تاروں کے قافلوں کو میری صدا درا ہو !

صحرا کی تپتی دھوپوں میں گلگت کی کٹھن شاہراہوں میں
کشمیر کی اونچی فضاؤں میں سرحد کے گرم کوہساروں میں
جب گونجی صداۓ قرآنی میرے دل سے صدا یہ آئ ہے
میری ماں تیری رب سے یاری رہے
اور ترے اجر زیادہ ہوں...

غفلت کی کہر میں ڈوبے ہوۓ ایک روشنی پھوٹتی پائی ہے
جب خانہ دل آباد ہوا تب دل کی فصل لہرائی ہے
جب چھٹتے گئے سب اندھیارے میرے دل سے صدا یہ آئ ہے
میری ماں تیری رب سے یاری رہے اور تیرے اجر زیادہ ہوں

طوفان کئی اٹھتے ہی رہے اپنے بھی زخم لگاتے رہے
بیگانے تہمتیں دھرتے رہے کئی جام زہر کے بھرتے رہے
تیرا عزم مصمم دیکھا تو میرے دل سے صدا یہ آئی ہے
میری ماں تیری رب سے یاری رہے
اور ترے اجر زیادہ ہوں ....

ہم پھول تیرے گلشن کے ہیں ہم جاری تیرا صدقہ ہیں
ہم تیرا عزم نبھائیں گے قران کے دیپ جلائیں گے
معصوم یہ جذبے بولے تو میرے دل سے صدا یہ آئ ہے
میری ماں تیری رب سے یاری رہے
اور تیرے اجر زیادہ ہوں ....
غفلت کی کہر میں ڈوبے ہوۓ ایک روشنی پھوٹتی پائی ہے
جب خانہ دل آباد ہوا تب دل کی فصل لہرائی ہے
جب چھٹتے گئے سب اندھیارے میرے دل سے صدا یہ آئ ہے
میری ماں تیری رب سے یاری رہے اور تیرے اجر زیادہ ہوں
پرجوش آواز میں ترانہ پڑھتی طالبات کو دیکھ کر ہیڈ اف جامعہ ،محترمہ جان جی کی آنکھیں جانے کیوں آج نم ہوگئیں ، جب وہ سٹیج پر تشریف لائیں تو تمام طالبات اور اساتذہ نے انتہائی مودب طریقے سے خاموشی اختیار کرلی . "پیاری بچیوں ! " جان جی کی مدھر آواز گونجی تو ہزاروں کے جلسے نے بیک آواز کہا "جی جانجی؟" آج میں تم لوگوں سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں یہ جو ہر سال ہم سالانہ اجلاس کرتے ہیں اور یہ جو تم اتنی دل کی گہرائیوں سے یہ نظم پڑھتے ہو تو اسکا مقصد معلوم ہے؟ " سب خاموش رہے " ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات عروج پر ہیں تم لوگوں کو کیا محسوس ہوتا ہے کہ تم جس راستے پر چل نکلی ہو یہ بہت آسان ہے؟ لوگ کھڑے کھڑے تمھیں دہشتگرد اور بنیاد پرست قرار دینگے ، اسلام کی بات کر کے تو دیکھو ایمان کا نام لیکر تو دیکھو ! " شفیق مسکراہٹ میں رنج کی ہلکی سی آمیزش ہوئی تھی طالبات اور اساتذہ اپنی جان سے پیاری استاد کی تکلیف پر مچل کر رہ گئیں مگر ادب کا تقاضہ تھا کہ خاموشی سے بات کے مکمل ہونے کا انتظار کیا جاۓ ! "ایمان کے راستے پر چلنا بہت مشکل اور پر خطر ہے ، جو چل پڑے ہیں ذرا ان سے پوچہ کے تو دیکھو کبھی ،
زخم رہبر بھلا ہو ترے اشک کا
میں تو چلتا رہا موتی چنتا رہا
آنسوؤں کا نمک جانجی کے گلے میں گھلا تھا اور ساری فضا میں پھیل گیا تھا ... "میری شہزادیو ! ہمارے نبی سرور کونین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آسانیاں ہمیں دی ہیں ان کے لیے آپ نے کیا دکھ اٹھاے؟ کیا مشقّتیں جھیلیں؟ کوئی سمجھ سکتا ہے ؟ اگر نہیں تو بس اتنا ہی سوچ لے کہ جس پر الله اور اسکے فرشتے درود بھیجتے ہیں وہ کوئی تو کمال کر گیا ہوگا ناں؟ ہماری زندگی میں تو بس عیاشی باقی رہ گئی ہے اور صبر کس چڑیا کا نام ہے یہ ہم جان ہی نہیں سکتے ! ہم تو ایذا کے سارے طریقے سوچنے کے بعد بدلے کے تمام قوانین پڑھنے کے بعد جب ہار جاتے ہیں اور بے بس ہوجاتے ہیں تو صبر کر ہی لیتے ہیں ! کیوں ؟" جانجی نے مسکراتی نظروں سے مجمع پر نظر ڈالی سب خفت زدہ چہرے کے ساتھ مسکرا دیے ، بات تو سچ ہی تھی آج صبر کے معنی یہی ہیں ! " لیکن میری بیٹیوں! سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ وہ کیا اوصاف و کردار ہوتے ہیں کہ الله خود بھی درود بھیجتا ہے اور اپنے بندوں سے بھی بھیجنے کا کہتا ہے؟ " جانجی پانی کا گلاس ہاتھ میں لیکر دوبارہ مخاطب ہوئیں پھر پانی پیا اور بات کو وہیں سے جوڑا کہاں سے ٹوٹی تھی . "جو تمام زمانے کے لئے معلم بنا کر بھیجے گئے تھے انسانوں نے تو انکو بھی نہیں بخشا اور وہ پھر بھی دعائیں ہی کرتے رہے نا اہل امت کے لئے
