علی عمران ہینگ ٹل ڈیتھ - آخری قسط

 علی عمران ہم شرمندہ ہیں

محمود شاہد کےپرائم چینل کے خلاف شو نے پورے پاکیشیا کے سوشل میڈیا فیس بک،ٹوئٹر اور اردو فینز جیسے دیگر فورمز پر دھوم مچادی تھی۔پرائم چینل کے خلاف پاکیشیا کے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر باقاعدہ تحریک چلادی تھی۔اردو فینز کے شاؤٹ باکس میں اور مختلف تھریڈز پر صدر صاحب سے اور چیف جسٹس آف پاکیشیا ایس کے ملک صاحب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ محمود شاہد کے پروگرام کا نوٹس لیا جائے۔محمود شاہد کے شو میں تہلکا خیز ویڈیوز کو فیس بک اور ٹوئٹر پر لاکھوں کی تعداد میں شیئر کیا جارہا تھا۔ پاکیشیا کی یوتھ کا خیال تھا کہ ضرور ٹاپ سیکرٹ ڈی وی ڈی کو ایڈٹ کرکے تبدیل کیا گیا۔ لیکن وہ عمران پر بھی شدید غصے میں تھے، اس لئے عمران کی پھانسی پر کافی خوش تھے۔ان کا خیال تھا کہ عمران کے علاوہ پرائم چینل پر بھی تفتیش ہونی چاہیے اور پرائم چینل جو پاکیشیا میں نوجوانوں اور پاکیشیا کی غریب عوام کو اتنے عرصے سے بے وقوف بنا رہا ہے اب اس کا احتساب ہونا چاہیے تھے۔
ایک نوجوان نے ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ"رسپیکٹ فار سر محمود شاہد صاحب ،پاکیشیا میں آج تک انقلاب نہیں آیا مگر آج سر محمود شاہد صاحب کے پرائم چینل کے خلاف شو کے بعد پاکیشیا کی یوتھ کھڑی ہوگئ ہے ،اور جہاں یوتھ کھڑی ہوجائے وہاں بڑے بڑے بت ٹوٹ جاتے ہیں۔ اب پاکیشیا میں انقلاب آئے گا۔۔۔۔۔۔#سے نو ٹو پرائم چینل سے یس ٹو محمود شاہد صاحب ۔ ۔۔۔۔"
ایک لڑکی نے فیس بک پر کمنٹ کیا تھا کہ " شیم آن پرائم چینل ، کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیاء ہوتی ہے۔۔۔۔۔چیکس لیتے ہو اور پاکیشیا کی یوتھ کو بے وقوف بناتے ہو۔۔۔۔۔۔ رسپیکٹ فار سر محمود شاہد صاحب۔ سر آپ نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔۔۔ اب ہم کبھی بھی ایک غدار چینل نہیں دیکھیں گے۔۔۔۔"
ایک اور کمنٹ میں ایک لڑکے نے لکھا تھا" میرے خیال میں علی عمران کی طرح پرائم چینل کا بھی وہ انجام ہونا چاہیے کہ سر داور کی روح کو سکون آجائے۔ سر داور ہم شرمندہ ہیں تمہارے ابھی کچھ قاتل باقی ہیں۔۔۔۔۔۔بین پرائم چینل اِن پاکیشیا۔۔۔۔"
ارود فینر پر ایک تھریڈ پوسٹ کی گئی تھی جس میں پاکیشیا سے سے پرائم چینل کو بین کرنے کے حوالے سے ایک پول رکھی گئی تھی،اس میں بہت سے لوگوں نے ووٹ کاسٹ کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اردو فینز پر 99 پرسنٹ ووٹ پرائم چینل کو پاکیشیا سے بین کرنے کے حق میں ڈالے گئے تھے۔اردو فینز کے ممبرز سخت غصے میں تھے انہوں نے کہا کہ یہ تھریڈ ایک قرارداد کی حیثیت رکھتی ہے پاکیشیا کی عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ۔۔۔۔اب حکومت کو کسی بات کا انتظار کئے بغیر پرائم چینل کا لائسنس کینسل کردینا چاہیے۔ ہم ایک غیرت مند قوم ہیں کوئی غلام نہیں،کوئی بھیڑ بکریاں نہیں۔۔۔۔۔اگر اب احمد منیر اور عامر جیسے لوگ بچ گئے تو ہم قیامت کے روز سرداور کو کیا منہ دکھائیں گے؟
ایک لڑکی نے ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا تھا کہ "سرداور جیسی عظیم ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں ۔ اگر پرائم چینل بھی انکی شہادت میں ملوث ہے تو پھر ہمیں ایسی ریٹنگ پر لعنت بھیجنی چاہیے۔پاکیشیا کی قوم کا ایک ہی مطالبہ، علی عمران کی طرح پرائم چینل کے سیٹھ کو بھی ٹانگ دو۔۔۔۔
الغرض سوشل میڈیا پر پاکیشیا کی یوتھ سخت غصے میں تھی اور انکے کمنٹس سے تو لگتا تھا اب وہ ہونے جارہا ہے جو آج تک نہیں ہوا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
صفدر،کیپٹن شکیل،تنویر اور کیپٹن عبداللہ سب میک اَپ میں سی آئی ڈی کی کار میں بیٹھے پرائم چینل کی جانب بڑھے چلے جارہے تھے۔انکے کوٹس پر خصوصی طور پر سی آئی ڈی کے لوگوز لگے ہوئے تھے۔ ان کے چہروں پر بے پناہ سنجیدگی تھی اور وہ خصوصی مشن کی طرف رواں دواں تھے۔ کیپٹن عبداللہ ابھی حال ہی میں پاکیشیا کی ملٹری کے کمانڈو سیکشن سے ٹرانسفر ہوکرآیا تھا اور اس کا انتخاب عمران نے کیا تھا ۔ اس کی کارکردگی بہت اچھی ہونے کی وجہ سے ایکسٹو نے پاکیشیا کے آرمی چیف سے درخواست کرکے اسے پاکیشیا سیکرٹ سروس میں شامل کرلیا تھا۔ کمانڈو سیکشن میں رہ کر اس نے اب تک کئی دہشت گردی کے حملوں کو روکا تھا بلکہ کئی دفعہ تنے تنہا ہی دس بارہ دشمنوں پر یہ بھاری ثابت ہوا تھا۔ ملٹری میں اس کا نک نیم " گولڈن ایگل " تھا اور یہ بالکل عقاب کی طرح دشمن پر جھپٹتا تھا اور پھر اس کے آہنی پنجوں سے بچ پانا نہ ممکن ہوتا تھا۔
اس وقت ڈرائیونگ سیٹ پر تنویر تھا ، جبکہ اس کے ساتھ صفدر اور انکے پیچھے کیپٹن شکیل اور کیپٹن عبداللہ بیٹھے ہوئے تھے۔تنویر نے تیزی سے ایک گول چکر سے گاڑی کاٹ کر گاڑی پرائم چینل کے ایک بڑے آہنی گیٹ کے سامنے آکر کار روک دی تو صفدر ، کیپٹن شکیل اور کیپٹن عبداللہ کار کے ڈورز کھول کرجمپ لگا کر اترے اور گارڈ روم کے اندر گھس گئے۔ صفدر نے جیب سے سی آئی ڈی کا بیچ نکال کر گارڈز کے سامنے رکھتے ہوئے کہا
"احمد منیر اور اس کا شاگرد عامر کہاں ہیں ؟۔۔۔۔"
"صاب ابھی تو نہیں ۔۔۔۔" اس کی بات ابھی منہ میں ہی تھی کہ صفدر کے بھاری ہاتھ کا ایک زناٹے دار تھپڑ گارڈ کے منہ پر لگا تو اپنا گا ل پکڑتے زمین پہ گر گیا۔
"یو ڈرٹی فول۔۔۔۔بکواس کرتے ہو۔۔۔۔۔۔آپ لوگ اندر چیک کریں کہیں وہ سی آئی ڈی کا سنتے ہی دونوں فرار نہ ہوجائیں۔۔۔۔۔" صفد ر نے پہلے گارڈ کو کہا اور پھر اپنا رخ موڑ کر کیپٹن شکیل اور کیپٹن عبداللہ کو کہا تو وہ تیز تیز چلتے ہوئے گارڈز روم سے ہوتے ہوئے وہ لوگ عمارت کے اندر چلے گئے۔ وہ نیچے ہر روم میں پوچھ گوچھ اور ٹھکائی کرتے ہوئے اوپر آنے لگے۔
پرائم چینل کی بلند و بالا بلڈنگ کے فورتھ فلور پر ایڈیٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں عامر بیٹھا اپنا کام کررہا تھا۔ اس کاکام عام اور سادہ ویڈیوز کی ایڈیٹنگ کرکے انہیں مزید جذباتی بناناتھا اور پھر اسے پرائم چینل کے ناظرین کے لئے پیش کیا جاتا تو عام لوگ بھی مشتعل ہوجاتے تھے۔وہ بیٹھا کام کررہا تھا کہ ایک ملازم نے آتے ہیں ہی اسے کہا
"سر پلیز آپ یہاں سے چلے جائیں۔۔۔۔۔وہ وہ سی آئی ڈی نے چھاپا مارا ہے ۔۔۔۔ وہ بھوکے کتوں کی طر ح آپ کو اور احمد صاب کو ڈھونڈ رہے ہیں، نیچے ایک ادھم مچا ہوا ہے۔"
"کیا کہہ رہے ہو۔۔۔۔۔" اتنا کہتے ہی اس کی آنکھیں حیر ت سے پھیل گئیں وہ فوراً اپنی کرسی سے اٹھا سائیڈ ٹیبل سے اپنے بیگ کی زپ بند کی پھر اسے اپنی کمر پہ پہنا اور بعدازں دوڑتا ہوا کمرے سے نکلتے چلا گیا۔۔۔ وہ باہر نکلتے ہی دائیں طر ف مڑا ہی تھا کہ سامنے سے کیپٹن شکیل اور کیپٹن عبداللہ دوڑتے ہوئے اس کی طرف آرہے تھے۔ اس نے فوراً اپنا رخ موڑا اور پھر انکی مخالف سمت رخ پھیرتے ہوئے اس نے سیڑھیوں کی جانب دوڑ لگا دی ۔ پھر وہ تیزی سے اُن کے قریب پہنچا اور پھرتی سے سیڑھیاں اترتا ہوا نیچے کی جانب دوڑنے لگا اور پھر پارکنگ میں پہنچتے ہی اس نے ایک بائیک کے لاک کو ایک جھٹکے سے توڑا اور پھر بائیک کو دو نمبر طریقے سے سٹارٹ کر تے ہی وہ وہاں سے بائیک مین سڑک پر لے آیا۔ وہ گیٹ نمبر دو سے فرار ہوا تھا ، جبکہ دوسری سائیڈ پر گیٹ نمبر ون پر صفدر وغیرہ کھڑے تھے۔ اس کے پیچھے کیپٹن عبداللہ بھی تیر کی طرح ایک بائیک پر اس کے پیچھے لگ گیا۔
مین سڑک پر آتے ہی عامر نے بہت رش والے بازار کی جانب بائیک کرلی اور جتنی سپیڈ ممکن تھی اس سپیڈ پر دوڑا دی۔ کیپٹن عبداللہ بھی فل سپیڈ سے اس کا تعاقب کررہا۔ کیپیٹل سٹی کے مشہور جہاز چوک پر خاصی گہما گمی تھی ، رنگ برنگی کارز اور اس سے زیادہ کلرفل بائیکس وہاں پر موجود تھی اور پورا چانس تھا کہ کیپٹن عبداللہ عامر کو مس کردیتا ۔۔۔۔ مگر پھر حیران کن طور پر کسی اسٹنٹ مین کی طرح کیپٹن عبداللہ نے ایک دم اسپیڈ بے انتہا تیز کرتے ہوئے ایک جمپ کے آتے ہی اس نے ایک بہت بڑے جھٹکے کے ساتھ بائیک کو فضاء میں اڑا دیا اور کئی گاڑیوں اور موٹر بائیکس کے اوپر سے ہوتا ہوا،عامر کے عین پیچھے ایک جھٹکے سے پہنچا۔
دونوں بائیکس اپنی پوری رفتار سے چل رہی تھیں کہ کیپٹن عبداللہ نے اپنے بایئک سے ہاتھ ہٹا کر خود اپنا توازن رکھتے ہوئے بائیک کے اوپردونوں پیر جوڑ کر کھڑا ہوگیا۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ عقاب کی طرح اڑتا ہوا فضاء میں اپنی ٹانگیں کھول کر عین عامر کی بائیک کے اوپر اس کی پیچھے جاکر بیٹھ گیا۔ البتہ اس دوران اسکی بائیک اپنا توازن کھو گئی اور مڑتی ہوئی جہاز چوک کے گول چکر سے ٹکرائی اور سڑک پر گر گئی۔
کیپٹن عبداللہ نے عامر کی بائیک کا توازن خراب کرتے ہوئی عامر کے ہاتھ کو دو تین شدید جھٹکے دئیے اور بائیک بے قابو ہوکر ایک جھٹکے کے ساتھ سامنے والی کار کی ڈگی سے بری طرح سے ٹکرائی اور پھر عامر سمیت دھڑام سے نیچے گر گئی۔ کیپٹن عبداللہ پہلے ہی اس کے لئے تیار تھالحاظہ وہ کود کر بائیک کے گرنے سے پہلے ہی سڑک پر موجو د تھا۔ جبکہ عامر بائیک کے نیچے پھنسا ہوا تھا اس کے فرار کی کوئی گنجائیش نہیں تھی۔اس اچانک افتاد سے اس کے بیگ کا ایک کلپ کھل گیا تھا جس کی وجہ سے بیگ اس کی کمر سے اتر کر سڑک پر گر گیا تھا۔
اس حادثے کے ہوتے ہی عامر والی بائیک کے پیچھے آنے والی گاڑیاں ایک جھٹکے سے بریک کے ساتھ چیختی ہوئی رکیں تو ان کے ٹائروں نے بھی احتجاج بلند کیا۔ کیپٹن عبداللہ نے جیب سے سی آئی ڈی کا بیچ جیب سے نکال کر سب گاڑیوں کو رکنے کا اشارہ کیا۔ جہاز چوک پر اس وقت کوئی بھی ٹریفک پولیس والا موجود نہیں تھا۔ کیپٹن عبداللہ ایک دم عامر کی جانب بڑھا اسکے اوپر سے بائیک ہٹائی اور عامرکو اس کے گریبان سے پکڑ کر کھڑا کر لیا ۔پھر اس نے اسے دائیں ہاتھ کی مٹھی میں اس نے بالوں سے پکڑا اور پوری قوت سے پیچھے کھڑی ہوئی گاڑی کے سامنے والے بڑے شیشے پر اچھال دیا۔ عامر اڑتا ہوا شیشے سے ٹکرایا اسکی چیخیں نکل گئیں اور گاڑی کا شیشہ ٹوٹ کر کئی چھوٹے چھوٹے شیشوں میں تقسیم ہوگیا۔ بہت سے شیشوں کے ٹکرے بری طرح سے عامر کے جسم میں پیوست ہوگئے اور اس کے سر سمیت جسم سے جگہ جگہ خون بہنے لگا۔
مگر کیپٹن عبداللہ کے کچھ اور ہی ارادے تھے، اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ اس دوران گاڑی والا نیچے اتر آیا تھا۔ کیپٹن عبداللہ نے عامر کو نیچے اتارا پھر دوبارہ پوری شدت کیساتھ اس کا سر گاڑی کی ایک ہیڈ لائٹ میں دے مارا۔ عامر کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے وہ بری طر ح سے جھولتا ہوا دھڑام سے سڑک پر گرا اور بے ہوش ہوگیا۔ اس دوران دوسرے طرف سے تنویر ،صفدر اور کیپٹن شکیل سی آئی ڈی والی گاڑی لئے وہاں پہنچ گئے ۔ کیپٹن عبداللہ نے جیب سے بہت سے بڑے بڑے نوٹ نکال کراس گاڑی والے کو معذرت کے ساتھ دیئے جو اس کے ٹوٹل نقصان سے تین گنا زیادہ تھے۔ اس کے بعد وہ اس بیگ کی جانب بڑھ گیا جو کلپ ٹوٹنے کی وجہ سے عامر کی کمر سے الگ ہوگیا تھا اس نے وہ بیگ اٹھایا ۔پھر اس نے آگے بڑھ کر عامر کو اپنے کندھے پر ڈالا اور سی آئی ڈی کی کار کی جانب بڑھ گیا۔ جبکہ اس دوران ٹریفک مکمل جام ہوگئی تھی اور لوگ گاڑیوں سے باہر نکل آئے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭
احمد مینر نے گاڑی اگلے چوک سے موڑی تو سامنے بڑی سی دس منزلہ کافرستانی ایمبیسی کی عمارت نظر آنے لگی جو سیاہ رنگ سے رنگی ہوئی تھی۔ احمد منیر نے گاڑی عمارت کے کمپاؤنڈ میں میں داخل کی تو سب سے پہلے اس کا سامنا ایک چیک پوسٹ سے ہوا جہاں پر اس نے اپنا اسپیشل میڈیا کارڈ جیب سے نکال کر گارڈ کو دکھایا جس پر اس کی فوٹو اور دیگر اہم قوائف درج تھے۔گارڈ نے اسے چیک کرنے کے بعد اسے جانے دیا تو اس نے گاڑی آگے بڑھادی۔عمارت کے عین اوپر کافرستانی جھنڈا لگا ہوا تھاجو ہوا نہ ہونے کی وجہ سے اپنے موٹے ڈنڈے سے لپٹا ہوا تھا۔
