معاشرے کی چکی کو کھینچنے والے
مزدور روزانہ منہ اندھیرے چورنگی کے دائرے میں آسماتے ـــ۔چھوٹے بڑے پیشہ
ورانہ جتھوں کی صورت ہر ایک کے سامنے اسکے مخصوص اوزاروں کا ڈھیرہوتا
۔سماجی مشین کے پرزے جن کو یہ بھی نہیں معلوم کہ کس کی خدمت کر رہے
ہیں۔یکسربے نیاز ہیں کہ بہرصورت ان کے بغیرکام نہیں چل سکتا۔آپس میں مزدوری
ملنے تک کبھی چائے کے ساتھ باتیں کرتے ،کوئی اخبار کی سرخی کان میں پڑ جاتی
تو ما یوس سیاسی تبصرے کرنے لگتے،پھر کبھی جھینگروں کی طرح آپس میں ہی لڑنے
لگتے۔
جب کوئی کام لینے والا ادھر آ نکلتا تو جیسے سب میں اپنے ساتھ والوں پر
سبقت لے جانے کی وقتی تحریک پیدا ہو جاتی۔اور یوں ہر ایک کو کوئی نہ کوئی
مزدوری مل جاتی اور وہ بوڑھے کی طرف دیکھتا اور مسکراتا ہوا چلا جاتا۔اس کے
بعد مزدور کم ہوتے اور آخر میں صرف بوڑھااکثر بیٹھا ہی رہ جاتا،جس کے گٹھنے
پر اسکا سات سالہ پوتا زمانے سے بے خبر سو رہا ہوتا۔کچھ مزدور بڑے میاں کو
مزدوری نہ ملنے پر،اسکا مذاق اڑاتے اور آنے والے اسکے بڑھاپے کو حقارت سے
دیکھ کر کام لینا پسند نہ کرتے۔انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ جو اپنی منکسر
مزاجی یا کمزوری کی وجہ سے چپ رہے اسے اور تختہء مشق بنایا جاتا ہے۔کچھ اور
لوگ بھی غیر دانستہ محض دل بہلانے کی خاطر اس مذاق میں شریک ہو جاتے ۔لیکن
بوڑھا مسکرا کر چپ ہو جاتا ۔اور اسکی آنکھیں ہمیشہ مطمئن اور مسرور نظر
آتیں۔
جانے وہ کونسی مصیبت تھی جس نے اسکا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔حالا نکہ خستہ حال
بڑھاپے کے باوجود اس کے چہرے پر اب بھی خوبصورتی کی چند علامات باقی
تھیں۔دبلا اور لاغر اندام وجود جس کی گردن اور چہرے پر گہری جھریاں
تھیں۔ہاتھوں پر وزن اٹھانے اور کھینچنے سے نمایاں گڈوں کے نشان تھے۔مگر ان
میں سے کوئی بھی تازہ نہ تھا۔کیونکہ آج اسے پورے تین دن ہو گئے اور کوئی
چھوٹی موٹی مزدوری بھی نہ مل سکی تھی۔
او ! بڑے میاں کب تک ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھے رہو گے۔میں نے سنا ہے کہ
فروقی(فاروقی)دور میں بوڑھے اور بچوں کو وظیفہ ملتا تھا۔لیکن اب تو شریفوں
کا دور ہے تم کس انتظار میں بیٹھے ہو۔ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاسب مزدوروں نے
مشترکہ قہقہہ لگایا۔ایک مزدور شیدا جس کا چال چلن ٹھیک نہیں تھا اور شاید
کوئی نشہوغیرہ بھی کرتا تھا۔مونچھوں کو مروڑتا ،اور شریف کے لفظ پر زور
دیتا ہوا بولااور جو جتنا شریف ہوتا ہے اسکا اتنا ہی فائدہ ہوتا ہے۔میری
مان تو اپنے پوتے کو میرے ساتھ بھیج دے او۔۔۔۔تیرابڑھاپا سدھر جائے
گا۔چھوٹا موٹا مال سپلائی اور ۔۔۔پیسہ ہی پیسہ ۔۔کبھی اندر گیا تو فکر کی
بات ای(ہی)نہیں۔۔او!اپنے بڑے یار ہیں ـجوفور ا لے دے کر معاملہ کھلاس(ختم)
