مجھے انمول بنا دو

رمزی کہیں دورسے آنے والی موسیقی کی آواز پر کان لگائے کھڑکی کے پاس کھڑا تھا ۔۔ باہر سوائے اس آواز کے جو اسے کہیں دور سے آرہی تھی اور کچھ بھی خاص نہیں تھا ۔۔ پتہ نہیں وہ کیا دیکھ رہا تھا یا شاید کچھ بھی نہیں ۔۔۔صرف اس دور سے آنے والی آواز کو اپنے کانوں کے ساتھ ساتھ آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ جیسے وہ لفظوں کی اور آواز کی شکل پہچانتا ہو۔۔۔کمرے کی معطر ہوتی ہوئی فضاء نے کسی کہ آنے کی اطلاع دی ،جب رمزی پلٹا تو سامیہ اسکے بہت قریب کھڑی اسے اجنبی سی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اور کچھ کہنے کیلئے بے تاب تھی ۔۔۔رمزی چاہتا تھا کہ سامیہ کا ہاتھ پکڑ کر کھڑکی کے پاس لائے اور اسے دور سے آتی ہوئی آواز سنائے ۔۔۔۔مگر اس سے سامیہ کی بے چینی دیکھی نہیں گئی ۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ کہتا سامیہ نے خود ہی کہنا شروع کردیا۔۔۔

رمزی !تمھیں نہیں معلوم میں نے تمھیں کتنا چاہا ہے اور اس کا یقین دلانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ۔۔۔رمزی میں نے محبت عبادت سمجھ کر کی ہے ۔۔۔ عبادت مقبول ہوتی ہے یا نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے بندے کا کام تو بس عبادت کرنا ہے ۔۔۔ میں بھی ایک بندی ہوں اور اپنی عبادت میں مشغول رہنے کی کوشش کرتی ہوں۔ نہ جانے کیوں یہ کیسا یقین ہے کہ ایک دن میری عبادت مقبول ہوجائے گی۔۔۔ میری نجات ہو جائے گی۔۔۔ بس اسی دن کے انتظار میں ۔۔۔ تم سے محبت کرنے میں مشغول ہوں۔۔۔ رمزی میں تمھاری محبت میں کیا بننے والی ہوں ۔۔۔ مجھے نہیں معلوم ۔۔۔ مگر میں ایک دن تمھاری محبت کی بدولت انمول ہو جاؤنگی ۔سامیہ کی باتوں نے اطراف کے ماحول کو اپنی باتوں اور جذبات سے اپنے بس میں کر لیا تھا۔۔ سورج اپنی آب و تاب سے ماحول کو منور کئے ہوئے تھا مگر اسکی سحر زدہ باتوں سے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے نہ جانے رات کے کتنے پہر گزر چکے ہوں۔۔۔ ہر طرف بس اندھروں کا ہی بسیرہ ہو۔۔۔اور اندھیرے میں کہیں دور سے موسیقی کی آواز آرہی ہو۔۔۔

رمزی نے اسکی باتوں میں مگن کہنے لگا۔۔۔ہاں سامیہ پھر تمھارے بدن سے خوشبو اٹھے گی تمھارے جسم سے نور کے فوارے پھوٹیں گے اور تم پھر تم نہیں رہوگی قدرت کی عطا کردہ ایک مقدس روح کی امانت بن جاؤ گی۔۔ ۔محبت کرنے والا دل خدا اپنے مخصوص بندوں کو ہی عطا کرتا ہے اور تم بہت خاص ہو جاؤ گی۔۔۔سامیہ !مجھے قید سے نفرت ہے میں نے کبھی اپنے آپ کو کسی قید میں نہیں رکھا ، یہاں تک کہ اپنی سوچ اور اپنے جذبات کو بھی آزادی دے رکھی ہے جہاں چاہیں جائیں مگر مجھ سے وابستہ رہیں۔یہی تم سے چاہتا ہوں تم کچھ بھی رہو کیسی بھی رہو مگر مجھ سے کوئی تعلق ضرور رکھنا۔

