اقوام متحدہ نیٹو ممالک اور یورپی یونین
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
گر ہم اس دنیا سے دہشتگردی ختم کرنا چاہتے ہیں تو دہشتگردوں سے پہلے ان کے سہولت کاروں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔یہ دیکھنا ہوگا کہ دہشت گردوں کو فنڈ کون دے رہا ہے ان کو اسلحہ کہاں سے مل رہا ہےجو ممالک دہشتگردی کے خلاف لڑ رہے ہیں جن میں پاکستان سرفہرست ہے مغربی دنیا اور امیر اسلامی ممالک کیوں نہیں پاکستان کی مدد کو آگے آرہے۔ |
|
عنوان : اقوام متحدہ نیٹو ممالک
اور یورپی یونین کو افغانستان, کشمیر، فلسطین ، عراق، شام، یمن، میں
دہشتگردی میں جھلستے انسان کیوں نہیں نظر آرہے؟
پیرس میں دہشتگردی کے واقعے نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، تمام ملکوں نے
فرانس کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اظہار کیا، اس واقعے کے بعد بہت سے دہشتگردی
کے شکار ممالک اپنے عوام پر بیتے دہشتگردی کے واقعات کو یاد کرنے لگے۔
پاکستانی عوام سانحہ آرمی پبلک سکول و کالج ورسک روڈ کو یاد کرکے رنجیدہ
ہوگئے کیونکہ اس طرح کے سانحے کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، دہشت گرد
آئے نوعمر طالب علموں کو اپنے استاتذہ کے ساتھ اسکول میں بربریت کا نشانہ
بنا گئے، اس دن کی ہولناکی سفاکی کو بیان کرنا مشکل ہےکہ آپ سامنے ننھے
پھول قطار در قطار کفن میں لپٹے پڑے ہوں تو الفاظ ختم ہوجاتے ہیں۔
جانے والے چلے گئے لیکن ان کی یادیں ان کے خواب پیچھے رہ جانے والوں کو چین
سے رہنے نہیں دیئے رہے، اسکول بھیجا تھا پر واپس کفن میں آئے۔
16 نومبر ہے سانحہ آرمی پبلک اسکول کو ہوئے گیارہ ماہ بیت گئےلیکن لواحقین
کے آنسو اب بھی نہیں تھمے، جب بھی صبح اسکول وینز آتی ہیں مائوں کے دل
تڑپتے ہیں۔کوئی تہوار ہو تو یہ بچوں اور ان کے استاتذہ کے ایصال ثواب کے
لئے قرآن خوانی کا اہتمام کرلیتے ہیں،ہر پل سولہ دسمبر کا دن ان کے ساتھ
ہے،بس زندگی رک گئی ہے سانسیں چل رہی ہیں۔
16 دسمبر کے شہدا میں ایک بچہ حسن زیب بھی تھا، اس کی والدہ صبح سے شام تک
یا تو حسن زیب کے کپڑے کتابیں دیکھتی رہتی ہیں یا روتی رہتی ہیں، شہید حسن
زیب 28 اکتوبر 1998 کو پیدا ہوئے،چار بھائیوں میں حسن زیب کا نمبر تیسرا
تھا، شہادت کے وقت حسن میٹرک کلاس کے اسٹوڈنٹ تھے،ان کی والدہ ناصرہ
اورنگزیب کہتی ہیں کہ میرے سب بیٹے آرمی پبلک اسکول میں زیر تعلیم رہے،بڑے
تو اب یونیورسٹی میں ہیں لیکن چھوٹے دونوں سولہ دسمبر کو آرمی پبلک اسکول
میں موجود تھے۔
ناصرہ اورنگزیب کہتی ہیں گیارہ ماہ گزر گئے ہیں میں زندہ لاش بن گئی ہوں
مجھے یہ خیال سونے نہیں دیتا کہ جب میرے بچے کو گولی لگی ہوگی تو اس نے
