محبت پھول جیسی ہے ( گولڈن میموری )
(Muhammad Shoaib, Faisalabad)
|
کچھ کہانیاں کب شروع ہوتی ہیں
اور کب ختم بھی ہوجاتی ہیں ۔ بھنک تم ہونے نہیں دیتیں۔ دانیال اور کرن کی
کہانی بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ یونیورسٹی میں شروع ہونے والی محبت کی یہ کہانی
یونیورسٹی میں ہی دم توڑ دیتی ہے۔ زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کرنے والے
کیسے ایک دوسرے سے انجان بن جاتے ہیں ۔اس کہانی میں صاف دیکھا جاسکتا ہے۔
"محبت پھول جیسی ہے (گولڈن میموری)" لکھنے کا مقصد صرف اور صرف اپنے تین
ماہ کے سفر پر نظر ثانی کرنا تھا۔آئیے اس سفر کو شروع کرتے ہیں
جولائی کے آخری ایام تھے ۔ گرمی اپنے زور پر تھی۔ ایسے میں کچھ کام کرنے کو
دل چاہے ۔۔۔ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ میں ویب سائٹ کو سرچ کر رہا تھا تب
میرے سامنے ہماری ویب سائٹ کاناول کا پیج اوپن ہوا۔ کچھ ناول کو پڑھا اور
یہ جان کر خوشی ہوئی یہاں نئے ٹیلنٹ کو پروموٹ کیا جاتا ۔ اس ویب سائٹ پر
سب سے پہلے جو میں نے ناول پڑھا وہ" کشور بقر کا نور اعلی نور" تھا۔تب میرا
ذہن اپنے ناول کی طرف گیا ۔ جو تقریباً مکمل ہو ہی چکا تھا۔ میں نے فوراً
اس کی پہلی قسط کو ای میل کردی۔ یہ تو آپ سب جانتے ہیں انتظار بہت مشکل
ہوتا ہے۔ میرے لیے وہ لمحہ کیسے گزرا ، میں جانتا ہوں۔ یہی سوچتا رہتا کہ
جانچ پڑتال میں کہیں سیلیکٹ نہ ہوا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ایک امید تھی۔
خدا خدا کرکے وہ دن آیا جب میرے ناول کی پہلی قسط ہماری ویب پر شائع ہوئی۔
2 اگست 2015 بروز اتوار ۔۔۔ یہ وہ دن ہے جب اس سفر یہ شروعات ہوئی تھی اور
یہ سفر تین ماہ جاری رہا۔ پورے تین ماہ بعد یہ سفر اپنے انجام کو پہنچ گیا
یعنی میرا ناول "محبت پھول جیسی ہے" کی تیس اقساط مکمل ہوگئیں۔
اس ناول میں کئی ایسے اقتباس ہیں جو بذات خود مجھے پسند ہیں۔ آئیے ایک بار
پھر اپنی میموری میں ان لمحات کو تازہ کریں۔
اقتباس#1
تب میں اچانک ایک جسم سے ٹکرائی اور گرنے ہی والی تھی کہ اس نے مجھے سنبھال
لیا۔ یہ کیا۔۔۔ یہ تو دانیال تھا۔ وہ بھی میری طرح بارش میں مکمل طور پر
بھیگا ہوا تھا۔ اس کے بالوں سے پانی کی بوندیں میرےچہرے پر گرنے لگیں۔ وہ
ابھی بھی میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامے ہوا تھا۔
"تم ٹھیک ہو؟"
"ہاں۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔ تمہارا شکریہ!" میں شرماتے ہوئے جواب دیتی ہوں۔ آج
سے پہلے شائد ہی میں اتنی شرمائی ہونگی۔ تب اچانک آسمان سے ایک زور دار گرج
کی آواز آتی ہیں۔ یہ آواز اتنی زور دار ہوتی ہے کہ آسمان میں اڑتے پرندے
بھی ڈر جاتے ہیں۔ ہوا کے اوسان بھی خطا ہوجاتے ہیں۔ درخت ایسے سہم جاتے ہیں
کہ کبھی جھومے ہی نہیں اور میں بھی اس کا بازو مضبوطی سے پکڑلیتی ہوں۔ اس
کے بازو کو پکڑ کر جیسے میرا سارا خواف غائب ہوگیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میں
کسی ایسے کی پناہ میں آگئی ہوں جو میرے آگے سے ، میرے پیچھے سے ، میرے
