تلاوت بھی ہے، تسبیحات بھی ہیں، لیکن قبولیت کا دار و مدار نیت پر ہے جو کہ قلب و باطن کے اندر چھپی ہوئی ہے۔ اگر نیت درست ہوئی تو عبادت کا عمل قبول ہو جائے گا اور اگر نیت ہی خراب رہی تو یہ نماز دکھلاوے کی نماز ہوگی اور اس میں چاہے ہزار سجدے بھی ادا کر لیے جائیں یہ قبول نہ ہوگی۔ بقول علامہ اِقبال رحمۃ اللہ علیہ :

جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو، زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں

اِقبال، کليات (اُردو)، بانگِ درا : 281

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا

اِقبال، کليات (اُردو)، بانگِ درا : 291

اس سے معلوم ہوا کہ ریاکاری کی وجہ سے اَعمال اپنے وجود کے باوجود قبولیت نہیں پا سکتے کیوں کہ انہیں قبولیت تک پہنچانے والی چیز نیت ہے جو مخفی ہونے کی بنا پر نظر نہیں آتی۔ نہ اس کا کوئی ظاہری وجود ہے۔ اگر نیت کا قبلہ درست ہو تو ایک لمحے میں دو نفلوں کو اٹھا کر اجر میں ایک لاکھ نوافل سے زیادہ کر دے۔ یہاں غور طلب نکتہ وہ حقیقت ہے جو عبادت کو قابل قبول بناتی ہے اور اَعمالِ صالحہ کو مقبولیت کے درجے تک پہنچاتی ہے۔ یہ حقیقت اُس وقت عیاں ہوتی ہے جب ہم حصارِ دین میں داخل ہو کر ایمان کی طرف بڑھتے ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے ہماری نسبت اور ہمارا تعلق متحقق ہو جاتا ہے۔ اس تعلق اور نسبت کی بھی دو جہات ہیں : اس میں بھی ایک جہت ظاہری ہے اور دوسری باطنی ہے۔

اَعمال کی روح محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:-

وہ تمام اَعمالِ صالحہ اور اِطاعات و عبادات جو ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِتباع اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبتِ مبارکہ کی پیروی میں ادا کرتے ہیں اَعمال کی ظاہری شکل ہے۔ یہ سب کچھ جو بادی النظر میں دکھائی دیتا ہے دراَصل وجودِ اَعمال ہے جس میں ایک حقیقی رُوح کار فرما ہے جو ان کو درجہ قبولیت تک پہنچاتی ہے، اور وہ نظر نہ آنے والی لطیف حقیقت محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

لا يؤمن أحدکم حتي أکون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين.

’’تم میں سے کوئی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے ماں باپ، اس کی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب حب الرسول صلي الله عليه وآله وسلم من الإيمان، 1 : 14، رقم : 15
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب وجوب محبة الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 67، رقم : 44
3. نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب علامة الإيمان، 8 : 114، 115، رقم : 5013، 5014
4. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب في الإيمان، 1 : 26، رقم : 67

2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

فو الذي نفسي بيده! لا يؤمن أحدکم حتي أکون أحب إليه من والده وولده.

’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین اور اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب حب الرسول صلي الله عليه وآله وسلم من الإيمان، 1 : 14، رقم : 14
2. نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب علامة الإيمان، 8 : 114، رقم : 5015

ان احادیثِ مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ہمارے اَعمال میں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روح کا درجہ رکھتی ہے، اگر یہ مفقود ہو تو روح سے عاری اَعمال بے اَجر، بے ثمر اور بے کار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اﷲ رب العزت کے نزدیک ان کی حیثیت پرِکاہ کے برابر بھی نہیں رہتی۔ اِس لحاظ سے محافلِ میلاد محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِحیاء کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔ ان محافل و مجالس میں نعت اور صلوٰۃ و سلام کا جو اہتمام کیا جاتا ہے اس کے پیچھے کار فرما محرک یہی جذبہ ہوتا ہے کہ اصلِ ایماں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماند پڑ جانے والی حرارت کو پھر سے شعلہ بنایا جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا چراغ پھر سے مومنوں کے دلوں میں روشن کیا جائے۔ اِسی طرح فرمودۂ اقبال رحمۃ اللہ علیہ

در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰ است
آبروی ما ز نامِ مصطفیٰ است

اِقبال، کليات (فارسي)، اَسرار و رُموز : 38

(مسلمان کے دِل میں مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھر کر رکھا ہے، ہماری عزت و آبرو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے ہی ہے۔)