سامیہ رمزی کی گفتگو سن رہی تھی مگر اس کے اسے کوئی بات بے چین کئے ہوئے تھی۔۔۔ تمھاری سب باتوں کی طرح یہ باتیں بھی اچھی ہیں مگر ان میں کہاں تک سچائی ہے مجھے نہیں معلوم ۔۔۔تمھاری باتوں میں کہاں تک سچائی ہے اس بات کا اندازہ آج تک نہیں لگا سکی۔۔۔ تم یوں سمجھوں میں آج تک تمھاری کہی ہوئی خوبصورت باتوں میں قید رہی ہوں اور میں نے کبھی ان میں سچائی ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ مگر اس میں تمھارا کوئی قصور نہیں ہے شائد تم خود بھی نہیں جانتے کہ تم اپنے آپ سے یا اپنے سے وابسطہ لوگوں سے کس قدر مخلص ہو، شائد تم اس بات سے ماورا ہو۔۔۔تمھارے نزدیک اپنی باتوں کو اپنے خیالوں کو خوبصورت لفظوں میں ڈھالنے سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے جو کبھی کسی غزل یا نظم کی صورت اختیار کئے تمھاری ڈائری کی رونق بنتی ہے۔۔۔۔۔۔سچ بتاؤں مجھے تو کبھی کبھی تمھاری ڈائری میں رکھی ہوئی اپنی تصویر بھی اپنی نہیں لگتی ایسا لگتا ہے جسے وہ کوئی جسم نہیں بلکہ تمھارے لفظوں کا ڈھیر ہے۔یہ کہتے ہوئے وہ کمرے کی دیوار پر آویزاں اپنی اور رمزی کی تصویر کے سامنے آکھڑی ہوئی اور اسے ایسے دیکھنے لگی جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو اور پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو کہ وہ تصویر کس کی ہے۔

سامیہ نے تصویر سے نظر ہٹاتے ہوئے کہنا شروع کیا ۔۔۔رمزی تم نے مجھے قید کر رکھا ہے ۔۔۔تم ساحر ہو رمزی ۔۔۔تم سراپا ساحر ہو۔۔۔کوئی تمھاری شخصیت کے سحر سے نکل نہیں پاتا۔۔۔ کہ وہ تمھاری باتوں کے سحر میں قید ہوتا جاتا ہے۔۔۔ اور جو تمھارے گھر میں آجائے تو وہ تمھارے گھر کے سحر میں قید ہوجاتا ہے۔۔۔تم صیاد ہو رمزی۔۔۔پہلے تم نے مجھے سحر سے اپنے بس میں کیا اور پھر اپنے گھر میں قید کرلیا ۔۔۔اس گھر میں جو کسی قبر کے اندھیرے سے مزین ہے۔۔۔جہاں بسنے والی بو بھی انجانی سی لگتی ہے شائد کوئی مرنے والا بتا سکتا کہ یہ بو بھی قبر کی ہے۔۔۔سامیہ اپنی پوری قوت گویائی کی صفت کو عطا کئے ہوئے تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اگر اس نے اپنا ذہن رمزی کی جانب کیا تو وہ پھر اسکے سحر سے بچے بنا نہیں رہ سکے گی۔

رمزی جو حیرانگی کی صفت سے عاری تھا بہت دھیان سے سامیہ کی گفتگو سنتا رہا اسے لگ رہا تھا کہ جیسے سامیہ میں ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے اور یہ شور اسی ٹوٹ پھوٹ کا ہے ،وہ اندر ہی اندر بہت خوش تھا کیونکہ وہ ہمیشہ سے سامیہ کو ایسا ہی دیکھنا چاہتا تھا مگر سامیہ آج ایک نئے روپ میں تھی جس میں آج سے پہلے اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔ اب رمزی نے اسکے اسی روپ کو اور اجاگر کرنا تھا یہاں تک کہ وہ ہمیشہ کے لئے اس سے اسی طرح پیش آئے یعنی اپنے احساسات و جذبات کا شور مچا مچا کر اظہار کرے ۔۔۔میں نے تم سے محبت کی ہے اور کرتی رہونگی کیونکہ مجھے بھی اور بہت سے محبت کرنے والوں کی طرح یہ نہیں پتہ کہ مجھے تم سے محبت کیوں ہے ؟ ؟؟؟؟میرے پاس اس بات کا کوئی جواز بھی نہیں ہے ، میں نے کبھی جواز ڈھوندنے کی کوشش بھی نہیں کی۔۔۔۔۔ مجھے تم سے محبت ہے۔قدرت نے محبت بھی کتنی عجب شے بنائی ہے کہ اچھے بھلے انسان کو اندھا کردیتی ، مادیت سے دور لیجاتی ہے ۔۔۔۔عقیدت سے لبریز کر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔

ہم زندگی کے انگنت سالوں کو ایک ساتھ گزارنے کا عہد کئے ہوئے ہیں مگر کیا تم ان خامیوں کے ساتھ میرے ساتھ وہ عہد نبھا لوگی کیا تمھیں یقین ہے کہ ہماری آنے والی زندگی میں رونق باقی رہے گی ، مجھے نہیں پتہ میری زندگی تمھارے بغیر کیسے گزرے گی ہاں گزر جائے گی کیونکہ اس نے تو گزرنا ہی ہے اب زندگی کو میں گزاروں یا زندگی مجھے ، کوئی فرق نہیں پڑتا اور سنو تم جو فیصلہ کرو گی مجھے منظور ہوگا کیونکہ میں کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی زندگی سسک کر گزارے اور پھر تم تو میرے لئے بہت خاص ہواتنی ہی خاص جتنی کہ میرے جسم میں رہنے والی روح۔

سامیہ غم دائمی ہوتے ہیں ہمیشہ چپکے چپکے ہمارے ساتھ چلتے ہیں ۔۔۔ہم ان سے نہیں بھاگ سکتے اور جب ہم ان سے نہیں بھاگ سکتے تو کیوں نہ انہیں اپنا لیں۔۔۔انسان کو پیدا ہوتے ہی مرنے کا غم آ دبوچتا ہے پھر ساری زندگی اس ایک لمحے کے انتظار میں گزرتی ہے کہ جانے کب اجل کا فرشتہ لینے آجائے۔۔۔ ہم لاکھ چاہیں کہ اس غم سے پیچھا چھڑا لیں مگر یہ ناممکن ہے ۔۔۔موت کا غم یا دکھ تمام غموں اور دکھوں کی ماں کہوں تو غلط نہیں ہوگا۔۔۔خوشیاں تو آنی جانی ہوتی ہیں بس ہوا کے جھونکوں سے زیادہ انکی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔۔۔پھر جو چیز رہتی سانس تک مستقل ساتھ ہے ۔۔۔تو ساتھ اسی کا نبھانا ہے۔۔۔تم بھی غمزدہ ہو میں بھی غمزدہ ہوں ہر کوئی غمزدہ ہے۔۔۔یہ قہقہے کھوکھلے ہیں۔

سامیہ اب تک انجانے اندیشوں کا شکار رہی تھی وہ رمزی کو جاننے کی تمام کوششوں میں ناکام ہوتی رہی تھی اور اس میں تذبذب کی کیفیت بہت بڑھ چکی تھی وہ جب رمزی کہ سامنے جاتی تھی بلکل خالی ذہن ہوتی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ رمزی اس سے کیسے ملے گا ۔سامیہ نہ چاہتے ہوئے کچھ کھچی کھچی سی رہتی اس نے اپنے ذہن میں رمزی کہ بارے میں بہت کچھ خود ہی طے کر رکھا تھا اور وہ شائد یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ اس کہ ساتھ کیوں ہے ، کیوں اسے اپنا ہمسفر بنا رکھا ہے ایک ایسا ہمسفر جو ساتھ ہوتے ہوئے بھی ساتھ نہیں ہوتا کبھی کبھی تو سامیہ کو اسکی موجودگی کا احساس تک نہیں ہو پاتا تھا جبکہ وہ ساتھ ہوتا تھا۔سامیہ اکثر سوچتی کہ قابلِ رحم میں ہوں یا رمزی، کوئی نہ کوئی الجھن اسے الجھائے رکھتی اور تمام الجھنوں کی ابتداء اور انتہا رمزی ہی تھا۔نہ جانے رمزی اس پر کیسے قابض ہوا تھا، نہیں میں ایسا نہیں سوچتی سامیہ نے خودکلامی کرتے ہوئے کہا جس پر رمزی نے کہنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔۔نہ جانے کیوں ، کبھی کبھی وقت بہت بے رحم ہوجاتا ہے اور ایسے دوراہے پر لاکر کھڑا کر دیتا ہے جہاں سے راستے کا تعین کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن نظر آتا ہے۔ہاں!مگر ہمیں ایک ہی راستہ چننا ہوتا ہے یا پھر اسی جگہ کو منزل سمجھ کر ہمیشہ کہ لئے بسیرا کرنا پڑتا ہے مگر کامیابی ان کے قدم چومتی ہے جو کسی راستے کو چن لیتے ہیں۔