دائیں سے ،میرے بائیں سے غرض ہر جگہ سے مجھ پر سایہ کیے ہوئے ہو
اقتباس#2
غریب آدمی نہ تو پڑھ سکتا ہے اور نہ ہی جی سکتا ہے بلکہ یون کہنا بجا ہوگا
کہ اب آسانی سے مر بھی نہیں سکتا۔ مرنے والا خود تو مر جاتا ہے مگر اپنے
گھر والوں کو ایک امتحان میں چھوڑ جاتا ہے
اقتباس#3
"مطلب صاف ہے۔۔۔ جس انٹرسٹ کی تم بات کر رہی ہو۔۔۔ یہ ہم جیسے مڈل کلاس
لڑکوں کا شوق نہیں ہوتا۔ ہمیں تو اپنی زندگی سے فرصت مل جائے وہی بہت ہے۔
یہ رشتے تو ان لوگوں کے لئے ہیں جن کو زندگی نے آرام و سکون مہیا کیا ہوتا
ہے۔ اسی لئے وہ وقت گزارنے کے لئے ایسے رشتوں کی تلاش میں رہتے ہیں جبکہ
ہماری زندگی مسائل سے شروع ہو کر مسائل پر ختم ہوتی ہے۔ ایک امتحان سے
نکلتے نہیں دوسرے کا سامنا ہوجاتا ہے۔
اقتباس#4
"لیکن میری بات سنو۔۔۔دانیال۔۔۔محبت کو حاصل نہیں کیا ساسکتا۔"
"صحیح کہا تم نے۔۔۔ محبت کو حاصل نہیں کیا جاسکتا مگر پایا تو جاسکتا
ہے۔۔۔" وہ مسکراتے ہوئے کہتا ہے
"کیا مطلب ہے تمہارا؟" حیرانی سے پوچھتی ہوں
"مطلب صاف ہے۔۔۔ محبت کو پانا اور حاصل کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔۔"
کوئی فرق نہیں ہے۔۔۔"
"فرق ہے۔۔کرن۔۔۔ حاصل کرنے میں انسان اپنی جائز نا جائز ساری طاقتیں لگا
دیتا ہے۔ حاصل کرنا ایک ضد ہے اور اس ضد کو پورا کرنا محبت کی توہین ہے
جبکہ۔۔۔ پانا ۔۔۔ محبت کا عروج ہے۔ یہ ایک امید ہے جس کو پورا کرنے کے لئے
اپنی طاقتیں صرف کرنا بے عقلی نہیں ۔" وہ میری طرف دیکھ کر کہتا ہے۔
اقتباس #5
"غلط فہمیاں، دوریاں، جھگڑے، روٹھنا، منانا، ہنسنا، مسکرانا، رونا رلانا سب
محبت کا حصہ ہیں۔ محبت یہ نہیں کہ جو چاہا ، وہی ملے۔ جس کو میں محبت کروں،
وہ بھی مجھ سے محبت کرے۔ ایسے تو ادلے کا بدلہ ہوا۔ یہ تو ایک طرح کی
خریداری ہوئی اور جبکہ محبت خریدی یا بیچی نہیں جاتی۔ یہ ایک احساس کا نام
ہے۔ جس کو محسوس کرنا، سمجھنا اور پھر اس کا سامنا کرنا محبت کہلاتا ہے۔
محبت کا اظہار لازمی ہونا چاہئے کیونکہ کہتے ہیں نا ۔۔۔ محبت مشک کی طرح
ہوتی ہے۔ جیسے مشک کو تھیلی میں بند کر کے رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا
بالکل اسی طرح محبت کو بھی اپنے دل میں چھپا کر رکھنے سے کچھ حاصل نہیں
ہوتا۔"
اقتباس#6
ان کی باتیں حقیقت تھیں مگر اس وقت مجھے زہر لگ رہی تھیں۔ دل چاہ رہا تھا
کہ خود کو مار دوں۔ کیوں محبت کو سمجھ نہ پائی؟ کیا واقعی اس کی محبت ایک
فریب تھی۔ کیا واقعی اس کے لئے میں ٹاےم پاس تھی؟ کیا حقیقت میں اس نے مجھے
محبت کی راہ میں اکیلا چھوڑ دیا ہے؟ کیا س نے واقعی مجھے دھوکہ دیا ہے؟ کیا
محبت ایسی ہوتی ہے؟ کیا محبت میں صرف دھوکہ ملتا ہے؟
اقتباس#7
پیار۔۔۔۔ محبت ۔۔۔۔۔ عشق ۔۔۔۔۔ وفا ۔۔۔۔۔ سب بے معنی ہوگئے۔ جس شخص سے ان
الفاظ کی پہچان حاصل کی، آج وہی ان الفاظ کو بے معنی کر گیا۔ جس کو میں نے
زندگی کی طرف لانے کی ہر سو کوشش کی، آج وہی زندگی میں کھو کر مجھے بھول
گیا۔ مجھے دگا دے گیا، اپنی کرن کو۔۔۔۔ اپنی محبت کو۔۔۔ سپنے محبت کے دکھا