کسی بھی ملک میں غیر ملکی ایمبیسی کا قیام اس وجہ سے کیا جا تا ہے تاکہ اس ملک کے دیگر ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کئے جاسکیں ۔ ایمبیسی یعنی سفارت خانے کا ہیڈ کسی بھی ملک کا سفیر ہوتا ہے۔جو اپنے ملک کے شہریوں کو دوسرے ملک میں کسی بھی قسم کی تکلیف یا مشکل سے بچانے کے علاوہ دیگر اور کئی اہم سفارتی کام بھی سر انجام دتیا ہے ۔جس سے ملکوں کے درمیان تعلقات استوار ہوتے ہیں۔آج کل کی اس ماڈرن دنیا میں کوئی بھی ملک ایک دوسرے سے سفارتی تعلق قائم کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لحاظہ سفارت خانے کا قیام ناگزیر ہے اس سے ممالک کے درمیان دوستی و ہم آہنگی کی نئی راہیں اور نئی جہتیں کھلتی ہیں۔
خیر احمد مینر اپنی کار سفارت خانے کی عمارت کے انڈر گراونڈ پارکنگ ایریا میں لے گیا اور کار پارک کرکے ٹوکن لے کر وہ گلاس ڈورز سے ہوتا ہوا سفارت خانے کی عمارت کے اندر چلا گیا۔ یہ نہایت ہی جدید ترین عمارت اور بہترین انداز میں گلاس اور دیگر خوبصورت چیزوں سے سجائی گئی تھی۔ سفارت خانے میں اپنی ڈیلی روٹین کا کام جاری تھا جبکہ احمد منیر سب سے بے نیاز لفٹ کی جانب بڑھ گیا۔ اسے لفٹ نے ففتھ فلور پر پہنچایا ۔ ایک طویل راہ داری اور ایک لائن میں مختلف نیم پلیٹس کے ساتھ کمروں کی ایک لمبی قطار تھی ۔وہاں پر اسکی ملاقات سفارت خانے کے تھرڈ سیکٹری سے طے تھی۔ وہ اکثر یہاں پر آتا جاتا رہتا تھا اور سفارت خانے کے تھرڈسیکٹری سے اس سے قبل بھی اس کی بہت اہم میٹنگز ہوتی رہتی تھیں اور اسے پاکیشیا کے خلاف ہر بڑی اسٹوری میں سفارت خانے کی طرف سے مکمل سپورٹ ہوتی تھی۔
سفارت خانے کے تھرڈ سیکٹری سے ملاقات کے لئے اسے ویٹنگ روم میں اس کے پی ۔اے کیساتھ تھوڑا وقت گزارنا پڑا۔کوئی آدھے گھنٹے بعد تھرڈسیکٹری کے آفس کا روم کھلا اور وہاں سے چند کافرستانی باہر نکلے ،تو پی ۔ اے نے فون پر احمد منیر کے بارے میں بتایا تو احمد منیر کو اندر آنے کی اجازت مل گئی۔
تھرڈسیکٹری کا آفس بہترین انداز میں سجا ہوا تھا۔ دیواروں پر بہت خوب صورت پینٹگنز کے ساتھ چند مذہبی فوٹوز بھی لگی ہوئی تھیں جبکہ ایک جگہ تو دیوار کے ساتھ باقاعدہ ہندو عبادت کی چھوٹی سی جگہ بھی بنی ہوئی تھی۔ ایک بہت بڑی سی میز کے پیچھے ایک ریوالونگ چیئر پر ادھیڑ عمر شخص بیٹھا ہوا تھا جس کے منہ میں ایک سگار تھا۔ اس کے علاوہ ایک شراب کی بوتل ایک گلاس بھی موجود تھا جسے وہ سگار کو ایش ٹرے پر رکھنے بعد تھوڑا تھوڑا شغل کرلیا کرتا تھا۔ ٹیبل پر ایک چھوٹا کافرستانی فلیگ اور اس کے ساتھ ڈیجیٹل کیلندر بھی موجود تھا۔رسمی ہیلو ہائےکے بعداحمد منیر گویا ہوا:
"میں یہاں اس لئے آیا ہوں کہ مجھے اپنے ذاتی ذرائع سے خبر ملی ہے کہ پاکیشیا سیکرٹ سروس بھوکے کتوں کی طرح پرائم چینل کے پیچھے پڑگئی ہے اور مجھے خطرہ ہے کہ کہیں پرائم چینل بند ہی نہ ہوجائے۔یہ سب کچھ اس محمود شاہد کی اسٹوری کی وجہ سے ہوا ہے۔ پورا سوشل میڈیا میرے خلاف ہوگیا ہے۔ مجھے نامعلوم افراد کی جانب سخت دھمکیاں مل رہی ہیں۔۔۔۔"
"تو اب تم کیا چاہتے ہو مسڑ احمد۔۔۔۔۔؟”
"مجھے کافرستان میں سیاسی پناہ چاہیے کیونکہ میری جان کو شدید خطرہ ہے۔۔۔"
"یہ تمہارا پرابلم ہے مسڑ احمد ہمارا نہیں۔۔۔۔"
"لیکن میں نے آپ لوگوں کی اتنی خدمت کی ہے،اتنا عرصہ کام کیا ہے ۔۔۔۔ گزشتہ رات کچھ مشتعل افراد نے میرے گھر کا گھراؤ کرکے میرے گھر کے مین گیٹ پر خوب پتھر اور ڈنڈے برسائے تھے۔ وہ تو اتفاق سے میں کل رات اپنے ایک اور خفیہ پوائنٹ پر تھا جس کی وجہ سے میں محفوظ رہا ورنہ آپ جانتے ہیں مشتعل لوگوں کے بے ہنگم ہجوم کو کنٹرول کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔۔۔۔۔"
"مسٹر تم نے جو کیا ہم نے اس پرتمہیں پے کیا۔ ہم نے کوئی تمہاری ذمہ داری نہیں اٹھائی ہوئی کہ جان بھی ہم ہی بچائیں گے۔۔۔۔"
"لیکن ایسے کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ غلط ہے۔۔۔ آپ نے مجھ سے بہت سے وعدے کئے تھے۔"
کئے ہونگے مسٹر لیکن اس وقت جب تمہاری کوئی حیثیت تھی، آج تمہیں لوگ پاکیشیا کا غدار کہنا شروع ہوگئے ہیں۔۔۔ تمہارا حال بھی اب علی عمران جیسا ہونے والا ہے ۔ ہمیں کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے جو ہم ایک ہارے ہوئے گھوڑے پر پیسے لگائیں گے؟ ۔۔۔۔۔"
"اس کامطلب ہے میں نے جو تم لوگوں کی اتنی خدمت کی وہ سب فضاء میں تحلیل ہوگئی۔۔۔۔۔"
"تمہارا وقت پورا ہوگیا، اب مجھے اور لوگوں سے ملاقات کرنی ہے جاؤ جاکر کسی اور سفارت خانے سے مدد مانگو۔۔۔۔۔وہ رہا دروازہ اور ہاں دروازہ آہستہ سے بند کرنا کیونکہ اگر تم نے اسے غصے میں آکر اپنی مردانگی دکھائی تو یہ احتجاجاً کرنٹ بھی لگا دیتا ہوتا ہے۔ دیٹس آل تھینک یو۔۔۔"
"مم میں تم لوگوں کو دیکھ لوں گا، تم جانتے نہیں میں پاکیشیا کا سب سے بڑا صحافی ہوں اور میری پہنچ وہاں تک ہے جہاں تک کافرستان کے جاسوس بھی نہیں پہنچ سکتے۔ تم لوگ سمجھتے کیا ہو؟ اگر تھوڑا سا برا وقت آگیا تو تم لوگ منہ موڑ لوگے اور میں تمہاری وجہ سے مزید مشکل میں پھنس جاؤں گا تو یہ تمہاری بھول ہے۔۔۔۔ ہم بنی ہوئی عوام کے ووٹوں سے آئی حکومتیں گرا دیتے ہیں آخر تم لوگ کس کھیت کی مولی ہو۔تم لوگوں کا پورا سفارت خانہ نہ بند کرادیا تو میرا نام بھی احمد منیر نہیں۔یاد رکھنا مسٹر تھرڈ سیکٹری تمہیں میں اس بڑی عمارت سے گرا کر فٹ پاتھ پر لے آؤں گا۔ تم سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو۔۔۔۔۔۔"
"آئی سیڈگٹ آؤٹ ۔۔۔ اگر ایک پل بھی یہاں تم اور ٹکے تو پہلے گارڈز سے تمہاری چھترول ہوگی اس کے بعد تمہیں انڈر گراؤنڈ گٹر لائن میں پھینک دیا جائے گا۔گندے غلیظ انسان، چھوٹی نالی کے کیڑے ہوتمہارےاوپر ہاتھ رکھ کر ہم نے تمہیں اتنا بڑا صحافی بنایا ہے۔آج ہماری دی ہوئی زبان ہمی پر چلا رہے ہو دفع ہوجاؤ یہاں سے اور دوبارہ اپنی لعنتی اور منحوس شکل یہاں مت دکھانا سمجھے آج کے بعد تمہارا یہاں داخلہ بند۔۔۔۔ ناؤ گٹ آؤٹ۔۔۔۔" احمد منیر بری بری شکلیں بناتا ہوا وہاں سے اٹھ گیا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ٹیبل پر موجود ڈیجیٹل کیلنڈر اٹھا کر اسکے منہ پر دے مارے ۔ وہ سارا غصہ اندر ہی اندر دبائے دروازہ کھول کر پی اے کے روم سے ہوتا ہوا رہداری میں آیا اور پھر وہاں سے لفٹ کے اندر گھس گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
فورسٹارز اس وقت میک اَپ میں سی آئی ڈی کی کار میں موجود تھے اور اسٹیرنگ چوہان کے مضبوط ہاتھوں میں تھا۔ انہوں نے وردی بھی سی آئی ڈی والی پہنی ہوئی تھی اور ان کا رخ ہوٹل سٹار سی ون کی جانب تھا۔ ٹریفک سگنل کراس کرتے ہی چوہان نے گاڑی دائیں جانب موڑ کر ہوٹل سٹار سی ون کی سب سے بڑی عمارت کے کمپاؤنڈ میں داخل کردی۔وہاں سے گاڑی پارکنگ میں لے جاکر چوہان نے گاڑی روک دی۔ تو سب لوگ اچھلتے ہوئے گاڑی سے نیچے اترے اور سیدھاہوٹل سٹار سی ون کے آٹومیٹک گلاس ڈورز کے اندر چلے گئے۔ صدیقی سب سے آگے تھاوہاں سے سیدھا وہ کاؤنٹر کی طر ف بڑھ گیا اور باقیوں نے اس کی پیروی کی۔ صدیقی نے جیب سے سی آئی ڈی بیچ دیکھاتے ہوئے کاؤنٹر گرل سے مخاطب کرتےہوئے کہا۔
"مس فوراً ہوٹل کے منیجر کو یہاں بلاؤ۔۔۔۔اِٹس ارجنٹ۔۔۔"
"او ہو۔۔۔یس سر ۔۔۔۔۔ میں ابھی کال کرتی ہوں۔۔" یہ کہتے ہی اس نے فون کا رسیور اٹھا کر ایک نمبر پریس کرلیا اور پھر دوسر ی جانب سے ویٹ کرنے لگی۔
"سر وہ سی آئی ڈی یہاں آگئی ہے۔۔۔۔۔ وہ آپ کو یہاں بلارہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔یس سر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔رائٹ سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔سر وہ آپ کو ارجنٹ بلارہے ہیں۔۔۔۔ سر۔۔۔۔ اوکے سر میں کہہ دیتی ہوں۔۔۔۔ آل رائٹ سر" پھر اس نے فون رکھتے ہوئے کہا
سر منیجرصاحب آرہے ہیں۔۔۔۔آپ پلیز میرے ساتھ آجائیں میں آپ کو گیسٹ روم میں بٹھاتی ہوں۔۔۔۔۔بس تھوڑی دیر اور لگے گی۔۔۔۔"
"نو ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ ہم گیسٹ روم میں جاکر اپنا وقت ضائع کریں، ہم یہیں ویٹ کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا مس یہ بتائیں کیا ہر فلور کا کوئی اپنا منیجر ہوتا ہے یا آپ کے ہوٹل کا صرف ایک ہی منیجر ہے۔۔۔۔"
"سر وہ ہر فلور کے سب منیجر زبھی ہوتے ہیں اور ابھی میں نے جن سے بات کی وہ یہاں کے ہیڈ منیجر ہیں۔۔۔۔"
اتنے میں سائیڈ سے لفٹ کھلی اور ایک پختہ عمرکا آدمی تھری پیس سوٹ میں صدیقی وغیرہ کے پاس آیا پھر رسمی سلام دعا کے بعد صدیقی نے کہا
"مسڑ ہیڈ منیجر صاحب ہمیں آپ کے ہوٹل کے میٹنگ رومز چیک کرنے ہیں اینڈ اِٹ اِز ارجنٹ۔۔۔۔"
"سر آپ میرے ساتھ آجائیں۔۔۔۔"اس کے بعد وہ فورسٹارز کو لئیے لفٹ کے اندر داخل ہوگیا۔ پھر وہاں سے وہ میٹنگ رومز والے فلور پر آئے اور پھر کچھ دیر بعد وہ سب لوگ سب منیجر کےآفس میں موجود تھے۔آفس بہترین انداز میں سجایا ہوا تھا، سب منیجر نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا رسمی بات چیت کے بعد صدیقی گویا ہوا۔
"مسڑ ہم سی آئی ڈی سے آئے ہیں۔۔۔۔"
"جی فرمائیں میں آپکی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟۔۔۔"
"ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ان میٹنگ رومز میں خفیہ کیمرے لگے ہوئے ہیں، جن کی مدد سے میٹنگ رومز میں ہونے والی بظاہر خفیہ بزنس میٹنگز کی آپ لوگ ریکارڈنگ کرکے آپ اس ملک کے شریف بزنس مینوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔۔۔"
""یہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں جناب، آپ کو یقینً کسی نے مس گائیڈ کیا ہے ۔یہاں ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بائے دا وے۔۔۔" وہ ابھی بات مکمل بھی نہ کرپایا تھا کہ صدیقی کا کان پھاڑ تھپڑ اس کے گال پر پڑا اور وہ گال پکڑے پورا گھوم گیا۔ تھپڑ اتنا شدید تھا کہ اس کی انگلیوں کے نشان اس کے گالوں پر ثبت ہوگئے تھے۔
"یو ڈرٹی فول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بکواس کرتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھوٹ بولتے ہو۔ تم نے قانون کو اتنا اندھا سمجھ لیا ہے کہ تم جو مرضی کرتے جاؤ تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں؟سی آئی ڈی کے ہوتے جرم کرنا ناممکن ہے سمجھ گئے؟ چلو دکھاؤ وہ ریکارڈ روم۔۔۔۔۔ورنہ تمہارے جسم سے ایک ایک بوٹی نوچ لوں گا میں۔۔۔۔"اس بار اس میں بولنے کی ہمت نہ ہوئے البتہ ہیڈ منیجر تو ایسا انکشاف سن کر ہی چونک گیا تھا۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سی آئی ڈی آفیسر کس قسم کا الزام لگا رہا ہے۔اس نے ڈرتے ڈرتے صدیقی سے کہا
"سس سر یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس قدر محنت سے ہم نے ہوٹل سٹار سی ون کو کھڑا کیا پھر لوگوں کے آگے ایک نام بنایا ہے ۔ یہ ضرور ہمارے کسی مخالف نے بلیک میلنگ کا جھوٹا الزام لگایا ہے ایسا کوئی سلسلہ یہاں پر نہیں ہوتا جناب
"مسٹر منیجرشاید آپ کو معلوم نہیں یہاں کیا کیا ہورہا اور سی آئی ڈی کی ایک نہیں بہت سی آنکھیں ہوتی ہیں۔ وہ ہزار پردوں میں بھی چیزیں دیکھ لیتے ہیں، یہ سب کچھ مسٹر عباسی کے اقبال جرم کرنے والی ویڈیو اور آڈیو سے ہمیں پتا چلا ہے ۔اس کو اس کے مخالف دشمنوں میں سے کسی ایک نے بہت تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اس کی ریکارڈنگ کرکے وہ ٹیپ اور اس کی لاش ہمارے ہیڈکوارٹر کے سامنے ڈال گئے۔ ہم نے جب تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ وجاہت عباسی سچ میں ایک بلیک میلر ہے۔اس کے اس سفاک دشمن کا بھی کھوج لگایا جارہے لیکن ہمیں اب آپ لوگوں کا ریکارڈ روم دیکھنا ہے جس میں تمام ویڈیوز کی فوٹیجز موجود ہیں بلکہ پورا سیٹ اپ موجود ہے۔۔۔۔۔"صدیقی کی بات کے بعد مجبوراً سب منیجر کو انہیں اپنے ساتھ لے جانا پڑا۔ سب منیجر کمرے کی الماری کی طر ف بڑھ گیا اور پھر اس نے الماری کے پٹ کھول کر وہاں موجود شرابوں کا ایک پورا کیس ہٹایا تو اس کے پیچھے ایک خلاء سا نظر آیا۔ سب منیجر کی یہ حرکت دیکھ کر ہیڈ منیجر کی آنکھیں پٹھی کی پٹھی رہ گئیں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ واقعی الماری کے پیچھے کو ئی خلاء بھی ہوسکتا ہے۔اس کے بعد وہ سارے اس خلاء میں داخل ہوگئے یہ ایک کاٹھ کباڑ کی جگہ تھی ۔ وہاں مختلف خالی ڈبے اور دیگر فالتو ردی پڑی ہوئی تھی۔ سب منیجر نے ایک ڈبے کے پاس آکراس کے ساتھ دیوار کو ایک مخصوص انداز میں دبایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے نہ جانے کیسے اور کہاں سے اس کے ہاتھ میں ایک سائلنسر لگا پستول آگیا۔ اس نے گھو م اس کا رخ ان کی طرف کردیا۔
