علی عمران ہینگ ٹل ڈیتھ - نویں قسط
(Muhammad Jabran, Lahore)
باب دی ڈیڈلی اسٹریٹ فائٹ
جولیا اس وقت اپنے فلیٹ میں نہایت بے چینی سے ٹہل رہی تھی ،علی عمران کی
سزا نے اسے بالکل اَپ سیٹ کردیا تھا۔اُسے یہ قطعاًاُمید نہیں تھی کہ عمران
کا کیس اس قدر کمزور ہونے کے باوجود ،عدالت نےفیصلہ عمران کے خلاف سنایا
تھا ۔ وہ عدالت کی کاروائی کے بعد وہاں سے سیدھا فلیٹ آگئی تھی ، اس وقت
شام چھ کا عمل تھا۔ اس کا من کسی چیزمیں نہیں لگ رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا
کہ جیسے اس کی سب سے قیمتی چیز اس سے چھینی جارہی ہو اور یہ بات اُسے بالکل
ہضم نہیں ہورہی تھی۔ اس نے فلیٹ آکر چائے بنائی تو دو گھونٹ کے بعد ہی اس
کا دل اُچاٹ ہوگیا تھا۔ اس نے چائے چھوڑ دی۔
عدالت نے عمران کی سزا کا جو مختصر فیصلہ سنایا تھا اس کے تفصیلی فیصلے میں
جوزف اور جوانا کو بھی عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس فیصلے میں عمران
کے لئے رحم کی دو اپیلوں کی گنجائش ابھی موجود تھی ۔ عمران اگر چاہتا تو وہ
صدر صاحب اور ایکسٹو سے اپنے لئے الگ الگ رحم کی اپلیں کرسکتا تھا ۔اگر ان
اپیلوں میں سے صدر صاحب عمران کی رحم کی اپیل مسترد کردیتے اور دوسری جانب
اگر ایکسٹو علی عمران کی زندگی کے حوالے سے رحم کی اپیل کو قبول کرلیتے تو
پھر وہ فائنل اتھارٹی ہوتا،اسے پھر پاکیشیا کی کسی عدالت میں چیلنج نہیں
کیا جاسکتا تھا۔ مزید یہ کہ اس فیصلے کو میڈیا پر ڈسکس کرنا یا اس پر تنقید
کرنا غداری کے زمرے میں آتا۔اس طرح عمران پھانسی کی سزاس ے بچ سکتا تھا۔پھر
یہ سزا پھانسی سے تبدیل ہوکر جوزف اور جوانا کی طرح عمر قید میں بدل
جاتی۔یہ بات جولیا کو معلوم تھی مگر ایکسٹو کو کسی بات پر راضی کرنا ہی سب
سے بڑا مسئلہ تھا اور بعض حالات میں تو یہ ناممکن ہوجاتا تھا۔اگر عمران
اپنی رحم کی اپیلیں کربھی دیتا تو یہ ضروری نہیں تھا ایکسٹو عمران کی سزا
معاف کردے۔
جولیا انہی سوچوں میں گم تھی اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کس طرح
سارا منظر ہی بدل دے ۔ میڈیا کو بھی شک نہ ہواور بس پرانے جیسے حالات پھر
لوٹ آئیں ، مگر یہ کوئی فلم نہیں تھی جہاں پر جیسا چاہا ویسے ہوگیا۔ سوچنا
بڑا آسان تھامگراس کو عملی جامہ پہنانہ ناممکن۔شایہ اب پاکیشیا سیکرٹ سروس
ہمیشہ کے لئے عمران سے محروم ہونے والی تھی۔
اب تک یہ سب کچھ پاکیشیا سیکرٹ سرورس کی ناک کے نیچے ہوتا رہا اور سیکرٹ
سروس حقیقتاً ہاتھ ملتی رہ گئی اور عمران کو سزا بھی ہوگئی۔ وہ مختلف
زاویوں سے عمران کا کیس اور پھر اس پر عدالتی فیصلے کا تنقیدی جائزہ لے رہی
تھی۔
کبھی کبھی اُسے شک ہونے لگتا کہ یہ سب ایک ڈرامہ ہے ، جس کا اسکرپٹ رائڑ
خود علی عمران ہے۔کیونکہ عمران کا ماضی دیکھا جائے تو وہ اسی قسم کے حیران
کن ڈراموں سے بھرا پڑا ہے۔وہ کوئی نہ کوئی ایسا کام کرتا تھاکہ جس سے یا تو
بندے کا دل کرتا تھاکے وہ خود ہی اپنا سر دیواروں میں ٹکرائے یا پھر اپنے
ہی ہاتھوں اپنے سر کے بال نوچ ڈالے ۔عمران کے اسی قسم کے نان سیرئیس رویئے
نے جولیا کو کئی دفعہ پاگل پن کے بالکل قریب پہچادیا تھا اور کئی بار
حقیقتاً اس کا دل چاہا کہ وہ چائے میں زہر گھول کر پی جائے یا پھر عمران کی
کچا چباجائے۔ پر نہ جانے کیوں وہ چاہ کر بھی ایسا نہیں کر پاتی تھی۔
علی عمران کو سمجھنے کے لئے یقیناً انسان کو پی ایچ ڈی ہونا چاہیے۔ جولیا
کو لگتا تھا کہ نامی گرامی شاعروں نے اور بڑے بڑے فلسفیوں نے اب تک عورت پر
اپنا مغز کھپا کر وقت برباد کیا ہے۔ انہیں چاہیے تھا کے وہ عمران پر ہی
اپنی شاعری اور فلسفے جھاڑ لیتے تو کم از کم جولیا کا اتنا قیمتی وقت تو
برباد نہ ہوتا جو اب سوچ سوچ کر ہو رہا تھا۔وہ اس مسئلے پر جتنا سوچتی تھی
اس کا ذہن اتنا ہی خراب ہوتا چلا جاتا تھا۔ اسے ایک دم سے احساس ہوا کے اگر
زیادہ سوچا تو کہیں اسکے چہرے پر جھریاں نہ پڑ جائیں اور رنگت ہی خراب نہ
ہوجائے۔ اس خیال کے آتے ہی وہ فوراًصوفے پہ آکر بیٹھ گئی اور ریموٹ کنڑول
اُٹھا کر اس کا ایک بٹن پریس کیا تو ایل سی ڈی آن ہوگئی۔ پرائم چینل کی چٹ
پٹی خبروں نے ماحول کو گرمایا ہوا تھا مگر اس نے وہ چینل چینج کرکے ایک نیا
چینل "اے فور پلس نیوز چینل "لگا لیا۔جو سنسنی نہیں پھیلتا تھا اور بیلنس
رپورٹنگ کرتا تھا۔ وہ آج کل اسے بھی کبھی کبھی لگا کر دیکھ لیتی تھی، اس
چینل کی نشریات دیکھ کر احساس ہوتا کہ ملک میں اتنے ہنگامی حالات نہیں ہیں
جتنے پرائم چینل پر دیکھائے جاتے ہیں ۔اس چینل کو تو دو منٹ برداشت نہیں
کیا جاسکتا نہ جانے چینل لگاتے ہی ایک عجیب گھٹن کا احساس ہوتا تھا۔ایسا
محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اس کا کوئی گلا دبا رہا ہو اور اگر چینل چینج نہ
کیا تو کہیں وہ سچ میں ہی نہ مر جائے۔ ابھی وہ انہی خیالوں میں کھوئی اے
فور پلس نیوز چینل لگائے بیٹھی تھی کہ اس اثناء میں اس کا موبائل فون رنگ
کرنے لگا۔ اس نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں تو موبائل فون کہیں نظر نہ آیا۔
آواز کہیں دور سے آرہی تھی اور پھر وہ آواز کے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی اپنے
بیڈروم میں پہنچ گئی اور پھر وہاں سے واش روم کا دروازہ کھول کر واش روم
میں داخل ہوئی تو واش بیسن پر موبائل فون بری طرح سے اُچھل کود رہا تھا۔
ٹنشن میں وہ موبائل فون سیدھا واش روم لے گئی تھی جس کا اسے احساس تک نہ
ہوا تھا۔ خیر اسے دور سے ہی ایکسٹو کا نام اسپارک ہوتا ہوا نظر آگیا تھا،اس
نے جھپٹ کر فون اٹھا یااور پھر سکرین پر ایک مخصوص انداز میں اپنی پہلی
انگلی گھومائی تو کال رسیو ہوگئی۔
"سس سوری چیف وہ لیٹ ہوگئی۔۔۔۔۔" جولیا نے دھڑکتے دل سے ہکلاتے ہوئے کہا۔
کیا سوری چیف؟ ۔۔۔۔ اور تم اتنی دیر سے کہا ں تھیں ؟" "
"سس سوری چیف ۔۔۔۔ وہ ووہ میں واش روم میں تھی تو نکلنے میں لیٹ ہوگئی ۔
آئی ایم رئیلی سوری۔"
"تم بالکل نکمی ہوتی جارہی ہو آج کل۔۔۔۔ اگر یہی حالات رہے تو تمہیں فوراً
اپنے عہدے سے فارغ بھی کیا جاسکتی ہے سمجھی۔۔۔۔ میں نوٹ کر رہا ہوں کہ جب
سے عمران والا کیس شروع ہوا تم کام پر زیادہ توجہ نہیں دیتی ہو۔ دس اِز
لاسٹ وارننگ فار یو۔۔۔۔ انڈر سٹینڈ۔۔۔۔"
"سس سوری چیف آئندہ آپ کو شکایت کا موقعہ نہیں دوں گی۔۔۔۔"
"سنو میں نے فیڈرل کورٹ آف جسٹس اور انٹیلی جنس بیورو سے عمران کی کیس کی
تمام فائلیں اور ڈیٹا منگوالیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جو انوسٹی گیشن انٹیلی
جنس بیورو نے کی ہے اس کی تمام جانچ پڑتال صالحہ اور مہوش اعجاز کو ملا کر