میری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ تم میرے ساتھ ہو، میں نے تو کبھی تصور میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں تمھیں پا لونگی اور میرے تمام راستے نا جانے کب سے تم تک آ کر ختم ہو چکے ہیں۔۔۔

مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ جیسے راستہ تو تم نے ختم کردیا ہے مگر جہاں تم نے اپنا بسیرہ کر رکھا ہے اس گھر میں بہت سارے روزن ہے جہاں سے آنے والی ہوا اور دھوپ اکثر تمہیں کچھ نیا سوچنے پر مجبور کردیتی ہے اور تمھاری عبادت نما محبت میں خلل ڈالتی ہے، تمھیں بھٹکاتی ہے۔ اب یہ تم خود جانتی ہو کہ تم اپنے محور سے کتنا بھٹکتی ہو اور کتنا اپنے آپ کو بچاتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھوسامیہ دل تو خانہ خدا ہے اور خانہ خدا میں مستقل سکونت تو خدا کی ہونی چاہئے۔۔۔۔ اگر کسی اور کے لئے ایسا کریں گے تو پھردل تنگ کرے گا۔۔۔۔جب یہ تنگ کرے تو پھر شکوہ نہیں کرتے۔۔۔۔

سامیہ ہم اپنی طرف آنے والے راستے میں اکثر خود ہی گڑھے کھودلیتے ہیں ایک ذرا سی بال برابر آئی ہوئی دراڑ کو خود ہی بہت بڑی خلیج بنا دیتے ہیں اور پھر سامنے کھڑے شخص کو حیرت سے دیکھتے ہیں جو ہمارے قریب آنا چاہا رہا ہوتا ہے مگر راستے کی رکاوٹیں اسے ہم تک نہیں پہنچنے دیتیں اور ہم سارا الزام اسی پر ڈال کر آرام سے بیٹھ جاتے ہیں۔ہمیں خود اندازہ ہونا چاہئے کہ آیا ہماری طرف آنے والا راستہ خصوصاً اسکے لئے جسے ہم اپنی طرف بلانا چاہتے ہیں کھلا ہے ہموار ہے یا نہیں۔۔۔۔۔۔پھر بہت دیر ہوجاتی ہے-

دراصل میں نے تمھیں اپنے سے کبھی الگ نہیں سمجھا ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم آج تک اس کوشش میں لگی رہی ہو کہ تم مجھے اپنی محبت کا یقین دلاؤ ۔۔۔محبت یقین دلانے سے نہیں برتاؤ سے سے چھلکتی ہے محبت میں آزمائش بھی آتی ہے مگر شور مچا کر زمانے کو نہیں بتایا جاتا ، محبت تو خود بخود اپنا احساس کرائے جاتی ہے ۔۔کرائے جاتی ہے۔۔محبت پانی کی ان بوندوں کی طرح ہوتی ہے جو ایک سخت ترین پتھر میں بھی اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔۔۔محبت کبھی بھی سمجھ بوجھ کے ساتھ نہیں ہوسکتی ۔۔محبت کے ہوجانے کا احساس تو ۔۔محبت میں بہت دور نکل آنے کے بعد ہوتا ہے۔۔محبت میں ایک قدم اٹھتا ہے تو پیچھے دیوار کھڑی ہوجاتی یعنی واپسی کا راستہ بند ہوتا جاتا ہے۔۔اکثر تو دلگی ہی دل کی لگی بن جاتی ہے۔

