اصغر صبح سویرے بال بچوں کے لیے
روزی کی تلاش میں نکل جاتا اور شام ڈھلے واپس لوٹتا تو کسی اور کام کے قابل
نہ بچتا۔ ظاہر ہے وہ پڑھا لکھا تو تھا نہیں کہ بابو والی ملازمت کرتا اور
ماتحتوں پہ رعب جھاڑتا۔ گھر کے سودے سلف اُن سے منگواتا اور بیگم کے خرچے
اُٹھواتا اور شام کو کسی ٹاک شو پہ اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کامظاہرہ
کرتا۔ وہ غریب تو روز مزدوروں کی پیڑی میں کندھے سے کندھا گھسواتا اور حسبِ
دام کام پہ چلا جاتا۔ کبھی کبھی وہ سوچتا کہ اُس کی زندگی میں کو ئی شب شبا
ہی نہیں۔ کسی کو اسکی اُلجھنوں کا اندازہ ہی نہیں ۔ رجّو پورے سترہ برس کی
ہو گئی تھی اور اُسکے سسرالی چاہتے تھے کہ اب اُسکی رُخصتی ہو جانی چاہیے
مگر اصغر کے پاس ابھی اتنی جمع پونجی بھی نہیں تھی کہ وہ ایسا کر سکے۔
ماسٹر رضوان علاقے کا بھلا آدمی تھا ہر کسی کے مسئلے میں کود جاتا اور حسبِ
توفیق اُسے حل بھی کرانے کی کوشش کرتا، مگر اب زمانہ کافی بدل چکا تھا۔ کسی
کا درد کوئی کیوں کر بھلا لے۔ ہاں اگر کُچھ صلہ ملنے کی اُمید ہو تو لوگ
شاید دلچسپی لیں۔ زخمی سڑک کنارے ایڑیاں رگڑتا رہے پر کوئی اُس کا پرسانِ
حال نہیں بنتا۔ گلی میں غلیظ بدبودار پانی کا چشمہ ہمہ وقت جاری رہتا ہے
مگر کوئی اسکی پرواہ نہیں کرتا کہ اہلِ محلہ کو کس قدر دُشواری کا سامنا ہے؛
سب ایک دوسرے پہ اسکی ذمّہ داری ڈال کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ عام گذرگاہیں
گندگی اور کوڑے دان کا منظر پیش کرتی ہیں مگر ہمیں کیا۔ ہمارے گھر تو صاف
ہیں۔
اشرف اب وکالت میں کافی نام بنا چکا ہے پچھلے ہی ہفتہ اُس نے علاقے کے ایم
پی اے کے لڑکے کو دو لوگوں کو معذور کرنے کے الزام سے با عزّت بری کروایا
تھا۔ بات دُرست بھی تھی کیڑے مکوڑوں کو چا ہیے کہ وہ اپنی حفاظت خود کریں۔
اب بڑی گاڑی سے رینگنے والے کہاں نظر آتے ہیں۔ اشرف کو ایم پی اے صاحب کی
پارٹی سے علاقہ کونسلر کے انتخاب کے لیے ٹکٹ بھی دے دیا گیا ہے۔ وکیل ہونے
کی وجہ سے دلائل ہمیشہ اشرف کی جیب میں ہوتے ہیں اور وہ لوگوں کو قائل کرنے
کی صلاحیت بھی خوب رکھتا ہے۔ بس اب کاہے کی دیر ہے۔ چند دنوں میں اشرف
علاقے کا نقشہ بدل کے رکھ دے گا۔ علاقہ مکین آسودہ اور نہال ہو جائیں گے۔
اصغر کی رجّو خیریت سے رُخصت ہو جائیگی؛ گلیوں سے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر غائب
کر دیئے جائیں گے؛ سڑکیں مرمت کر دی جائیں گی؛ کوئی مریض بنا علاج کے نہیں
رہے گا؛ علاقے کا ہر بچہ مناسب تعلیم حاصل کر پائے گا۔۔۔ اب کئی ماسٹر
رضوان بنیں گے۔ جرائم پیشہ گروہوں کی سرکوبی کی جائے گی اور گداگری کی
حوصلہ شکنی۔صاف پانی کی فراہمی اور نکاسیء آب کا خاطرخواہ بندوبست
کیاجائیگا۔ایسے دعوے اور وعدے نہ جانے کب سے کئیے جا رہے ہیں مگر اُن کی
تعبیر ایک سُہانے خواب کے سوا کچھ نظر نہیں آتی۔
رنگ برنگے جھنڈوں سے پنڈال سج چکے ہیں اور معصوم عوام پھر سے شاطروں کے
شکار کے منتظر ہیں۔اپنے اپنے ترانوں کے ساتھ تبدیلی لانے کے راگ الاپے جا
رہے ہیں اور مخالفین پر طعنے کسے جا رہے ہیں۔ ایک سرکس کا سا سماں ہے چاروں
طرف۔تیر چل رہے ہیں؛پتنگیں اُڑ رہی ہیں؛بلے گھوم رہے ہیں؛ شیر ناچ رہے
ہیں؛سائیکلیں چکر کاٹ رہی ہیں مگر اصغر آج بھی روزی کی فکر میں ہے کیوں کہ
آج عام تعطیل کا اعلان ہے ۔ اگر کام نہ ملا تو شایدآج اُسے اور بچوں کو
بھوکا ہی سونا پڑے ۔ اُسے علم نہیں کہ آج کتنا اہم دِن ہے۔ آج اُس کے ایک
نشان لگانے سے اُسکی تمام فکریں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائینگی۔ مگر اُس جاہل
کی سمجھ میں یہ سب کہاں آنے والا ہے۔حقِ رائے دہی اور آزادیء اظہار تو پڑھے
لکھے لوگوں کے مسائل ہیں۔ اصغر تو بس روٹی اور دوا دارو میں ہی پورا ہے۔ |