تم کرو۔ جو ثبوت عدالت میں پیش کئے گئے انکی پاکیشیا سیکرٹ سروس کے فورنسک
ڈپارٹمنٹ کے ڈاکڑ منور اور ڈاکڑ مسعود کو بھجواؤ تاکہ وہ بھی اپنی فورنسک
جانچ پڑتال کے بعد سیکرٹ سروس کی طرف سے رپورٹ مرتب کریں ۔اس رپورٹ کا مکمل
ریکارڈ تیار کرکے اسے ایک ڈی وی ڈی میں ٹرانسفر کرکے اس کی ایک الگ رپورٹ
بناؤ اور مجھے دو۔ تم یہ کام دانش منزل میں آکر کرو گی اور مجھے یہ کام
فوراً ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے ۔۔۔۔ سمجھ گئیں ۔۔۔۔ اور اگر اس دوران تمہیں
عمران کے لئے پھر وہی اوٹ پٹانگ جذباتیت کا دورہ چڑھا تو میں تمہیں بغیر
کوئی بہانہ سنے شوٹ کردوں گا ۔۔۔ گڈ بائے۔۔۔۔" ایکسٹو نے دوسری طرف سے اپنے
مخصوص اسٹائل میں ڈانٹ پلاتے ہوئے جولیا کو بہت ہی اہم کام سونپ دیا تھا جس
کی جولیا کو قطعاً کوئی امید نہیں تھی۔ اس نے دو تین گہرے سانس لئے اور پھر
مسکراتے ہوئے فون لیتی ہوئی وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آگئی۔
وہ بالکل ایسا ہی کام کرنا چاہتی تھی اور پھر عمران کے کیس میں موجود لوپ
ہولز کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کے مقابل میں وہ ایک بہت ہی مضبوط کیس
ایکسٹو کے سامنے پٹ اَپ کرسکتی تھی۔اس رپورٹ کے بعد وہ ایکسٹو کو مجبور
کرسکتی تھی کہ وہ علی عمران کی رحم کی اپیل کو فورا ًقبول کرلیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بلیک زیرہ دانش منزل کے آپریشن روم میں بیٹھا اطمنان سے کافی پی رہا تھا۔اس
نے علی عمران کے کیس کا تمام ڈیٹا فیڈرل کورٹ آف جسٹس اور انٹیلی جنس بیورو
سے منگوا لیا تھا۔اس نے اس ڈیٹا کا خود بھی مطالعہ کیا تھا، اور پھر اسے
دانش منزل کے میٹنگ روم جولیا ، صالحہ اور مہوش کے لئے رکھ دیا تھا۔ میٹنگ
روم کے ساتھ ہی سرور روم تھا جس میں دنیا کے بہت ہی مہنگے سُپرکمپیوٹرز
رکھے ہوئے تھے ،جس میں ویب سائٹ اور سیکرٹ سروس کے کارناموں کا مکمل ڈیٹا
سیو تھا۔کمپیوٹر کے ہیوی سرورز میں سے ڈیٹا کو کنٹرول کرنے کے لئے مہوش
اعجاز کو ہائر کیا گیا۔جبکہ سیکرٹ سروس کے ہیڈ کواٹر دانش منزل کے پہلو میں
موجود ایک اور عمارت عمران نے کسی ارب پتی سیٹھ سے خرید کر اسے سیکرٹ سروس
کا فورنسک ڈیپارٹمنٹ بنا دیاتھا۔ جس کے انچارج ڈاکڑ منور تھے اور وہ اپنے
اسسٹنٹ ڈاکڑ مسعود کے ساتھ ملکر کام کیا کرتے تھے۔
مہوش اعجاز کو سیکرٹ سروس جوائن کئے ابھی ایک مہینہ ہوا تھااور وہ وسٹرن
کارمن سے کرمنالوجی میں پی ایچ ڈی کے ساتھ ساتھ انڑنیٹ اور ویب سائٹ
منیجمنٹ کا خصوصی کورس کر کے آئی تھی۔وہ زیادہ ترفیلڈ ورک کی بجائے ٹیبل
ورک خوش اسلوبی سے کرتی تھی۔ اس کا انتخاب بھی عمران نے خوب جانچ پڑتال کے
بعد کیا تھا اور بڑھتے ہوئے میڈیا اور انڑنیٹ کے دور نے مہوش اعجاز جیسے
ممبر کی سیکرٹ سروس میں شمولیت اب بہت ضروری کردی تھی۔ مہوش اعجاز پاکیشیا
سیکرٹ سروس کی ویب سائٹ پر کام کرتی تھی اور مختلف کیسوں کا ریکارڈ پاکیشیا
سیکرٹ سروس کے ارکان کے نام ظاہر کئے بغیر ویب سائٹ پر اَپ ڈیٹ کردیتی تھی۔
اس کے علاوہ دیگر اہم چیزیں بھی ویب سائٹ پر موجود تھیں ۔جس سے پاکیشیا
سیکرٹ سروس کے کارنامے اب پوری دنیا میں پڑھے جانے لگے تھے۔ یہ کام صرف
پاکیشیا سیکرٹ سروس نے نہیں کیا تھا بلکہ ایکریمیا سمیت دنیا کی دیگر ٹاپ
سیکرٹ سروسز نے بھی اپنی ویب سائٹس پر اپنی اپنی سیکرٹ سروسزکے کارنامے خوب
مرچ مصالے لگا کر بیان کئے تھے۔
ہیکرز کے بڑھتے ہوئے حملوں کے پیش نظر عمران نے سائبر آرمی آف پاکیشیا کے
چند نوجوانوں کو بھی خفیہ طور پر بھاری معاوضے پر ہائر کیا ہوا تھا۔ جن کا
کام پاکیشیا سیکرٹ سروس کے ڈیٹا اور ویب سائٹ کو کافرستانی اور اسرائیلین
ہیکرز کے سائبر حملوں سے محفوظ رکھنا تھا۔ اس طرح عمران نے جو نوجوان ہیکنگ
کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہوتے تھے ،انہیں اچھے پیسوں کے عوض قومی
دھارے میں شامل کرلیا تھا۔
بلیک زیرو حسب عادت بہت اطمنان سے بیٹھا تھا اور اس کو یہ ٹریننگ عمران نے
دی تھی کہ حالات جتنے بھی خراب ہوجائیں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا
چاہیے ۔ بلکہ خاموشی سے حالات کا تجزیہ کرنا اور خوب سوچ سمجھ کر ٹھنڈے
دماغ سے فیصلہ کرنا چاہیے ۔ کیونکہ اکثر جذباتی فیصلے پوری گیم بگاڑ دیتے
ہیں،اسے سربلیک کوبرا کی انتہائی پراسرار کارکردگی نے حیران ضرور کیا تھا
مگر اس نے اس بات کواپنے سر پر سوار ہونے نہیں دیاتھا۔ سربلیک کوبرا نے جس
طر ح پوری سیکرٹ سروس سمیت ٹائیگر کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی ، ان تمام
واقعات کی مکمل تفصیل اسے معلوم تھی اور اسی علم کی بنیاد پر وہ حالات کا
مکمل تجزیہ ٹھنڈے دماغ سے کررہا تھا۔اسے عمران کے اوپر ہونے والے ٹیلی
پیتھی کے حملے کا بھی پورا احوال معلوم تھا۔وہ کیس کے مختلف پہلوؤں پر غور
کرتے ہوئے کافی پی رہا تھا۔
عمران اسے ہمیشہ دانش منزل میں بٹھائے رکھتا تھا، کیونکہ اس کے بقول بلیک
زیرو باقی سب ممبرز سے زیادہ اہم کام کررہا تھا اور اس کی فیلڈ سے زیادہ
دانش منزل میں ضرورت تھی۔ عمران اس کو اکثر کہا کرتا تھا کہ وہ سیکرٹ سروس
کا ایسا نایاب پرل ہے جسے حفاظت سے سات پرودں میں چھپایا گیا تھا۔ اسے بہت
مشکل حالات میں یا انتہائی سنگین حالات میں میدان میں اتارا جاتا تھا۔۔۔۔
اور ماضی میں ایسا ہی ہوتا رہا تھا کہ جب جب اسے میدان میں اچانک اتارا
جاتا تو وہ اپنی حیرت انگیز صلاحیتوں سے سب کو حیران کردیتا تھا۔ تبھی اسے
عمران نے اسے "سُپر یم فائٹر "کا ٹائٹل دے دیا تھا۔آج بھی حالات بہت خراب
ہوگئے تھے ایسے میں کسی پرل کا آنا ناگزیر ہوگیا تھا۔ بلیک زیرو کی چھٹی
حِس رہ رہ کر اسے کہہ رہی تھی کہ اب اس کے میدان میں اترنے کا وقت آگیا ہے۔
کیونکہ عمران کے بعد وہی سیکرٹ سروس کا لیڈر تھا۔ وہ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ
اتنے میں جولیا دانش منزل کے میٹنگ روم میں آگئی اور وہ باقی دو ممبرز کا
انتظار کرتے ہوئے علی عمران کے کیس کی فائلز اور دیگر ڈیٹا کا مطالعہ کررہی
تھی۔ اس کے ساتھ ہی ایک لیپ ٹاپ بھی موجود تھا جس میں وہ ڈھیر ساری ڈی وی
ڈیز کوایک ایک کرکے ڈالتی اور پھر انکا جائزہ لیتی جا رہی تھی ۔اس اثناء
میں صالحہ اور مہوش بھی آگئی تھیں اور پھر وہ بھی اسکے ساتھ ہی کام میں
مشغول ہوگئیں ۔رات کے کوئی آٹھ کا عمل ہوگا کے فون کی گھنٹی بجی تو بلیک
زیرو نے ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا لیا۔
"ایکسٹو۔۔۔۔۔۔"
"ہیلو مسٹر ایکسٹو۔۔۔۔ کیسے ہو؟ ۔۔۔۔۔ ایکسٹو عرف بلیک زیرو۔۔۔۔۔۔ میں