کروا دیتے ہیں۔وہ خالص غنڈوں کے اندازمیں بہت دیر تک بوڑھے کی ذہن سوزی
کرتا رہا۔
بوڑھے کی طرح بچہ بھی پوری دیہاڑی جتنا کام کرنے کے قابل نہیں تھا۔جبکہ
بوڑھا کل کے واقعے سے پریشان بھی تھا۔اور کچھ نیک دل مزدور بھی بچے کے غلط
ہاتھ میں پڑ جانے کے خدشے سے فکر مند تھے۔لہذاایک مزدور نے سمجھایا کہ بچے
کو ہر روز ہم میں سے کسی کے ساتھ آدھی دیہاڑی پر بھیج دیا جائے۔ تاکہ وہ
کام پر ہو گا تو شیدے کو ورغلانے کا موقع نہیں ملے گا۔پھراگلے دن بوڑھے نے
اپنی دھوپ میں جلی ہوئی محبت بھری انکھوں سے اپنے پر عزم پوتے کوجاتے ہوئے
دیکھا اور آنسو صاف کرتے ہوئے سو چا اگر اسے زندگی کی تھوڑی سی بھی آسائش
ملتی تو اسکے پچکے ہوئے گالوں میں شاید چمک ہوتی۔بیچارہ پانچ سال کی عمر سے
اینٹیں ڈھو رہا ہے۔کاش واقعی کوئی ایسی حکومت آ جائے جو جو مجھ بوڑھے
اوریتیم پوتے کو پیٹ بھر روٹی دے دے یا کم ازکم روزانہ مزدوری تو مل ہی
جائے۔۔۔میں شاید اب محض نکما بوڑھا ہوں۔کبھی خود کو تسلی دیتاکہ،،امید اور
اعتماد ختم نہیں ہوتے،،پھر مختلف پریشان باتوں کو جھٹک کر سوچا،،سوائے عمل
کے باقی سب باتیں فصول ہیں،،وہ پوتے کے واپس آنے تک خود سے باتیں کرتا اور
شرمندہ ہوتا رہا۔
اگلے دن آخری تین مزدوروں کو جب پورے دن کی مزدوری کا ٹھیکا ملا ،تو کام
زیادہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے بڑے میاں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ ٹرک
جب زیرِتعمیر مکان کے سامنے رکا تو چاروں مزدور مختلف سامان ڈھونے لگے۔جن
میں کچھ لکڑی کے بڑے بڑے جال بھی تھے۔جنھیں ٹرک سے اتارے بغیر سیدھا،رسیوں
کی مدد سے چھت پر لے جانا تھا۔جال اوپر کھینچنے کے دوران بوڑھے کا دایاں
ہاتھ لوہے کی گرل اور رسی کے درمیان اِ س زور سے َمسلا کہ کھال دب کر پھٹ
گئی۔اس نے رِستاہوا خون اپنے کپڑوں سے رگڑا،لیکن زخم ہاتھ کے کام والے حصے
میں تھا۔جبکہ بایاں بازو پہلے ہی کام کے بوجھ سے اکڑ چکا تھا۔وہ جانتا تھا
کہ دیہاڑی ختم ہونے تک اسے اپنے ہاتھوں سے کتنا کام لینا تھا۔۔۔اف یا اﷲ
میری مدد فرما۔۔اس اکڑن کو دور کر دے۔اس نے اپنے اینٹھے ہوئے بازو کو بند
کھول کر کے نرم کرنے کی کوشش کی۔پھر خیال آیا ممکن ہے دھوپ لگنے کے ساتھ
ساتھ کھل جائے۔یہ پٹھوں کا کھنچاؤ نہیں۔۔۔بدن کی دغابازی ہے۔
بڑے میاں۔۔کیا ہوا؟۔کوئی ہڈی ٹوٹ گئی کیا۔۔۔۔ایک مزدور نے ہنستے ہوئے
دوسروں کی طرف آنکھ دباتے ہوئے کہا۔بوڑھے نے نہیں میں گردن ہلا کر سوچا،ہڈی
ٹوٹنے کا درد نہیں معلوم،پر میری کمر واقعی تختہ ہو چکی ہے۔۔پھر خیال
آیا،،درد تو آدمی کے لئے کوئی حقیقت نہیں رکھتا،،اس نے مضبوطی سے سمینٹ کی
بوری کو اپنی پیٹھ پر سرکایا،اور وزن کو باری باری دونوں کندھوں کی طرف
لڑکاتا ہوا بوریوں کو انکے مقام پر پہنچاتا رہا۔اسکے بے حسِ ہاتھ ،وجود کی
