آخر کیوں اور کب تک؟

 تحریر: علینہ ملک۔کراچی۔
کہا جاتا ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی جاتا ہے تب اندر ہی اندر پکنے والا لاواہ ایک دن پھٹ پڑ تا ہے تو بہت تباہی مچاتاہے اور پھر بہت کچھ اس کی لپیٹ میں بھی آجاتا ہے ۔گذشتہ دنوں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں دہشت گردی کا ایک افسوس ناک واقعہ منظر عام پر جس نے پوری عالمی برادری کو ہلا کر رکھ دیا ،پیرس کے چھ سے زائد مقامات کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ۱۶۰ افراد لقمہ اجل بن گئے ،واقعہ اس وقت رونما ہوا جب فرانسیسی صدر اپنی کابینہ کے ہمراہ فرانس اور جر منی کے مابین ہونے والا میچ دیکھ رہے تھے ، دوسری عالمی جنگ کے بعد پیرس میں ہونے والا شدید نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے جس نے ساری عالمی برادری کو ہلا کر رکھ دیا ہے ، بلا شبہ دہشت گردی آج کے دور میں ایک اہم عالمی مسئلہ ہے اور انسانیت کے ناطے اس کی مذمت کیے جانا ضروری ہے مگر سوچنے کا مقام تو یہ بھی ہے کہ کیا یہ کسی عمل کا ردعمل تو نہیں ؟اگر دیکھا جائے تو یہ حملہ امریکہ اور اس کے حامیوں کی دوغلی پالیسیوں کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا ہے۔بلاشبہ انسانیت کے ناطے اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہیں مگر جو ردعمل عالمی برادری کی طرف سے سامنے آیا اسنے بہت کچھ سوچنے پر مجبور ضرور کر دیا کہ کیا انسان اور انسانیت کا لفظ یورپی ممالک کے لئے ہی بنا ہے ؟ کیا فلسطین ،برما ،کشمیر،لیبیا ، عراق،افغانستان میں بسنے والوں کی زندگیاں کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں ،کیا وہ لوگ انسانیت کے دائرے سے خارج ہیں ۔فلسطین جو اتنے سالوں سے اسرائیلی بربریت کا شکار ہے یا کشمیر اور برما میں نہتے اور بے گناہ مسلمانوں کے ساتھ جو خون کی ہولی کھلی جارہی ہے،مشرقی وسطی کے کئی ممالک امریکہ اور یورپی ممالک کی پالیسیوں کی وجہ سے آج ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے ہیں مصر اور یمن بھی آگ کی لپیٹ میں ہیں سعودیہ عرب ،افغانستان اور پاکستان بھی اسی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں ،کیا وہ دہشت گردی نہیں ہے ؟کیا مسلمان دہشت گردی کا شکار نہیں ہورہے ہیں ؟ ان کے حق میںؓ تو آج تک کبھی عالمی برادری کی طرف سے شدید مذمت کا اظہار نہیں کیا گیا ۔آخر قوانین سب کے لئے برابر کیوں ہیں ۔امریکہ اور اس کے حمائتیوں کی نظر میں صرف اور صرف مسلمان ہی دہشت گرد کیوں ہیں؟اگر ہیں تو اس میں غلطی بھی ان کی اپنی ہی ہے ،کیونکہ ان کی انہی پالیسیوں کے نتیجے میں پہلے طالبان ،پھر القائدہ اور اب داعش جیسی تنظیمیں وجود میں آئی ہیں ۔اور درپردہ تو یہی ممالک ان تنظیموں کو مالی امداد اور اسلحہ فراہم کرتے ہیں ،اگر آج عالمی برادری اپنا رویہ تبدیل کر لے اور سب کے لئے یکساں پالیسی بنالے ،مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ظلم اور زیادتی کے خلاف بھی اسی شدت سے مذمت کی جائے اور انھیں بھی انصاف فراہم کیا جائے تو تو پھر کسی دہشت گرد تنظیم کا وجود ممکن ہی نہ رہے گا ،اور امن بھی یقینی ہوگا۔کیونکہ یہ تنظیمیں تو صرف اور صرف اپنے دفاع میں وجود آئی ہیں ۔اگر آج بھارت کشمیر سے اور اسرائیل ،فلسطین سے نکل جائے اور اگر امریکی اور نیٹو افواج عراق اور افغانستان سے نکل جائیں تو خطے میں امن و امان کی صورت حال یقینی ہوگی ۔فرانس پر ہونے والے حالیہ حملے بھی ،فرانس کی شام میں مداخلت کا شاخسانہ ہیں ۔کہا یہ بھی جارہا ہے کہ یہ حملے فرانس کا نائن الیون ہیں ۔اگر ایسا ہے تو خدا خیر ہی کرے کہ امریکی نائن الیون کے بعددہشت گردوں کے خاتمے کی آڑ میں مسلمانوں اور مسلم ممالک کو جس دشمنی کا نشانہ بنایا گیا اور جس طرح افغانستان ،عراق اور پھر پاکستان کو جس تباہی کا سامنہ کرنا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اور اب نجانے فرانس حملوں کی آڑ میں مسلم ممالک کو تباہ کرنے کا اور کونسا نیا پلان تیار کیا جا رہا ہے ۔کیا اس سے بھی بڑے حملے عراق ،افغانستان اور پاکستان میں نہیں ہوئے ،اس پر تو عالمی برادری نے کبھی توجہ نہیں دی ۔اگر عالمی برادری دنیا میں مستقل امن چاہتی ہے تو انھیں چاہیے کہ وہ یکساں پالیسی بنائیں اور مسلم ممالک میں ہونے والی ظلم اور زیادتی پر بھی اسی طرح آواز اٹھائی جائے اور عملی اقدامات کئے جاہیں تو دہشت گردی جیسے مسائل سے نبر آزما ہوا جاسکتا ہے ۔دہشت گردی کی آڑ میں صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا کسی طرح جائز نہیں ۔کیو نکہ اس کے نتیجے میں آگ اور تو بھڑک سکتی ہے بجھے گی نہیں ،کیونکہ ہر عمل کا رد عمل تو ضرور ہوتا ہے۔
علینہ ملک۔کراچی۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1143348 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.