کبھی اے عنایت کم نظر! تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسم رخ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا !!!
اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارثوں کی بات کی جاۓ ؟ " جانجی کی بات پر سب مسکرا اٹھے بھلا نبی پاک کے وارثوں کا ذکر آتا اور جان جی کا ذکر نہ آتا ؟ " آج میں تمھیں یہ بتاؤں گی میری بیٹیوں کہ جانجی کو جانجی بنایا کس نے؟ جان جی کی کہانی تمھیں بس اتنا ہی پتا ہے نہ کہ اس نے دین کی خاطر اپنا گھر بار رشتےدار سب چھوڑ دیے، آج اسکا کوئی نہیں سواۓ تم سب کے ! مگر کیا تم لوگ جانتے ہو کہ جانجی کا تعلق کہاں سے تھا؟ وہ کون تھی؟ اور یہاں تک کیسے پہنچی؟" سب دم بخود سے انہیں ہی دیکھ رہے تہے یہ تو وہ باب تھا جسکو کھولنے کی آرزو سب کے دل میں تھی مگر کھول دینے کی جسارت کسی میں نہیں !
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
" انیتا ! تمہیں معلوم ہے ، اردو کی نئ ٹیچر آگئی ہیں ؟ "
انیتا آج دو دن بعد اسکول آئ تو سدرہ نے اسے کلاس روم میں بیٹھتے ہی خبر سنائی .
"نئی ٹیچر؟" خوف اور اکتاہٹ کے ملے جلے تاثر انیتا کے چہرے پر ابھرے ،
"ہممم " سدرہ نے بغور اسکا جائزہ لیا اسکا چہرہ متفکر ہو رہا تھا، اتنی مشکلوں سے تو مس عاصمہ سے کچھ ہم آہنگی ہوئی تھی ! اب نئے سرے سے سب کچھ ! تمام سوالوں کے جواب اور نا پسندیدگی کا سامنا ! ہونہہ ان مسلمانوں کے درمیان رہنا بھی مصیبت سے کم نہیں جانے کب میرے ابّو کا ٹرانسفر یہاں سے ہو گا اور میری جان چھوٹے گی ان سے ) انیتا انتہائی بیزاری سے نئی مس کا انتظار کرنے لگی
تھوڑی ہی دیر میں سنجیدہ اور باوقار سی ہستی دوپٹہ سلیقے سے سر پر جماے ٹیچرز کا مخصوص گاؤن پہنے کلاس میں داخل ہوئیں . قدرے اڈھیرعمر اور سخت مزاج ! یہ پہلا تاثر تھا جو مس شاکرہ کا اسکے دل میں بنا تھا (یہ یقیناً مجھ سے امتیازی سلوک کریں گی ) اسکا یقین اس وقت پختہ ہوگیا جب مس شاکرہ نے گڈ مارننگ کے بجاے السلام علیکم کرنے کو کہا ! ، اور وہ بھی صحیح تلفّظ کے ساتھ ! انیتا دو دن کے بعد آئ تھی اس لئے اسکا تعارف ابھی باقی تھا ، حاضری کے بعد مس شاکرہ نے اسے کھڑا کر دیا ، آپ کا نام انیتا ہے؟ "جی " انیتا نے قدرے گھبراۓ ہوے لہجے میں کہا . "آپکی نظر کمزور ہے؟" " جی ؟" اسنے مزید گھبرا کر حیرت سے پوچھا " اگر آپکی نگاہ کمزور ہے تو پلیز آپ آگے بیٹھا کریں " مس شاکرہ نے کہا تو وہ حیران نظروں سے انھیں دیکھنے لگی ، "مدحت بیٹا! آپکا قد لمبا ہے اور آپ سمجھدار بھی ہیں تو آپ ان کو اپنی جگہ دینگی؟ اپنے کمزور ساتھیوں کا ساتھ دینا اللّہ پاک کو بہت پسند ہے " انکی شفیق مسکراہٹ کے ساتھ ادا کیے گئے جملے نے مدحت جیسی منہ زور اور خودسر لڑکی کو بھی تابعداری سے بات ماننے پر مجبور کردیا "مس ! شی از ناٹ اے مسلم " دبی دبی سی آواز جانے کس سمت سے آئی تھی ، مگر انیتا اپنی جگہ پر دوبارہ بیٹھنے کا سوچنے لگی تھی اسے یقین تھا کہ اب مس شاکرہ کی مہربانیاں ختم ہوجاینگی . مس شاکرہ کا چہرہ لمحے بھر کو سرخ ہوا اور پھر دوبارہ مدھم سی مسکراہٹ واپس آگئی "تمام ہم جماعت برابر ہیں جو باصلاحیت ہیں انھیں کمزوروں کی مدد کرنا چاہیے اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں اپنے ساتھیوں اور ہمسایوں کے حقوق کا علم ہونا چاہیے ، آپکو معلوم ہے کہ ہم جماعت بھی ہمساے ہوتے ہیں . یہ مس شاکرہ سے انیتا کا پہلا تعارف تھا . اس نے آج تک مسلمانوں کے بارے میں جو کچھ سنا تھا ، وہی دیکھا بھی تھا ،انکا اخلاقی اقدار سے کوئی خاص واسطہ نہیں تھا ، سب ہی اسکے غیر مسلم ہونے پر اس سے کھچے کھچے سے رهتے ، مذہبی تعصب ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا تھا! مگر آج مس شاکرہ نے انوکھی مثال قائم کی تھی! اور پھر انیتا مس شاکرہ کی نرمی ، محبّت اور ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ بہترین انداز تربیت کی قائل ہوتی چلی گئی