تمہارا پراسرار دوست ۔۔۔۔۔۔۔سربلیک کوبرا بول رہا ہوں۔۔۔""
"کام کی بات کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"کام ۔۔۔۔۔ کام بالکل سادہ سا ہے اگر تم چاہتے ہوکے تم ایکسٹو ہی رہو اور
ایکسٹو سے ہٹ کر تمہاری بلیک زیرو والی پہچان میڈیا کے سامنے نہ آئے تو پھر
تمہیں ایک کام کرنا ہوگا۔ ۔۔۔اور اگر تم نے وہ کام نہ کیا تو شاید پھر
پاکیشیا کی عوام پرسوں علی عمران کی پھانسی والی بریکنگ نیوزنہیں بلکہ علی
عمران عرف ایکسٹو ہینگ ٹِل ڈیتھ کی بریکنگ نیوز سن رہی ہوگی ۔۔۔۔۔ کیوں
کیسا آئیڈیا ہے؟؟"
"کیا چاہتے ہو تم ۔۔۔۔۔"
"تم سے ایک ملاقات مسڑ سُپریم فائٹر۔۔۔۔۔"
“کہاں پر۔۔۔۔۔"
"ڈارک اسٹریٹ فائٹ کلب ۔۔۔۔۔۔"
"کب؟"
"آج رات ایک بجے۔۔۔۔۔"
"ڈَن۔۔۔۔۔"
"ڈَن۔۔۔۔۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محمود شاہد پاکیشیا میں ان دنوں احمد منیر کے بعد بہت ہٹ صحافی جارہا تھا۔
اس کا رات کا اسپیشل ٹاک شو نو سے گیا رہ چلتا تھا جس میں وہ بڑے بڑے سنسنی
خیز انکشافات کرتا تھا۔ اے فور پلس نیوز چینل ان دنوں پرائم نیوز چینل کے
مقابلے پر جارہاتھا۔ جس کی بنیادی وجہ محمود شاہد کا تہلکا خیز شو
"ایکسپوزڈ" کے نام سے پاکیشیا کے طول و عرض میں دھوم مچار ہا تھا۔ وہ اپنے
آپ کو پاکیشیا کا قوم پرست صحافی کہتا تھا اور پاکیشیا کے خلاف ہونے والی
ہر سازش کو بغیر کسی خوف میں آئے ، بے نقاب کردیا کرتا تھا۔ تبھی اس کے شو
کا نام"ایکسپوزڈ" تھا یعنی بے نقاب۔ آج کل اس کاپرومو فور پلس نیوز چینل پر
بہت ہٹ جارہا تھا جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ عنقریب پرائم نیوز چینل
کو ایکسپوز کرکے پورے پاکیشیا کو حیران کردے گا۔اس کے ساتھ ساتھ اس کا یہ
بھی دعویٰ تھا کہ وہ اس شو میں ایسے ایسے انکشافات کرے گا کہ پاکیشیا کے سب
سے بڑے پرائم نیوز چینل کی بنیادیں ہل جائیں گی اور بڑے بڑے صحافی اپنا منہ
دیکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔پرومو لگاتار ایک ہفتہ چلتا رہا تھا، اس
دوران اس کو کئی صحافتی تنظیموں کی جانب سے اس کے گھر پر آکرسمجھایا گیاتھا
کہ وہ صحافیوں کو بے نقاب کرنے والے معاملے سے خود کو دستبرار کرلے، ورنہ
ہم سب پیٹی بند بھائی آپس میں لڑ پڑیں گے اور اس کا فائدہ کسی اور پہنچے
گا۔ہم سب نے جو اتنی محنت سے یہ میڈیا کی عمارت کھڑی کی وہ دھڑام سے گر
جائے گی۔ غرض اس کو ہر لحاظ سے باز رکھنے کے لئے طرح طرح کے ڈراوے بھی دیئے
گئے مگراس نے کسی کی نہ سنی اور سب کو وہ یہی کہتا رہاکہ ہم جب دوسروں کو
نیکی کرنے اور کرپشن نہ کرنے کا بھاشن دیتے ہیں تو ہمیں خود بھی اپنے
گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔اگر اب میڈیا کا احتساب نہ ہوا تو پھر کب ہوگا
؟ اس کے نزدیک دوسروں پر کیچڑ اُچھالنے والے اپنے بیش قیمت کلف کے سوٹوں پر
بھی توجہ دیں جن کے نیچے زمانے بھر کی میل چھپی ہوئی ہے۔اگر اس گندگی کی
صفائی نہ ہوئی تو پھر میڈیا جو ایک مافیا بن چکا تھا اور کی جڑیں پاکیشیا
جیسے عظیم ملک کو اندر سے رفتہ رفتہ کھوکھلا کر دیں گی۔
آج اس کا اے فور پلس نیوز چینل پر شو تھا جس کار ٹاپ پرائم نیوز چینل
تھا۔جو لائیو ٹیلی کاسٹ ہورہا تھا اور اس نے ابتدائیہ کے بعد اپنے جوشیلے
اندز میں کہا:
"میرے پاکیشیا کے عظیم لوگو! آج میں جس موضوع پر آپ لوگوں کے سامنے تہلکا
خیز انکشافات کرنے لگا ہوں اس کا پرومو آپ پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔یہ کسی کو
حق نہیں پہنچتا کہ وہ پاکیشیا کی غریب عوام کو بے وقوف بنائے۔آج آپ کو میں
وہ کرپشن کی ہوشربا داستانیں سناؤں گا کہ آپ حیران رہ جائیں۔ جی ہاں میں
سنسنی نہیں پھیلا رہا۔ آپ کا ہم سب کا جانا پہچانا پرائم نیوز چینل جو
ریٹنگ کی خاطر کس کس طرح سے ہم سب کو بے وقوف بناتا ہے کہ آپ لوگ سوچ نہیں
سکتے۔لیکن میں کوئی ہوا میں خالی خولی دعویٰ نہیں کررہا بلکہ جو کہہ رہا
ہوں وہ آپ کے سامنے میں اسکرین پر بھی دکھاؤں گا۔اپنی ہر بات اور ہر دعوے
کا ثبوت ایک کامیاب صحافی کے پاس ہونا چاہیے۔جن کے پاس ثبوت نہیں ہوتا وہ
محض ریٹنگز کی خاطر شوز کرتے ہیں۔
آیئے میں آپ کو ذرا پرائم نیوز چینل کا تھوڑا سا بیک گراؤنڈ بتاتا ہوں، جس
کے بغیر میری اگلی بات ادھوری رہے گی۔یہ نیوز چینل ایک ارب پتی سیٹھ جناب
ایم اے ندیم صاحب کا ہے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کسی بھی چینل کو چلانے کے
لئے اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سارے کے سارے ایک سیٹھ صاحب پورے نہیں
کرسکتے ۔ کیونکہ ایک چینل کا عملہ ہزاروں افراد پر مشتمل ہوتا ہے جو چینل
کے کیمرے کے پیچھے ہوتا ہے اور وہ آپ سب کو نظر نہیں آتا۔ان سب کے اخراجات
محض اشتہارات پورے نہیں کرسکتے کیونکہ چینل کے دیگر اینکرز اور میزبانوں کی
تعداد زیادہ ہوتی ہے اور انکی تنخواہیں بھی لاکھوں میں ہوتی ہے۔
سو ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے چینل مالکان کودوسرے غیر قانونی ذرائع
اختیار کرنے پڑتے ہیں۔جو میں آپ کو ابھی آپ کی اسکرین پر دکھاؤں گا۔۔۔۔" اس
کے ساتھ ہی اسکرین درمیان سے پھٹی اور پرائم چینل کے مالک سیٹھ ایم اے ندیم
کی فوٹو نظر آئی جوکسی کے ساتھ ہاتھ ملا رہا تھا ۔ پھر تھوڑی دیر میں ایک
اور تصویر نظر آئی جس میں اور ایک اور شخص کے درمیان بینک چیکس کا تبادلہ
ہورہا تھا۔اسکرین پر بڑا بڑا گول دائرہ بنا ہوا تھا جس میں اس غیر قانونی
کام کو ہائی لائٹ کرکے دکھایا جارہا تھا۔اتنے میں اسکرین کی ایک سائیڈ پر
پھر محمود شاہد کی تصویر نظر آنے لگی اور وہ پھر گویا ہوا
"جی ویوورز یہ جو شخص آپ اسکرین پر پرایم چینل کے مالک کے ساتھ دیکھ رہے
ہیں یہ کوئی اور نہیں بلکہ بدنام ِزمانہ کافرستانی جاسوس شنکر داس گپتا
ہے۔یہ شخص پورے پاکیشیا کے خفیہ اداروں کی ریڈار لسٹ پر ہے ۔ سب سے پہلے
میں آپ کو پاکیشیا سیکرٹ سروس کی ویب سائٹ دکھاتا ہوں جس میں آپ کو اس شخص
کی فوٹو اور اس کا ڈیٹا پاکیشیا کی کرمنلز کی موسٹ وانڈڈ لسٹ میں پہلے نمبر
پر نظر آئے گا۔۔۔۔۔" اس کے بعد اسکرین پر پاکیشیا سیکرٹ سروس کی ویب سائٹ
کاوہ پیج نظر آنے لگا جس پر اس کافرستانی جاسوس شنکر داس گپتاکی ایک پرفائل
فوٹو اور اس کے کرائمز کا ڈیٹا تحریر تھا۔
"اس شخص نے پاکیشیا میں گزشتہ برس پاکیشیا کے کیپیٹل کے آرمی ایریا میں بم
بلاسٹ کروایا تھا۔ جس میں کم سے کم تیس فوجی شہید اور ایک سو بیس شدید زخمی
ہوگئے تھے۔اسے اس بلاسٹ کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اس نے