"خبردار اگر ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔۔"اس سے پہلے کہ کوئی ہوشیار ہوتا ایک فائر ہوا اور سب منیجر دھڑام سے فرش پر گر گیا۔اس نے حیرت انگیز طور پر اپنی کنپٹی پر پستول رکھ کر خودکشی کرلی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
اسرائیل کے دارلحکومت یروشلم کے ایک مشہور معروف "ڈیوڈ ہوٹل "میں اس وقت جشن کا ساسماں تھا۔یہاں پر ملک بھر سے یہودی علی عمران کی پھانسی کاجشن منا رہے تھے۔ادھر اسرائیل کی سب سے معروف حکومتی،وی آئی پی اور دیگر اہم شخصیات موجود تھیں۔ اسرائیلی حکومت نے علی عمران کی پھانسی کا دن یہودیوں کی عظیم فتح کے دن سے منانے کا اعلان کیا تھا اور آج اسرائیل کے صدر کا بہت اہم عبرانی زبان میں خطاب بھی سرکاری ٹی وی پر نشر ہونا تھا۔ ڈیوڈ ہوٹل کا سب سے بڑا ہال رنگ برنگی غباروں اور دیگر خوبصورت چیزوں سے سجا ہوا تھا۔ ہال میں لاتعداد کرسیاں اور میزیں رکھی ہوئی تھیں اور ان کے سامنے ایک بہت بڑی اسکرین پر سرکاری ٹی وی کی نشریات چل رہی تھیں۔ یہاں پر اسرائیلی سیکرٹ سروس کا نیا چیف کرنل ایرل آموس بھی موجود تھا۔ اس کے علاوہ اسرائیل کی دیگر اہم سیکرٹ ایجنسیوں کے سربراہان بھی موجود تھے۔ یہودیوں کا عمران کی پھانسی کا دن فتح سے منانے کی بنیادی وجہ سربلیک کوبرا تھا۔ جو کہ دراصل اسرائیل کابھیجا ہوا ایک بہترین ایجنٹ تھا اور اسرائیلی سیکرٹ سروس کے چیف کرنل ایرل آموس کا دوست اور اسرائیل سیکرٹ سروس کا اعزازی ڈپٹی چیف تھا۔جس نے تنہا ہی نہ صرف پوری پاکیشیا سکرٹ سروس کو تگنی کا ناچ نچایا تھا بلکہ علی عمران جو اب تک اسرائیل کے لئے ایک ناقابل تسخیر سمجھا جانے والا ایک بھوت تھا اور جس نے اب تک اسرائیل کو بے حساب نقصان پہنچایا تھا۔اسے ایک کامیاب پلاننگ کی وجہ سے پھانسی ہوگئی تھی۔ سربلیک کوبرا کون تھا؟ اس ماضی کیا تھا؟ وہ کہاں کا رہنا والا تھا؟ اور اس نے اس قدر حیرت انگیز علوم کہاں سے سیکھے تھے ؟ ان سب سوالات کے جوابات تو ابھی یہودیوں سے بھی پوشیدہ تھے۔ ان سوالات کے جوابات تو خود چیف کرنل ایرل آموس بھی نہیں جانتا تھا۔ مگر ایک عرصہ ساتھ گزارنے کی وجہ سے دونوں کی دوستی ہوگئی تھی۔ جس کی وجہ سے جوں ہی اسے اسرائیلی سیکرٹ سروس کے چیف کی آفر ہوئی تو اس نے ساتھ میں سربلیک کوبرا کو بھی اپنا اعزازی ڈپٹی بنالیا اور وہ اکثر مشکل کیسوں میں اس کی مدد کردیا کرتا تھا۔ وہ کسی کو جواب دہ نہیں تھا اور نہ سیکرٹ سروس کی کوئی میٹنگ اٹنڈ کرتا تھا۔ اس نے عارضی طور پر اسرائیل کے ایک مشہور و معروف ہوٹل میں رہائش رکھی ہوئی تھی اور بس اس سے زیادہ تو سربلیک کوبرا کرنل آموس کی نظروں سے اوجھل رہتا تھا اور اس کے حقیقی ٹھکانے کا اسے بھی پتہ نہیں تھا۔ اس کے حیران کن علوم سے متاثر ہوکر یہ اس کے قریب ہوگیا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ سربلیک کوبرا نے اسے اپنا دوست بنایا تھا ورنہ کرنل ایرل میں اتنی ہمت کہاں کے وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات بھی کرسکے۔
بہت عرصہ قبل جب کرنل ایرل فوج میں ہوتا تھا تو انٹارکٹیکا کے دشوار گزار پہاڑوں پر ایک فوجی مہم کے دوران یہ کسی وجہ سے اپنے فوجی کیمپ سے پیچھے رہ کر اکیلا ہوگیا تو ایک جگہ اچانک برفانی ریچھوں نے اس پر چاروں طرف سے حملہ سے کردیا۔وہ کوئی تعداد میں پانچ تھے اس کے پاس اپنی ایک فوجی گن تھی۔ جس کی مدد سے وہ ایک دو ریچھوں کو تو فائر کرکے مار دیتا مگر باقی اسکی بوٹیاں نوچ کھاتے ،مگر اچانک ایک غار سے سربلیک کوبرا نکل آیا۔ اس کی ایک مخصوص سیٹی نے تمام برفانی ریچھوں کو جو شدید غصے میں دکھائی دیتے تھے ، اچانک سربلیک کوبرا کے سامنے جھکنے پر مجبور دیا اور پھروہ وہاں سے غائب ہوگئے۔ ۔ اس رات وہ سربلیک کوبرا کیساتھ غار میں گزار کر چلا گیا۔ اس دن سے اب تک ان کے تعلقات کافی بہتر تھے ۔سربلیک کوبرا کی کشش نے اسے پاگل کردیا تھا۔ رفتہ رفتہ دونوں میں ملاقاتیں ہونے لگیں اور پھر یہ اچھے تعلقات ایک دوستی میں بدل گئے مگر دوستی بھی ایسی جس میں کرنل ایرل تو سربلیک کوبرا کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا تھا مگر سربلیک کوبرا اس کے بارے میں سب کچھ معلوم تھا۔اس نے کئی دفعہ سربلیک کوبرا کو مجبور کیا کہ وہ اپنے بارے میں بتائے مگر وہ غصہ میں آکراسے ڈانٹ کر خاموش کرادیتا تھا۔ وہ اسے اکثر کہا کرتا تھا کہ وہ آم کھائے اور بس اس زیادہ اگر اس نے مجبور کیا تو یہ اس کی آخری ملاقات ہوگی۔
آخر کرنل ایرل کو خاموش ہونا پڑا، کیونکہ وہ اس کی اکثر مدد کردیا کرتا تھا۔جب کرنل ایرل آموس نے بطور چیف اسرائیلی سیکرٹ سروس چارج لیاتو یہاں پر اسے پہلا ٹاسک ہی پاکیشیا سیکرٹ سروس کا ملا تھا۔ کیونکہ عمران نے اسرائیل کو بہت دفعہ نقصان پہنچایا تھا لحاظہ عمران کا کوئی نہ کوئی فوری سدوباب کرناضروری تھا۔ ورنہ اسرائیلی مفادات کو شدید خطرات لاحق تھے اور وہ اپنے خطے میں اپنے مستقبل کے پلانز پر عمل نہ کرسکتا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر اور دوسری نوعیت کے کیس بھی اس نے سربلیک کوبرا کی مدد سے حل کئے تھے۔
جب اس نے یہ بات سربلیک کوبرا کو بتائی تو تھوڑی کوشش کے بعد وہ یہ کام کرنے کے لئے تیار ہوگیا۔ کیونکہ جب کرنل ایرل نے کہا کہ عمران اور پاکیشیا سیکرٹ سروس اب تک مکمل ناقابل تسخیر ہیں تو سربلیک کوبرا راضی ہوگیا۔ مگر اس نے شرط رکھی کہ وہ تنہا ہی پاکیشیا جائے گا اور اسے کسی قسم کی کوئی مدد کی ضرورت نہیں ۔ وہاں وہ خود پلان بنائے گا اور علی عمران کو خود ہی ٹریپ کرے گا۔ اس دوران اس سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ کیا جائے ۔ لحاظہ ایسا ہی ہوا اور دو ہفتوں کے اندر ہی اسے سربلیک کوبرا کی کارکردگی کا نتیجہ نظر آگیا تھااور پاکیشیا کے میڈیا سے اسے عمران کی پھانسی کی خبر ملی۔ جو پورے اسرائیل کے لئے سب سے بڑی خوش خبری تھی ۔ اب اسرائیل جب چاہتا پاکیشیا کو چٹکیاں بجاتے ہی مسل سکتا تھا۔
ہال میں سب لوگ شراب پی رہے تھے اور اسرائیلی پریزیڈنٹ کے خطاب کا انتظار کر رہے تھے۔ پھر تھوڑی دیر بعد اسرائیلی قومی ترانہ سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے لگا تو سب لوگ کھڑے ہوکر بلند آواز سے اسرائیل کا قومی ترانہ پڑھنے لگے ۔اسرائیل کا قومی ترانہ ہاتِکوّا یعنی اُمید کہلاتا ہے، اس قومی ترانے کے بول نفتالی ہرض لِمبر ایک یہودی کی نظم جسے 1877ء میں لکھا گیاسے لئے گئے تھے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ "جب تک یہودیوں کے دلوں میں جوش و تڑپ زندہ ہے تب تک یہودیوں کی ہزاروں سال پرانی "اُمید" کہیں کھو
نہیں سکتی۔ وہ اُمید جس میں ہماری زمین یعنی یروشلم کی زمین پرتمام یہودی آزادی کے ساتھ رہ سکیں۔
قومی ترانہ نہایت جوش و جذبے کے ساتھ پڑھنے کے بعد سب لوگ اپنی کرسیاں پھر سے گھسیٹ کر بیٹھ گئے۔اب اسکرین پر اسرائیلی صدر اسرائیلی پرچم کے ساتھ نظر آرہے تھے۔ رسمی ابتدائیہ کے بعد وہ کہنے لگے:
"آج میں یہ بڑے فخر اور چوڑے سینے کے ساتھ اپنی قوم کو یہ خوش خبری سنانا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن جس کا نام علی عمران ہے اب اس دنیا میں موجود نہیں۔ ہم نے نہ صرف پاکیشیائی قوم کے سامنے اسے قومی مجرم بنادیا بلکہ وہ ایسی سادہ قوم ہے کہ وہ اپنے ہی محسن کے تمام احسانات بھی بھول گئی اور پھر اس نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے محسن کو پھانسی پر چڑھادیا۔مسلمانوں اور یہودیوں میں یہی بنیادی فرق ہے، ہمارے اندر چاہیے لاکھ اختلافات پیدا ہوجائیں ہم کبھی بھی یہودیوں کے قومی مسئلے پر تقسیم نہیں ہوئے ۔ جبکہ مسلمانو ں کی سب سے بڑی کمزوری ہی یہی ہے کہ وہ آپس کے اختلافات کو اپنی زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور پھر اس حد تک آجاتے ہیں کہ اپنے ذاتی مسائل کو قومی مسائل پر قربان کردیتے ہیں۔پھر وہ تقسیم درتقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں اور ہم لاکھ اختلافات کے باوجود اب تک تقسیم نہیں ہوئے۔ اس لئے آج اسرائیل اور اس ملک کے یہودی پوری دنیا کی سیاست ،دولت، میڈیا اور قدرتی وسائل پر اپنا کنٹرول رکھتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پوری دنیا کے مسلمان اتنی بڑی تعداد میں ہونے اور دنیا کی آدھی دولت اور وسائل پر قابض ہونے کے باوجود بھی انہیں ڈھنگ سے استعمال نہیں کرسکے ۔ بلکہ ان کی دولت بھی آج ہمارے کنڑول میں ہے۔ ہم اپنے کسی محسن کو علی عمران کی طرح اپنے ہی ہاتھوں قتل نہیں کردیتے بلکہ اپنے ہر یہودی کواپنے سر کا تاج سمجھتے ہیں۔پس میرے ملک کے عظیم لوگوں یاد رکھنا ہماری اس دنیا پر حکومت کرنے کا بہت بڑے پلان ہے ۔ جو صدیوں پہلے ہی ہمارے بڑے بنا کر گئے تھے ہم نے انہیں نہیں بھولنا۔ علی عمران کے بعد ایک خطرہ ختم ہوا مگر ابھی بہت سے اور مسائل باقی ہیں۔ اس خوشی میں پڑ کر ہمیں اپنا اصلی مقصد نہیں بھولنا۔ اسرائیل نے صرف اتنا نہیں رہنا بلکہ اس نے ابھی اور بھی پھلنا پھولنا ہے اور پوری دنیا کے لوگوں پر حکومت کرنی ہے۔ کیونکہ ہمیں ہمارے خدا نے چن لیا ہے اور ہم اپنے خدا کی وہ عظیم قوم ہیں جسے پیدا ہی پوری دنیا پر حکومت کرنے کے لئےگیاہے۔تو اس جشن کومنا کر پھر اسے بھول جانا اور کل سے پھر اپنے اپنے عظیم کاموں میں لگ جانا جسکے لئے خدا نے تمہیں چنا ہے۔ لانگ لِو اسرائیل ۔۔۔ مے گاڈ بلس اسرائیل۔۔۔۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک زوردار تھپٹر عامر کے منہ پر پڑا تو وہ ہڑبڑا کر ہوش میں آگیا۔
مسٹر عامر جو کچھ تم سے پوچھا جارہا ہے وہ سب کچھ سچ سچ بتا دو ورنہ تمہارےصحافی ہونے کا ذرا برابر بھی لحاظ نہیں کیا جائے گا اور تمہارے جسم سے پوری کھال اُدھیڑ دی جائے گی۔ ۔۔۔۔" صفدر نے انتہائی سفاک انداز میں عامر کو گھورتے ہوئے کہا۔ اس وقت وہ لوگ پاکیشیا سیکرٹ سروس کے ایک خفیہ سپاٹ پر اس کے ٹارچر روم میں تھے۔ صفدر کے ساتھ کیپٹن شکیل، تنویر اور کیپٹن عبداللہ بھی موجود تھے۔
"کک کک کیا جاننا چاہتے ہو تم لوگ۔۔۔۔ تم لوگ انتہائی ظالم اور سفاک ہو۔ میں تعاون کے لئے پوری طرح تیار ہوں۔۔۔۔۔ میرے میں اتنی ہمت نہیں کہ میں مزید تشدد برداشت کرسکوں ۔۔۔۔۔ پوچھو۔۔۔"
"احمد منیر کہاں ہے؟۔۔۔۔"
"اس کے کئی خفیہ سپاٹس ہیں ویسے ایک گھر کے بارے میں میں بھی جانتا ہوں۔ اعظم کالونی کے سی بلاک کی کوٹھی نمبر پندرہ۔۔۔۔"
"تمہارے بیگ سے ایک لیپ ٹاپ برآمد ہوا ہے جس میں تم نے سرداور کی کوٹھی سے ملنی والی فوٹیج چینج کردی ہے کیوں کی تم نے؟ بولو۔۔۔۔۔۔۔"
"مجھ پر سربلیک کوبرا اور احمد منیر صاحب کا پریشر تھا ۔۔۔۔"
"سربلیک کوبرا کے بارے میں کتنا جانتے ہو اور وہ اس وقت کہاں ملے گا۔۔۔"
"اس کا مجھے کچھ پتہ نہیں وہ انتہائی پراسرار شخص ہے اس نے مجھے ہپناٹائز کرکے زبردستی یہ کا م کروایا تھا۔۔۔۔"
"کیا تم جانتے ہو تم نے جس شخص کو بے گناہ پھانسی لگوائی اس جرم میں تم ایک قومی مجرم ہو۔۔۔۔"
"جانتا ہوں میں ایک قومی مجرم ہوں۔۔۔۔ پر میں بے بس تھا مجھے ہپناٹائز کردیا گیا تھا۔ میں اپنے ہوش میں نہیں تھا۔۔۔۔"