انیتا ! یہ کیا لکھا ہے؟ " ایک دن واحد جمع کے ٹیسٹ کی چیکنگ کے دوران مس شاکرہ نے اچانک ہی انیتا کو کھڑا کردیا ، اب انیتا قدرے خود اعتمادی کا مظاہرہ کرنے لگی تھی "مس ! یہ لکھا ہے شاعر _ شعراء ، "اچھا ؟ " مس شاکرہ پر لطف انداز میں مسکرائیں " میں سمجھی یہ شاعد - شعداء لکھا ہے ! " انکے کہنے پر انیتا اپنی غلطی کو محسوس کر کے ہنس پر ، پھر مس نے اسے پیار سے ر اور د کا فرق سمجھایا جو ساری زندگی کے لیے اسے کافی ہوگیا ! مس شاکرہ کا انداز نہایت منفرد تھا وہ کسی کی غلطی نظر انداز نہیں کرتی مگر اس پر گرفت اس طریقے سے کرتی تھیں کہ بچے خود آیندہ وہ غلطی دوبارہ نہ کرتے کلاس میں ایک بچی کی عادت تھی کہ کاپی کے پیچھے نقش و نگار بنا کر بے دریغ صفحات کو پھاڑا کرتی تھی اسکا نام شیریں گل تھا ، ایک دن مس نے اسے کھڑا کر دیا ، شیریں گل ! یہ آپ نے کیا شیریں شیریں گل بناۓ ہوۓ ہیں !! " شیریں حیران ہو کر مس کو دیکھنے لگی اور جب مس نے کاپی کا رخ اسکی طرف کیا تو مختلف پھول اور نقش و نگار دیکھ کر اس سمیت تمام کلاس ہنس پڑی . اس دوران مس شاکرہ مسکراتی رہیں پھر تھوڑی دیر بعد انہوں نے شیریں کو مخاطب کیا " شیریں بیٹا ! ہمیں اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہے ، جو چیز جس مصرف کے لئے ہے اسے اسی مصرف میں لانا چاہیے نا ؟ اگر کسی چیز کا بے جا استمعال ہو تو کیا اس کی پکڑ نہیں ہوگی؟ جبکہ فرمان الہی ہے کہ ، نیکی یا بدی اگر رائی کے دانے کے برابر بھی ہو تو الله پاک روز محشر اسے سامنے لے آئنگے . تو کیا تمہارے پاس کوئی وجہ ہوگی کہ یہ صفحات جو الله نے علم کی باتیں درج کرنے کے لئے تمھیں عطا کیے ہیں وہ تم نے اس طرح کیوں ضائع کر دیے ؟ " تمام کلاس میں ایسی خاموشی تھی کہ اگر سوئی بھی گرتی تو آواز سنائی دیتی . " اگر تمھیں نقش و نگار بنانے کا یا مہندی کے ڈیزائن بنانے کا شوق ہے تو اسکے لئے تمہاری ڈرائنگ بک ہے جسے تم ان کاموں کے لئے استمعال کر سکتی ہو آرام سے ! " شیریں نے نہ صرف اپنی غلطی کا اعتراف کیا بلکہ آیندہ نہ کرنے کا عزم بھی کیا .

اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات تھے جن کی وجہ سے انیتا کے دل میں مس شاکرہ کی عزت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اسکے دل میں جو کدورت اور ناراضگی بھری ہوئی تھی وہ دھیرے دھیرے کم ہونے لگی .

پھر مس شاکرہ کو اسلامیات کا سبجیکٹ پڑھانے کے لئے بھی مقرر کر دیا گیا ،انیتا مس شاکرہ کی محبّت میں اپنا ایتھکس کا پیریڈ چھوڑ کر اسلامیات کا پیریڈ اٹینڈ کرنے لگی . اسکی ہم مذہب ساتھیوں نے کافی سمجھایا مگر اس نے جیسے کچھ ٹھان رکھی تھی ، مس شاکرہ جس طرح قران کا ترجمہ و تفسیر سنایا کرتی تھیں اور اور مختلف انبیاۓ کرام کے قصّے سنایا کرتی تھیں وہ سب اسکے لئے بہت حیرت انگیز تھا ، گو کہ یہ سب اسکی کتابوں میں بھی تھا مگر انتہائی مختلف انداز میں ، آہستہ آھستہ تمام ہم جماعتوں کا رویہ اسکے ساتھ بہتر ہونے لگا تھا وہ سب اسکو اپنے ساتھ لنچ اور مختلف گیمز میں بھی شامل کرنے لگی تھیں .