گزشتہ سال ہی پاکیشیا کی سب بڑی ٹرین "پاکیشیا ایکسپریس" کے ٹریک پر ایک پل
سے نٹ بولٹ اپنے کارندوں کی مد د سے کھلوا کر ٹرین کا بھیانک ایکسیڈنٹ
کروادیا تھا ۔ٹرین کا انجن درمیان سے کسی کھلونے کی طرح دوٹکروں میں فولڈ
ہوکر دیگر بوگیوں کی طرح پانی میں جاگرا تھا۔جس میں ٹرین کے ڈرایئورز سمیت
ایک سو پندرہ افراد جاں بحق اور دو سو چوبیس شدید زخمی ہوگئے تھے۔ اس حادثے
میں کئی افراد ہمیشہ کے لئے اپاہج ہوگئے تھے۔
اس کے علاوہ اس کی بھیانک وارداتوں کا سلسلہ اس سال بھی چلتا رہا۔ سال کے
شروع میں اس کےکارندوں نے پچاس معصوم بچوں کی ایک اسکول بس جو پکنک پر
جارہی تھی کہ راستے میں اسے زبردستی روک کر تمام بچوں کو گن پوائنٹ پر اغوا
کرکے پاکیشیا کے نواحی پہاڑوں میں لے جا کے نہایت سفاکی کے ساتھ ان کی پانچ
ٹیچرز سمیت بالکل قربانی کے بکروں کی طرح چُن چُن کر ان کی شہ رگ پر تیز
چھریاں چلا کر ذبح کردیا تھا۔اس خوفناک اور دل کو ہلا دینے والی واردات کا
ماسٹرمائنڈ بھی اسے بتایا جاتا ہے۔ یہ ظالم اور سفاک شخص بس یہیں تک محدود
نہ رہا بلکہ آپ کو یاد ہوگا،اب سے کوئی چار ماہ قبل اس نے ایک فیکڑی کے
تمام ملازمین کو زبردستی فیکڑی میں بند کرکے اس کے چاروں طرف زہریلا کیمیکل
ڈال کر ایک بہت بڑے بلاسٹ کے ساتھ فیکڑی کو اُڑادیا تھا جب فائر برگیڈ والے
آئے تو انہوں نے یہ خوف ناک خبر دی کہ فیکڑی کے تمام ملازمین بری طر ح سے
کر جل کر اس بھیانک انداز میں جھلس کر مرے ہیں کہ اب انکی نشاندہی بہت مشکل
ہوگی۔
اب میں آپ کو ان وارداتوں میں سے ایک کا ذکر کرتا ہوں ، جو میڈیا میں رپورٹ
نہیں ہوئیں لیکن ان کی سنگینی سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔کچھ عرصہ
قبل اس نے بذات خود پاکیشیا کے ائیر فورس کے ہیڈکواٹر میں گھس کر پورے ایئر
فورس میں تھرتھلی مچا دی تھی۔
جب اس نے پاکیشیا کا سب سے مہنگا کوبرا گن شپ ٹوئن انجن ہیلی کاپٹر ان کے
ایک آفیسر پائلٹ احتشام الحق کے میک اَپ اور یونیفارم میں ہائی جیک کر کے
بہادرستان لے جا نے کی کوشش کی تو مجبوراً پاکیشیا کی فضائیہ کو میدان میں
آکراس طیارے کو فضاء میں ہی بلاسٹ کرنا پڑا تھا ۔تو یہ کافرستانی جاسوس
شنکر داس گپتا اپنی جان بڑی مشکلوں سے پیراشوٹ کے ذریعے ایک قبائلی علاقے
میں جھلانگ لگا کر بچا سکا تھا۔ اگر وہ یہ ہیلی کاپٹر بہادرستان لے جانے
میں کامیاب ہوجاتا تو یہ ہیلی کاپڑ غیر ریاستی عناصر کے ہتھے چڑھ جاتا، جو
پھر بعد میں پاکیشیا کے ہی خلاف استعمال ہونا تھا۔جب تک اس کی لوکیشن ٹریس
کرکے کمانڈوز علاقے کو گھیر کر سرچ آپریشن کرتےتب تک یہ وہاں سے فرار ہوچکا
تھا۔
انتہائی شاطر اور عیار شخص اگر پاکیشیا کے سب سے بڑے چینل کے مالک سیٹھ سے
ملے اور انکے درمیان چیکس کا تبادلہ ہو تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ جی ہاں
یہی مطلب ہوتا ہے جو آپ سوچ رہے ہیں ہم سب بطور پاکیشیائی اسے ملک کا غدار
کہیں گے۔
یہ کافرستانی جاسوس شنکر داس گپتا بہت پہلے پاکیشیا کی انتہائی حساس
لوکیشنز کی ریکی کرتے ہوئے کئی دفعہ دیکھا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ جاسوس
کہلایا گیا ،مگر بعد ازاں یہ ترقی کرتا ہوا دہشت گردوں کے ہینڈلرز سے ان کا
ماسٹر مائنڈ بن گیا۔آپ سب لوگ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا کوئی بھی
محبِ وطن پاکیشیائی اس شخص کے ساتھ کبھی ملاقات کرنا بھی گوارہ کرے
گا؟۔۔۔۔" اس دوران کئی تصاویر گردش کرتی ہوئی اسکرین پر نظر آتیں اور پھر
چلی جاتی تھیں ۔
"خواتین و حضرات میرے محترم ویوورز! میں ایک وقفہ لوں گا اور اس کے بعد آپ
کو ملک کے سب بڑے صحافی احمد منیر صاحب کا اصل چہرہ دکھاؤں گا۔۔۔۔ایک
دھماکے دار رپورٹ اور دو انتہائی خفیہ ویڈیوز جو آپ کو یقینً چونکنے پر
مجبور کردی گیں۔۔"
اس بعد اسکرین درمیان سے پھٹی اور "ایکسپوزڈ" کا لوگا جھومتا ہوا نظر آیا
اور پھر اشتہارات شروع ہوگئے ۔ کوئی پندرہ منٹ بعد پھر "ایکسپوزڈ" کا لوگا
جھومتا ہوا نظر آیا اور اسکرین پر محمود شاہد نظر آنے لگا۔
"ویلکم بیک۔۔۔۔ جی تو میں اب آپ لوگوں کو ایک تہلکا خیز ویڈیو دکھانے لگا
ہوں یہ رہے آپ کے ہم سب کے پاکیشیا کے سب سے بڑے صحافی احمد منیر صاحب ملک
کے ایک ارب پتی بزنس مین سلیمان کے ساتھ۔" اس کے بعد اسکرین سائیڈ سے ہٹی
اور دوسرا منظر ہوٹل سٹارسی ون کا نظر آنے لگا۔ جس میں سلیمان اسی تھری پیس
سوٹ میں ملبوس احمد منیر کو ایک چیک اور بعدازاں ایک چِپ دیتا ہوا نظر آیا
۔ یہ ویڈیو ایک موبائل کیمرے کی مدد سے اس جگہ سے تھوڑا دور "ایکسپوزڈ" ٹیم
کے ایک رپورٹر نے بنائی تھی جو اب اس پروگرام کا حصہ بن گئی تھی۔
"جی ہاں ہمارے معروف صحافی بس یہاں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ اکثر غیر
قانونی چیکس وصول کرکے ریٹنگز کی خاطر صحافتی اقدار کی دھجیاں اُر ا دیتے
ہیں ۔ یہ رہی ایک اور تہلکا خیز ویڈیو جو آپ کے ہوش اڑا دے گی ۔۔۔۔ مسڑ علی
عمران جسے ہم نے قومی مجرم بنا کر پرسوں ٹانگنے کا فیصلہ کرلیا دیکھیں اس
کے خلاف کس قسم کی سازش ہورہی ہے۔" اس کے بعد اسکرین پر ایک اور منظر روشن
ہوگیا جس میں ہوٹل سٹار سی ون کے ہی ڈائنگ ہال کا منظر نظر آنے لگا۔ جہاں
پر جوزف ہوٹل میں بیٹھا جام پہ جام پی رہا تھا اور پھر وہاں پر عامر آجاتا
ہے اور پھر اسے ایک وہی ڈی وی ڈی دے کر چلا جا تا ہے۔
"جی تو ویوورز یہ ڈی وی ڈی جو مسٹر عامر نامی شخص جوزف کوپہلی بار دے رہے
تھےجس پر ٹاپ سیکرٹ لکھا ہوا تھا ،اسی کی وجہ سے آج عدالت میں مسٹرعلی
عمران اور اس کے باڈی گارڈز کا دھڑن تختہ ہوگیا۔۔۔۔۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ
یہ مسٹر عامر کون ہیں ؟ تو آپ کو سن کر اپنے کانوں پر یقین نہیں آئے گا
کیونکہ یہ احمد منیر صاحب کے شاگر اور پرائم چینل کے صحافی جو کیمرے کے
پیچھےویڈیو ایڈیٹنگ، دیگر سافٹ ویئرز کی کوڈنگ اور کمپیوٹر کی زبان جاوا
اور سی پلس پلس کی پروگرامنگ کے ماہر ہیں۔ جی جناب اور اس بھیانک واردات جس
میں سرداور کو شہید کردیا گیا اس میں پرائم چینل کے ملوث ہونے کے شواہد بھی
تھوڑے تھوڑے ظاہر ہورہے ہیں۔ کیا علی عمران کے بعداب پرائم چینل کا بھی
احتساب نہیں ہونا چاہیے؟ جن کے پیچھے کافرستانی فٹ پرنٹس بھی مل چکے
ہیں؟۔۔۔۔۔ اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار آپ میرے ای میل ایڈریس محمود
شاہد ایٹ ایکسپوزڈ ڈاٹ کام پر کرسکتے ہیں۔ جبکہ ہمارے فیس بُک پیج ایکسپوزڈ
بائے محمود شاہد پر جاکر ہمارا پیج لائک کریں اور اپنی رائے کا اظہار کریں