"جانتے ہو تم نے ایسا کرکے پاکیشیا سے غداری کی ہے۔۔۔۔ جس کی سزا پھانسی ہے۔۔۔"
"میں قوم سے اپنے کئے پر معافی مانگتا ہوں کے میری ایک ایڈٹ کی ہوئی ویڈیو کی وجہ سے ایک بے گناہ کو پھانسی لگی۔۔۔"
"تو گویا تم تسلیم کرتے ہو کہ علی عمران واقعی میں بے گناہ تھا؟"
"ہاں میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ علی عمران بے قصور تھا مگر مجھے علی عمران کو پھنسانے کے لئے دس کروڑ روپے دیئے گئے اور مجھے ہپناٹائز بھی کیا گیا۔۔۔۔"
“جب تمہیں پیسے دیئے گئے تو ہپنا ٹزم کی ضرور ت کیوں پیش آئی؟”
"مجھے پہلے سر بلیک کوبرا نے ہپناٹائز کیا، مجھ سے جو جو کہا گیا میں نے وہ کیا اور جب کام ہوگیا تو انعام کے طور پر اتنی بڑی رقم میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دی گئی۔۔۔"
"تمہارا یہ سارا بیان ریکارڈ ہورہا جو عدالت میں پیش ہوگا۔۔۔۔ کیاتم عدالت کے سامنے بھی اقبال جرم کرلوگے۔۔۔"
"مجھے سچ میں بہت شرمندگی ہورہی ہے، میرے ضمیر پر سخت بوجھ ہے۔ میں نے سربلیک کوبرا کا ساتھ دے کر بہت بڑی غلطی کی۔۔۔ میں عدالت میں جاکر خود کو عدالت کے حوالے کردوں گا پھر عدالت جو سزادے گی وہی میرے گناہوں کا کفارہ ہوگا۔۔۔۔ مجھے میرے والدین نے کمپیوٹر کی تعلیم اس لئے نہیں دلائی تھی کہ میں جاکر غیر قانونی کاموں میں پڑ جاؤں ۔۔۔۔ مجھے اپنے کئے پر ندامت ہے۔۔۔ جانے گھر والے کیا سوچیں گے میرے بارے میں۔۔۔ کتنی بدنامی ہوگی میری وجہ سے انکی"
"جب ہم نے چھاپا مارا تو تم بھاگے کیوں؟"
"میں ڈر گیا تھا، مجھے میری آنکھوں کے سامنے پھانسی کا پھندا نظر آنے لگا تھا اس لئے وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔"
"کیا پرائم چینل واقعی کافرستان کے لئے کام کرتا ہے؟"
"سچ میں مجھے اس بارے کوئی معلومات نہیں ہیں۔۔۔۔۔ اس بار ے میں ضروراحمد منیر صاحب کو پتہ ہوگا یا پھر ہمارے چینل کے باس سیٹھ صاحب کو۔۔۔"
"اگر پرائم چینل واقعی کافرستان کے پیرول پر کام کرتا ہے تو تم نے یہ جاب چھوڑی کیوں نہیں۔۔۔۔"
"آپ یقینً محمود شاہد کے پروگرام کا ریفرینس دے رہے ہیں۔۔۔ میں نے بھی وہ پروگرام دیکھا تھا۔۔۔ پر یقین جانیں میڈیا پر ریٹنگ کی خاطر اتنا کام ہوتا ہے کہ اس کی خاطر صحافی جانے کیا سے کیا کردیتے ہیں۔۔۔ اس پروگرام میں انہوں نے مجھ پر بھی الزام لگایا جو سچ تھا۔۔۔۔"
"تم اب جھوٹ بول رہے ہو اور اپنے چینل کا دفاع کررہے ہو۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم پر لگایا ہوا الزام سچا تھا تو پھر تمہارے سیٹھ پر لگایا ہوا الزام اور احمد منیر پر لگایا گیا الزام جھوٹا کیسے ہوسکتا ہے؟؟؟"
"ہاں آپ صحیح کہتے ہیں ، اگر مجھ پر لگایا ہوا الزام سچا تھا تو پھر احمد منیر صاحب پر لگایا ہوا الزام اور ثبوت بھی سچا ہوگا اور ہمارے باس پر بھی۔۔۔ لیکن میں اتنا گہرا سوچتا نہیں آپ نے اس نکتے پر اب میر ی توجہ دلائی ہے۔۔۔۔ یقین کریں میں جھوٹ نہیں بول رہا۔۔۔ میں اس پروگرام کو ریٹنگ کی خاطر سستی شہرت حاصل کرنے کے واسطے سمجھا تھا۔ اس لئے زیادہ غور نہیں کیا۔۔۔ میرا ذہن صرف کمپیوٹر پر زیادہ چلتا ہے۔ باقی باتیں بہت کم ہی میرے پلے پڑتی ہیں۔۔۔۔"
"تو کوئی ایسی غیر معمولی بات سوچ کر بتاؤکہ جس سے کوئی کلیو ملے کے پرائم چینل واقعی میں کافرستان کے لئے کام کرتا ہے۔۔۔"
"مجھے زیادہ تو نہیں معلوم بس اتنا غور کرنے پر یاد پڑتا ہے کہ احمد منیر صاحب جب بھی کافرستان کے خلاف کوئی بھی خبر آتی تھی تو وہ کہتے تھے کہ یہ سین میں اس طر ح ایڈٹ کروں کہ اس سے کافرستان کی دہشت گردی چھپ جائے کیونکہ ہم نہیں چاہتے کافرستان اور پاکیشیا میں کوئی جنگ ہو۔ ہم پاکیشیا کی قوم کی ذہن سازی کرنا چاہتے ہیں کہ وہ لوگ کافرستان کو اپنا دشمن سمجھنا چھوڑ دیں۔ میں تو سمجھا تھا کہ وہ واقعی ایک نیک کام کررہے ہیں پر اب محسوس ہوتا ہے کہ واقعی کچھ گڑبڑ ضرور تھی جس کا مجھے اب احساس ہوا ہے۔ پاکیشیا اور کافرستان کبھی بھی دوست ملک نہیں ہوسکتے۔۔۔۔۔"
"ہم ابھی تمہیں احمد منیر کو کال ملا کردیتے ہیں، تم اس سے بات کرو گے۔ خبرادر اسے کوئی اشارہ مت کرنا نارمل اور جنرل گفتگو کرنا۔ سمجھ گئے؟"
"سر میں اب کوئی ایسا کام نہیں کروں گا جس سے پاکیشیا کو کوئی نقصان ہو۔آپ نے جو کہا ویسے ہی ہوگا۔"اس کے بعد صفدر نے اسے اسکے نمبر سے احمد منیر کو کال ملا دی جب دوسری طرف سے کال جارہی تھی تو اس نے فون عامر کے کان سے لگا دیا۔
"ہیلو سر، میں عامر بات کررہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔"
"ہاں کیسے ہو عامر؟ اچھاکیا کہ تم نے کال کرلی میں ابھی تم سے ہی رابطہ کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔۔"
“جی سر کوئی خاص بات ؟"
"کیا تم خیریت سے ہو؟میں یہی کہہ رہا تھا کہ مجھےایک خفیہ اطلاع ملی ہے کہ محمود شاہد کے شو کے بعد حالات بہت خراب ہوگئے ہیں ۔ پاکیشیا سیکرٹ سروس والے بھوکے کتوں کی طرح ہماری بو سونگتے پھر رہے ہیں ۔انہوں نے ہی سی آئی ڈی کے روپ میں پرائم چینل پر ریڈ کیا تھا۔ تم کہاں ہو اس وقت ؟۔۔۔۔"
"سر میں نے آپ کو فون بھی اس لئے کیا ہے تاکہ آپ کو اپنی خیریت سے آگاہ کرسکوں۔ میں آپ کی بتائی ہوئی خفیہ کوٹھی پر آگیا ہوں۔ میں راستے میں ہی انہیں رش میں چکما دے کر نکل آیا تھا۔۔۔۔"
"گڈ شو، بس کچھ عرصہ ہمیں انڈر گراؤنڈ رہنا ہے پھر ہم سامنے آجائیں گے ۔ یہ بے چاری پاکیشیا کی عوام بہت جلد بھول جاتی ہوتی ہے۔ اس کی یاداشت بہت تھوڑی ہے۔ او کے بائے۔۔۔"
"گڈ شو مسٹر عامر جانتے ہو اس کال سے کیا ہوا۔۔۔۔"
"کیا سر؟۔۔۔۔"
"احمد منیر کی لوکیشن ٹریس ہوگئی ہے۔۔۔۔۔" صفدر کے آنکھوں میں گہر ی چمک تھی اور پھر وہ تیز تیز قدموں سے عامر کو تنہا چھوڑ کر ٹارچر روم سے چلا گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سب منیجر نے خودکشی کرلی تھی، صدیقی کا خیال تھا کہ اس نے وجاہیت عباسی کے ٹاچر والا احوال سن کر تشدد سے بچنے کے لئے خود ہی خودکشی کرلی تھی۔ اس کے لئے شاید خودکشی کرنا آسان تھی مگر ٹارچر برداشت کرنا مشکل تھا۔ ہیڈ منیجر کے تعاون سے فورسٹاز نے تما م میٹنگ رومز کا وزٹ کرکے ان سے اپنی ایک کمپیوٹر ڈیوائس کی مدد سے تمام خفیہ کیمرے اور خفیہ مائیکس اتار لئے تھے۔البتہ اس کباڑ روم کے بنانے کی انکو کوئی منطق سمجھ نہیں آئی تھی۔ کیونکہ انہوں نے اس کمرے کی تمام دیواریں اور زمین کو مخصوص انداز میں تھپتھپا کر اور ناک کرکے دیکھ لیا تھا کہ مگر انہیں وہاں کوئی اور خفیہ دروازہ نہ ملا تھا۔ البتہ دیوار میں ایک خفیہ خانہ تھا جس میں پستول رکھا ہوا تھا۔جسے مخصوص انداز میں دبانے سے وہ خانہ کھل گیا تھا اور پھر بعدازاں سب منیجر نے اسی پستول سے خودکشی کرلی تھی۔اس کے بعد ہیڈ منیجر کے ہی تعاون سے وہ لوگ وجاہت عباسی کے آفس پہنچے جو لاک تھا اور اس کی چابیاں بھی وجاہت عباسی کے پاس تھیں۔ مگر صدیقی کے لئے کھولنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس نے جیب سے ماسٹر کی نکال کر اس کی مدد سے لاک کھولا اور وہ لوگ اندر چلے گئے۔ وہ ایک بہترین انداز میں سجی ہوئی آفس تھی اور بڑی سی میز کے پیچھے ایک ریوالونگ چیئر رکھی ہوئی تھی۔پورے کمرے کی تلاشی کے دوران وہاں بھی انہیں الماری کے پیچھے خفیہ راستہ ملا۔ وہ چھوٹا سا راستہ ایک بڑے سے کنڑول روم میں کھلا جہاں بہت سے ٹی وی اور کمپیوٹرز رکھے ہوئے تھے۔ اس سے منسلک ایک ریکارڈ روم تھا جہاں پر تمام بلیک میلنگ ویڈیوز رکھی ہوئی تھیں۔ کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد انہیں ماسٹر کمپیوٹر سے سربلیک کوبرا اور احمد منیر والی ڈلیٹ ویڈیو مل گئی لیکن وہ ویڈیو خالی تھی اس میں کچھ نہیں تھا۔ کیونکہ سربلیک کوبرا کے خوف سے وجاہت عباسی نے ریکارڈ واش کردیا تھا۔چوہان نے اپنے ایک بیگ سے ایک ڈی وی ڈی نکال لی۔ پھر وہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر اس میں موجود لاکھوں ڈالرز کا سافٹ ویئر انسٹال کرنے لگا ۔ انسٹالیشن کے بعد پھر اس نے اس کی مدد سے ڈیلیٹ شدہ ویڈیو دوبارہ ریکور کرلی۔ یہی وہ اصل ویدیو تھی جس کی خاطر اتنی درد سری برداشت کرنی پڑی۔تمام میٹنگ رومز انہوں نے ہیڈ منیجر کی وجہ سے سیل نہیں کئے تھے کیونکہ وہ بے قصور تھا اور اس نے اب تک ان سے مکمل تعاون کیا تھا۔البتہ وہ تمام ریکارڈ زانہوں نے وہاں سے اٹھا کر اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ پھر سب منیجر کی لاش ایک تابوت میں بند کرکے اور پھر ہیڈ منیجر کو بہت ضروری ہدایات دے کر فورسٹار وہاں سے چلے گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پاکیشیا پورٹ پر اس وقت ایک بہت بڑا بحری جہاز روانگی کے لیے تیار تھا۔ اس میں مختلف تجارتی سامان کے علاوہ انسان بھی سفرکرتے تھے۔اس بحری جہاز میں خفیہ طور پر غیر قانونی چیزیں بھی سمگل ہوکر دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جاتی تھیں۔اسمگلنگ ہونے والی چیزوں میں اکثر نادر اور مہنگی ترین شراب،غیر قانونی تیل ، جدید ترین اسلحہ، کوکین، ہیروئین ، ہرقسم کی منشیات اور انسانی اسمگلنگ بھی شامل تھی ۔بحری جہاز آج بھی قدیم وقتوں کی طرح اسمگلرز کے لئے اسمگلنگ کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔بس فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے اسمگلنگ کے پرانے طریقے ہوتے تھے اور انسانوں نے کم ترقی کی تھی مگر اب جیسے جیسے انسان ترقی کررہے ہیں ۔ بالکل ویسے ہی اسمگلنگ کے بھی دائرہ کار میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔اسمگلروں نے بھی نیوی،فوج اور پولیس سب کو ملا کر دھوکہ دینے کے ایسے ایسے طریقے دریافت کرلئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
اس بحری جہاز کا روٹ ایکریمیا سے شروع ہوکر آسٹریلیا تک تھا اور پھر وہاں سے واپسی۔ راستے میں جس جس بڑے ملک کی بندرگاہیں بنی ہوئی تھیں وہاں یہ رکتا تھا کچھ سامان کارگو ہوتا کچھ اتار لیا جاتا اور یوں بحری جہاز کی زندگی کی گاڑی رواں دواں تھی۔راستے میں کئی بار صومالیہ سے گزرتے ہوئے وہاں کے بحری جہازکولوٹ لیتے تھے یا پھر اس میں موجود عام مسافروں کو یرغمال بنا لیتے تھے۔ان بحری قزاقوں سے جہازکو بچانے کے لئے ایکریمیا کا ایک بحری بیڑا ہمیشہ پاس ہی سمندر میں موجود رہتا تھا ۔ جو قریب کے ایک جزیرے سے اپنی نیوی طلب کرکے بڑی مشکلوں سے یہ بحری جہاز چھڑاتے تھے۔ کیونکہ صومالیہ کے قزاق بحری جہاز کے عملے اور دیگر مسافرروں کو دشوار گزار جنگلوں اور چٹانوں میں لے جاکر انہیں چھپا کر یرغمال بنالتے تھے ۔ پھر اس بحری جہاز کا سارا تجارتی سامان لوٹ لیتے تھے جو اربوں ڈالرز کا ہوتا تھا۔بہت پنگوں کے بعد بلآخر بحری جہاز کا روٹ ہی چینج کرنا پڑا تب جاکر جان چھوٹی۔ بحری قزاق نہ صرف بحری جہاز لوٹ لیتے تھے بلکہ جن لوگوں کو یرغمال بنایا ہوتا تھا ان کے بدلے ایکریمین نیوی سے بہت سا تاوان بھی مانگ لیتے تھے۔
اس وقت بحری جہاز کے عرشے کی ریلنگ کے اوپر ہاتھ رکھے کافرستان کا بدنام زمانہ جاسوس شنکر داس گپتا بھی میک اَپ میں موجود تھا۔رات کے ساڑھے دس کا عمل تھا،کچھ دیر بعد جہاز میں چلنے کا اعلان ہوا اور کوئی پندرہ منٹ میں جہاز چل پڑا۔ اس جہاز کی اگلی منزل کافرستان پورٹ تھی، شنکر نے جیب سے مہنگا سگرٹ نکالا اور پھر اسے لائٹر سے جلا کر سگرٹ کے گہرے گہرے کش لینے لگا۔اس کی اس جہاز میں موجود گی کسی بہت ہی اہم کام کے ہونے کی طر ف اشارہ کررہی تھی۔ضرور کوئی بہت ہی پراسرار کام کے سلسلے میں وہ یہاں ہوگا۔ جہاز کے عملے سے اس کی خاصی جان پہچان تھی جو اسے اکثر غیر قانونی طور پر پاکیشیا لانے اور پھر لے جانے کا کام کرتے تھے اور پاکیشیا کی پولیس اور نیوی کو اسکی ذرا برابر بھی بھنک نہیں پڑتی تھی۔ ہر چکر میں وہ کسی نہ کسی اہم مشن پر آیا ہوتا تھا اور ہر بار ایک نئے میک اَپ میں ہوتا تھا۔اس بار اس نے تھائی لینڈ کے ایک بزنس مین کا روپ دھارا ہوا تھا۔ جو پاکیشیا میں اپنی ایک بزنس ڈیل ہونے کے بعد واپس تھائی لینڈ جارہا تھا۔ مگر حقیقتاً اسے تھائی لینڈ نہیں کافرستان جانا تھا۔کئی دفعہ نیوی کی سختی کے باعث اسے اپنا روٹ لمبا کرتے ہوئے کافرستان کراس کرکے آگے کسی اور ملک کے پورٹ پر اتر جاتا تھا ۔بعدازاں وہاں سے کسی اور متبادل طریقے سے واپس ایک نئے میک اَپ میں کافرستان آجاتا تھا۔