کا منشاء پورا ہو سکتا ہے ورنہ ہماری دین داری تو محض ایک رسم بن کر رہ گئی ہے۔ جب کہ عہد صحابہ و تابعین و تبع تابعین میں ایسی کوئی صورتِ حال کار فرما نہ تھی۔ انہیں اپنی کشتِ ایمان کو حوادثِ زمانہ کی دست برد سے بچانے کی ایسی ضرورت نہ تھی جس طرح آج ہمیں درپیش ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اَحوالِ محبت جو کتبِ حدیث میں محفوظ ہیں وہ ان عاشقانِ زار کی وارفتگیء محبت پر شاہد عادل ہیں۔ اَربابِ سیرت نے لکھا ہے کہ ان عشاقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی متاعِ گراں بہا تھی کہ اگر اسے ساری کائنات میں تقسیم کر دیا جائے تو پھر بھی قیامت تک کم نہ پڑے۔ لہٰذا آج کے دورِ فتن میں ہمارے ایمان کو ہر جہت سے خطرات لاحق ہیں اور طاغوتی یلغار کئی محاذوں پر سرگرم عمل ہے۔ آج ایمان کی حفاطت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم شعوری کوشش کے ذریعے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اپنی اولادوں کو منتقل کریں۔ منتقلی کا یہ عمل جو سال کے گیارہ مہینے تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دروسِ قرآن کی شکل میں جاری رہتا ہے اس سلسلے کو ربیع الاول کے ماہِ مبارک میں خصوصی توجہ سے مہمیز کر کے آگے بڑھائیں تاکہ عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نقش ہمارے قلوب پر ’’کالنقش فی الحجر‘‘ کی طرح ثبت ہو جائے۔

7۔ رُوحانی و توسّلی پہلو (Spiritual aspect):-

واقعاتِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سماعت سے روحانیت کو فروغ ملتا ہے۔ محافل و مجالسِ میلاد سے اِنسان کی روحانی اَقدار تقویت پاتی ہیں۔ اس لیے ان تقریبات میں یہ بات خصوصیت کے ساتھ پیش نظر رہے کہ ماہِ ربیع الاول کی سعید ساعتوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیادہ سے زیادہ روحانی فیوضات سے بہرہ ور ہونے کی شعوری کوشش کی جائے اور مشکل مہماتی اُمور میں حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ اختیار کیا جائے، تاہم اگر اس موقع پر میلاد منانے کے قابلِ اعتراض پہلوؤں پر سخت گرفت نہ کی جائے اور انہیں برقرار رہنے دیا جائے تو ہم یقیناً میلاد کے فیوض و برکات سے محروم رہیں گے۔ لہٰذا ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے ہوئے طہارت و نفاست اور پاکیزگی کا کما حقہ خیال رکھا جائے۔ اِس حوالہ سے یہ اَمر دل و دماغ میں مستحضر رہنا چاہیے کہ جشنِ میلاد کے موقع پر محافل کے اِنعقاد، صدقہ و خیرات اور قربانی و ایثار کے پیچھے صرف اﷲ تعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا و خوش نودی کے حصول کا جذبہ کارفرما ہو۔ احادیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں درود و سلام اور اُمتیوں کے نیک و بد اَعمال بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ صالح اَعمال پر سرکارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی کا اظہار فرماتے ہیں اور بدی و گناہ کی باتوں پر ناراضگی اور اَفسوس کا اِظہار کرتے ہیں۔ (1) ہم جو میلاد کی خوشیاں مناتے ہیں وہ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اگر محافلِ میلاد کی تقریبات صدق و اخلاص پر مبنی ہوں تو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پذیرائی اور مسرت کا باعث بنتی ہیں اور اﷲ تعالیٰ بھی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی خاطر کی جانے والی کوششوں کو شرفِ قبولیت سے نوازتا ہے۔

1. بزار، البحر الزخار (المسند)، 5 : 308، 309، رقم : 1925

2۔ ابن ابی اسامۃ نے اِسے صحیح سند کے ساتھ ’’مسند الحارث (2 : 884، رقم : 953)‘‘ میں روایت کیا ہے۔

3. حکيم ترمذي، نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، 4 : 176
4. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 183، رقم : 686
5. قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفيٰ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 19

6۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (9 : 24)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث بزار نے روایت کی ہے اور اِس کے تمام رجال صحیح ہیں۔

7. ابن کثير، البداية والنهاية، 4 : 257

8۔ ابو الفضل عراقی نے اپنی کتاب ’’طرح التثریب فی شرح التقریب (3 : 297)‘‘ میں اس روایت کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔

اخلاصِ عمل کے باب میں شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی (1114۔ 1174ھ) نے اپنے والد گرامی شاہ عبدالرحیم (1054۔ 1131ھ) کے معمول کے بارے میں جو لکھا ہے وہ ہمارے لیے چشم کشا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اُن کے والد ہر سال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے موقع پر کھانے کا اہتمام کرتے تھے، لیکن ایک سال (بوجہ عسرت شاندار) کھانے کا اہتمام نہ کر سکے، تو کچھ بھنے ہوئے چنے لے کر میلاد کی خوشی میں لوگوں میں تقسیم کر دیے۔ رات کو اُنہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے وہی چنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش و خرم تشریف فرما ہیں۔

شاه ولي اﷲ، در الثمين في مبشرات النبي الأمين صلي الله عليه وآله وسلم : 40

لہٰذا ہمیں جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے ہوئے اخلاص و للہیت کو مد نظر رکھنا چاہیے اور ہر اُس عمل سے بچنا چاہیے جو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دل آزاری کا باعث بنے۔

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 103376 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.