شکریہ۔۔۔۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بلیک زیرو رات کے کوئی ساڑھے بارہ بجےاپنی جدید ترین اسپورٹس کار میں بیٹھا
" ڈارک فائٹ کلب "کی طر ف جارہا تھا۔یہ کیپیٹل سٹی کا بدنام ترین فائٹ کلب
تھا جہاں انڈر ولڈ کے چٹھے ہوئے بدمعاش اور کچھ ٹاپ کے غیر ملکی بلیک بیلٹ
فائٹرز آکر اپنی فائٹ کے جوہر دکھاتے تھے۔ اس فائٹ کا سوائے ایک گولڈن اصول
کے اور کوئی اصول نہیں ہوتاتھا اور وہ تھا"ڈیڈلی فائٹ"۔اس کلب میں فائٹ کے
لئے دنیا جہاں کے درندے شرکت کرتے تھے اور ہر فائٹ کا انجام دو فائٹرز میں
سے کسی ایک کی موت پر ہوتا تھا۔ وہاں سے کسی کو بھاگنے کی اجازت نہیں ہوتی
تھی اور اگر کوئی وہاں سے فائٹ چھوڑ کر بھاگنے کی کوشش بھی کرتا تھا تو اسے
کلب کی انتظامیہ سب کے سامنے شوٹ کردیتی تھی۔ یہاں مرد اور عورتیں دنوں
فائٹرز ہوتے تھے۔کلب میں باقاعدہ ایک رِنگ بنا ہوا تھا تاہم اکثر و بیشتر
فائٹ کا انجام کسی ایک کی بھیانک موت سے رِنگ کے باہر ہوتاتھا۔اس کلب پر
کئی دفعہ پولیس اور انٹیلی جنس بیورو کا ریڈ ہوچکا تھا۔ کئی بار کلب کی
انتظامیہ سمیت بہت سےفائٹرز کو گرفتار کرلیا جاتا تھا مگر سیاسی اثر و رسوخ
کی وجہ سے انہیں چھوڑ دیا جاتا ۔
بلیک زیرو اس کلب کی بلیک ہسٹری سے خوب واقف تھا۔اس لئے ذہنی طور پر تیار
تھا کہ یہاں اس کے ساتھ کیا ہوگا یا ہونے کی توقع تھی۔اس کے کندھوں پر پوری
سیکرٹ سروس سمیت علی عمران اور ٹائیگر کی بھرپور ناکامی کا بوجھ تھا۔ اسے
پوری سیکرٹ سروس کی عزت اور عمران کے شاگرد کی حیثیت سے رِنگ میں اترنا
پڑسکتا تھا۔اب پاکیشیا سیکرٹ سروس کی لاج اس کے ہاتھوں میں تھی۔اس کے چہرے
پر بے پناہ سنجیدگی تھی۔ یہ بھی عمران کی طرح ذہن لاک کرنے کی بھرپور
صلاحیت رکھتا تھا اور اسے بھی ہپناٹزم سے شکار کرنا ناممکن تھا۔مگر عمران
کا "کوبرا لاک" کے ذریعے مائنڈ اَن لاک ہونے کے بعد اب اس کا بھی شکار ہونا
آسان ہوگیا تھا۔لیکن وہ بھی عمران کا شاگرد تھا اس نے بھی کوبرا لاک کو
بریک کرنے کے حوالے سے پوری پلاننگ کرلی تھی۔ اگر ایسی نوبت آجاتی تو بلیک
زیرو اس بار سربلیک کوبرا کو حیران کرسکتا تھا۔
اس نے چست لباس پہنا ہوا تھا کچھ دیر بعد اس کی اسپورٹس کار "ڈارک فائٹ
کلب" کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوکر اس کی پارکنگ میں چلی گئی۔ جہاں رنگ برنگی
کئی کاریں اور ہیوی موٹر بائیکس موجود تھیں۔کار پارک کرکے وہ کلب میں داخل
ہو ا تو اس وقت رات کے کوئی پونے ایک کا عمل تھا۔ سر بلیک کوبرا اور بلیک
زیرو کی ملاقات کا وقت ایک بجے طے تھا۔کلب میں بہت ہی گندی شراب کے بھبُوکے
اٹھ رہے تھے۔
وہاں ایک بہت بڑا ہال خطرناک مردوں اور عورتوں سے بھرا ہواتھا ۔ وہ سب
کرسیوں پر بیٹھے دیسی اور ولایتی دونوں قسم کی شرابوں سے شغل کر رہے تھے
۔سائیڈ پر ایک کاؤنٹر موجود تھا،جس پر بھیڑیئے جیسے دو مرد اور چڑیل جیسی
ایک عورت کھڑی تھی۔ہال کے بیچوں بیچ ایک بڑا سا ریسلنگ رِنگ تھا جس میں اس
وقت بہت خطر ناک فائٹ چل رہی تھی۔دو گینڈے جیسی شکلوں والے گنجے تیز دھار
خنجر اُٹھائے فائٹ کررہے تھے۔دونوں خون میں نہائے ہوئے تھے،ایسا لگتا تھا
کہ جیسے دونوں کسی خون والی نہر میں جاکر غوطہ لگا کر آئے ہوئے ہوں۔ایک کی
آنکھ غائب تھی ،اس جگہ خنجر گھونپے جانے کا نشان تھا اور اس میں سے بےانتہا
غلیظ خون بہہ رہا تھا۔ جبکہ دوسرے کی ناک کٹی ہوئی تھی جس میں سے جانوروں
کی طرح بے تحاشہ خون بہہ رہا تھا۔اس کے علاوہ اس کے سامنے والےپانچ دانت
فائٹ کے دوران ہی ٹوٹ گئے ۔الغرض دونوں کے مکروہ چہرے دیکھنے والوں کو خوب
لطف پہنچا رہے تھے۔جب تک رِنگ میں کسی فائٹر کا خون نہیں بہتا تھا ان کو
مزا نہیں آتا تھا۔ لوگ شراب کے بڑے بڑے گھونٹ لیتے اور ہر غلیظ ایکشن پر
خوب شورمچاتے تھے۔اس منظر کو دیکھ کر قدیم دور کے وائی کنگز ، تاتاریوں اور
رومیوں جیسے وحشی درندوں کی یاد تازہ ہوگئی تھی۔ زمانہ بدل گیا تھا مگر آج
بھی ان سفاک قوموں کی روحیں بھٹکتی ہوئی اس ماڈرن دور کے "ڈارک فائٹ کلب"
کے لوگوں کے جسموں میں داخل ہوگئی تھیں ۔
بلیک زیرو نے سیدھا جاکر کاؤنٹر پران سے سگرٹ مانگ کر اسے سُلگا یا اور
خاموشی سے کاؤنٹر سے ٹیک لگا کر رِنگ میں وحشیوں کا میچ دیکھنے لگا۔ان میں
سے ایک گنجا جو اپنے خنجر کو ہاتھوں میں اُچھالتا ہوا آہستہ آہستہ آگے
بڑھنے لگا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کو پر لگ گئے اور وہ اُڑتا ہو الٹی
قلابازی کھا کر دوسرے گنجے کے اوپر سے ہوتا ہوااچانک اس کی پشت پر آیا اور
پھر اس نے اسے اپنے فولادی ہاتھوںمیں جکڑتے ہوئے اچانک خنجر اس کی شہ رگ پر
چلادیا ۔ ایک دم پورے ہال پر گہرا سکوت طاری ہوگیاہر کوئی آنکھیں پھاڑے
تجسس بھری نظروں سے منہ کھولے وہ منظر دیکھ رہا تھا۔ دوسرے گنجے کی گردن پر
خنجر کا گہرا کٹ ابھر آیا جس میں سے دیکھتے ہی دیکھتے خون کے بے تحاشہ
فوارے نکلے اور وہ کرب سے بھرپور گھٹی گھٹی غرغراہٹ کےساتھ دھڑام سے رِنگ
میں گر کر بری طرح سے تڑپنے لگا۔اس کے گرتے ہی لوگ ایکدم سے اپنی کرسیوں سے
اُٹھ کر وحشیوں کی طرح خوشی سے پاگل ہوکر چیخنے چلانے لگے۔پہلا گنجا اپنے
ہاتھ بلند کرکے اپنی مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ لوگوں سے اپنی فتح کی داد وصول
کرنے لگا۔
کچھ دیر بعد جب وہ پہلا گنجا اپنے حصے کی خوب داد سمیٹ چکا تووہاں سے چلا
گیا ۔جبکہ دوسرے گنجے کی بھیانک لاش کلب کی انتظامیہ اُٹھا کر وہاں سے چلی
گئی اور پھر کچھ اور لوگ گنجوں کا غلیظ خون صاف کرنے کے لئے اپنے ضروری
سامان کے ساتھ دوڑتے ہوئے رِنگ میں داخل ہوئے اور پھر رِنگ کو چند منٹوں
میں چمکا کر صاف کردیا گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہاں کچھ بھی نہ ہوا
ہواور جیسے سب کچھ نارمل ہو۔
اتنے میں وہی پراسرار شخص نہ جانے کہاں سے اچانک نمودار ہوا اور رِنگ میں
مائیک کے ساتھ چڑھ کر کھڑا ہوگیا۔
"میرے عزیز کلب کے ممبرز! میرا نام سربلیک کوبرا ہےا ور میں یہاں آج ایک
شخص کو آپ سب کے سامنے چیلنج کرنے جارہا ہوں۔۔۔۔۔ "اس کے ساتھ ہی لوگ جوش
سے کھڑے ہوگئے اور اپنے ہاتھ لہرانے لگے۔
"کیا آپ یہ مقابلہ دیکھنا چاہیں گے۔۔۔۔۔" لوگ اور زیادہ جذباتی ہوگئے اور
خوشی سے جنگلیوں کی طرح خوب نعرے بازی کرنے لگے۔
"میں سمجھ سکتا ہوں آپ لوگوں کا یہ جوش و جذبہ قابل ستائش ہے۔۔۔۔۔۔"
"تو پھر آپ لوگ کیا کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" لوگ جوش اور خوشی
سے پاگل ہوگئے انہوں نے وحشیوں کی پھر سے چیخنا چلانا شروع کردیا۔۔۔
“Are you readyyyyy……?”