جہاز کی رفتار کافی سست تھی اور اسے اب بھوک کافی شدید سے محسوس ہوررہی تھی۔وہ سگرٹ ختم کرکے اسے اپنے پاؤں سے کچلنے کے بعد زینے سے اترتے ہوئےنیچے ایک طویل راہداری میں آگیا۔جہاں پر دائیں بائیں لاتعداد کمرے تھے۔ وہ سیدھا ڈائننگ ہال میں چلا گیا جہاں مدہم روشنی میں بہت سے لوگ رات کا کھانا کھانے اور مہنگی شراب سے شغل کرنے مصروف تھے۔ وہاں ہلکی ہلکی موسیقی دل کو بھلی لگ رہی تھی ،وہ ایک خالی ٹیبل کی جانب بڑھ گیا۔ہال میں غیرملکی مرد و عورتوں کی کافی تعداد موجود تھی۔جس میں کچھ لوگ محض سیر و تفریح کی غرص سے پوری دنیا کا چکر لگانے کے لئے بحری جہاز کا سفر کررہے تھے۔ کچھ سمگلرز تھے اور بہت سے بزنس مین تھے جو اپنے کارگو کے ساتھ سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جارہے تھے۔
شنکر ایک ٹیبل پر بیٹھ کر ادھر ادھر سب لوگوں کو گہری ٹٹولتی ہوئی نظروں سے گھورہا تھا۔شاید وہ کسی جان پہچان والے بندے کو تلاش رہا تھا یا پھراپنے ماحول سے ہوشیار ہورہاتھا۔ویٹر کے آنے پر اس نے سینڈوچز کے ساتھ ایک بلیک ہارس کا بھی آرڈر دیا۔جو اسے زیادہ انتطار کروائے بغیر سرو کردیاگیا۔ماحول میں کسی خطرے کو نہ پاکر وہ سب سے بے نیاز اپنے پیٹ کی آگ کوبجھانے لگا۔اسے کھاتے ہوئے ابھی زیادہ دیرنہیں ہوئی تھی کہ ایک اجنبی اس کے ٹیبل پر آیا اور اسے ایک کاغذ پر تحریردکھاتے ہوئے کہنے لگا۔
مسٹرکیا آپ بتا سکتے ہیں مسٹر ٹام کہاں ہونگے۔۔۔۔""
"جی ضرور کیوں نہیں؟آپ یہاں سے سیدھا راہداری میں جائیں پھر وہاں بالکل آخری روم لفٹ سائیڈ پر آپ کو خو ہی مل جائے گا۔۔"
"شکریہ آپ کا بہت بہت۔۔۔" یہ کہتے ہی تیزی سے اس نے پرچی اپنی جیب میں ڈالی اور ڈائننگ ہال چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔کاغذ پر تحریر تھی "آج رات سوا بارہ بجے۔۔۔" جوکہ دراصل کوڈ تھا باقی سب کچھ ایک دکھاوااور کچھ نہیں۔
کھانا کھانے اور ایک دوہ گلاس پینے کے بعد اس نے پےمنٹ کی اور اس کے بعد شنکر وہاں سے اُٹھ کرکھڑا ہوگیا۔راہداری میں آنے کےبعد اس کا رخ اپنے کمرے کی طرف تھا جو یہاں کی انتظامیہ نے اسے ایک سو پندرہ الاٹ کیا تھا۔اس نے کی ہول میں چابی ڈال کر دروازےکا لاک کھولا اور پھر اندر داخل ہوگیا۔ کمرے میں اندھیرہ تھا اس نے دروازہ بند کرکے جیب سے جوں ہی لائٹر نکالا تو ایک گھونسہ اس کے منہ پہ لگا اور وہ اونہہ کی آواز کے ساتھ پلٹ گیا۔دیکھتے ہی دیکھتے ایک اور بھرپور گھونسہ اس کے پیٹ میں پڑا اور وہ دہرہ ہوگیا۔نہ جانے وہ کون تھا جس نے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر اس پر حملہ کردیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
احمد منیر نے اپنا فون کھولا ، اس کی بیٹری الگ کرکے اس میں سے سم نکالی اور پھر اسے کوڑے کے ڈرم میں ڈال دیا ۔ اس کے بعد اس نے فون دنوں ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑا اور پھر اسے درمیان سے توڑ کر ڈرم میں ڈال دیا۔وہ اس وقت ائیرپورٹ کی پارکنگ میں کھڑا عامر سے بات کرکے تسلی کرنے بعد یہ سب کچھ کر رہا تھا۔پھر وہ اپنےسیاہ بیگ کندھے پہ ڈالے چلتا ہوا ائیرپورٹ کی جدید ترین عمارت کے گلاس ڈورز کے اندر داخل ہوگیا۔یہاں رنگارنگ برینڈز کے اشتہارات کے لوگوز لگے ہوئے تھے اور سب سے اوپرایک الیکڑک بورڈ جو ایک خوب صورت نیلی روشنی سے سجا ہوا تھا ۔اس کے اوپر جہازوں کی آمدورفت کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہوا تھا۔اس کے نیچے اسی نیلی روشنی سے پورے ائیرپورٹ کی عمارت کانقشہ بنا ہوا تھا۔
احمد منیر الیکٹرک زینے کی مدد سے فرسٹ فلور میں داخل ہوا اور پھر وہاں سے مختلف برینڈز کی شاپنگ مارکیٹ کی ایک لمبی قطار کے بعد وہ ائیرپورٹ کے اگلے حصے میں داخل ہوگیا تھا۔کوئی ایک گھنٹے میں وہ بورڈنگ کے عمل سے فارغ ہوا تو اسےتھائی لینڈ کا بورڈنگ پاس مل گیا اسکے بعد اسکیورٹی کلیرنس ہوئی تو وہ پسنجرز ویٹنگ ائیریا میں تھوڑاویٹ کرنے لگا۔کوئی آدھے گھنٹے بعد وہ جہاز کے اندر تھا مگر فلائٹ اپنے مقرر وقت پر روانہ نہ ہوسکی۔وہ اپنی فرسٹ کلاس سیٹ پہ بیٹھا بے چینی سے پہلو بدل رہاتھا۔
انتظار ،انتظار اور پھر مزید پچیس منٹ کا انتظار۔اتنے میں چند غیرمانوس چہرے مانوس قسم کے کپڑوں میں اندر داخل ہوئے۔جن کو دیکھ کر احمد مینر کی حالت پتلی ہوگئی، وہ واش روم جانے کے لئے اپنی سیٹ سے اٹھا ہی تھا کہ پیچھے سے کسی نے اسے گھمایا اور ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے گال پر پڑا۔ یہ تھپڑ صفدر کے بھاری ہاتھ کا تھا جو اس کے گال کو لا ل کرتے ہوئےاپنی شدت کانشان چھوڑ گیا۔
"ہاں تو مسٹر منیرسی آئی ڈی والے کون ہیں؟ ۔۔۔۔ کیا بولا تھا کتے ہے نہ۔؟" صفد نے اسے کاٹ کھانے والے لہجے میں کہا تو اس کے ساتھ ہی کیپٹن شکیل نے اسکے ہاتھ پیچھے لے جاکر ہتھکڑیوں سے جکڑلئے۔
"میں میں تم لوگوں کو دیکھ لوں گا۔۔۔۔ تم جانتے نہیں کے تم کس سے پنگا لے رہے ہو۔ آئی ایم نمبرون جرنالسٹ آف پاکیشیا۔۔۔" ابھی وہ مزید کچھ کہنا چاہتا تھا کہ کیپٹن عبداللہ نے جیب سے ٹیپ نکال کر اس کا تھوڑا حصہ اپنے دانتوں سے کاٹ کر اس کے ہونٹوں پر چپکادیا۔
"جی جی مسٹراحمد منیر یو ور۔۔۔ تم تھے بڑے جرنالسٹ۔۔۔ لیکن اب نہیں۔۔۔ایک بلیک میلر اور کافرستان کے پیرول پر صحافی کبھی بھی پاکیشیا میں عزت نہیں پا سکتا ۔ یو آر اے ٹریٹر مسٹر احمد منیر ،تم ایک غدار ہو اور غدار کبھی بھی صحافی نہیں ہوسکتا وہ صرف ایک غدار ہوتا ہے۔تم پاکیشیا کے اتنے اچھے صحافیوں کے منہ پر کالک ہو۔ ایک سیاہ ترین دھبہ۔۔۔۔۔ کیا کہہ رہے تھے مسٹر تم ؟ سی آئی ڈی والے کتے ہیں۔۔۔۔پلیز ذرا پٹانکالیں۔۔۔۔۔" صفدر احمد منیر سے کاٹ دار لہجے میں بات کرتے کرتے اچانک اپنا رخ کیپٹن عبداللہ کی طرف پھیر کر اسے کسی پٹے کا کہا۔تو کیپٹن عبداللہ نے اپنی جیب سے ایک کتے کا پٹا نکال کر اس کے گلے میں ڈال کراسے بند کردیا جواسے فٹ ہوگیا۔پھر اس نے ایک اور جیب سے زنجیر نکال کراسے پٹے کے ساتھ جوڑااور زنجیر کا سرا صفدر کو تھمادیا۔سب لوگ اپنی سیٹوں سے اٹھ اٹھ کر پہلے یہ منظر حیرت سے دیکھتے رہے پھر باقاعدہ کھڑے ہوکرشیم شیم کرنے لگے۔
"کتے تم ہو مسٹر احمد سی آئی ڈی نہیں۔ شیم آن یو۔ڈرٹی ڈاگ۔"یہ کہتے ہی صفدر اسے ایک جھٹکے کے ساتھ آگے لے جانے لگا۔احمد منیر کی حالت غیر ہورہی تھی زندگی میں پہلی بار اسےاتنی خفت کاسامنا کرنا پڑا تھا اور وہ بھی سب کے سامنے۔پہلے تو لوگ اسے پہچان نہیں رہے تھے مگر بعد میں جب انہیں تمام صورت حال کا علم ہوا تو انہوں نے بھی شیم شیم کہنا شروع کردیا۔صفدر اسے لئے جارہاتھا تو ایک آدمی نے جذباتی انداز میں آگے بڑھ اس کے منہ پر تھوک دیا۔کسی نے اپنے گلاس سے پانی نکال کر اس کے منہ پر پھینک دیا۔ایک موٹی عورت جو چائے پی رہی تھی اس نے اٹھ کر نہایت غصے سے اس کے کپڑوں پر پوری چائے پھینک دی۔۔۔
ٹم کو شڑم آنا چاہے،چیکس لیٹا ہے۔ ہم کو الو سمجھٹا ہے۔۔۔۔""
ایک آدمی نے آگے بڑھ کر اپنے جوتے اٹھا کر فقے فقے سے اسے دے مارے جو غلط نشانے کی وجہ سے دونوں ہی چوک گئےاور اس کے ساتھ سے ہوتے ہوئے دور جاگرے۔
وہ صحافی جو کل تک جس کی چاہے پگڑی اچھال لیتا،جس کو چاہیے بلیک میل کرکے میڈیا پر ذلیل کرلیتا۔ وہ شخص جو عوامی ووٹوں سے آئی حکومتیں گرا کر اپنی من پسند کی خکومتیں لےآتا تھا، آج عوام کی عدالت میں اس کی حیثیت ایک کتے جیسی تھی۔ بلکہ شاید کتوں کی عزت اس سے زیادہ تھی ۔جو کل تک پاکیشیا کا سب بڑا صحافی تھا لوگ اسکی بات حرف آخر جانتے تھے وہ لوگوں کے دلوں کی دھڑکن تھا آج پاکیشیا کی عوام نے اسے عرش سے اٹھا کر فرش پر گرادیا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے چند جذباتی نوجوانوں نے وہاں سی آئی ڈی کے حق میں اور احمد منیر کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔
"سی آئی ڈی ۔۔۔۔۔۔۔زندہ باد۔۔۔۔۔۔ سی آئی ڈی ۔۔۔۔۔۔۔زندہ باد۔۔۔۔۔۔ سی آئی ڈی آف پاکیشیا۔۔۔۔۔۔۔زندہ باد۔۔۔۔۔۔ چیتے ہیں بھائی ۔۔۔شیر دے پترنے۔۔۔۔احمد منیر کتا۔۔۔احمد منیر کتا۔۔۔احمد منیر کتا۔۔۔۔۔ سی آئی ڈی۔۔۔۔ زندہ باد۔۔۔ سی آئی ڈی۔۔۔۔ زندہ باد ۔۔۔۔ سی آئی ڈی۔۔۔۔ زندہ باد۔۔۔۔احمد منیر کتا۔۔۔" صفدر کسی بھی ہنگامی حالات کے پیش نظر تیز تیز چلتا ہوا طیارے سے جلد از جلد اترجانا چاہتا تھا۔کیونکہ ماحول بہت گرم ہوگیا تھا لوگ اس قدر مشتعل تھے کہ کوئی بھی غیر متوقہ صورت حال پید ا ہوسکتی تھی۔جو وہ ہرگز نہیں چاہتے تھے۔
کچھ دیر بعد وہ لوگ جہاز سے نیچے اترےتو میڈیا نے انہیں چاروں سے گھیر لیا۔کیپٹن شکیل اور کپیٹن عبداللہ نے احمد منیر کے سر پر سیاہ کپڑا ڈال دیا اور پھر اسے تیزی سے ائیرپورٹ کے اسپیشل وے سے نکالتے چلے گئے جو بغیر پبلک میں آئے سی آئی ڈی کی کار تک انہیں پہنچا دیتا۔ جب تک صفدر میڈیا سے گفتگو کرنے کے لئے رک گیا۔
سر آپ نے یہ احمد منیر کو کس جرم میں گرفتار کیا ہے۔۔""
پاکیشیا سے غداری اور پاکیشیا کے لوگوں کو بلیک میل کرنے جرم میں۔۔۔""
"سر لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک پاکیشیائی صحافی اپنے ہی ملک سے غداری کرلے۔۔۔"
"بالکل ہوسکتا ہے۔۔۔اس کے تمام ثبوت ہم نے اکھٹے کرلئے ہیں۔ کافرستانی سفارت خانے میں جاکر اس کی خفیہ ملاقات کی آڈیو ہم نے اچانک ٹریک کرکے جب ہم نے باقاعدہ اس کی ریکی کی تو ہمارے پاس ایک نہیں درجنوں ثبوت ہاتھ لگے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ احمد منیر ایک غدار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلیک میلر بھی ہے۔۔۔"
"سر لیکن اس قدر توہین؟ آپ نے اسے کتا بنا کر تما صحافیوں کی تذلیل کی ہے۔۔۔"
"ہم نے کسی صحافی کی تذلیل نہیں کی۔ بلکہ ہم صحافت جیسے عظیم شعبے کی دل سے عزت کرتے ہیں۔ آپ سب ہمارے لیے بہت محترم ہیں ، پلیز آپ اسے پرسنل اِشو نہ بنائیں۔ جو شخص پاکیشیا کے اداروں کی عزت نہیں کرتا اور اپنے وطن کے ساتھ غداری کرتا ہے اس کا انجام یہی ہوتا ہے۔ہم اسے جلد ہی عدالت میں پیش کریں اور پھر جو عدالت فیصلہ دے گی ہم اس کا احترام کریں گے۔۔۔۔"
"سر یہ کیس تو کیپٹن فیاض کے ہاتھ میں تھے پھر وہاں سے سی آئی ڈی کے پاس کیسے آیا؟۔۔۔"
"اس کیس کو باقاعدہ حکومت نے سینٹرل انٹیلی جنس بیورو سے لیکر ہمیں ٹرانسفر کردیا ہے اب ہم اس کی تحقیقات کررہے ہیں۔۔۔۔"
"سر یہ کیس تو علی عمران کی پھانسی کے بعد کلوز ہوگیا تھا، جس میں میڈیا نے کافی اہم رول پلے کیا تھا کیا اب آپ اسے میڈیا کے ساتھ نتھی کرکے دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں؟"
