واقعہ قلم و قرطاس، رسول خدا صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کا آخری خطبہ اور رحلت
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مزاج کی ناسازی میں روز بروز اضافہ ہوتا
چلا جا رہا تھا۔ علالت کے دوران آنحضرت ”بقیع“ کی جانب تشریف لے گئے اور جو
لوگ وہاں ابدی نیند سو رہے تھے ان کی طلب مغفرت کے بعد حضرت علی علیہ
السلام کی جانب رخ کیا اور فرمایا کہ جبرئیل سال میں ایک مرتبہ مجھے قرآن
پیش کرتے تھے لیکن اس مرتبہ انہوں نے دو مرتبہ قرآن پیش کیا ہے۔ اس کی وجہ
اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتی کہ میری رحلت قریب ہے۔ اس کے بعد آپ نے
فرمایا کہ”اے علی مجھے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ دنیا کے خزانوں، اس کی
جاویدانی زندگی اور بہشت کے درمیان میں سے کسی کا انتخاب کرلوں۔ میں نے ان
میں سے بہشت اور دیدار پروردگار کو چن لیا ہے۔“
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بستر علالت پر فروکش اور انتہائی اشتیاق کے
ساتھ فرمان حق کا انتظار فرما رہے تھے لیکن یہ اشتیاق آنحضرت صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کو امت کی ہدایت کے خیال اور اس کے درمیان اختلاف کی وجہ سے فتنہ
پیدا کرنے کے اندیشے سے نہ روک سکا۔ صحابہ میں سے بعض برگزیدہ حضرات آپ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عیادت کےلئے حاضر ہوئے ان سے رسول خدا صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے یہی ارشاد فرمایا کہ ”قلم و دوات لے آؤ تاکہ میں تمہارے لیے
ایسی چیز لکھ دوں جس سے تم کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ اس پر حضرت عمر رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے کہا کہ” رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر توبہ نعوذباللہ
مرض کا غلبہ ہے قرآن تو ہمارے پاس ہے ہی۔ ہمارے لیے یہی کتاب اللہ کافی ہے۔
حاضرین میں سے بعض نے ان کے نظریئے سے اختلاف کیا اور بعض ان کے جانبدار
ہوگئے۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ان کی یہ جسارت و بے باکی سخت
پریشان خاطری کا باعث ہوئی اور آپ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ ”میری
نظروں سے دور ہو جاؤ۔
بعض صحابہ کی اعلانیہ مخالفت نے اگرچہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو
وصیت لکھنے سے باز رکھا لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا مدعا
دوسرے طریقے سے بیان کر دیا٬ تاہم امت پر اتمام حجت کے لئے آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم شدید بخار میں مبتلا ہونے اور درد و تکلیف کے باوجود مسجد
کی جانب روانہ ہوئے اور وہاں منبر پر تشریف فرما ہو کر آخری مرتبہ لوگوں سے
خطاب فرمایا۔
”اے لوگوں! میں تمہارے درمیان دو گراں بہا چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ ان میں
سے ایک کلام اللہ ہے اور دوسرے میرے اہل بیت۔“جب تک تم ان دونوں کے ساتھ
منسلک رہو گے کسی طور بھی گمراہ نہ ہو گے اور اگر تم نے ان میں سے ایک کو
بھی چھوڑ دیا، ہلاکت و بدبختی تمہار مقدر ٹھہرے گی۔
بالآخر اس سفیر حق کی روح مقدس 63 سالہ پر جدوجہد زندگی بسر کرنے کے بعد
بروز ہفتہ28 صفر 11 ہجری کو اس وقت جب کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا
سر مبارک حضرت علی علیہ السلام کی آغوش میں تھا، عالم ملکوت کی جانب پرواز
کر گئی۔ (ارشاد مفید ص ۱۰۰، ۱۰۱)
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے آپ کے جسد پاک کو غسل دیا اور کفن
پہنایا۔ اس کے بعد آپ کے چہرے مبارک کو کھول دیا۔ اگرچہ آنکھوں سے آنسو
جاری تھے مگر اسی حالت میں آپ نے فرمایا کہ”یا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ آپ کی
رحلت کے باعث نبوت، وحی الٰہی اور آسمانی پیغامات کی آمد کا رشتہ منقطع
ہوا۔ اگرچہ آپ نے ہمیشہ ہمیں صبر کی تلقین کی اور عجلت و بے تابی سے منع
فرمایا مگر آج صبر و تحمل کا یارا نہیں۔ بے اختیار ایسے آنسو بہے چلے جا
رہے ہیں کہ ان کا سر چشمہ خشک ہوگیا۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۳۳۵)
حضرت علی علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز جنازہ پڑھائی۔
اس کے بعد اسی حجرے میں جہاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت ہوئی
تھی آپ کے جسد پاک کو سپرد خاک کر دیا۔ (ارشاد مفید ص ۱۰۱)
خداوند و ملائکہ اور کل مومنین کی طرف سے آپ پر اور آپ کے اہلبیت پر ہزاروں
لاکھوں سلام۔
تمت بالخیر
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی۔ |