“Noo! I said are youuuu readyyyyy…”
سربلیک کوبرا کمال کا فنکار تھا اس نے چند ہی لمحوں میں پورا ماحول گرما
دیا تھا۔لوگ آپے سے باہر ہورہے تھے ان سے صبر نہیں ہورہاتھا کہ وہ کیا کریں
تو ان کو تسکین ہو۔ان کی تسکین اب صرف مزید خون دیکھ کر ہی ہوسکتی تھی۔
"تو اس کلب کے تمام معزز ممبرز! آج اس رات کو جوان اور آپ سب کو مزید
گرمانے کے لئے آپ سب کے درمیان ایک بہت ہی پیارے مہمان موجود ہیں۔یہ حال ہی
میں گریٹ لینڈ سے آئے ہیں اور وہاں پر یہ اسٹریٹ فائٹ چیمپئن ہیں۔جی ہاں
اسٹریٹ فائٹ چیمپئن، ویسے تو یہ پاکیشیائی ہیں مگر کچھ ذاتی وجوہات کی بنا
پر وہاں ہوتے ہیں۔ آج وہ ہم سب کو اپنے فن کا مظاہرہ دکھانے ابھی رِنگ میں
آئیں گے اور میں ان کو چیلنج کرتا ہوں کے وہ مجھ سے فائٹ کریں۔گریٹ لینڈ کے
لوگ انہیں سُپریم فائٹر کہتے ہیں تو اب میں انکو رِنگ میں آنے کی دعوت دیتا
ہوں۔۔۔۔ جناب طاہر صاحب ۔۔۔۔۔عرف بلیک زیرو۔۔۔۔۔۔" سر بلیک کوبرا نے ان
چھٹے ہوئے بدمعاشوں اور جنگلیوں کے سامنے کچھ ایسی محذ ب گفتگو کی تھی کہ
ان درندوں کو بھی حیرت ہوئی ہوگی کہ کیا واقعی ہم لوگ محذب ہیں جو ہمیں
اتنی عزت کے ساتھ مخاطب کرکے گفتگو کی جارہی ہے۔ اس کے بعد سب لوگ ِادھر
اُدھر دیکھ کر کسی بلیک زیرو نامی شخص کو تلاش کرنے لگے۔ جبکہ بلیک زیرو
اپنی سگرٹ ختم کرکے اسے ایش ٹرے میں بجھا کر اطمنان سے رِنگ کی جانب بڑھنے
لگا اور نہایت ہی وقار کے ساتھ رنگ کی رسیاں ہٹا کر اندرداخل ہوگیا۔ لوگوں
کا جذبہ اور شور بلیک زیرو کی آمد پر دیدنی تھا۔ مگر ایکدم سناٹا ہوگیا،سب
کو اچانک چُپ لگ گئی ۔بلیک زیرو اپنے ہونٹ سختی سے بند کئے سربلیک کوبرا کی
آنکھوں میں آنکھوں ڈالےکھڑا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں
سے بغیر پلکیں جھپکائے تکے جارہے تھے۔ علی عمران کے بعد بلیک زیرو وہ دوسرا
شخص تھا جس نے سربلیک کوبرا کی آنکھوں میں آنکھوں بغیر کسی لینز کے ڈال دیں
تھیں۔سر بلیک کوبرا کا وہی زہریلا چہرہ اور آنکھوں میں وہی پراسرار کشش عود
آئی تھیں۔دونوں بغیر بولے ایک دوسرے کو لگاتار دیکھی جارہے تھے۔ ماحول میں
عجیب پراسرار خاموشی چھاگئی تھی، سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ہر کوئی دم
سادھے خاموش بیٹھا تھا، ایسا کھا جانے والا سسپنس اور پراسرار سناٹا۔ کوئی
اگر یہاں اچانک آجاتا تو وہ یہ دعوے سے کہہ سکتا تھا کے یہاں کبھی شور ہوا
ہی نہیں ایسی خاموشی تھی۔ مگر اس خاموشی میں بھی بہت سے پیغام چھپے ہوئے
تھے۔۔۔۔۔۔ وقت تھا کہ جیسے تھم سا گیا ہو۔۔۔۔۔ لوگوں میں عجیب سراسیمگی
پھیل گئی تھی۔۔۔۔۔ اس کیفیت کو بیان کرنا شاید لفظوں نے سیکھا ہی نہیں
تھا۔۔۔۔۔ لفظ خود ہی گونگے ہوگئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ شایہ لفظوں میں بھی وہ قوت
نہیں تھی کہ وہ منظر کی تاب لاسکیں۔۔۔۔۔۔۔پھر اس خاموشی کوایک سانپ کی سی
پھنکار نے توڑا تو ایسا لگا جیسے بم پھٹ گیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تمہاری قبرآج اسی فائٹ کلب میں بنے گی۔۔۔۔۔۔۔۔" یہ الفاظ سربلیک کوبرا کے
تھے۔۔۔۔۔۔۔ جس کا سحر شاید لوگوں نے تو محسوس کیا تھا مگر بلیک زیرو کے
چہرے پر ذرا برابر فرق نہیں پڑا تھا اس کی آنکھیں شعلے اُگل رہی تھیں۔ بلیک
زیرو اس وقت اپنے اصلی حلیے میں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پوری پاکیشیا سیکرٹ سروس
کی پگ کو اس نے اپنے سر پر سجایا ہوا تھا۔ آج یاتو پاکیشیا سیکرٹ سروس
ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتی اور بلیک زیرو کو اپنی نماز جنازہ بھی نصیب نہ
ہوتی یا پھر پاکیشیا سیکر ٹ سروس کا چیف وہ معرکہ سر کرکے نکلتا جس کو آج
تک سر کرنے کی کسی میں ہمت نہ ہوئی تھی یہاں تک کے عمران بھی اس عجیب و
غریب چیز کے سامنے آکر اس کاغلام بن گیا تھا۔
آن کی آن میں دونوں ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر ہوگئے اور اب سب سے بڑی جنگ
شروع ہونے والی تھی۔ جس کا طبل سربلیک کوبرا نے ایک ہی جملہ کہہ کر بجا دیا
تھا۔ بلیک زیرو نے پیچھے ہوکر سب سے پہلے رِنگ کو تھامنے والی رسیوں
کوکھینچ کھینچ کر ان کی مضبوطی چیک کی ۔ ان دونوں کو الگ ہوتا دیکھ کر
لوگوں کا پھر شور بلند ہوا ان کے جوش و جذبے میں پھر اضافہ ہورہا تھا۔ لوگ
اب واضح دو حصوں میں بٹ گئے تھے ، ایک بلیک زیرو کی سائیڈ پر جبکہ دوسرا
سربلیک کوبرا کی سائیڈ پر ہوگیا تھا۔ ہر کوئی اپنے اپنے پسندیدہ ریسلر کے
نام زور زور سے پکار رہا تھا۔وہاں باقاعدہ دنگل سج گیا تھا، دونوں کےچہروں
پر بے پناہ سختی نے ہر ایک کی دلچسپی میں اضافہ کردیا تھا۔
سربلیک کوبرا نے باکسنگ سٹائل میں اُچھل کود کرتے ہوئے دو تین خالی مکے
چلائے او ر بلیک زیرو غور سے سربلیک کوبرا کی ایک ایک چال کو دیکھ رہا
تھا۔اس سے فائٹ کرنے سے پہلے اسے تول رہا تھا ۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے
دونوں ایک دوسرے سے گھتم گھتا ہوگئے۔دونوں نے ایک دوسرے کی انگلیوں میں
انگلیاں پھنسا کر ایک دوسرے سے زور آزمائی شروع کردی۔ دونوں پروفیشنل
ریسلرز کی طرح ایک دوسرے کی حقیقی طاقت کا اندازہ لگا رہے تھے او رپھر
دیکھتے ہی دیکھتے سر بلیک کوبرا نے بلیک زیرو کو زور سے دھکا دیا تو وہ
اچھلتا ہوا رنگ کی رسیوں سے ٹکرا کر نیچے گرتے ہی ایک دم اچھل کر کھڑا
ہوگیا۔ سر بلیک کوبرا نے اس سے بے نیاز ہوکرپھر سے جمپ کرتے ہوئے باکسنگ
اسٹائل میں خالی مکے چلانا شروع کردیئے۔ البتہ دونوں کے چہروں میں تھوڑا سا
بھی تغیر نہیں آیا تھا۔
بلیک زیرو نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور پھر کراٹے کے اسٹائل میں ایک
ٹانگ آگے اور ایک ٹانگ پیچھے اور دونوں ہاتھ مخصوص اسٹائل میں اپنے سینے کے
عین سامنے کھڑے کرلئے ۔