اسلامیات کے پیریڈ میں مس شاکرہ جن اسلامی حدود یا احکامات کا ذکر کرتیں انیتا خود انکو اسکی عملی تفسیر پاتی تھی ، اس نے پہلی بار مسلمانوں کے بارے میں سنی سنائی باتوں کو غلط پایا تھا . وہ مس شاکرہ کی مدد سے باقاعدہ دین سیکھنے لگی تھی انہوں نے بھی کبھی اسکی حوصلہ شکنی نہیں کی اسکے ہر سوال کا جواب دیا اور اس وقت تک دیا جب تک وہ مطمئن نہیں ہوجاتی .
وہ اکثر اسے اپنے گھر بھی بلا لیا کرتی تاکہ کسی سوال کا تفصیلی جواب دینا ہو تو دیا جاسکے ، یہ بھی ایسا ہی دن تھا بہت ساری باتوں کے دوران انیتا کچھ الجھی الجھی سی لگ رہی تھی مس شاکرہ نے پوچھا تو کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے اپنی عزیز استاد سے ایک انوکھا سوال کر ڈالا ....

اگر کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرے تو آپکے یہاں اسکو کتنی جگہ ملتی ہے؟" مس شاکرہ چند لمحے کے لیے خاموش ہوگئیں سوال ایسا تھا کہ جواب دینا اور اس جواب سے انیتا کا مطمئن ہوجانا دونوں بہت ضروری تہے . تم یہ سوال کسی خاص تناظر میں پوچھ رہی ہو انیتا ؟" جی ہاں" . اس نے سر ہلایا تو "کسی غیر مسلم کا ساتھ دینے پر قران مجید میں آیات بھی موجود ہے ، نو مسلم کی جان و مال دونوں سے مدد کی جاۓگی "ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ انیتا کے چہرے پر بکھر گئی "یہ بات عمل میں ہے مس؟" " میں اپنی حد تک ضمانت دے سکتی ہوں" مس شاکرہ نے برجستہ کہا "آپکو معلوم ہی مس میں ایک مسلمان باپ کی بیٹی ہوں ، میری امی پہلے ہندو تھی انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد میرے والد سے شادی کی تھی، مگر قبول اسلام کے باوجود میرے ابّو کے گھر والوں نے میری امی سے وہ سلوک کیا جس کے کرنے کا حکم کسی غیر مسلم کے ساتھ بھی نہیں ہوگا ! توبہ کے دروازے تو سورج کے مغرب سے نکلنے کے بعد بند ہونگے ناں؟ تو جو پیدائشی مسلمان ہیں انھیں کیا حق پہچتا ہے کہ بعد میں آنے والوں کو جگہ ہی نہ دیں؟ میری امی راتوں کو جاگ جاگ کر روتی تھیں الله سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتی تھیں ، میں نے سنا ہے الله کو آنسو کا وہ قطرہ بہت محبوب ہے جو رات کی تاریکی میں الله کے خوف سے بہہ نکلا ہو ! اور آپ کہتی ہیں کہ جو شخص اسلام قبول کرلے اسکے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور وہ ایسے ہوجاتا ہے جیسے نیا پیدا ہونے والا بچہ؟ آپ کسی حدیث کا حوالہ بھی دیتی ہیں ، مگر میں یہ کیسے مان لوں؟ میں نے تو نئے دین میں داخل ہونے والے کے لئے بہت تنگی دیکھی ہے ، میری امی کی وصیت تھی کہ میں مسلمان رہوں مگر مجھے کوئی شوق نہیں لاوارث ہوکر مرنے کا جیسے میری امی ... " آنسوؤں کا گولہ اسکے حلق میں اٹک گیا اور وہ خاموش ہوگئی مس شاکرہ نے بے اختیار ہی اسکا ہاتھ تھام لیا " بڑے بڑے وارثوں کا مان کرنے والے لاوارث گئے ہیں انیتا ! تمہاری امی کے اعلی مرتبے کو اگر تم جان لو تو سب سے پہلے ان کے پیچھےدوڑ لگادو " "دل تو میرا بھی چاہتا ہے ، میری امی نے اور کوئی خواہش نہیں کی ساری زندگی سواۓ اسکے کہ میں اسلام میں رچی بسی زندگی گزاروں مگر میرے ساتھ جس طرح کا برتاؤ لڑکیاں رکھتی ہیں یہاں وہ مجھے روکتا ہے مسلمان کہلانے سے ، مجھے لگتا ہے میں بھی اپنی امی کی طرح سسک سسک کر دنیا سے چلی جاؤنگی ! انہیں انتہائی بیماری کی حالت میں میرے ابو کے گھر والے میری نانی کے گھر چھوڑ اے تھے میری بھی پرواہ نہیں کی انہوں نے " تاسف اسکے لہجے سے عیاں تھا