تم جانتی تو ہو کہ میں زندگی کے پر پیچ راستوں سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہوں تم توخوب واقف ہو میری ریاضتوں سے ، پھر بھی تم تقاضائے وفا کرتی ہو ، ہمیں ہمیشہ ساتھ چلنا ہے اسکا عہد کرتے وقت میرے ذہن میں کوئی گمان تک نہیں تھا کہ ہماری آنے والی زندگی کس ڈھب پر چلے گی مگر میں نے اپنے آپ سے یہ عہد ضرور کیا تھا کہ آنے والے سفر میں تم میری ہمسفر ہو اور تمھیں ہر غم سے دور رکھنے کا عزم کیا تھا اور ایسے حادثوں سے بھی جو انجانے میں سر اٹھائے اچانک سامنے آجاتے ہیں۔میں ایک اندیکھے خدا پر یقین رکھتا ہوں جس نے اپنی قدرت کا یقین کائنات بنا کر اور انگنت طریقوں سے کرایا ، ایسے ہی محبت ہوتی ہے اسے اظہار سے زیادہ برتاؤ کی ضرورت ہوتی ہے کسی سے یہ کہہ دینا مجھے تم سے محبت ہے شائداتنا مشکل نہیں ہے جتنا کہ اپنے برتاؤ سے کسی کو اپنی محبت کا احساس دلانا ۔ محبت حقیقتا ایک ریاضت کا نام ہے اور جو بہت کٹھن ہے مگر پھر راحت ہی راحت ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ’ ڈوب جا اس میں اگر اس پار جانا ہے‘ تو اپنی ہستی کو مٹانا پڑتا ہے اپنی انا کا خون کرنا پڑتا ہے پھر کہیں جا کے یہ ریاضت اپنی کاملیت کو پہنچتی ہے مگر یہ بھی ضروری نہیں کہ کاملیت کو پہنچے ۔ محبت انسان کے ہونے کا جواز ہے اور انسان محبت کے ہونے کا جواز ہے۔میں تمھارے بارے میں اس سے زیادہ اور کیا کہوں کہ!

مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم میری باتوں پر یقین کرتی ہویا نہیں، میں نے تمھارے سامنے اپنے اندر رہنے والی روح کو پیش کر دیا ہے اب یہ تم پر ہے کہ میری ان باتوں کوان خیالوں کو لفظوں کا ڈھیر سمجھ کر ٹھوکر مار دو یا اپنے سینے سے لگا لو۔ وقت ایک سلگتی ہوئی سگریٹ ہے جو آہستہ آہستہ دھواں بن کر کہیں گم ہوتا جاتا ہے ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا جاتا ہے، ہم لاکھ چاہیں کہ اِس اڑتے دھوئیں کو تھام لیں مگر اور اپنے انجام کو پہنچتی سگریٹ کو روک لیں مگر یہ ناممکن ہے، زندگی کو اگر ہم گزار لیں تو زیادہ اچھا ہے ورنہ زندگی ہمیں گزار دیگی ۔میں نے تمھیں بہت الجھا دیا ہے لفظوں سے تمھارے گرد ایک جال سا بن دیا ہے اب اس جال میں رہو یا اسے توڑ کر دور بھاگ جاؤ اس کا اختیار تمھارے پاس ہے۔

مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ تمھاری زبان سے ادا ہوئے یہ الفاظ تمھارے نہیں ہیں ، بلکہ کسی بہت پرانی روح نے تمھارے جسم میں بسیرہ کر رکھا ہے اور وہ تم سے وہ سب کچھ کہلوارہی ہے جو وہ اپنے ہوتے نہیں کہہ سکی۔تم کیوں نہیں سمجھتے کہ زندگی باتوں اور خیالوں کے سہارے نہیں گزرتی ۔۔۔۔تم لکھاری لوگ خود غرض ہوتے ہو۔۔ اپنے آپ کو تکلیف اس لئے دیتے ہو کہ کچھ نیا لکھ سکو۔۔۔کسی نئے درد کو جنم دے سکو ۔۔یہ بھی نہیں سوچتے کہ تم سے وابستہ لوگوں پر کیا بیتتی ہوگی۔۔۔بس اپنے میں مگن جئے جاتے ہو۔۔۔۔