اچانک سربلیک کوبرا باکسنگ اسٹائل کی پریکٹس کر تا ہوااچھلا اور پھر اڑتا
ہوا بلیک زیرو کے سر پر پہنچ گیا جبکہ دوسری جانب بلیک زیرو نہایت برق
رفتاری کوہلوں کے بل ٹانگوں کو پھیلا کربیٹھ گیا۔سربلیک کوبرا نے اپنے بوٹ
کی بھرپور ٹو اس کے سر پر مارنے کوشش کی ہی تھی کہ بلیک زیرو نے اپنا دایاں
ہاتھ آگے کرکے اسے بلاک کیا اور دوسرے ہاتھ سے کراٹے کا بھرپور وار سربلیک
کوبرا کے پیٹ میں کیاجس سے سربلیک کوبرا کا بیلنس ایکدم سے خراب ہوا اور وہ
پلٹ کر دوسری طرف گرنے ہی والا تھا کہ بلیک زیرو نے نہایت پھرتی سےاچھلتے
ہوئے ایک د م اپنے دائیں کہنی کا بھرپور وار سربلیک کوبرا کی چھاتی پر کرنے
کی کوشش کی ہی تھی کہ سربلیک کوبرا نے اسے نہایت پھرتی سے بلاک کرکے ایک
بھرپور پنچ اسکے جبڑے پر لگایا تو اسکے منہ سے خون کی پچکاری نکلی اور بلیک
زیرو اڑتا ہوا دور جاگرا۔اس کے گرتے ہی دونوں برق رفتاری سے اچھل کر ایک
ساتھ کھڑے ہوکر آمنے سامنے آگئے۔جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو البتہ بلیک زیرو کے
منہ سے تھوڑا سا خون بہ رہا تھا۔ یہ سب کچھ اتنا پھرتی سے ہوا تھا کہ سب کے
منہ کھلے کے کھلے رہ گئے تھے۔
ایک بار پھر سربلیک کوبرا اڑتا ہوا اس بار کندھے کا بھرپور جھٹکا بلیک زیرو
کی چھاتی میں مارنا ہی چاہتا تھا کہ بلیک زیرو نے انتہائی لچک کا مظاہر ہ
کرتے ہوئے کمان کی شکل اختیار کرلی تو سربلیک کوبرا اپنے ہی زور پر بالکل
تیر کی طرح اڑتا ہوا رسیوں کے درمیان سے ہوتا ہوا رنگ کے باہر لوگوں سے
جاٹکرایا۔ وہ دو تین لوگوں کو لیتا ہوا انکے اوپر گرا ہی تھا کہ بلیک زیرو
ایکدم سیدھا ہوا اور پھر ساتھ کی رسیوں سے اپنی پشت ٹکراتا ہوا اپنا مومنٹم
بنا کر وہ بھی رسیوں کے درمیان سے اڑتا ہوا سر بلیک کوبرا جو اب تک اٹھ کر
کھڑا ہوچکاتھا ،بلیک زیرو اسے لیتا ہوا بھر پور انداز میں ٹکرایا اور دونوں
زمین پر چت لیٹ گئے ۔اس بار سربلیک کوبرا کے سر پر بیک سائیڈ پر بھرپور چوٹ
لگی تھی۔ لوگ اچھل اچھل کر اپنے جوش و جذبے کا اظہار کررہے تھے۔ چونکہ یہ
اسٹریٹ فائٹ تھی اور اسے پورے ہال میں کہیں بھی لڑا جاسکتا تھا لحاظہ اب
فائٹ رِنگ کے باہر شروع ہوگئی تھی۔
بلیک زیرو نے ایکدم اچھل کر سربلیک کوبرا کی ٹانگوں میں ٹانگے ڈال کر انکا
لاک بنا کر اس کے سامنے بیٹھ گیا ،یہ سر بلیک کوبرا پر پہلاداؤ تھا۔سربلیک
کوبرا اٹھ کر بیٹھ گیا تھا البتہ اسے تکلیف کا احساس نہیں ہورہا تھا۔ وہ
ہاتھ پیر مارتے ہوئے کسی طرح سے اس داؤ سے نکلنے کی کوشش کرر ہا تھا۔ پھر
دیکھتے ہی دیکھتے اس نے بلیک زیرو پر اٹھ اٹھ کرمکے برساناشروع کردیئے جو
بلیک زیرو کے جبڑے پر نہایت شدت سے پڑ رہے تھے۔ بلیک زیرو چونکے اپنا بیلنس
رکھنے کے لئے لاک لگا کر دونوں ہاتھ فرش پر رکھے اپنی ٹانگوں سے اسکی
ٹانگوں پر شدید جھٹکے دے رہا تھا اور لاک کی شدت میں اضافہ کرتا جارہا تھا
اس لئے وہ سر بلیک کوبرا کے گھونسوں کا دفاع نہیں کر سکتا تھا۔سر بلیک
کوبرا میں بھی بلا کی برداشت تھی، لگتا تھا کہ جیسے بلیک زیرو کی ٹانگوں کے
جھٹکے سربلیک کوبرا کی صحت پر کوئی خاص فرق نہیں ڈال رہے تھے۔
دیکھتے ہی دیکھتے سربلیک کوبرا کے بھاری مکوں نے کام دکھایا اور بلیک زیرو
کی پکڑ ڈھیلی پڑ گئی اور پھر اس نے خود ہی لاک کھول دیا۔ سر بلیک کوبرا
آزاد ہوتے ہی ایکدم سے اچھلا اور اپنے ٹخنے کا بھرپور وار اس نے بلیک زیرو
کے سر پر کیا تو وہ الٹ کر دوسری طر ف جاگرا ۔ سربلیک کوبرا اچھلا اور کھڑا
ہوکر پھر رِنگ کے اندر آگیا۔ بلیک زیرو بھی اٹھا اور پھر وہ بھی چلتا ہوا
رِنگ میں داخل ہوگیا اب دونوں پھر سے آمنے سامنے تھے ۔ سربلیک کوبرا کو تو
جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا البتہ بلیک زیرو کی ناک اور منہ سے ہلکا ہلکا خون
بہہ رہا تھا۔ اچانک سربلیک کوبرا دیکھتے ہی دیکھتے رِنگ میں اسی طر ح پیٹ
کے بل لیٹ گیا جس طر ح وہ ٹائیگر کے سامنے لیٹا تھا۔ بلیک زیرو بھی تن کر
اپنے مخصوص کراٹے کے اسٹائل میں کھڑا ہوگیا، اسے اسی حیران کن داؤ کی توقع
تھی کہ کسی بھی وقت سر بلیک کوبرا اس کا استعمال کرسکتا ہے۔
اچانک سربلیک کوبرا نے پھنکارتے ہوئے اپنا منہ اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر
وہ اچھل کر اس پر حملہ آور ہوگیا، ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں بلیک زیرو
نے بھی اڑ کر اس پر جھلانگ لگا دی ۔ دونوں فصاء میں ایک ساتھ لٹو کی طرح
ایک ہی بار گھومے تھے کہ پھر بلیک زیرو اچانک پینترا بدل کرسائیڈ پہ ہوا
اور تھوڑا سا جھکا ہی تھا کہ سر بلیک کوبرا اس کے سرپر پہنچ گیا۔ اس نے
فضاء میں ہی بلیک زیرو کی گردن کو ٹانگوں میں جکڑلیا اور پھر اسے اچھالتا
ہوا ایک طرف پھیکنا ہی چاہتا تھا کہ اچانک بلیک زیرو انتہائی حیرت انگیز
طور پر اسکی کی ٹانگوں سے نکلا اور اچھل کر رِنگ کھڑا ہوگیا۔ جب تک سربلیک
کوبرا رِنگ میں واپس آکر اپنا بیلنس بحال کرتا ا، بلیک زیرو اپنی پوزیشن لے
چکا تھا، جوں ہی سربلیک کوبرا فضاء سے رنگ میں واپس آیا اتفاق سے بلیک زیرو
اسکی پشت پر تھا ۔پس وہی لمحہ سربلیک کوبرا پر بھاری پڑا پھر بلیک زیرو نے
برق رفتاری سے سر بلیک کوبرا کو پھرپور انداز میں اپنا بازو اسکے سر کے
اوپر سے گھوما کر اسے اپنے آہنی ہاتھوں میں جکڑ لیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے
اپنا گھٹنا سربلیک کوبرا کے کمر کے آخری حساس مہروں پر رکھ کر ایکدم سے دو
تین شدید جھٹکے دیئے ہی تھے کہ کھٹک کھٹک کی آواز وں کے ساتھ ہی سربلیک
کوبرا قوس کی طرح نیم گول ہوا اور اسکی زندگی میں پہلی بار چیخیں نکل گئیں
۔ انتہائی حیران کن اور کرب ناک منظر تھا ۔سربلیک کوبرا رِنگ میں پڑا پہلی
دفعہ بری طرح سے تڑپ رہا تھا ۔سب لوگ منہ کھولے یہ ناقابل یقین منظر دیکھ
