کیا میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
منانا بدعت ہے؟ :-
جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت اور اُس کے فضائل و
ثمرات کے بیان کے بعد اب ہم زیر نظر موضوع کی مناسبت سے تصورِ بدعت کے
مختلف پہلوؤں پر غور کریں گے۔ بہ طورِ خاص اس بے بنیاد تصور کا اِزالہ کریں
گے کہ ہر وہ کام جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہیں تھا
اور نہ خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے زمانے میں اس کا ثبوت
ملتا ہے، اسے اگر بعد میں کیا جائے تو قطعِ نظر اچھائی یا برائی کے۔ وہ
بدعت (یعنی نیا کام) ہونے کی بناء پر کلیتاً ناجائز اور حرام تصور ہوگا۔
ذیل میں اِس خود ساختہ تصور کو قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں
پرکھا جائے گا۔ نیز یہ حقیقت سمجھنے کی کوشش کی جائے گی کہ جشنِ میلاد ایک
مشروع، مباح اور جائز عمل ہے۔
بدعت کا لغوی مفہوم:-
’’بدعت‘‘ کا لفظ بَدَعَ سے مشتق ہے۔ اس کا لغوی معنی ہے :
’’کسی سابقہ مثال کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا اور بنانا۔‘‘
1۔ ابن منظور افریقی (630۔ 711ھ) لفظِ بدعت کے تحت لکھتے ہیں :
أبدعت الشيء : اخترعته لا علي مثال.
’’میں نے فلاں شے کو پیدا کیا یعنی اُسے بغیر کسی مثال کے ایجاد کیا۔‘‘
ابن منظور، لسان العرب، 8 : 6
2۔ حافظ ابن حجرعسقلانی (773۔ 852ھ) بدعت کا لُغوی مفہوم بیان کرتے ہوئے
لکھتے ہیں :
البدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق.
’’اَصلِ بدعت یہ ہے کہ اُسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو۔‘‘
1. عسقلاني، فتح الباري، 4 : 253
2. شوکاني، نيل الأوطار شرح منتقي الأخبار، 3 : 63
معنی بدعت کی قرآن حکیم سے توثیق:-
قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر لفظِ بدعت کے مشتقات بیان ہوئے ہیں جن سے
مذکورہ معنی کی توثیق ہوتی ہے۔ صرف دو مقامات درج ذیل ہیں :
1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان بغیر کسی مثالِ سابق کے پیدا فرمائے، اس
لیے خود کو بدیع کہا۔ فرمایا :
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ
لَهُ كُن فَيَكُونُO
’’وہی آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے، اور جب وہ کسی
چیز (کے ایجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے : تو
ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہےo‘‘
البقره، 2 : 117
2۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا :
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.
’’وہی آسمانوں اور زمین کا مؤجد ہے۔‘‘
الأنعام، 6 : 101
درج بالا آیات سے ثابت ہوا کہ کائناتِ اَرضی و سماوی کی تخلیق کا ہر نیا
مرحلہ بدعت ہے اور اِسے عدم سے وجود میں لانے والی ذاتِ باری تعالیٰ
’’بدیع‘‘ ہے۔
بدعت کا اِصطلاحی مفہوم:-
اہلِ علم کے نزدیک بدعت کی اِصطلاحی تعریف درج ذیل ہے :
1۔ اِمام نووی (631۔ 677ھ) بدعت کی تعریف اِن الفاظ میں کرتے ہیں :
البدعة هي إحداث مالم يکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’بدعت سے مراد ایسے نئے کام کی ایجاد ہے جو عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم میں نہ ہو۔‘‘
نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 22
2۔ شیخ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ (736۔ 795ھ) بدعت کی اِصطلاحی تعریف
درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں :
المراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدل عليه، وأما ما کان له
أصل من الشّرع يدل عليه فليس ببدعة شرعاً، وإن کان بدعة لغة.
’’بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو
اس پر دلالت کرے، لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً
بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہوگا۔‘‘
1. ابن رجب، جامع العلوم والحکم في شرح خمسين حديثاً من جوامع الکلم : 252
2. عظيم آبادي، عون المعبود شرح سنن أبي داود، 12 : 235
3. مبارک پوري، تحفة الأخوذي شرح جامع الترمذي، 7 : 366
حافظ ابنِ حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیّئہ کی وضاحت
کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن في الشّرع فهي حسنة، وإن کانت
مما تندرج تحت مستقبح في الشّرع فهي مستقبحة.
’’تحقیق یہ ہے کہ اگر بدعت کوئی ایسا کام ہو جو شریعت میں مستحسن اُمور میں
شمار ہو تو وہ حسنہ ہے اور اگر وہ شریعت میں ناپسندیدہ اُمور میں شمار ہو
تو وہ قبیحہ ہوگی۔‘‘
1. عسقلاني، فتح الباري، 4 : 253
2. شوکاني، نيل الأوطار شرح منتقي الأخبار، 3 : 63
اِن تعریفات سے واضح ہوتا ہے کہ ہر نئے کام یعنی بدعت کو محض نیا کام ہونے
کی وجہ سے مطلقاً حرام یا ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اُس کے جواز یا
عدمِ جواز کو پرکھنے کا پیمانہ یہ ہے کہ اگر وہ نیا کام شریعت میں مستحسن و
مباح ہے تو اُسے بدعتِ حسنہ کہیں گے اور اگر وہ نیا کام شریعت میں غیر
مقبول و ناپسندیدہ ہو تو اُسے بدعتِ سیئہ یا بدعتِ قبیحہ کہیں گے۔
اِس اُصولی بحث کے بعد یہ اَمر واضح ہو گیا کہ جشنِ میلادالنبی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم اگرچہ قرونِ اُولیٰ میں اِس شکل میں موجود نہیں تھا جس ہیئت
میں آج موجود ہے، لیکن چوں کہ قرآن حکیم کی تلاوت، ذِکرِ اِلٰہی، تذکارِ
رسالت، ثنا خوانی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صدقہ و خیرات کرنا،
فقراء و مساکین کو کھانا کھلانا جیسے اَعمال اِس جشن کے مشتملات ہیں، اور
اِن میں سے کوئی اَمر بھی شریعت میں ممنوع نہیں، لہٰذا یہ ایک جائز، مشروع
اور مستحسن عمل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سابقہ اَدوار کے لوگ اپنے رسوم و رواج
اور ثقافت کے مطابق نعمتِ عظمیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملنے کے دن شکرِ
اِلٰہی بجا لاتے تھے، جب کہ موجودہ دور میں جس طرح زندگی کے ہر گوشہ میں
تبدیلی رُونما ہوئی ہے اُسی طرح جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
منانے کے اَطوار بھی تبدیل ہوئے ہیں۔
جاری ہے--- |