"مسلمان صرف الله کا اسرا ڈھونڈتا ہے انیتا !" مس نے نرمی سے اسکا ہاتھ تھپتھپایا
"مس اگر میں مسلمان نہیں تو صرف اس بات پر کہ میں مسلمان نہیں مجھ سے تعصّب رکھنا کسی مسلمان کے لئے ٹھیک ہوگا؟ " اس نے اچانک سر اٹھا کر انکی طرف دیکھا
مس شاکرہ خاموشی سے اسے سن رہی تھیں " میں تو اپنے کسی عمل کو کسی مسلمان کے عمل سے مختلف نہیں پاتی، ہم اپنے عظیم لوگوں کی مورتی بناتے ہیں آپ عظیم لوگوں کی قبریں سجاتے ہیں، شرک کے جو معنی آپ بتاتی ہیں اور جو مطلب آپ سمجھاتی ہیں اسکے مطابق تو کسی ہمساۓ سے بھی یہ سوچ کر ملنا کہ آج تعلقات بنائیں گے تو کل فایدہ ہوگا .. شرک ہوا ناں؟؟ یعنی الله کی ذات کے سوا کسی اور سے کوئی امید رکھنا ! میں نے تو اپنی ہم جماعتوں کو معمولی سے ربر پر لڑتے دیکھا ہے ، تو اخلاق حسنہ کے طریق پر تربیت کن لوگوں کی ذمہ داری تھی ؟ جو احکامات آپ بتاتی ہیں کیا وہ صرف آپ کے آخری نبی(صلی الله علیہ وسلم ) کے کرنے کے کام تہے؟ جو سبق آپ پڑھاتی ہیں اس میں تو پیغام محبّت پھیلانا ہے ، سب کے لئے ایک الله کی محبت میں بندھ جانا کافی ہے تو پھر یہ آپس کے تفرقات جو خود مسلمانوں میں ہیں انکا کیا مقصد؟ یہ تو ایک الله ہی کو مانتے ہیں ناں ؟ یا پھر میں یہ سمجھوں کہ مسلمان نام ہی دل میں تعصب کو پالنے والوں کا ہے ! چاہے غیر مسلموں سے پالے یا مسلمانوں سے پالے !"
" اسکے الفاظ تلوار کی طرح تھے جو مس شاکرہ کے کلیجے کو کاٹتے جارہے تھے
( یا الله مجھے تیرے دین کے کامل ہونے پر کوئی شک نہیں ، پر تیرے بندوں نے ترے دین کی شکل اس قدر مسخ کردی ہے کہ ہر کوئی ہم سے شاکی ہوگیا ہے ، میرے نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی سنت کو کروڑوں سلام مگر انکی امت اس لایق کہاں ہے کہ انکی سنتوں کو زندہ کر سکے، لوگوں کی اٹھنے والی انگلیوں کا رخ موڑ سکے ؟ اے میرے مالک تو بزرگ و برتر ہے تیری عظمتوں کا واسطہ اپنے دین کی طرف اٹھنے والی اانگلی کا رخ موڑنے کی صلاحیت دینا اپنی اس گنہگار بندی کو ! مدد یا رب العالمین مدد ! )اور جب مدد الله پاک سے مانگی جاۓ تو کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے دین پر مدد طلب کرنے والوں کی مدد نہ کرے؟
"یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ جو سنتیں اور صفتیں آپ اپنے نبی کی بتاتی ہیں انکا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو اور یہ سب خود کو جھوٹی تسلی دینے کے لئے کرتی ہوں؟" اپنی بات کہہ کر وہ خود ہی چپ ہوگئی تو مس شاکرہ اسی شفیق انداز کے ساتھ مخاطب ہوئیں " تمھیں پتہ ہے انیتا ، دین کی باتیں کرنا بہت آسان ہوتا ہے ، دین کی راہوں پر چلنا بہت مشکل ہوتا ہے ؟ تم یہ کہہ سکتی ہو کہ مسلمان سہل پسندی کا شکار ہو گئے ہیں ، مگر یہ مت کہو کہ یہ باتیں ہی جھوٹی ہیں ! جھوٹی باتیں اتنی پایئدار نہیں ہوتیں کہ سالہا سال تک دہرائی جاتی رہیں ، لوگوں کے پاس قصّے کہانیوں کی کمی نہیں ، تم اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھو ، تمہں یہ سب جھوٹ لگتا ہے؟ " انیتا گم صم سی بیٹھی تھی "جھوٹ نہیں لگتا مس میں تو خود اس دین کی سچائی کی قائل ہونے لگی ہوں مگر جب اسکی اچھائی کے بارے میں کوئی لفظ بھی منہ سے نکالتی ہوں تو عجیب عجیب باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اور مزے کی بات کسی عام سے مسلمان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تو جب عام لوگ دین کی سمجھ حاصل نہیں کریں گے تو دین کیسے پھیلے گا؟؟ عام لوگ تو عام لوگوں کے عمل میں ہی دلچسپی رکھیں گے ناں؟ میں آپکو یہ بتانا چاہ رہی ہوں کہ اسلام کے بارے میں بہت سی غلط فہمی پھیل رہی ہے اور مسلمان اب صرف گفتار کا غازی رہ گیا ہے ، گفتار سے جہاد نہیں ہوتا اسکے لئے تلوار اٹھانی پڑتی ہے ، یہ آپ نے ہی بتایا تھا ناں؟؟ اپنے کردار سے جہاد کرنا ، اپنے اخلاق سے جہاد کرنا یہ سب کہاں عمل میں نظر اتا ہے؟ صرف باتوں سے کیا ہوتا ہے ، یہاں تو اپس میں کوئی اخلاق نہیں ہے ، کسی غیر مسلم کو کس طرح اپنے دین کی طرف مائل کر سکیں گے؟" چند لمحے کے لئے وہ سانس لینے کے لئے رکی "باقی سب چھوڑ دیں مس ! قران مجید کی پہلی تعلیم "اقراء" کا کوئی وجود ہے آج؟ اس قدر غلط فہمیاں جو اسلام کے بارے میں پھیل رہی ہیں کوئی ہے جو انکا جواب دے سکے؟ آپکو معلوم ہے انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو دکھائی جا رہی ہے آجکل جس میں ایک عورت کو سنگسار کرتے ہوۓ دکھایا جارہا ہے اسکا ٹائٹل ہے "the humans shows humanity"
تو کیا اسلام یہی انسانیت سکھاتا ہے؟ اسکا لہجہ پہلی بار کچھ اکھڑاہوا تھا "اوہ ! تو یہ بات ہے ! " مس شاکرہ نے گہرا سانس لیا گویا بات کی تہ تک پہنچ گئی ہوں " بات ٹھیک ہے تمھاری انیتا ! ہم واقعی علم حقیقی سے بہت دور جا چکے ہیں لسانی ، مذہبی تعصبات میں اتنے الجھ گئے ہیں کہ سچ مچ درپیش مسائل نظر ہی نہیں آرہے ہمیں .. قران مجید کی ایک آیت ہے "کل حزب بما لدیھم فرحون" (ہر جماعت اس مذهب پر جو اسکے پاس ہے خوش رہنے والی ہے ) تو ہم پر اب یہی بات صادق آگئی ہے ، ہمیں سب سے آسان کام سب کو ناکارہ اور غیر مسلم قرار دینا لگتا ہے ، جو باتیں جاننی چاہیں اور جن کے جاننے کو فرض قرار دیا گیا ہے اس کے بارے میں صاف کہ دیتے ہیں کہ اسکو جان لیا تو عمل کی مشکل پڑ جاۓگی !" انکے لہجے میں انتہائی دکھ جھلک رہا تھا " اسلام کی تاریخ میں تمام تر سزاؤں کا مقصد یہ ہیں کہ اگلی بار کوئی ایسا عمل نہ کرے جس سے معاشرے میں خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، میں تمھیں ایک حدیث مبارکہ سنا رہی ہوں غور سے سننا اور فیصلہ کرنا کہ ہمارے نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں میں کوئی کمی ہے ؟ یا انسانیت کی تکمیل کی سنہری مثال تمھیں یہاں مل رہی ہے ؟ " انیتا کا ہر عضو گویا سماعت کا کام دے رہا تھا ..