رہے تھے۔ سُپریم فائٹر نے ایک بار پھر ناقابل یقین کام کردکھا یا تھا۔ مگرا
س سے پہلے کے کوئی اسکی آخری فتح کو قبول کرتا دو تین فائر ہوئے اور کیپٹن
فیاض کلب میں داخل ہوگیا۔
لپیٹوسب کچھ یہاں سے ۔۔۔۔۔۔دیکھو کوئی بھاگنے نہ پائے ۔۔۔۔۔""
اس کے ساتھ ہی بلیک زیرونہایت احتیاط کے ساتھ کلب کے بیک ڈور سے کھسک گیا۔
کیونکہ وہ اب کسی قسم کے قانونی چکروں میں نہیں پھنسنا چاہتا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
صبح کے پونے چار کا عمل تھا،اندھیرے نے ہر طرف اپنا راج جمایا ہوا تھا۔مگر
قلعے میں اس وقت مدہم روشنی تھی۔پرانا قلعہ اس قدر پرانا تھا کہ خود اسے
بھی اپنی تاریخ پیدائش بھول گئی تھی۔قلعے کی چھت پر کبوتروں اور مختلف رنگ
برنگی پرندروں نے اپنا مسکن بنایا ہوا۔بہت سے لوگ اسے بھوتوں کی آماجگاہ
کہتے تھے، مگر وقت بدلتے ہی جوں جوں مشینوں نے ترقی کی لوگوں کے ذہنوں نے
بھی ویسی ویسی ترقی کی۔ اب پاکیشیا کی حکومت نے اسے باقاعدہ سنٹرل جیل کی
شکل دے دی تھی۔یہاں پر صرف ہائی پروفائل قسم کے خطرناک مجرموں کو لایا جاتا
تھا اور کچھ عرصہ ان کو وہاں رکھ کر انکی قسمت کافیصلہ کردیا جاتا تھا۔
علی عمران کا شماربھی اُن ہی ہائی پروفائل خطرناک مجرموں میں کیا گیا تھا۔
جیل کی انتظامیہ بہت سخت واقع ہوئی تھی، کیونکہ نظم و ضبط قائم رکھنے کے
لئے یہ بہت ضروری تھا۔ یہاں کے قیدیوں کی باقاعدہ چھتر پریڈ ہوتی تھی ،اس
کے علاوہ یہاں کے جیلر صاحب ایک بہت ہی سخت گیر شخص تھے کسی کے ساتھ تھوڑی
سی بھی رعایت نہیں برتتے تھے۔عمران کی دونوں اپیلیں مسترد ہوگئی تھیں اور
آخری ظلم یہ کے اس کے ڈیتھ وارنٹ پر خود ایکسٹو نے دستخط کئےتھے۔ اس وقت
ریاستِ پاکیشیا کے لئے عمران کو جلد از جلد فارغ کرنا لازمی ہوگیا تھا۔
کیونکہ پاکیشیا کی عوام شدید مشتعل تھی اور ان کو قابو کرنے کا واحد حل تھا
کہ عمران کو فوراً سے پہلے ایکسپائر کردیا جائے۔
اس کا آخری میڈیکل چیک اَپ ہوگیا تھا اور حکومتوی ڈاکڑز کی پانچ افراد کی
ٹیم نے اسے مکمل فٹ قرار دیا تھا۔اس نے اپنی آخری وصیت میں پاکیشیا کی قوم
کے نام ایک پیغام دیا تھا جو اس کی موت کے بعد منظر عام پر آنا تھا۔ گھر
والوں سے ملاقات کے ٹائم کوئی بھی اس سے ملنے نہیں آیا تھا۔ کیونکہ
سرعبدالرحمان نے اس کے اقبالِ جرم کے بعد گھر کے ہر فرد پر مکمل پاپندی لگا
دی تھی کہ اب ان سب کا رشتہ عمران سے ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا ۔لحاظہ جب
رشتہ ہی ختم ہوگیاتو ملاقات کیسی؟۔۔۔۔ سو اس سے کوئی بھی ملنے نہ آیا۔
البتہ اس کے کچھ دوست ضرور ملنے آئے تھے جن کے بارے میں میڈیا کو بالکل خبر
نہیں تھی کے وہ کون لوگ ہیں ۔اس کے پاس ایک مولوی صاحب بھی آئے تھے اس کے
علاوہ جو قانون کے مطابق دیگر ضروری کام تھے وہ سب پورے کئے گئے تھے۔
میڈیا لائیو کورج کے لئے باقاعدہ پھانسی گاٹ میں موجود تھا اور انہوں نے
اپنی نشریات میں خصوصی طور پر لکھا تھا کہ یہ نشریات بچے ، بڑھے اور کمزور
دل افراد ہرگز نہ دیکھیں۔ عمران نے پوری رات اللہ کی عبادت میں گذاری تھی
سر پرسفید ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح۔۔۔۔۔ اس کے بلاوے کا ٹائم آیا تو اس نے
وہ ٹوپی اُتار دی اور تسبیح چھوڑ کر وہ پھانسی گاٹ کی طر ف چل پڑا۔ اس کو
زنجیروں اوربڑے بڑے کڑوں سے باندھا گیا تھا جب وہ چلتا تو چھن چھن کی آواز
آتی تھی۔
اس کو تین چار سپاہی گن پوائنٹ پر پھانسی گھاٹ کی طرف لانے لگے ، وہاں اس
کے لئے الیکٹرک چیئر بھی موجود تھی۔پورے پانچ منٹ قبل اسکی زنجیریں ہٹا کر
اسے الیکٹرک چیئر پر بٹھا دیا گیا، پھر اس کے منہ میں کپڑا ٹھونس کر اسے
مضبوطی سے بند کیاگیا اور
بعد ازاں اس کا چہرہ سیاہ کپڑے میں چھپادیا تھا۔ جیل کے اطراف میں باقاعدہ
فوج طلب کرلی گئی تھی اور وہاں اسکیورٹی ہائی الرٹ تھی۔وہاں جیلر صاحب،
عدالت اور حکومت کی جانب سے ایک ایک نمائندہ موجود تھا۔ الیکڑک چیئر پر جیل
انتظامیہ نےعمران کو بٹھا کر تمام تاریں اس کے جسم سے لگائیں تھیں، البتہ
پھانسی کے کئے جلاد لیور اورتختے کا پورا فنکش چیک کرکے اسے تیل دے چکا
تھا۔
جیسے ہی جیلرصاحب کی گھڑی نے چار بجائے انہوں نے ہاتھ کااشارہ کیا تو ایک
آدمی جو الیکٹرک چیئر کے فنکشن کااکسپرٹ تھا ،اس نے چیئر کے پیچھے موجود
ایک سرخ بٹن دبادیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے عمران بری طرح سے تڑپنا شروع ہوگیا۔
وہ کوئی آٹھ منٹ تک تڑپنے کے بعد بے ہوش ہوگیا البتہ آخری دومنٹ تک لگاتار
اسے کرنٹ لگتا رہا۔ پھر جیلر صاحب کے اشارے پر بٹن بند کرکے اس کے جسم سے
تمام تاریں اور کپڑا ہٹا کر اسے دو آدمی پکڑے تختے کے اوپر لے گئے۔ جبکہ
عمران اس دوران بے ہوش رہا، وہاں اس کے ہاتھ پشت پر باندھ دیئے گئے ۔ پھر
اس کے چہرے پر سیاہ کپڑا ڈال دیا گیااس کے بعد بہت ہی موٹا رسہ اسکے گلے
میں ڈال کر اسے ٹائٹ کردیا گیا۔ پھر کچھ دیر بعد جیلر صاحب کے اشارے پر
جلاد نے لیور کھینچ دیا۔ تختہ کھلا اور عمران ایک جھٹکے سے لٹک کر بری طرح
سےتڑپنے ،مچلنے لگا۔ کوئی آٹھ منٹ بعد اس کے جسم نے پھڑکنا بند کردیا اب وہ
صرف جھول رہا تھا۔ پھر اس کا جھولنا بند ہوا اور وہ بالکل ساکت ہوگیا۔ کوئی
آدھے گھنٹے بعد اسے وہاں سے اتار کر ایک اسٹریچر پر ڈالا گیا تو اسکی زبان
دانتوں میں آکر بری طرح سے پھنسی ہوئی تھی۔ اس کے منہ سے لعاب بہ کر سوکھ
گیا تھا اور اسکی گردن اکڑ کر لمبی ہوگئی تھی۔
پھر سرکاری ڈاکڑز کی پوری ٹیم نے عمران کو چیک کیا اور اس کی موت کی تصدیق
کردی۔
میڈیا والوں نے جم کر بریکنگ نیوز لگائیں۔
"سر داور کے سنگدل قاتل کا بھیانک انجام ۔۔۔۔ علی عمران کو تختہ دار پر
لٹکا دیا گیا۔۔۔۔۔۔ خس کم جہاں پاک۔۔۔۔ عمران کم پاکیشیا پاک"
٭٭٭ ٭٭٭٭ ٭ |
|