پرواہ کئے بغیر ،اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے رہے۔دھوپ تیز ہوئی ،پھر ڈھل بھی
گئی،اور بوڑھا مشینی انداز میں کام کرتا رہا۔آخر اس کے دل میں بچکانہ خواہش
جاگی۔۔کاش میں اس وقت سب چھوڑ کر سو سکوں اور کوئی اچھا سا خواب
دیکھوں۔۔۔پھروہ اپنی سوچ پر مسکرایا اور ایک دفعہ پھرسر جھٹک کر کام میں جت
گیا۔
واپسی میں اسے پورے دن کی محنت،جب آدھی مزدوری کی صورت ملی ،تو ہمیشہ کی
طرح جیب میں رکھی اور چل دیا۔سڑک کو بغور دیکھتا اور سوچتا ہوا وہ گھر کی
طرف خود کو گھسیٹنے لگا۔کسی پوشیدہ غم کے سبب،بوڑھابولتی ہوئی ہڈیوں،اور
بدن میں درد سے اٹھتی ہوئی ٹیسوں کو زیادہ ہی محسوس کر رہا تھا۔کیا میں آج
ہار گیا؟لیکن مجھے کس نے ہرایا۔۔۔غربت نے ۔۔۔بڑھاپے نے ۔۔۔جوان بیٹے کی
اچانک موت نے۔۔یا مارے ہوئے حق نے۔۔یا۔۔سوچ کے دھارے میں اسکے پوتے کا
سراپہ لہرایا تو وہ مسکرا دیا۔نہیں۔۔میں نہیں ہارا۔
جھونپڑی کے باہر پیوند لگا پردہ ساکت تھا۔بوڑھا اندر داخل ہوا،پانی پیا پھر
اپنے کندھے والے رمال کو جھاڑ کر ،اِس میں اخبار کا بنڈل لپیٹا اور سرکے
نیچے رکھ کرلیٹ گیا۔اورادھڑی ہوئی رضائی اپنے کندھوں تک اوڑھ لی(بوسیدہ
بستر پر دکھتا وجود )۔ لڑ کا کا م سے واپس آیا تو بوڑھا بے خبر سو رہا
تھا۔ہتھیلیاں کندھوں سے اوپر اٹھی ہوئی تھیں۔وہ دادا میاں کے ہاتھ دیکھ کر
رونے لگا۔پھر دادا کے لئے خوب گرم دودھ کی چائے لینے گیا توسارے راستے آنسو
بہاتا رہا اسے کوئی پرواہ نہیں تھی کہ کوئی اسے روتا ہوا دیکھ لے۔بچے نے
بوڑھے کو چائے کے لئے اٹھایا تووہ اسے ایسے دیکھنے لگا جیسے بہت دور دراز
سے ایا ہو،پھر پوتے کو غمگین دیکھ کر وہ اپنی ساری تکلیف بھول گیا۔چائے پی
اور پوتے کودیر تک پیار کرتا رہا۔دادا میاں تم جلدی ٹھیک ہو جاؤ ہم ایک
ساتھ مزدورییں گے۔میں تم سی ہلکا کام کرواؤنگا ،بھاری کا م میں خود
کرونگا۔اچھا۔۔۔بوڑھا مسکرایا ۔۔اگر تیرا باپ زندہ ہوتا تو وہ ہم دونوں کو
ہی کام نہ کرنے دیتا۔نہ چاہتے ہوئے بھی بچے کے سامنے اسکی آنکھ سے دو آنسو
لڑھک آئے۔جبکہ بچہ پہلے ہی بے آواز رو رہا تھا۔
دادا میاں تم آرام کرو،میں کھانا لاتا ہوں۔دواؤں کی دکان سے تمہارے ہاتھوں
کے لئے بھی کچھ لاؤنگابوڑھے نے بچے کا کہنا مان کر فوراََ سر واپس بنڈل پر
رکھ دیا اور اپنی نیند میں بھری ہوئی آنکھوں کو دوبارہ بندکر لیا۔پوتا سر
سہلاتا رہا تو بوڑھا غنودگی میں بولا۔۔میری کدال کا دستہ بھی ہِل گیا ہے۔وہ
سسکتے ہوئے بولا میں سب کچھ ٹھیک کر دونگا۔تم سو جاؤ اور جھونپڑی سے باہر
چلا گیا۔بوڑھا گہری نیند لے کر خواب دیکھنے لگا۔کہ اسکے ہاتھ بلکل ٹھیک ہو
گئے ہیں۔۔کدال کا دستہ بھی نیا ہیاور وہ مسکراتے ہوئے اپنے پوتے کے ساتھ
روزانہ مزدوری پر جاتا ہے۔گویا کہ بوڑھے کے لئے خوابمیں بھی محنت کئے بغیر
زندگی گزارنا نا گزیر تھا۔
نادیہ سیف
(تیموریہ زون ) |