کر کیوں ہوا دے گیا؟
اقتباس #8
آج کے بعد تم مجھ سے ملنے کی کوشش مت کرنا اور نہ ہی مجھ سے بات کرنے کی۔
میرے اور تمہارے راستے جدا جدا ہیں۔ ہمارے درمیان کبھی کوئی رشتہ جنم نہیں
لے سکتا۔ تمہاری دنیا الگ ہے میری دنیا الگ۔ تم محبت کے سہارے جی سکتی ہو
مگر میں نہیں۔ مجھے زندگی میں آگے بڑھنا ہے۔ کچھ کرکے دکھانا ہے۔ میری
زندگی میں محبت نامی کسی چیز کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ تم سے محبت کرنا میری
سب سے بڑی بھول تھی یا پھر یوں کہوں کہ میں نے تم سے کبھی محبت کی ہی نہیں۔
تم میرے لئے ہمیشہ سے ایک اجنبی تھی اور اجنبی رہو گی۔ خیر بات جو بھی ہو
میں اس محبت نامی بھول کو سدھارنا چاہتا ہوں، اسی لئے تم سے جڑے ہر رشتے کو
توڑتا ہوں۔ تم سے بندھے ہر ناطے کو بھولنا چاہتا ہوں۔ اپنے رب سے یہی دعا
کرتا ہوں کہ آج کے بعد تمہارا چہرہ مجھے کبھی دیکھنا نصیب نہ ہو اور نہ ہی
کبھی تم میرے راستے میں آؤ۔ تمہارے لئے بھی یہی بہتر ہوگا کہ تم مجھے بھول
جاؤ اور اپنی نئی زندگی شروع کرو۔
اقتباس #9
"بہت برے ہو تم۔۔۔ تم نے میری محبت کا مذاق اڑایاہے، میرا دل توڑا ہے تم
نے۔ کبھی خوش نہیں رہ پاؤ گے۔ کبھی خوشی تمہارا مقدر نہیں بنے گی۔ ایک ایک
پل خوشی کے لئے تم بھی اسی طرح ترسو گے جس طرح آج میں ترس رہی ہوں۔ تمہیں
دلی خوشی کبھی نصیب نہیں ہوگی۔ جس طرح آج میں تڑپ رہی ہوں۔ ایک دن آئے گا
تم بھی اسی تڑپ سے گزرو گے۔ کبھی خوش نہیں رہ سکو گے۔ جس طرح تم نے میرا
سکون برباد کیا ہے۔ زندگی تمہارا سکون برباد کر دے گی۔ آج میری آنکھوں میں
آنسو ہیں کل تمہاری آنکھوں میں آنسو ہونگے۔ تم نے میری محبت کو پامال کیا
ہے، میری عزت کو مجروع کیا ہے۔ میں تمہیں کبھی نہیں بخشوں گی۔کبھی معاف
نہیں کروں گی۔"
لکھنا تو اور بھی بہت کچھ چاہتا تھا مگر کیا کروں ۔۔۔۔ حالات کو بھی دیکھنا
پڑتا ہے اور وقت کو بھی۔ اسی لئے بس یہ 9 اقتباسات ہی لکھ پایا۔ امید ہے آپ
سمجھیں گے۔ مگر ہاں! آپ بھی اپنی پسندیدہ لائنیں کومنٹ بکس میں لکھنا مت
بھولیں۔ اور اب میں اپنے تمام قارئین کا مشکور ہوں۔جنہوں نے مجھے اس قابل
سمجھا کہ اپنی قیمتی رائے دیں۔میں مس فرح، عظمی، فائضہ عمیر ،شاہد، ارمان
کا مشکور ہوں جنہوں نے اپنی قیمتی رائے سے میری ہمت باندھی۔سب سے زیادہ میں
اپنے دوست رضوان کا شکرگزار ہوں، جس نے ہر لمحہ میرے کام کو پسند کیا اگرچہ
اس نے میرا ناول مکمل نہیں پڑھا۔ اور پھر اپنی کزن کو کیسے بھول سکتا ہوں۔
جس نے الف سے ے تک ایک ایک حرف پڑھا۔ اور جو جو خامیاں تھی اس سے مسلسل
آگاہ کرتی رہی۔
آپ کی دعاؤں کی وجہ سے ہی محبت پھول جیسی ہے نہ صرف ہماری ویب پر قابل
ستائش رہا بلکہ ایک دوسری ویب پر بھی بہت پسند کیا گیا۔آپ کی دعاؤں سے ہی
میرا دوسرا ناولٹ "آزاد غلام" بھی پبلش ہو چکا ہے۔وہ بھی بہت پسند کیا
جارہا ہے۔ سب سے آخر میں ہماری ویب اور آپ سب کا ایک بار پھر شکریہ ، اس
ناچیز کی معمولی سی کوشش کوپسند کرنے کے لئے۔
اگر کچھ برا لگا ہو تو معافی کا طلب گار ہوں
|
|