ہاں! تم صحیح کہتی ہو ۔۔۔۔مگر یہ سب کچھ ہم کوئی جان بوجھ کر نہیں کرتے یہ تو ہوتاجاتاہے۔۔۔تم اگر مانو تو ہم قدرت کے خاص لوگ ہوتے ہیں ۔۔کیا پتہ ہمارے جسموں میں ان روحوں کو ڈال کر دوبارہ بھیجا جاتا ہو جو اپنے وقت میں بہت کچھ کرنا چاہتیں ہوں مگر قدرت نے انکے لئے اسوقت ، وقت کم رکھا ہو اور پھرقدرت کو احساس ہوا کہ انہیں اور موقع دیا جائے اور پھر ہمارے جیسے لوگوں کے جسموں میں انکی روحیں ڈال کر انہیں پھر سے نامکمل کاموں کو مکمل کرنے کہ لئے بھیجا ہو۔۔ہم اپنی کہانیوں میں اپنے کرداروں کی تقدیر خود لکھتے ہیں۔۔۔کس نے کہاں مرنا ہے اور کس نے کب پیدا ہونا ہے۔۔۔ہوئے نا ہم خاص۔۔۔ تم چاہو تو مجھے خود غرض بھی کہہ سکتی ہو مگر تمھارے اس کہنے سے پہلے میں تمھیں یہ ضرور بتانا چاہونگا کہ میں خود غرض کیسے ہوں مجھ سے وابسطہ جو لوگ ہیں میں ان سب سے مل کر بنا ہوں یا وہ سب میری ہی ذات کا حصہ ہیں ، میں ہر اس جگہ ہوں جہاں مجھ سے وابسطہ کوئی موجود ہے تو میں اس طرح سے خود کو خودغرض کہلانے میں کوئی آر محسوس نہیں کرتا بلکہ یہ میرا فخر ہے۔

زندگی یو ں بھی گزرتی ہے اور بلکل گزرتی ہے ! ہم اپنے لئے اپنے مطلب کی چیزوں کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنی مطلب کی بنائی ہوئی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم دو جسم ہیں ۔۔۔ الگ الگ سوچ کہ مالک ہیں۔۔۔ شائد قدرت نے ہمیں ایک ہی راستے پر چلنے کے لئے بنایا ہے ۔۔۔۔ اچھا تو اسکا مطلب یہی ہے کہ میری باتیں لفظوں کہ ڈھیر سے کچھ زیادہ نہیں ہیں۔

سامیہ میں ایک مدت سے سفر میں ہوں اور شائد اب کہیں جا کر میرا سفر تکمیل کے مراحل میں داخل ہوا ہے وہ بھی شائد اسلئے کہ میں نے اصل سفر چھوڑ کر کسی اور راستے کو اپنا کر اپنے سفر کی تکمیل کا سامان کیا ہے اسلئے مجھے اس سارے سفر کے راستے کو سمیٹنا ہے ، میں کہاں کہاں کیا کیا بھول آیا ہوں یا چھوڑ آیا ہوں مجھے سمیٹنا ہے تم مجھے اتنی مہلت تو دو کے میں اپنا چیدہ چیدہ سامان سمیٹ لوں جوکہ میرے نئے سفر میں جس میں تم بھی میری ہمسفر ہوگی کچھ کارآمد ثابت ہو سکے۔نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ جیسے میری زندگی اب کبھی بھی ایک ڈگر پر نہیں چل سکے گی میں جس راستے کو چھوڑ کر آیا ہوں پتہ نہیں مجھے وہ راستہ چھوڑنا تھا یا نہیں۔۔۔۔۔نہ جانے میں کب تک اس سفر کی تلخیوں کو بیٹھ کر سوچتا رہونگا۔۔۔۔اور میں اس امر سے بھی واقف ہوں کہ میرا یوں اس راستے اور اس سفر کے بارے میں سوچنا ۔۔۔۔تمھیں اچھا نہیں لگے گا۔مگر سامیہ میں نے اب تک تمھارے لئے اچھا کیا ہی کیا ہے۔