مس شاکرہ نے دل میں رب العزت کو پکارا اور کہنا شروع کیا "
ایک بار جہینہ قبیلے کی ایک عورت اپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی" اور اپنے زنا کے جرم کا عتراف کیا اور یہ بھی بتایا کہ اسکے زنا کی وجہ سے ایک زندگی وجود میں آنے والی ہے . آپ نے اسکے وارثوں کو حکم دیا کہ اس عورت کی دیکھ بھال کریں اور بچے کی ولادت کے بعد اسے دوبارہ بلایا . بچے کی ولادت کے بعد وہ عورت آپ کے پاس دوبارہ آئی ، آپ نے اسکو سنگسار کرنے کا حکم دیا پھر آپ نے اس عورت کی نماز جنازہ پڑھائی کسی صحابی نے آپ سے عرض کی "اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم آپ ایک زانی عورت کی نماز جنازہ پڑھا رہے ہیں؟ " آپ نے جواب دیا اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے جو اگر قریش کے ستر گنہگاروں پر تقسیم کردی جاۓ تو انکو کافی ہوجاے گی "
اتنا کہہ کر مس شاکرہ خاموش ہوئیں اور بغور انیتا کو دیکھا اسکے چہرے سے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے. وہ دوباہ گویا ہوئیں" جو حلال رشتوں کی موجودگی میں حرام کی طرف جاتے ہیں وہ ایسی سزاؤں کے مستحق ہیں اسکے علاوہ یہ کہ ، صرف سنگسار کرنے کو دکھا دینا مکمل بات پہنچانا نہیں ہے ، مکمل بات یہ ہے کہ ہم حیات بعد الموت پر یقین رکھتے ہیں ، دنیا میں بڑ یے سے بڑا گناہ ہوجاۓ ، معافی کی گنجائش بھی ہے اور کفّارہ کی بھی ! سنگسار ہوجانا آسان نہیں ہے ناں؟ لیکن اگر وہ عورت اس جرم کی سزا پانے کو تیّار ہوئی تو اسکے پیچھے کیا وجہ ہوگی؟ وہ الله کے پاس پاک صاف سرخرو جانا چاہتی ہوگی ، جسکو الله کی رضامندی کے اگے اپنی جان ہیچ لگی اس پر انگلی اٹھانے کا حق کسی صحابی کو بھی نہیں دیا گیا . یہ ہے مکمل پس منظر !" مس شاکرہ نے لمحے بھر توقف کیا پھر اسکی طرف دیکھا "تم زیادہ دور کیوں جاتی ہو؟ تمارے تو اپنے گھر میں مثال موجود ہے ، تمہاری امی کی خواہش ہے کہ تم دین اسلام کا پیکر نظر آؤ ، تو اگر وہ اس دین سے شاکی ہوتیں تو کبھی اپنی اولاد کے لیے یہ خواہش کرتیں؟ ایک ماں کبھی یہ چاہ سکتی ہے کہ اسکی اولاد پر مصائب ٹوٹ پڑیں؟ کوئی تو فائدہ نظر آیا ہوگا ناں انھیں، جو تم نہیں دیکھ پارہی ہو؟" انیتا سر جھکاۓ بیٹھی تھی انکے الفاظ گویا نور بن کر اسکے گرد پھل رہے تہے جس میں انیتا کو اپنا راستہ شفاف نظر آرہا تھا
"لیکن مس ! یہ حقائق کون سامنے لاۓ گا؟ " انیتا کی آواز کس پاتال سے آتی محسوس ہوئی تھی اسلام کے بارے میں پھیلنے والی غلط فہمیوں کا جواب کون دیگا؟"
مس شاکرہ نے لمحے بھر کو اسکی طرف دیکھا ،" جن کے دل کو الله پاک اپنے نور ہدایت سے بھر دیں وہ سب یہی کام کرینگے ، اپنے دین کی وہ خود حفاظت فرماۓ گا یہ اس کا وعدہ ہے ، تم صرف یہ سوچو کہ کیا تم اس کام کو کرنے کا شرف حاصل کرنا چاہتی ہو؟؟ " انیتا نے چونک کر انکی طرف دیکھا وہی مہربان مسکراہٹ ! انیتا کی آآنکھوں کی سطح نم ہونے لگی سب کچھ دھندلا ہونے لگا ،" انیتا تمہارے دل میں نور ایمان کی چمک میں نے کئی بار محسوس کی ہے اگر الله ظلمات سے نور کی طرف راہ دکھا رہا ہے تو گھبرانا مت ،دنیا میں سکوں اور آرام تلاش کرنے والی احمق ہیں بھلا یہ دنیا بھی کوئی آرام کرنے کی جگہ ہے؟ یہ تو لعنت کی گئی جگہ ہے، یہاں راہیں تو کسی کی بھی آسان نہیں ، مگر کچھ راہوں کا اختتام روشن اور امن والی منزلوں پر ہوتا ہے ، تمھیں اگر کشش محسوس ہورہی ہے تو ضرور چل نکلو ، بہت سآرے دیوانے پروانے ملینگے تمھیں اس راہ پر جو پروانے سے جگنو میں تبدیل ہوجاتے ہیں روشنی سراپا بن جاتے ہیں"
"
مگر مس میرا کوئی ساتھ نہیں دیگا ، میں بالکل اکیلی پڑ جاؤں گی !" "اور الله تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گے ، تم فیصلہ کرلو تو میرے پاس آجانا ساری دنیا تمہاری مخالف ہو تب بھی میں تمہارے پاس ہوں ! انشاللہ " مس شاکرہ نے اسکا ہاتھ تھام لیا تو اسے عجیب سے تحفظ کا احساس ہوا .
" میں سوچ کر آپکو بتاونگی "
" میں انتظار کرونگی انیتا ! " ! مس شاکرہ نے محبّت کے ساتھ اسے الوداع کہا .