"ہم نے کسی کے ساتھ میڈیا کو نتھی نہیں کیا،آپ پلیز میں آ پ کو پھر کہہ رہا ہوں یہ میڈیا کے خلاف نہیں بلکہ میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف ہے ۔ ابھی علی عمران کا کیس کلوز نہیں ہوا،تاحال اوپن ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے یہ صرف علی عمران کی ذات تک محدود تھا اب اس کا دائرہ کار وسیع ہوگیا ہے۔کسی کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ پاکیشیا کی سادہ لو عوام کو دھوکا دے کر ان کی رائے بدلے ۔۔۔۔۔تھینک یودیٹس آل۔۔۔۔" یہ کہتے ہی صفدر نے جیب سے سیاہ چشمہ نکل کر اپنے چہرے پر سجایا اور وہاں سے چلا گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جولیا نے تو اپنی رپورٹ اور ڈی وی ڈی مرتب کرکے ایکسٹو کو عمران کی پھانسی سے قبل ہی بھجوا دی تھی۔ مگر بلیک زیرو نے ایک خاص مصلحت کے تحت اسے روک لیا اور اسے صدر صاحب تک بھی شیئر نہیں کیا تھا۔ جولیا ، صا لحہ اور مہوش نے کمال رپورٹ مرتب کی تھی،اس میں سینٹرل انٹیلی جنس بیورو کی تفتیشی رپورٹ کو یکسر رد کرکے ایک نئی اور زبردست رپورٹ مرتب کی تھی۔ جس میں کیس کے نئی پہلوکھل کر سامنے آئے تھے، جولیا نے کپٹن فیاض کی بھونڈی رپورٹ کے پرخچے اڑادیئے تھے۔ بلیک زیرو اس کی رپورٹ سے خاصہ خوش اور مطمئن تھا، کیونکہ یہی رپورٹ تھی جو وہ چاہتا تھا۔ مگر سیکرٹ سروس خود پریس کانفرنس کرکے میڈیا کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی۔ حالانکہ دنیا بھر کی ماڈرن سیکرٹ سروسز میڈیا پر باقاعدہ آتی تھیں اور اپنی کارکردگی سے لوگوں کو اور میڈیاکو آگاہ کرتی تھیں۔ مگر یہ عمران کا فیصلہ تھا جو اب حیات نہیں تھا۔ چونکہ پاکیشیا نے ابھی تک ترقی نہیں کی کہ وہ کھل کر میڈیا پر آسکے۔ یہاں دیگر ادارے کمزور تھے ایک سیکرٹ سروس کا ادارہ اتنا اسٹرانگ تھا کہ اسے میڈیا کے سامنے لاکر اس پر سوالات کھڑے نہیں کئے جاسکتے تھے۔اس لئے مصلحت کے تحت اس نے عمران کی پھانسی کا انتظار کیا ۔پھر اس کے بعد اب صفدر اور فور سٹار کی کارکردگی کے بعد ان کی طر ف سے جو رپورٹس اور ثبوت ملے تھے وہ سب ایک فائل اور ایک ڈی وی ڈی میں شفٹ کرکے اس نے ایک نیا طریقہ نکالا تھا۔اس نے ان تمام ثبوتوں کی کاپی محمود شاہد کو بھجوانے کا فیصلہ کیا ۔اس نے ہاتھ بڑھا کر رسییوراٹھا کر محمود شاہد کا پرسنل نمبر ڈائل کیا اور کال ملتے ہی اس نے کہا
"ایکسٹو۔۔۔۔"
"یہ سر۔۔۔۔"
"تمہارے پرائم چینل کے خلاف شونے واقعی مجھے متاثر کیا ہے۔ ویل ڈن اس لئے میں تمہیں عمران کے کیس کی مکمل رپورٹ ثبوتوں کے ساتھ دینا چاہ رہا ہوں ۔۔۔"
"سر میں سچ کی تلاش میں ہوں۔ اگر وہ تما م ثبوت دل کو لگے تو میں ضمیر کی آواز پر شو کردوں گا۔ میں نے کبھی کسی کا پریشر برداشت نہیں کیا۔ اگر میرے رب نے چاہا تو سرداور کے حقیقی قاتل ضرور سامنے آئیں گے۔""
انشا اللہ گڈ بائے۔۔۔۔""
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ جو کوئی بھی تھا شنکر سے زیادہ چالاک اور عیار نہیں تھا۔ شنکر جو اس وقت دہری حالت میں تھا اس نے اپنی چھٹی حس کا استعمال کرتے ہوئے۔ اس پراسرار شخص کے ہاتھوں کی حرکت کو اس کے حساس کانوں نے محسوس کیا۔ وہ جو ں ہی اپنے ہاتھ سے دوبارہ اس پر حملہ آور ہواشنکر نے فوراًاس کا ہاتھ پکڑ کراس مروڑ کر گھومایا اور پھر نہایت پھرتی سے اس کے بوٹوں پر اپنی ٹانگ چلائی تواس کا بیلنس خراب ہوا اور وہ دھڑام سے منہ کے بل نیچے آرہا۔ شنکر پھرتی سے اس کے اوپر آگیا اور اس نے اس کی گردن پر گھٹنا رکھ کر اس کا سانس روک لیا۔ وہ بری طرح سے تڑپ رہا تھا۔ پھر شنکر نے اپنا لائٹر اندھیرے میں ٹٹولتے ہوئے ڈھونڈ لیا جو فائٹ کے دوران اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ اس نے لائٹر جلا کر اس کی شکل اس میں دیکھی تو وہ اسے نہ پہچان سکا۔"
کون ہوتم جلد ی بتاؤ ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔""
"بب بتا ہوں۔۔۔ بب بتاہوں۔۔۔۔ پلیز میری جان نکل جائے گی مجھے نکالو۔۔۔۔""
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے روم میں داخل ہونے کی۔۔۔ جلدی بولو ورنہ میں زور بڑھاتا جاؤں گا اور تمہاری حالت اور خراب ہوتی جائے گی۔۔۔"
"مم مجھے وکرم نے بھیجا ہے۔۔۔۔ وہ چیک کرنا چاہتا تھا کہ تم جہاز پر کیا لے جارہے ہو۔۔۔۔" وکرم کافرستان کی ایک پاورفل ایجنسی وکرم گروپ کا چیف تھا۔اس کا کام بھی جاسوسی وغیرہ کرنا تھا اورجاسوسی کرکے سرکار کو رپورٹ فراہم کرنا تھا۔ یہ چونکہ شنکر کا مخالف گروپ تھا لحاظہ دونوں کی آپس میں خوب ٹسل چل رہی تھی۔ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی خاطر ان کے درمیان اکثر مقابلہ رہتا تھا۔
اس وقت اور کون ہے تمہارے ساتھ۔۔۔""
کک کک کوئی نہیں۔۔۔صرف میں۔۔۔""
"اوکے ڈن۔۔۔۔" اس کے ساتھ ہی شنکر نے اس کی گردن سے اپنا گھٹنا ہٹا کر اسے دونوں ہاتھوں میں تھام کر ایک
جھٹکے کے ساتھ گردن توڑ دی۔پھر اس نے آگے بڑھ کرکمرے کی لائٹ روشن کردی۔کمرہ بہترین انداز میں سجا ہوا تھا۔اس نے سب سے پہلے بستر کی چادر اوپر اٹھا کر اس کے اندر وکرم کے آدمی کو گھسیٹ کر کر اندر کرلیااور پھر چادر گرادی تو وہ چھپ گیا۔
رات بارہ بجے وہ کمرے سے نکل کر عرشے پہ جاکر پورا ماحول دیکھ آیا۔پھر وکرم کے آدمی کو اپنے کمرے سے گھسیٹ کراس نے اسے اپنی کمر پر لادا اور عرشے پہ لاکراسے سمندر کی موجوں کے حوالے کردیا۔پھر وہ واپس اپنے کمرے میں آیا تو بارہ بج کرپانچ منٹ ہوگئے تھے۔ اس نے دس منٹ انتظار کے بعد اپنے بیگ سے سیٹلائیٹ فون نکال کراس پر کوئی نمبر پریس کرنے لگا۔کال ملتے ہی وہ گویا ہوا
"یس ڈی ون ۔۔۔۔۔۔۔"
"ڈی ٹو ہیر۔۔۔۔"
"رات بہت کالی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"۔۔۔اور آسمان پر بادل نکلے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔"
"ایس۔بی۔سی کہاں ہے؟۔۔۔"
"ہی از آل رائٹ۔۔۔۔۔"
"اینی پرابلم۔۔۔۔۔۔۔۔"
"پرابلم پہلے ہی حل ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"گڈ بائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" بات ساری کوڈ ورڈز میں ہوئی تھی۔کال ختم ہوتے ہی شنکر نے فون بند کرکے واپس بیگ میں رکھ دیا اور پھر بیگ کے خفیہ خانے سے ایک مڑی ہوئی ننگی وائر نکالی اورپھر اپنے کمرے کو لاک کرکے وہ دوبارہ راہداری میں آگیا۔مختلف کمروں سے گزرنے کے بعد وہ زینے چڑھتا ہوا دوبارہ عرشے پر آگیا اور پھر وہاں سے دبے قدموں ایک اور روم کے دروازے کے سامنے آگیا۔ جہاں پر جہاز کا سامان رکھا جاتا تھا۔ دروازے کے لاک میں اس نے وہی ننگی وائرڈالی اور پھر اس کو دو تین بار مخصوص انداز میں گھماتے ہی اس نے وہ لاک کھول دیا۔اندر آکر اس نے جیب سے پینسل ٹارچ نکالی اور پھر اسے جلا کر دبے قدموں ایک تابوت کی طرف بڑھ گیا۔ کمرے میں اور بھی دیگر سامان موجود تھا۔ مگر باقی سب کی پراہ کئے بغیر وہ تابوت کے پا س آیا اس کے لاک میں بھی اس نے دو تین بار وہی وائر گھسائی تو کٹک کی آواز کے ساتھ تالا کھل گیا۔ اس نے تالا اتار کر جوں ہی تابوت کا کور ہٹایا تو اندر سربلیک کوبرا کا جسم دیکھ کر شنکر کے چہرے پر زہریلی مسکراہٹ آگئی۔
سربلیک کوبرا اور بلیک زیرو کی فائٹ اس نے دیکھی تھی اور جب بلیک زیرو نے اس کی کمرکے مہرے ہلائے تو وہ رنگ میں پڑا تڑپ رہا تھا۔ اسی وقت کیپٹن فیاض نے چھاپا مارکرفائٹ کلب میں پکڑدھکڑ شروع کردی تھی۔ شنکر رنگ کے پاس ہی بیٹھا ساری فائٹ دیکھ رہا تھا۔ کیپٹن فیاض کے اعلان کے ساتھ وہاں بھگڈر مچ گئی تھی۔ جس کا فائدہ اٹھا کرشنکر رنگ کے اندر داخل ہوگیا۔ اس نے سربلیک کوبرا کو رنگ سے نیچے اتارا اور پھر اسے اپنے ساتھ ہی رنگ کے اندر لے گیا۔ رنگ کے اندر ایک جگہ میڈیکل کا ایک بڑا باکس پڑا ہوا تھا ۔اس نے وہاں سے اسے ہٹا یا تو اندر زینے جاتے ہوئے نظر آئے اس نے سربلیک کوبرا کو اپنے کندھے پر لادا اور پھر زینے اترتا ہوا نیچے آیا تو ایک ٹنل جاتی ہوئی نظر آئی۔ پھر اس ٹنل سے ہوتا ہوا وہ ایک دفعہ پھر اوپر جاتی ہوئی سیڑھیوں پر چڑھ گیا۔ اوپر لکڑی کا پشتہ ہٹایا تو وہ ایک اندھیری گلی میں کھلا۔
پھر شنکر سربلیک کوبرا کو کندھے پر ڈالے پاس کے ایک مکان میں لے گیا جہاں اس نے اسے ایک بستر پر لٹا کراس کی کمر کے مہرے مخالف سمت میں کھینچ کر شدید نوعیت کے جھٹکے دیئے تو سر بلیک کوبرا کی چیخیں نکل گئیں۔ پھر اس نے میڈیکل باکس سے ایک بے ہوشی کاانجکشن نکال کر اسے لگا دیا ۔یہ اس کا اپنا ہی ایک خفیہ مکان تھا۔فائٹ کلب میں وہ اکثر آتاجاتا رہتا تھا اس لیئے اسے وہاں کے اکثر چور راستوں کا پتہ تھا۔
کلب کے اصولوں کے مطابق مخالف کا خون نکال کر مارنا ضروری تھا اور فائٹ میں کسی ایک کا مرنا لازی تھا۔ مگر سربلیک کوبرا اب بھی زندہ تھا اس اعتبار سے ابھی تک وہ ہارا نہیں تھا ۔ سو وہ اب بھی ناقابل شکست تھا ۔ لیکن وہ بھی انسان تھا اور گیم میں اونچ نیچ تو ہوتی ہی رہتی ہے۔
شنکرتابوت کھولے اسے دیکھ رہا تھا پھر اس نے سربلیک کوبرا کے تابوت کا کور بند کرکے پھر سے لاک لگا دیا۔ اب آگے اس کی منزل کافرستان تھی، دنیا خطر ناک ترین انسان اب اسکے ہاتھ میں تھا جسے طویل ترین بے ہوشی کا انجکشن لگا ہوا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محمود شاہد کا آج دھماکے دار شو ہونے والا تھا جس کا عنوان"آج ہم سب مجرم ہیں" تھا۔محمود شاہد اسٹوڈیو میں آکر ضروری تیاری کرنے کے بعد ایکسپوزڈ کے اسٹوڈیومیں داخل ہوا اور پھر کوئی پندرہ منٹ میں ابتدائیہ کے بعد اس نے کہا۔۔
"آج میں مجرم ہوں آپ مجرم ہیں، اس ملک کا ہر شہر مجرم ہے۔اس ملک کے صدر ،اس ملک عدلیہ غرض سب کو پھانسی پر جھول جانا چاہیے جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ آج جو میں آپ کودکھانے والا ہوں ۔ اسے دیکھ کر آپ دوبارہ اپناچہرہ آئینے میں نہیں دیکھ پائیں گے۔جی آج مجھے توہین عدالت لگتی ہے تو لگ جائے۔ میں نے بغاوت کا جو علم اٹھایا ہے اسے اپنے منطقی انجام تک پہنچاؤں گا۔ چاہیے میرا پروگرام بین ہوجائے ۔ چاہیے مجھے پھانسی ہوجائے۔۔۔۔ میں سچ بولنے سے باز نہیں آؤں گا۔۔۔ مجھے ہے حکم ازاںٗ لَا الٰہ الاَّ اللہ۔۔۔۔۔
جانتے ہیں ہم نے دو دن قبل ہی ایک آدمی کو پھانسی پر چڑھا دیا۔۔۔؟ جانتے ہیں وہ کون تھا؟ نہیں وہ علی عمران نہیں وہ اسرائیل کی موت تھا، کافسرستان کی راتوں کا سکون چھین لینے والا وہ عظیم مجاہد تھا۔ جس نے فلسطین جاکر مسلمان عورتوں کی ،ہماری ماؤں بیٹیوں کی عزت خود بچائی ہے۔وہ جس کے خوف سے اسرائیل کی پوری حکومت میں تھرتھلی مچ جاتی تھی۔ وہ جس نے ہیون ویلی کی تحریک آزادی میں خود جاکر لڑا۔ہم نے پوری قوم نے مل کر اسے پھانسی ٹانگ دیا۔وہ جس کی وجہ سے دشمنوں کو کبھی جرات نہیں ہوئی کہ وہ پاکیشیا کے خلاف کبھی اپنی میلی آنکھ اٹھاسکیں ۔ آپ نے ،میں نے اور ہم سب نے ملکر اسے ٹانگ۔۔۔۔آئیے میں سناتا ہوں آج آپکو اس کی کہانی اس محسن کی کہانی تمام ثبوتوں کے ساتھ جس کو ہم نے اپنے ہی ہاتھوں قتل کردیا۔اسی لئے دنیا ہمیں محسن کش قوم کہتی ہے ۔ کیونکہ ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے احسان کرنے والوں ٹانگ دیتے ہیں۔۔۔۔۔
آج میں وہ کیس لڑنے جارہاہوں جو پاکیشیا کی عدالت نے ہمیشہ کے لئے بند کردیا۔ مجھے نہ عدالتوں سے امید ہے اور نہ اس ملک کی حکومت سے۔۔۔ مجھے صرف اس قوم سے امید ہے پاکیشیا کی یوتھ سے امید ہے جو اس شو کے بعد سڑکوں پہ نکل آئے گی اور اس وقت تک گھروں میں واپس نہیں جائے گی کہ جب تک انصاف نہ مل جائے۔ جی ہاں انصاف ۔ آج میں آپ کو اس شخص کی کہانی سناتا ہوں جسے ہم نے گالیاں دے دے کر اپنے ہی ملک میں رسوا کردیا۔ سوچیں اس کی فیملی پہ کیا بیتی ہوگی جس کا عدالتی قتل ہوا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ ہفتے کی رات دو کے تھوڑا بعد سر داور کا قتل ہوا اور ابھی مشکل سے ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ہم نے علی عمران کو ٹانگ دیا۔۔۔ کیوں ؟ کیا دنیا کی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا جو ہم نے کیا؟ آخر ہمیں کس بات کی جلدی تھی۔ انصاف ہونا چاہے اور بالکل فوری ہونا چاہیے مگر اتنا اندھے طریقے سے بھی نہیں ہونا چاہے کہ ہم ظالم اور مظلوم میں فرق بھی نہ کرسکیں۔ میں آپکو ایک کال سنواتا ہوں جو علی عمران کے فون ریکارڈ سے ہم نے حاصل کی ہے ۔ سنیں اور ماتم کرتے جائیں کہ یہ سب کچھ کیا ہوتا رہا اور ہم نے بطور قوم کیا کردیا۔۔۔" اس کے بعد اسکرین درمیان سے پھٹی اور دوتصویریں نظر آنے لگیں ایک علی عمران کی اور دوسری سرداور کی اور درمیان میں ایک ٹیلی فون بنا ہوا تھا۔ یہ ایک آڈیو ٹیپ تھی۔
"عمران ۔۔۔۔۔۔ میں داور بول رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم تم پلیز ۔۔۔۔۔۔۔ جلدی میرے گھر آجاؤ۔۔۔۔ میری ۔۔جج جان کو خخ ۔۔ خخ ۔۔خطرہ ۔۔۔۔۔۔۔" پھر لائن ڈراپ ہوگئی۔