سامیہ بہت انہماک اور خاموشی سے کھڑی رمزی کی باتوں میں گم تھی کہ اسے کہیں دور سے اپنی ہی ایک آواز سنائی دی جو اسکے غور کرنے پر اپنی ہی لگی ۔۔۔۔وہ گھبرائی نہیں ۔۔وہ ایسی باتوں کی عادی ہو چکی تھی۔۔۔پھر اس نے اس آواز پر دھیان دینا شروع کیا ۔۔۔وہ آواز سامیہ سے ہی مخاطب تھی ۔۔۔اور اسی سے کچھ کہہ رہی تھی ۔۔۔تمھاری ریاضت کا صلہ تمھیں مل چکا ہے ۔۔تمھاری عبادات مقبول ہوچکیں ہیں۔۔تم بھی خدا کے یہاں قابلِ احترام ہو ۔۔اپنے محترم ہونے کا ثبوت تمھیں مل چکا ہے۔۔ تم نے اپنے احساس کو بھٹکایا ہوا ہے۔۔ لوٹ آؤ کہ تم نے جو مانگا تھا وہ تمھیں مل چکا ۔۔اب اپنے سفر کو اسکے سفر سے منسوب کردو ۔۔جیسے کسی دریا کا اختتام کسی بڑے سمندر میں گر کر ہوتا ہے۔۔ تم اس سمندر میں ہی ہو۔۔اب تم اسکی موجوں کے رحم و کرم پر ہو ۔۔اپنے ہاتھ پیر چلا کر خود ہو ہلکان مت کرو ۔۔تم اپنی منزل پر کھڑی ہو۔

سامیہ ! ہمیں یقین ہوتا ہے مگر ہمارا یقین کہیں دور اندھیرے میں گم ہوجاتا ہے اور ہماری امیدیں ہمیں اس امید پر زندہ رکھتی ہیں کہ ہم یقین کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب ہماری امیدیں کارگر ثابت ہوتی ہیں اور ہمارا یقین ہمیں مل ہی جاتا ہے۔ بلکل اسی طرح جیسے آج تم میری زندگی میں ہو۔ مجھے یقین تھا کہ تم میرے سے ایک دن ہمیشہ کیلئے آن ملو گی اور میری امیدوں کی کارگزاری کا نتیجہ ہے کہ تم آج میرے سامنے ہو میرے یقین کی صورت میں۔

کیا میں اپنے آپ سے بات کر رہی تھی نہیں یہ میرے اندر کوئی اور بول رہا تھا ہاں مگر مجھے بشارت ملی ہے ۔۔سامیہ کہ چہرے کہ تمام اوسان انتہائی معمول پر آچکے تھے وہ اپنے آپ کو انتہائی ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔۔ ان تمام بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ اس نے رمزی سے کہا۔۔ نہیں ایسی بات نہیں ۔۔۔۔ میری سوچ تو مدت سے تم تک آکرتمام ہوچکی۔۔۔ میں اب کہاں سوچتی ہوں۔۔۔ میری اگر کوئی سوچ ہے بھی تووہ تمھاری سوچوں سے نکلی ہوئی دھاراہی ہے۔۔۔۔ سنو ! میں بھی محبت کہ رازوں سے بیخبر تمھاری محبت میں گرفتار ہوں مجھے اپنی پناہوں لے لو۔۔۔میری سمجھ میں آگیا ہے کہ میری عبادت کا حاصل تم ہی ہو۔۔میری عبادت مقبول ہوچکی ہے ۔۔مجھے اپنی روح میں بسالوکہ میری روح بھی مقدس ہوجائے۔۔۔اور میرا جسم خوشبوؤں کا مسکن بن جائے۔۔ مجھے اپنے جسم میں پناہ دے دو۔۔مجھے انمول بنادو۔
Sh. Khalid Zahid
About the Author: Sh. Khalid Zahid Read More Articles by Sh. Khalid Zahid: 529 Articles with 460968 views Take good care of others who live near you specially... View More