اگلے دن انیتا اسکول ہی نہیں آئی ، اور پھر پورا ہفتہ گزر گیا مس شاکرہ انتہائی پریشانی کا شکار تھیں ، آخر دس دنوں کے بعد انہوں نے خبر گیری کی خاطر انیتا کے گھر کا فیصلہ کیا ، وہ اسکول کے لئے جلدی نکلیں ، وہاں حاضری لگا کر وہیں سے بریک ٹائم میں نکل جانے کا ارادہ کیا .. اسکول پہنچیں تو وہاں خود سے پہلے انیتا کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئیں الجھے ہوۓ بال ، ملگجے کپڑے ، آنکھیں سوجی ہوئی، چہرے پر کچھ عجیب سے نشانات ! وہ خاموشی سے گراؤنڈ میں ایک طرف بیٹھی شاید ان ہی کی راہ دیکھ رہی تھی ، مس شاکرہ لپک کر اسکی طرف بڑھیں "انیتا!" انکے حلق میں آواز گویا اٹک کر رہ گئی "السلام و علیکم ! مس میں سب کو چھوڑ آئی ہوں " اسنے خشک لبوں پر زبان پھیری اور بیتابی سے کھڑی ہو گئی "مگر بیٹا ! یہ حال تمہارا کیسے؟" انکے سوال پر انیتا دھیرے سے مسکرائی "آپ کہتی ہیں ناں کہ دنیا تو بس آزمائش کی جگہ ہے؟ تو بس تھوڑی سی آزمائش تھی مجھ پر .. مجہے میرے نانا نانی نے ایک کمرے میں بند کر دیا تھا انہوں نے مجہے بہت مارا ہے ، وہ کس صورت تیّار نہیں ہیں کہ میں مسلمان ہوجاؤں ! وہ میرے اسلام قبول کرنے کے حق میں نہیں ہیں ..بڑی مشکل سے میں نکل پائی ہوں ایک پڑوسی خاتوں کی مدد سے ، مجھ پر واپسی کے سارے دروازے بند کردیے گئے ہیں ، میں نے کل اپنے ابّو کو فون کر دیا تھا کہ میں اسلام قبول کر رہی ہوں وہ مجھے اپنے ساتھ رکھنے پر تیّار ہوں تو آکر لے جائیں مگر وہ دوسری شادی کر چکے ہیں اور اپنی زندگی میں میری کوئی جگہ نہیں پاتے ، انہوں نے صرف میری مالی مدد کا وعدہ کیا ہے میں نے انکار نہیں کیا ، یہ میرا حق ہے ناں مس؟ " آنکھوں میں آنسو بھر کر انیتا ان سے مخاطب تھی اور مس شاکرہ نے اسے گلے سے لگا لیا ! " آج سے تم میری بیٹی ہو اور تمہارا نام ربیعتہ السلام ہے تم الله کے پیارے دین کی بہار بنو گی انشااللہ "
---------------------------------------------------------------------------------------------
ہم پھول تیرے گلشن کے ہیں ہم جاری تیرا صدقہ ہیں
ہم تیرا عزم نبھائیں گے قران کے دیپ جلائیں گے
معصوم یہ جذبے بولے تو میرے دل سے صدا یہ آئ ہے
میری ماں تیری رب سے یاری رہے
اور تیرے اجر زیادہ ہوں ....
ربیعتہ السلام .... عرف جان جی کے خاموش ہونے کے باوجود انکی کی پر سوز آواز پورے ماحول پر چھائی ہوئی تھی اور جان جی کے چاہنے والے خاموشی سے آنسو بہا رہے تھے
دین کی جو شمع مس شاکرہ کی باعمل زندگی اور مہربان سلوک نے روشن کی تھی وہ آج روشنی کا مینارہ بن چکی تھی ، ایسے استادوں پر سلامتی ہو جو اپنے خوبصورت کردار کی روشنی میں کتنے ہی مسافروں کو راہ دکھا جاتے ہیں ،جنکی آواز کتنے ہی بھٹکے ہوۓ قافلوں کے لیے بانگ درا ہوتی ہے !
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلوں کو میری صدا درا ہو !
زندگی کی کٹھن راہوں پر اپنوں سے دور ہوکر جانجی نے کس قدر عزت اور امان پائی ہے اسکا حساب کون لگا سکتا ہے؟ بس نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے وارثوں کا یہی تو انعام ہوتا ہے ، مشقتیں ، صعوبتیں ، اذیّتیں! زندگی نے کسی کے ساتھ اچھا سلوک بھی کیا ہے؟ مگر سنّت کو تھامے رکھنے والوں کی اذیتوں کے کیا ہی کہنے ! علم سیکھنا علم سکھانا ، بس خار زار راہ پر چلتے چلے جانا !! اگر آسان ہوتا یہ راستہ... تو ہر کوئی نہ لپکتا اس راہ پر؟ مگر یہی تو الله پاک کی رضا کا راستہ ہے ، اور جو اسکا حکم مانے اس راہ پر چل نکلے تو پھر اس راہ کا انعام بھی تو الله کے پاس ہی ملے گا ایسا انعام ایسا اکرام جو دنیا کی مشکلات سے گھبرانے والے تصور بھی نہیں کر سکتے .جن سے الله محبّت کرتا ہے انھیں دنیا و آخرت میں عزت سے نواز دیتا ہے، بس پہلا قدم اٹھانے کی دیر ہے !!اور پہلا قدم ہی تو سب سے مشکل ہے ناں؟. اگر انیتا کو اسکے گھر والوں نے چھوڑ بھی دیا تو کیا؟ اس نے الله کو تھاما الله نے اسے تھاما. آج ربیعتہ السلام ملک کے سب سے بڑی جامعہ کی بانی ہیں انکے نام پر لوگوں کی نگاہیں جھکیں یا نہیں دل ضرور جھک جاتے ہیں الله اور رسول کے راستے پر چلنے والوں کا نام ہی تو زندہ رہے گا .... باقی تو ہر چیز کو فنا ہے !
مالک تیری دھرتی کے سینے پر
کچھ لوگ ہیں تاروں سے اجلے

قران کے تھامے گلدستے
پلکوں پہ موتی چمکیلے

یہ بندے تیرے البیلے سے
مالک تیری دنیا کے میلے میں

ہیں دیوانے یہ کہلاتے
ایمان کی بھٹی میں مسکاتے

شاعر تو نیہں پر راتوں میں
تیری وحدت کے ہیں گن گاتے

ترے دین کی گلگوں راہوں پر
گر کر اٹھتے اٹھ کر بڑھتے

یہ بندے ترے البیلے سے
مالک تیری دنیا کے میلے میں
 
 فاطمہ عنبرین
About the Author: فاطمہ عنبرین Read More Articles by فاطمہ عنبرین : 14 Articles with 25682 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.