"تو جناب یہ کال علی عمران کو رات کے پونے دو بجے کی گئی۔۔۔علی عمران سے سرداور کے گھر کاکم سے کم تیس پیتیس منٹ کا فاصلہ ہے ۔ آپ دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا کوئی آفیسرز کالونی پندرہ منٹ میں پہنچ بھی جائے اور دو بج کر پانچ منٹ پر انکا قتل بھی کردے اور پھر رنگے ہاتھوں پکڑا بھی نہ جائے ہے؟ کیا یہ ممکن ہے حیرت ہے ۔ لیکن آپ لوگوں کو محض آڈیو سے یقین نہیں آئے گا۔ کیونکہ اس میں عمران کی اپنی آواز نہیں چلیں ٹھیک ہے اب یہ تصویر دیکھیں۔۔۔" یہ کہتے ہی اسکرین پر سرداور کے فرنٹ ڈور کی تصویر آگئی جس کے سامنے علی عمران کی گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔
"کیا کوئی اتنا شاطر آدمی ، جو بہت ہی زیادہ چالاک ہو اور بقول کیپٹن فیاض کے اور پرائم چینل کے جس نے کرمنالوجی بھی پڑی اور نہ صرف پڑھی ہوئی ہو بلکہ وہ ہ اس میں مہارت بھی رکھتا ہو۔ اس کے علاوہ وہ بلیک میلر بھی ہو۔ اس کے علاوہ اس کے کئی خفیہ اکاؤنٹس بھی ہوں کیا وہ اتنی معمولی اور بنیادی غلطی کرسکتا ہے کہ سر داور کے فرنٹ ڈور پر اپنی گاڑی یوں کھڑی کردے جیسے وہاں سرداور کا قتل کرنے نہیں بلکہ ان سے ملنے جارہا تو کیا وہ ایساکرے گا؟ چھوٹی سی چھوٹی عقل رکھنے والا شخص بھی یہی کہے گا کہ اگر علی عمران سرداور کا قاتل ہوتا تو وہ اپنی گاڑی کوٹھی کی بیک سائیڈ پر کھڑی کر تا یا پھر کوٹھی سے دور کہیں اور تاکہ وہ واردات کرتے ہی فرار ہوجائے نہ کہ موقعہ واردات پر ہی خود کو گرفتار کروالے۔ کیا یہ بات عقل میں آتی ہے۔ جو پوری کوٹھی کا کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم تباہ کردے اور آخر میں خود کو ہی گرفتار کروالے ؟
اب آپ لوگ کہیں گے کہ وہ حاسد تھا اس نے قتل کیا اس کا کام ہوگیا لحاظہ خود ہی اس نے اپنے آپ کو کیپٹن فیاض کے حوالے کردیا ہوگا۔۔۔ اور اگر وہ مجر م نہیں تو اس نے عدالت میں اپنا جر م قبول کیوں کیا؟ یہ اور ان جیسے کئی سوالات کو میں آگے چل کر تفصیل سے جواب دوں گا ۔ آپ کو ہر سوال کا جواب تسلی بخش ملے گا۔اس کے بعد اب آجائیں اس ویڈیو کی طرف جس کی وجہ سے عمران اور اس کے پرسنل باڈی گارڈز کو سزا ہوئی۔ میں آپ کو دکھاتا ہوں اصلی ویڈیو کون سی ہے اور جعلی کون سی۔"اس کے ساتھ ہی اسکرین پر سر دوار کی کوٹھی کی دو ویڈیوز برابر چلنا شروع ہوگئیں۔ ایک کے اوپر اصلی لکھا ہوا تھا جبکہ دوسری کی طرف جعلی ۔اس کے علاوہ اصلی ویڈیو کی کوالٹی بہت ہائی تھی جیسے ہالی وڈ کی کو ئی مووی لگی ہو۔اس میں عمران کے بجائے سربلیک کوبرا اور اس کے دو کارندے جوزف اور جوانا کی جگہ نظر آرہے تھے۔وہی سارا منظر جو لوگوں نے عدالت کی کاروائی میں دیکھا تھا مگر ا ب کردار بدل گئے تھے۔
"جی ہاں آپ سب لوگوں کو چونکنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔اصلی اور نقلی ویڈیو کا فرق واضح ہے ۔ دونوں کی کوالٹی میں زمین آسمان کافرق ہے۔ لیکن یہ جو شخص آپ کو ویڈیومیں نظر آرہا ہے اس کا نام سربلیک کوبرا ہے ۔۔۔ پس یہی ساری گیم کا ماسٹر پلانر ہے۔ ابھی اس کے بیک گراؤنڈ کے حوالے سے تفتیش سی آئی ڈی کررہی ہے۔۔۔۔اب آپ کے ذہن میں یہ سوال ہوگا کہ سر بلیک کوبرا تو آفیسرز کالونی کے اصول کے مطابق آفیسرز کالونی میں داخل ہی نہیں ہوسکتا پھر یہ اندر کوٹھی میں کیسے چلا گیا۔ تو اس کاجواب بڑا سادہ سا ہے اسکے ساتھ پرائم چینل کاویڈیو ایڈیٹر عامرایک گاڑی میں اسے لیکر اندر گیا اور عامر نے آفیسرز کالونی کی چیک پوسٹ پر اپنے میڈیا کارڈ کا استعمال کیا۔ جبکہ اس کی گاڑی کے کلرڈ شیشے تھے اس لیئے چیک پوسٹ کے آفیسرز انہیں نہیں دیکھ سکے۔۔۔۔۔۔
جی جناب آپ کو یاد ہوگا کہ کیپٹن فیاض نے جب رانا ہاؤس نامی عمارت پر چھاپا مارا تھا تو جوزف چیختا رہ گیا کہ یہ ساری گیم عامر نامی کسی شخص کی ہے اس نے وہ ٹاپ سیکرٹ ویڈیو اسے دی ہے وہی اسے اور عمران کو پھنسارہا ہے۔مگر ہم پر ریٹنگ کا جنون سوار تھا، ہم پر تو علی عمران کوٹانگنے کا جنون سوار تھا۔ ہم نے کیوں خیال کرنا ہماری بلا سے کوئی چیختا رہے۔ اس لئے میں نے بولا تھا کہ آج ہمیں بطور پوری قوم پھانسی پر لٹک جانا چاہیے۔۔۔۔ اب میں آپ کو ہوٹل سٹار سی ون کی ایک خفیہ ویڈیو دکھاتا ہوں۔۔ جی ہاں آپ کے ہمارے اور ہم سب کے چہیتے پاکیشیا کے نمبر ون صحافی احمد منیر صاحب کیا کررہے ہیں۔" اس کے بعد اسکرین پر احمد منیر اور سربلیک کوبرا کے درمیان ہونے والی ویڈیو اور ایک بریف کیس کے تبادلے بعد محمود شاہد گویا ہوا
"جی جناب یہ تمام باتیں کوڈز میں ہوئیں اب میں آپ کو کوڈز کو ڈی کوڈ کرکے بتاتا ہوں۔۔۔ چڑیا پھنس گئی مطلب علی عمران پھنس گیا۔۔۔ کھیل شروع سے مراد علی عمران کو پھانسی پر لٹکانے کا کھیل شروع ہوگیا۔ اور بقو ل سربلیک کوبرا کے جس میں انہوں نے خود ہی اقبال جرم کرلیا"
"اس کھیل کی بساط میں نے بچھائی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس بساط کا ہر مہرہ میری مرضی سے خانے چلے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے
میں چاہوں گا ویسے ہوتا چلا جائے گا"۔۔۔ اور سربلیک کوبرا نے بالکل صحیح کہا تھا، جیسے جیسے اس نے چاہا ویسے ویسے ہوتا چلا گیا۔۔۔۔ کیوں کیا آپ اور میں اس ملک کی حکومت کیا ہم سب اس بھیانک کھیل کا حصہ نہیں تھے۔ کیا ہم سب نے ملکر علی عمران کو پھانسی نہیں لگائی۔۔۔۔ اب میں اس سوال کی طر ف آتا ہوں کہ علی عمران نے عدالت میں جاکر اقبال جرم کیوں کیا۔ اس سوال کا جواب آپ کو دو ویڈیوز کی مدد سے ملے گا۔ پہلے آپ عامر کے اقبال جرم کی ویڈیو دیکھیں ۔" اسکے بعد اسکرین پر عامر کی وہی اقبال جرم والی ویڈیو چلنے لگی جو صفدر نے اس سے ٹارچر روم میں مختلف سوالات کر کے اس سے کروایاتھا۔
"اس میں عامر نے واضح کہا کہ اسے ہپناٹئز کیا گیا اب میں آپ کو سربلیک کوبرا اور علی عمران کی سینٹرل انٹیلی جنس کے کے سیل کی وہ تہلکا خیز ویڈیو دکھاتا ہوں جس میں سربلیک کوبرا علی عمران کو ہپناٹائز کر رہا ہے۔" اس بعداسکرین پر سینٹرل انٹیلی جنس کے سیل کی ویڈیو نظر آنے لگی اور جس میں سر بلیک کوبرا علی عمران کو ہپناٹائز کر رہا تھا۔
"جی ہاں تو اس ویڈیو کے بعد کون کس کا محکوم ہوا۔۔۔۔ علی عمران سربلیک کوبرا کا۔۔۔۔۔ کیا ان تمام ویڈیوز کے بعد کسی کو تھوڑا بھی شک رہ جاتا ہے کہ عدالتی قتل نہیں ہوا؟
آج میں آپ کو بتاتا ہوں کہ علی عمران کون تھا جس کی اتنی تعریفیں میں اپنی تمہید میں کیں۔۔۔۔ وہ پاکیشیا سیکرٹ سروس کے لیے بطور فری لانس سیکرٹ ایجنٹ کام کرتھا۔ اور اس نے اسرائیل جاکر اسرائیل کی مسلمان ممالک کے خلاف جو اس نے لاتعداد سازشیں کیں اسے ناکام بنایا اس کی کئی لیبارٹریاں جو امت مسلمہ کے خلاف کام کررہی تھیں انہیں تباہ کیا۔ جی وہ ہیون ویلی جاکر کافرستان کی فوج کے خلاف لڑا انکے کئی اہم ہیڈ کوارٹرز تباہ کئے ۔ علی عمران کا نام سیکرٹ سروس کی دنیا میں ایک ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔۔۔۔جتنا نقصان اس نے اسرائیل اور کافرستان کو پہنچایا ہے کہ شاید اتنا نقصان اب قیامت تک علی عمران کے بعد کوئی نہیں کرسکے گا ۔ اس کے ہوتے ہوئے کوئی بھی میلی آنکھ سے پاکیشیا کی طرف نہیں دیکھ سکتا تھا مگر ہم نے اس شخص کو ٹانگ دیا۔۔۔۔ آئی ایم سوری علی عمران ہم شرمندہ ہم تیرے قاتل ہیں ۔۔۔ آج سے میں ایک تحریک لیکر پاکیشیا کی سڑکوں پر آرہا ہوں۔۔۔۔
ہماری تحریک کا نام
"علی عمران ہم شرمندہ ہیں" ہوگا۔ اب پاکیشیا کی یوتھ گھروں میں بیٹھ کر ٹوئٹر اور فیس بک استعمال نہیں کرے گی بلکہ سڑکوں پہ آکر ایک ایسا خاموش انقلاب بپا کرے گی کہ جس میں نہ خون بہے گا اور نہ ہی کوئی جان جائے گی۔ کیونکہ میں تو قیامت کے دن اپنے اوپر یہ بوجھ لئے زندہ نہیں رہ سکتا۔ میرے لیے نہیں علی عمران کے عدالتی قتل کے خلاف اپنی ضمیر کی آواز پر باہر نکلو اور انصاف چھین لو۔۔ ہمارے مطالبے واضح ہونگے۔۔۔۔
پرائم چینل کو بین کیا جائے ، پرائم چینل کے مالک سمیت دیگر انتظامیہ کو پھانسی دی جائے اس کے علاوہ صدر صاحب آپ اور عدالت کے جج صاحب جو ایک عدالتی قتل کے مرتکب ہوئے ہیں وہ بھی ری زائن دیں۔ اور ہم کسی قسم کا غیر قانونی کام نہیں کریں گے ہماری تحریک پرامن ہوگی۔۔۔۔ گڈ بائے آل ۔۔ پاکیشیا زندباد"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پرائم چینل کا مالک سیٹھ ندیم سنگاپور میں کیسینو کی دنیا کا بے تاج بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔تاش کے باون پتے اس کی تیز نظروں سے کبھی بچ نہیں پاتے تھے۔وہ ایک بہترین شاپر تھا۔ آج تک اسے ہارتے بہت کم ہی لوگوں نے دیکھا تھا۔ بچپن سے ہی دو نمبر پیسے کمانے کا شوق تھا جو رفتہ رفتہ بڑھتا ہوا اسٹاک مارکیٹ میں لگانے کی لت تک پہنچ گیا۔ پاکیشیا سے وہ شدید نفرت کرتا تھا ۔اس کی زندگی میں بہت سے واقعات ایسے رونما ہوئے جن کی وجہ سے اسے پاکیشیا سے شید ید نفرت ہوگئی تھی ۔ پاکیشیا کا سسٹم کرپٹ ہونے کی وجہ سے اس کا حق مارا گیا تو اس دن سے اس نے یہ طے کرلیا کہ وہ اب جب تک زندہ ہے پاکیشیا سے اس کابدلہ لیتارہے گا۔ اس نے دو تین زبردست قسم کے داؤ لگائے اور پھر سنگار پور آگیا ۔ اسے جو پیسہ ملتا وہ اسے کیسینو میں لگا کر ضرب دے دیتا۔ آہستہ آہستہ وہ اتنا امیر ہوگیا کہ اسے خود اپنی دولت کا حساب نہ رہا۔ دنیا کے ہر کونے اور ہر بینک میں اس کی رقم رکھی ہوئی تھی۔ اس نے اسی پیسے سے پرائم چینل کی بنیاد رکھی اور اس کی خاطر اس نے دولت مند افراد کا انتخاب بھی کافرستان سے کیا۔ جو مسلسل اسے پیسے دے کر من پسند خبریں لگواتے اور پاکیشیا کی خوب جگ ہنسائی ہوتی ۔ مگر سادہ لوح عوام پرائم چینل کی اسی سنسنی خیزی کوبہت اچھا سمجھتے اور یوں پرائم چینل کی عمارت اتنی بلند ہوئی کہ اس کاشمار پاکیشیا کے سب سے بڑے چینل کی حیثیت سے ہونے لگا۔ پھر اسے کافرستانی جاسوس ملنے لگے اور پھر اس پر مزید خرچ ہونے لگا۔
اس کے علاوہ اس کی سنگاپور میں ایک محل نما کوٹھی تھی جو کئی مربوں پر محیط تھی اس میں دنیا جہاں کی ہر نعمت تھی۔کوٹھی میں گھوڑوں کا باقاعدہ اصطبل تھا اور پھراس کے ساتھ ان کا ایک وسیع میدان تھا۔ وہ سونے کے چمچے اور برتنوں میں کھانا کھاتا تھا۔ اس کی محل کی دیواروں پر حقیقی ہیرے اور جواہرات جڑے ہوئے تھے ۔ گھر کی ہر چیر پیسوں کی الٹیاں کررہی تھی۔ اس نے محل میں پور ا ایک شہر بسا رکھا تھا۔ اس کو جان کا خطر ہ نہیں تھا۔ اس لیے گارڈز بھی اس نے نہیں رکھے تھے۔جو سوٹ ایک بار پہن لیتا تھا اسے دوسری بار پہننا اپنی توہین سمجھتا تھا۔ اس کے محل میں صرف ملازمین کی فوج کے علاوہ وہ رہتا تھا۔ شادی اس نے زندگی بھر نہ کی تھی ۔ کیسینو جاکر کھیل کھلنا اس کی دس سال پرانی عادت تھی وہ چاہتا تو کیسینو بھی خرید لیتا۔ مگر وہاں صرف اپنا شوق مٹانے جاتا تھا۔اس کی بے تحاشہ دولت میں پاکیشیا کے کرپٹ سیاست دانوں کا بھی حصہ شامل تھا جو لوٹ مارکرتے تھے تو سیٹھ ندیم انکی جیبوں سے بھی بلیک میلنگ کےذریعے نکال لیتا تھا۔
آج بھی وہ گیم کھیل کر لیٹ نائٹ گھر لوٹا تھا اور نشے میں ڈوبا ہوا تھا۔ سب ملازمین کو وہ چھٹی دے کر گیا تھا۔ لحاظہ آج سروس اس نے خود کرنی تھی۔ مگر واپسی میں اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جو اسے اپنے پیلس کا مین ڈور کھلا ہوا ملا اور کوٹھی پوری اندھیرے میں نہائی ہوئی تھی۔خیر وہ جیسے تیسے لان کراس کرکے لیونگ روم میں پہنچا تو لائٹس حیرت انگیز طور پر لوٹ آئیں۔جب وہ کچھ مزید اندر آیا تو ایک شخص کو وہاں پر پاکر چونک گیا۔اس نے تھری پیس سوٹ پہنا ہوا تھا اور سر پر فلیٹ ہیٹ اس طر ح جھکائی ہوئی تھی کہ اس کو پہچاننا مشکل تھا۔ وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔
"آؤ سیٹھ آؤ۔۔۔۔ بلکہ بادشاہ سلامت کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔۔۔ کیوں ۔۔۔ ٹھیک کہا نہ میں نے ۔۔۔"
"تم تم کون ہو۔۔ اور تمہاری جرات کیسی ہوئی میرے پیلس میں گھسنے کی۔۔۔میں ابھی پولیس کو بلاتا ہوں۔۔"