مجھے کتنا پکارا ہوگا اسکو کتنی تکلیف ہوئی ہوگی، مجھے اس کے دوستوں نے
بتایا جب حسن کو گولی لگی وہ آدھا گھنٹہ زندہ رہا،پر دہشت گردوں کے خلاف
آپریشن مکمل ہونے کے بعد جب تک امدادی عملہ آیا تو حسن دم توڑ چکا تھا۔
میرے بیٹے کو قبر کے اندھیرے اور قبرستان کی خاموشی سے بہت ڈر لگتا تھا اب
وہ وہاں ہی چلا گیا، میرا بنا کتنا ڈرتا ہوگا میرا بچہ یہ سوچ کر میں ساری
رات سو نہیں پاتی ، میں اس کی چیزیں چومتی ہوں اس کی تصاویر سے باتیں کرتی
ہوں، مجھے اب کسی پر اعتبار نہیں رہا مجھے ہروقت ڈر لگتا ہے کہ کسی اورا
سکول پر حملہ نا ہوجائے کسی اور ماں کا بچہ شہید نا ہوجائے، ہر گھر سے چن
چن کر پھول اس وطن پر قربان ہوگئےلیکن عالمی دنیا بے حس ہے انہیں ہمارے
بچوں سے کیا لگےلیکن انصاف ہوگا خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔
شہید حسن زیب کے بھائی زرک کہتے ہیں کہ دنیا کے انصاف کا معیار بھی دوہرا
ہے جس وقت سانحہ اے پی ایس ہوا تب تو کسی ملک نے ہمارے پرچم کو اپنی
عمارتوں پر آویزاں نہیں کیا، نا ہی فیس بک نے اپنے یوزرز کو ڈی پی کو
تبدیل کرنے کا آپشن دیا.کیا مارک زکربرگ اس سانحے کی پہلی برسی 16 دسمبر
2015 پر پوری دنیا کو ان ننھے شہدا اور ان کے استاتذہ کی یاد دلائیں گے؟ جن
کو دوران تعلیم سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
اگر ہم اس دنیا سے دہشتگردی ختم کرنا چاہتے ہیں تو دہشتگردوں سے پہلے ان کے
سہولت کاروں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔یہ دیکھنا ہوگا کہ دہشت گردوں کو فنڈ کون
دے رہا ہے ان کو اسلحہ کہاں سے مل رہا ہےجو ممالک دہشتگردی کے خلاف لڑ رہے
ہیں جن میں پاکستان سرفہرست ہے مغربی دنیا اور امیر اسلامی ممالک کیوں نہیں
پاکستان کی مدد کو آگے آرہے۔
اقوام متحدہ نیٹو ممالک اور یورپی یونین کو کشمیر، فلسطین ، عراق، شام،
یمن، افغانستان روہنجیا میں دہشتگردی میں جھلستے انسان کیوں نہیں نظر
آرہے؟
یہ کیسی قیام امن کی کوششیں ہیں جو انسانوں کی نسلوں کو تباہ کررہی ہیں،
جنہوں نے اس آگ و خون کے کھیل کا آغاز کیا انہیں تو امن کے نوبل انعام مل
جاتے ہیں، پیچھے رہ جاتے ہیں عام عوام، جن سے طاقت اور غرور میں مبتلا
حکمران منٹوں میں سب چھین کر انہیں ریفیوجی بننے پر مجبور کردیتے ہیں، تمام
طاقت ور ممالک سے گزارش ہے طاقت اختیارات اور تیل کی اس جنگ میں عام
انسانوں کو اپنا ایندھن نا بنائیں۔خون چاہیے امریکا یورپ میں بہے یا ایشیا
اور افریقہ میں ماں کا دل ایسے ہی تڑپتا ہے جیسے حسن زیب کی ماں ناصرہ کا
تڑپ رہا ہے، کتنے حسن زیب اور ایلان کردی اس سفاکیت کا شکار ہوں گے اب بس
کردو - |
|