تارکین وطن کی مشکلات اورچوہدری نثار کا احساس
(شفقت نذیر, Stoke-on-trent)
لکھ لکھ کرصفحے کالے کر دیئے لیکن یہی سمجھتے رہےکہ کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا، پھر دوستوں کے پوچھنے پر اور اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دیتے رہے کہ ہمارا کام تو دیا جلانا ہے سوہمیں اپنا کام کرتے رہنا چاہئے اندھیرے میں روشنی کے لئے روشنی کے ماخذ تلاش کرتے رہنا چاہئے۔ |
|
لکھ لکھ کرصفحے کالے کر دیئے
لیکن یہی سمجھتے رہےکہ کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا، پھر دوستوں کے پوچھنے پر
اور اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دیتے رہے کہ ہمارا کام تو دیا جلانا ہے
سوہمیں اپنا کام کرتے رہنا چاہئے اندھیرے میں روشنی کے لئے روشنی کے ماخذ
تلاش کرتے رہنا چاہئے۔ اس بات سے مایوس نہیں ہونا چاہئے کہ گہرے اندھیرے کا
ایک چھوٹا سا دیا کچھ نہیں بگاڑ سکتا بلکہ ہم سب کو احمد فراز کے مطابق
اپنے اپنے حصے کی شمع جلانی چاہئے کیونکہ:
شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
جموں و کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس جو اقوام متحدہ کی اقتصادی و سماجی
کونسل کی خصوصی مشیر کی حیثیت رکھتی ہے اس کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سید نذیر
گیلانی کے ساتھ اسی ’’شکوہِ ظلمت شب‘‘ کے موضوع پر بات ہو رہی تھی تو انہوں
نے ایک ایسافلسفہ سمجھا دیا کہ پھر اس کے بعد شکوہ کی کوئی گنجائش ہی باقی
نہ رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشرے کے سدھار اور برائیوں کے خاتمے کے لئے جو
کچھ آپ لکھتے ہیں اس کا اثر ہوتا ہے لیکن اس میں کچھ وقت لگتا ہے۔ جیسے
پانی ابالنے کےلئے جب اس کے نیچے آگ جلائی جاتی ہے تو پانی ایک دم نہیں
ابلتا۔ بلکہ ابال آنے میں کچھ دیر لگتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا
کہ اس کے نیچے جلائی جانے والی آگ اپنا کام نہیں کر رہی۔ گرم موسم میں
پانی ابلنے میں کم وقت اور سرد موسم میں یہی عمل کچھ زیادہ وقت لیتا ہے۔ اس
عمل کو Latent heat vaporization کہا جاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو
کاغذ لکھ لکھ سیاہ کررہے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس کا کسی پر کچھ اثر نہیں
ہو رہا تو ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہاں بھی Letent heat کا ہی فارمولہ اپلائی
ہوتا ہے ہاں موسمم کی وجہ سے کہیں پانی دیر سے ابلتا ہے اور کہیں جلدی
…!تارکین وطن کی مشکلا ت کے حوالے سے میں اور میرے بہت سے دوستوں نے بہت
کچھ لکھا۔ انفرادی سطح پرکبھی کسی بات کا جواب آگیا اور مسئلہ شاید حل بھی
ہوگیا لیکن اجتماعی طورپر اور مستقل حل کی طرف آج تک کوئی نہیں گیا۔ بیرون
ملک آباد تارکین وطن کو اپنے وطن اوروہاں کے محکموں کے حوالے سے تو بہت سی
شکایات ہوتی ہی ہیں لیکن جس ملک میں وہ آباد ہوتے ہیں وہاں اگر کوئی اونچ
نیچ ہو جائے کوئی واقعہ ہو جائے تو مقامی کمیونٹی کی نفرت کا سب سے پہلے وہ
نشانہ بنتے ہیں لیکن کبھی بھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ ان کا اپنا ملک یا اس
کا سفارتخانہ کبھی ایسی مشکلات میں ان کی مدد کیلئے آیا ہو ۔9 /11اور 7/7
کے بعد کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ یہ پہلی بار ہوا ہےکہ پاکستان کے وفاقی
وزیر داخلہ چوہدری نثار نے فرانس میں ہونے اولے دہشت گردی کے واقعات کے
حوالے سے پاکستانی تارکین وطن کو پیش آنے والے مسائل پر بات کی ہے۔ ان کا
کہنا تھا کہ فرانس اور دنیا میں دہشت گردی کے حالیہواقعات سے بیرون ملک
خصوصاً یورپ میں رہنے والے پاکستانیوں کے لئے مشکلات اور مسائل میں اضافہ
ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وزارت ذداخلہ ، وزارت خارجہ اور ایف آئی اے کے حکام
کو اس سلسلے میں ایک ایسا لائحہ مل اور پالیسی مرتب کرنی چاہئے جس سے
پاکستانی تارکین وطن سے کسی غیر قانونی سلوک پر ان کی مدد کی جاسکے۔ ان کا
کہنا تھا کہ غیرممالک میں بسنے والے ہموطن پاکستان کا اثاثہ ہیں اور انہیں
بلا وجہ کی مشکلات او ر مسائل سے بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔وفاقی وزیر
داخلہ چوہدری نثار علی کا یہ بیان اس لئے بھی خوش آئند ہے کہ انہوں نے محض
بیان جاری نہیں کیا بلکہ بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں کو بھی یہ ہدایت
جاری کیں ہیں کہ ان حالات میں پاکستانیوں کو تمام ممکنہ قانونی معاونت
فراہم کی جائے۔ اس حوالے سے واقعتاً ایک پالیسی اور لائحہ عمل مرتب کرنے کی
ضرورت تھی۔ جہاں چوہدری نثار نے اس مشکل وقت میں تارکین وطن کو یاد رکھا
وہاں ایک اور بہت اچھا کام یہ کیا کہ پیپلزپارٹی کے سابق وزیر داخلہ رحمٰن
ملک کی طرف سے یورپی اور دیگر ممالک سے غیر قانونی تارکین وطن کی حوالگی سے
متعلق کیا گیا معاہدہ معطل کردیا۔سابق وزیرداخلہ نے یورپی اور دیگر ممالک
کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تھا کہ غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کو وہ جس وقت
چاہیں پاکستان بھیج سکتے تھے اور اس معاہدے کی وجہ سے چارٹرڈ فلائٹس کے
ذریعہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے سیکڑوں پاکستانی تارکین وطن کو غیر
قانونی ہونے کی وجہ سے اب تک پاکستان بھیجا جاچکا ہے۔ پاکستا ن کی وزارت
داخلہ نے حال ہی میں غیر قانونی پاکستانیوں کو واپس لینے کا یہ معاہدہ اس
بنیاد پر معطل کیا ہے کہ ان ممالک کے حکام شدت پسندی میں ملوث ہونے کا محض
الزاملگا کر انہیں واپس پاکستان بھجوا دیتے ہیں جبکہ ان کے بارے میں کسی
قسم کا کوئی ثبوت اور نہ ہی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ وزیر داخلہ نے تو
یہاں تک کہا کہ تارکین وطن کے ایسے کسی جہاز کو بھی پاکستان کی سر زمین پر
اس وقت تک نہیں اترنے دیا جائے گا جب تک ان کے بارے میں پاکستانی حکام یہ
تصدیق نہ کرلیں کہ اس پر سوار افراد پاکستانی ہیں اور ان پر لگائے الزامات
درست ہیں وزارت داخلہ کے اس فیصلے سے کم از کم پاکستانیوں سے بھرے ہوئے
چارٹرڈ طیارے جانا بند جائیں گے اور ایسے کئی پاکستانی تارکین وطن جن کو
محض شدت پسندی کا الزام عائد کرکے ڈی پورٹ کردیا جاتا تھا اور انہیں کسی
قسم کی صفائی کا موقع ہی نہیں دیا جاتا تھا اب انصاف مل سکے گا۔ وفاقی وزیر
داخلہ چوہدری نثار کی طرف سے تارکین وطن کی مشکلات کا احساس کرنے پر بیرون
ملک پاکستانی انہیں سراہتے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ تارکین کو
بے شمار مسائل اورمشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور اس وقت ان کی مشکلات بڑھ
جاتی ہیں جب سانحہ فرانس جیسا کوئی واقعہ ہوتا ہے۔ اس وقت بھی برطانیہ اور
دیگر یورپی ممالک میں پاکستانی نفرت کی اس لہر کا شکار ہیں جو کہ فرانس میں
دہشت گردی کے واقعہ کے بعد شروع ہوئی ہے۔ ایسے وقت میں چوہدری نثار کا یہ
بیان تمام تارکین وطن کیلئے حوصلے کا باعث ہے۔ اگرچہ ہم نے تارکین وطن اور
وطن میں آباد ہم وطنوں کے حقوق کے حصول اور تحفظ کیلئے ان کی مشکلات اور
مسائل کے حل کیلئے صفحے کے صفحے کالے کئے اور بظاہراس کا کوئی نتیجہ بھی
نکلتا دکھائی نہیں دیا لیکن سید نذیر گیلانی کی بات یہاں پردوہرائوں گا کہ
پانی کے نیچے آگ لگانے سے پانی فوراًہی نہیں ابل جاتا اسے کچھ وقت لگتا ہے
پھر موسم کی وجہ سے بھی کبھی پانی جلدی اور کبھی دیر سے ابلتا ہے اور
چوہدری نثار علی کا یہ بیان پانی کے ابلنے سے پہلے پانی کی سطح پر ابھرنے
والے بلبلے بھی تو ہوسکتے ہیں۔ |
|