"اتنا ظلم نہ کرنا سیٹھ باہر میڈیا تمہارا انتظار کررہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور میں تمہیں گرفتار کرنے آیا ہوں" یہ کہہ کر وہ ایک دم سے اچھلا اور اور اڑتا ہوا سیٹھ کے اوپر جاگرا۔ اس کو دو تین گھونسے لگائے تو وہ وہیں فارغ ہوگیا۔اس نے کوٹ کی اندرونی جیب سے ہتھکٹری نکال کر اسے الٹا کیا اور پھر اس کے ہاتھ پشت پہ لے جاکر اسے پہنا دی۔
"سیٹھ تمہیں کافرستان سے پیسے لینے ، لوگوں کو بلیک میل کرنے، پاکیشیا سے غداری کرنے اور نہ جانے اور کتنے غیر قانونی کاموں میں ، میں یعنی سنیئر انسپکٹر صفدر سعید آف پاکیشیا سی آئی ڈی تمہیں گرفتار کرتا ہوں۔ تمہارا گندا اور مکروہ کھیل اب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔ اس بھول میں نہ رہنا کہ تمہیں یہاں کوئی بچانے آئے گا۔ پورا سنگا پور کا میڈیا باہر موجود ہے اور تمہیں ایڈوانس خوش خبری سنادوں۔ غداری کی سزا صرف پھانسی ہے اور وہاں تمہارا ایک ٹکہ نہیں چلنا۔۔۔۔" یہ کہتے ہی صفدر نے اسے ایک جھٹکے کے ساتھ کھڑا کردیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پاکیشیا کی عوام سڑکوں پر آگئی تھی اور انکے ہاتھ میں بینرز اور شمعیں روشن تھیں جس پر بڑا بڑا تحریر "علی عمران ہم شرمندہ ہیں" تھا۔
پاکیشیا کی یوتھ اور عوام کاٹھاٹھیں مارتا سمندر پاکیشیا کے کیپیٹل میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنہ دے کر بیٹھا تھا۔ بہت سے لوگوں نے علی عمران کے پوسٹرز اٹھائے ہوئے تھے۔جو کام آج تک پاکیشیا میں کوئی نہ کرسکا تھا وہ محمود شاہد کے ایک دو شوز نے کردکھایا تھا۔پورا پاکیشیا محمود شاہد کے سحر میں گرفتار تھا۔ اس نے ایک بہت بڑی ریلی کی خود قیادت کی تھی ۔ جو مختلف شاہراہوں سے ہوتی ہوئی پاکیشیا کی قومی اسمبلی کے سامنے موجود تھی۔ ابھی ریلی پہنچی ہی تھی کہ سینٹرل انٹیلی جنس کے سرعبدالرحمان اور کیپٹن فیاض نے ری زائن کردیا تھا۔دنیا میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی پر امن انصاف کا علم لے کر اٹھے اور حکومت کا تختہ الٹ دے ۔ مظاہرین بہت مشتعل اور جذباتی تھے رہ رہ کر نعرے بازی کررہے تھے۔
محمود شاہد نے اعلان کردیا تھا کہ جب تک حکومت ری زائن کرکے گھر نہیں جائے گی وہ لوگ وہیں بیٹھے رہیں گے۔ چاہیے دھوپ ہو، چاہیے بارش آجائے، اولے پڑجائیں ۔ جہاں بھی یوتھ کھڑی ہوجائے وہاں انقلاب آجاتے ہیں ۔آج علی عمران کی روح ہمارے گریبان کھنچ کھنچ کر اپنی بے گناہی پر ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ جب تک انصاف نہیں ہوگا وہ لوگ بیٹھے ہیں۔
انہیں بیٹھے ابھی ایک گھنٹہ گزرا تھا کہ ایک اور بڑی خبر آگئی کہ پرائم چینل کو پاکیشیا میں ہمیشہ کے لیے بین کردیا گیا۔ تمام میڈیا اس دھرنے کی لائیو کورج کررہے تھے۔ محمود شاہد کے اس دھرنے نے پورے انٹرنیشنل میڈیا کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے محمود شاہد پاکیشیا کا سب سے بڑا لیڈر بن کر ابھر آیا۔ ہر ٹی وی چینل اس کا انٹر ویو لے رہا تھا۔اس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ محمود شاہد کی جذباتی تقروں نے پورے ماحول کو گرما دیا۔ شاید تاریخ میں پہلی بار پاکیشیا میں ایک واقعی پر امن انقلاب آرہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چیف جسٹس کے علاوہ صدر صاحب بھی اپنے عہدے سے ری زائن کرگئے تھے ۔ محمود شاہد اور پاکیشیا کی یوتھ نے انقلاب بپا کردیا تھا۔ تاریخ رقم ہوگئ تھی۔ محض تین دن کے دھرنے پاکیشیا کا پورا نقشہ بدل گیا تھا۔ بڑے بڑے برج الٹ گئے تھے۔ پاکیشیا کی یوتھ نے حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہوگیا تھا اس کے علاوہ سیٹھ ندیم سمیت احمد منیر اور عامر کابالکل علی عمران کیطرح سرعام فل کورٹ میڈیا ٹرائل ہوا تھا۔ اس کیس کی سماعت پاکیشیا کے نئے چیف جسٹس نے حلف اٹھاتے ہی کی تھی ۔ اور انہوں نے ریمارکس دیئے تھے کہ بلاشبہ علی عمران کا عدالتی قتل ہواتھا اس پر تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس کے علاوہ جج صاحب نے کہاکہ کافرستان کبھی بھی پاکیشیا کا دوست ملک نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے آئندہ کبھی بھی کسی کافرستانی نواز چینل کو لائسنس نہ دیا جائے۔ ٹرائل کے آخر میں سیٹھ ندیم سمیت احمد منیر اور عامر کو الیکڑ چیئر پر کرنٹ کے بعد دو دو بار پھانسیوں کی سزا ئیں سنائی گئیں تھیں۔ اس کے علاوہ جوزف اور جوانا کو باعزت طور پر بری کردیا گیا تھا اور عدالت نے ازخود ان سے معذرت کی تھی ۔پاکیشیا کی عوام جو بے انتہا جذباتی تھی آخرکار انہوں نے عمران کی روح کو انصاف دلادیا تھا اور اس میں محموشاہد کا بہت بڑا کردار تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بلیک زیرو دانش منزل میں بیٹھا ہوا تھاکہ اچانک ایک شخص شیر کا ماسک لگا کر آپریشن روم میں داخل ہوا ۔ تو بلیک زیرو اسے دیکھ کر چونک گیا۔
"کیا ہوا ڈر کیوں گئے پیارے۔۔۔"
"اوہو تو آپ ہیں۔۔۔ آپ تو سچ میں بھوت ہیں۔۔۔" بلیک زیرو نے مسکراتے ہوئے کہا اوار احتراماً کھڑا ہوگیا۔تو اس شخص نے اپنے چہرے سے ماسک اتار دیا۔وہ علی عمران تھا۔
"ہاں جی مسٹر ایکسٹو آپ نے تو ہمیں مارنے کی پوری پلاننگ کرلی تھی۔ صدر صاحب کو مجھے کورٹ آف جسٹس کے حوالے کرنے کی تجویز پھر ۔۔۔ میرے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط آپ ہی نے کئے تھے مسٹر ایکسٹو۔ وہ تو شکر کرو کے میں مر کر بھی نہیں مر سکتے کیونکہ ڈریکولا کبھی مرتا نہیں ۔" علی عمران نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر وہ اسکے سامنے ریوالونگ چیئر پر بیٹھ گیا۔ اس کے ساتھ بلیک زیرو بھی مسکراتے ہوئے بیٹھ گیا۔
"کیوں شرمندہ کرتے ہیں عمران صاحب ۔ میری بھلا کیامجال کہ میں یہ سب کچھ آپ کی مرضی کے خلاف کرتا۔ جس رات آپ کو پھنسا کر گرفتار کیا گیااس کے اگلے روز میں حکومت کی طر ف سے آپ کے پاس نمائندہ خصوصی بن کر گیا تھا۔ اس میں آپ ہی نے مجھے آئی کوڈ لینگوئج سے ساری ہدایات دیں تھی۔۔"
"اچھا جی اب یہ جرم بھی ہمار ے کھاتے میں پڑ گیا۔۔۔"
"اب یہ جرم تو آپ کو قبول کرنا پڑے گا عمران صاحب ۔۔ یہ ایکسٹو کی عدالت ہے" بلیک زیرو کے اس فقرے کے بعد دونوں قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔
"عمران صاحب ایک دو باتیں سمجھ نہیں آئیں اس کیس کے حوالے سے ۔۔۔ اس کیس کو شروع ہونے کے ٹائم پر بھی روکا جاسکتا تھا مگر آپ بات کو بڑھاتے رہے اور آخر کیس آپکی پھانسی پر ختم ہوا۔"
"اس کی وجہ یہ ہے کہ جو سربلیک کوبرا کا طوفان ہمارے سامنے آرہا تھا اس کو روکنا ناممکن تھا۔ اس لئے حالات کو دیکھتے ہوئے دانش مندی یہی تھی کہ جیسے حالات جارہے تھے جو بدنامی ہورہی تھی وہ ہوتی جائے۔اگر مجھے سربلیک کوبرا ہپناٹائز نہ بھی کرتا تب بھی میں عدالت میں جاکر اپنا جرم قبول کرلیتا لیکن اگر میں چاہتا تو عدالت میں ہی سب کو اس کیس کے پیچھے چھپی ہوئی ساری حقیقت کھول دیتا۔ مگر میں نے ایسا نہیں کرنا تھا کیونکہ ایک بساط سربلیک کوبرا نے بچھائی تھی تو دوسر ی میں نے ۔ سو اس کے مطابق جو حالات تھے اس کو ویسے چلنے دیا۔ فرض کرو اگر میں عدالت کے سامنے ساری حقیقت کھول دیتا تو میں پہلے ہی میڈیا کے سامنے آکر بدنام ہوچکا تھااور پھر میرا نام سیکرٹ سروس کے ساتھ نتھی ہورہاتھا۔ اگر عدالت سے رہا ہوکر آجاتا تو سربلیک کوبرا نے ایکسٹو کے راز کو میڈیا پر افشاں کردینا تھا۔ وہ ایک الگ درد سری ہوتی اور پھر یوں ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ لحاظہ پھانسی ضروری تھی اور اس کے بعد دیکھو میں نے ایک تیر سے کتنے شکار کئے ۔
یہ سسٹم پورا کرپٹ ہوچکا تھا اور بطور پاکیشیا ئی مجھے اس پر شدید تکلیف ہوتی تھی۔ میں کافی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ کیوں نہ اس کو ٹھیک کیا جائے مگر کیسے؟ یہی سب سے بڑا سوال تھا۔ جب سربلیک کوبرا مجھے پھنسانے کے لئے آیا تو میں نے اسی وقت ہی سوچ لیا تھا کہ تمہارے ذریعے پورے سسٹم کو آخر ی موقعہ دیا جائے سو فیڈرل کورٹ آف جسٹس کا آئیڈیاسامنے آیااور پوری عدالتی نظام کو اگر میڈیا کی ہی مدد سے ایکسپوز کیا جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔ ہمارا سیاسی نظام ہمارا میڈیا کا نظام سب گل سڑ گیا تھا۔ ایک چینج کی ضرورت تھی سو محمود شاہد کی مدد سےاس بوسیدہ سسٹم کی دیوار کو آخری دھکا دیا اور پورا سسٹم گر گیا۔۔۔۔لیکن پھر بھی یہ ضروری نہیں کے اب جو نئے لوگ منتخب ہوکر آئیں گے وہ پچھلوں سے بہتر ہونگے ۔ مگر بطور پاکیشیا ئی میں نے ایک چھوٹی سی کوشش کردی جس میں میں کامیا ب رہا۔
"اب آپ پبلک میں تو جا نہیں سکتے ، ہر کوئی آپ کی شکل سے واقف ہوگیا ہے۔۔۔"
"ٹھیک کہتے ہو۔ مگر مجھے اپنے بارے میں اتنی بھی خوش فہمی نہیں ہے جتنی شاید تمہیں ہے۔ ہماری قوم بیچاری سادہ لو ح ہے اسے جس طرف لگائیں لگ جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ جہالت اور جذباتیت ہے پلس ہماری قوم کی یاداشت بھی کمزور ہے میڈیا انکو پھر کسی اور مسئلے میں الجھا دے گا اور یہ سب مجھے بھول جائیں گے۔ یہ ایک وقتی غبار ہے ایک جذبہ جو وقت کے بے رحم تھپیڑوں کے بعد سب کچھ ختم کردے گا۔۔۔ میں کچھ عرصہ میک اپ وغیرہ میں رہوں گا پھر اپنی روٹین کی لائف کی طرف لوٹ آؤں گا۔۔۔۔"
سربلیک کوبرا کون تھا اور اسکے وہ پراسرار علوم ؟""
"اچھا سوال ہے اور اس کاجواب تو تاحال میرے پاس بھی نہیں مگر اس کی ٹیلی پیتھی کا جواب اب میں نے سوچ لیا ہے۔ لیکن وہ وقت آنے پر خود ہی سامنے آجائے گا۔جو جواب تم سوچ کر اس سے فائٹ کرنے گئے تھے میرا بھی وہی جواب ہے۔ ویل ڈن بلیک زیرو آئی ایم رئیلی پراؤڈ آف یو۔۔۔۔۔۔ لیکن اس سے ایک غلطی ہوگئی اور میرے لئے وہ اللہ کی رحمت ثابت وہی اور وہ یہ کہ اس نے مجھے صرف عدالتی ٹائم تک ہی تنویمی عمل میں رکھا اس بعد اثر ختم ہوگیا۔ہاں وہ کون تھا اس بارے میں تو مجھے نہیں معلوم لیکن اس کے انداز سے لگتا ہے کہ اس کا کہیں نہ کہیں تعلق اسرائیل سے ہے۔ خیر یہ بھی ابھی قیاس ہے جو مستقبل میں ہی واضح ہو سکے گا۔ وہ ایک بہترین پلانر ہے اور مجھے پوری اُمید ہے کہ وہ ابھی مرا نہیں ہوگا۔ تم جیت تو گئے مگر درحقیقت وہ اب بھی ناقابل شکست ہے یہ بات ہمیں تسلیم کرنی پڑے گی۔ مستقبل میں پھر کبھی اس سے سامنا ہواتو دیکھیں گے کیا کیا جاسکتا ہے۔
"آپ ماشااللہ اچھے خاصے زندہ سلامت ہیں خود کو ڈریکولا کیوں بولا آپ نے۔۔۔"
"یار دیکھو! اگر میری ریڈی میڈ کھوپڑی پھانسی سے ایک دن پہلے وہ ریڈی میڈ چھوٹا سا کمپیوٹر آلہ نہ ایجاد کرلیتی تو اب تک میں سچ مچ ڈریکولا ہی بن چکا ہوتا۔ کیونکہ اس کو میں نے صفدر اور کیپٹن شکیل کی مدد سے اپنی گردن کے پیچھے فٹ کیا تھا اور بعد میں صفدر نے میک اپ کی تہہ سے اسے چھاپا لیا تھا۔ اس آلے کی خوبی یہ تھی کہ اگر اس کا بٹن دبادیا جائے تو کچھ دیر میں وہ گردن کی رگھوں میں ایک کھچاؤ پیدا کردیتی تھی جس سے گردن اکڑی ہوئی اور لمبی لگنے لگتی تھی۔ اس کا بٹن میں نے منہ میں چھپا لیا تھا۔ اور آخری ٹائم پر میں نے اسے پریس کیا تو اس نے اپنا کام کردیا ۔اگر نہ کرتا تو ڈرامہ فلاپ تھا۔ اس کے علاوہ جلاد نے ساتھ دیا اور پھانسی کے رسے ڈبل رکھے جو فلموں میں استعمال ہوتے ہیں۔ پھر میں نے وہ بٹن نگل لیا اور بعد میں جب میری لاش صفدر اور کیپٹن شکیل ایک ویگن میں لے جارہے تھے تو میں نے منہ میں انگلی ڈال کر قے کرتے ہوئے وہ بٹن پیٹ سے نکا ل لیا۔"
"اس کامطلب اگر آپ اپنا ذہن لاک کرکے باقی ڈرامہ نہ کرتے تو واقعی پکڑے جاتے۔۔ تبھی آپ کو فلموں میں ہونا چاہیے ۔ پاکیشیا کا کتنا بڑا ٹیلنٹ ضائع ہورہا ہے آپ کی وجہ سے۔۔۔" بلیک زیرو کی اس بات پر دونوں قہقہہ لگا کر پھر سے ہنسے لگے۔ایسا لگتا تھا کہ سب کچھ پہلے جیسے ہوگیا ہے۔
(اختتام)
 

Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 61270 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More